کشمیری پنڈتوں کا المیہ 

تمام سیاسی پارٹیوں کو ایسے اقدامات کرنے چاہیں جن کے نتیجے میں کشمیری پنڈتوں کی وادی میں واپسی ممکن ہو سکے۔


کلدیپ نئیر April 06, 2018

مقبوضہ کشمیر کی وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا ہے کہ کشمیری پنڈتوں کو اپنے آبائی گھروں کا وزٹ کرنا چاہیے ان کی مراد مقبوضہ وادی سے ہے، لیکن محبوبہ کا یہ بیان زخموں پر نمک پاشی کرنے کے مترادف ہے۔

واضح رہے کہ پنڈتوں کو 1993ء میں زبردستی کشمیر سے نکالا گیا۔ ان کا قصور یہ تھا کہ وادی کی ننانوے فی صد مسلمان آبادی میں وہ ہندو تھے۔ سابقہ وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ نے ایک عوامی بیان میں کہا تھا کہ وادی کے کسی مسلمان نے ہندو پنڈتوں کو وادی سے باہر نکالنے پر اعتراض نہیں کیا اور یہ بات درست تھی۔

فاروق عبداللہ نے وادی پر صدر راج کے نفاذ کے خلاف احتجاجاً وزارت اعلیٰ سے استعفیٰ دیدیا تھا۔ اس وقت الزام عائد کیا گیا تھا کہ پنڈتوں کو نکالنے میں اس وقت کے گورنر جگ موہن نے سہولت فراہم کی تھی۔ جس دن اسے گورنر نامزد کیا گیا تو کشمیری پنڈتوں کی ایک بڑی تعداد کو بالجبر وادی سے نکال دیا گیا۔ یہ بھی الزام عائد کیا جاتا ہے کہ سیکیورٹی فورسز نے سری نگر کے ہر گھر کی تلاشی لی اور سیکڑوں افراد کو گرفتار کر لیا جن کے قبضے سے اسلحہ بھی برآمد ہوا۔

اس واقعے کے بعد مقبوضہ وادی کے ایک مقام پر قتل عام ہوا جس پر گورنر کے خلاف الزامات عائد کیے گئے۔ گورنر جگ موہن سنجے گاندھی کے بہت قریب تھا اور اس نے دارالحکومت نئی دہلی میں تزئین و آرائش کے نام پر بہت سی کچی آبادیاں بھی ختم کی تھیں۔ 1990ء کی دہائی میں کشمیری پنڈتوں نے زیادہ بڑی تعداد میں وادی سے جانا شروع کر دیا کیونکہ اسی عرصے میں وہاں پر عسکریت پسندی شروع ہوگئی تھی اور عسکریت پسندوں نے دھمکیاں دینا شروع کر دی تھیں اور لوگوں کو تشدد پسندی کا شکار بنایا تھا۔

2010ء میں جموں کشمیر کی حکومت نے اعلان کیا کہ کشمیری پنڈتوں کی 808 فیملیاں ابھی تک وادی میں رہ رہی تھیں اور حکومت نے کشمیری پنڈتوں کے لیے مختلف مراعات کا اعلان کیا تاکہ وہ واپس وادی میں آجائیں لیکن حکومت کا یہ منصوبہ کامیاب نہ ہو سکا۔ جموں کشمیر حکومت کے اعلان کے مطابق اس کمیونٹی کے 219 اراکین 1989ء اور 2004ء کے دوران قتل کر دیے گئے لیکن اس کے بعد اس قسم کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔

بہرحال جولائی 2017ء میں سپریم کورٹ نے کشمیری پنڈتوں کے قتل کے 215 مقدمات دوبارہ کھولنے سے انکار کر دیا۔ وجہ یہ تھی کہ 1989ء سے لے کر جولائی 2017ء تک بہت وقت گزر چکا تھا۔ اب وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی نے جو اپیل کی ہے وہ صحیح سمت میں ایک قدم ہے۔ محبوبہ مفتی نے نئی دہلی کے دورے کے دوران کشمیری پنڈتوں سے ملاقات کی اور انھیں کہا کہ وہ وادی میں اپنے آبائی ٹھکانے دیکھنے آئیں تاکہ ان کی نئی نسل کو اپنی جڑوں کے بارے میں اندازہ ہو سکے۔

محبوبہ مفتی نے مزید کہا کہ ہم ان کے استقبال کے لیے تمام تیاریاں کریں گے کیونکہ ماضی میں ان کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ بڑی بدقسمتی کی علامت تھی لیکن ہمیں پیچھے ہی نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ آگے کچھ اچھی امید بھی رکھنی چاہیے۔ محبوبہ مفتی نے وزیراعظم نریندر مودی پر زور دیا کہ وہ سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی تقلید کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کریں۔

میں وزیراعظم پر زور دیتا ہوں کہ وہ بھی واجپائی جی کی طرح پاکستان سے بات کریں کیونکہ نہ تو ہم اور نہ ہی پاکستان اس حالت میں ہے کہ ہم جنگ کر سکیں۔ ایسی صورت میں دونوں قوموں کا سب کچھ تباہ ہو جائے گا۔ میں محبوبہ مفتی کے خیال سے متفق ہوں کیونکہ یہ صرف ہندو مسلم دشمنی کا سوال نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں ایسا سمجھنا چاہیے۔

تمام سیاسی پارٹیوں کو ایسے اقدامات کرنے چاہیں جن کے نتیجے میں کشمیری پنڈتوں کی وادی میں واپسی ممکن ہو سکے۔ ان کی زیادہ تر جائیدادیں اب بھی محفوظ ہیں اور جن پر لوگوں نے زبردستی قبضہ کر لیا ہے ان کو واپس لیا جانا چاہیے۔ مجھے یاد ہے حریت لیڈر سید علی شاہ گیلانی نے بڑا زور دے کر کہا کہ کشمیری پنڈتوں کا وادی سے جانا ہندو مسلم تنازعے کا شاخسانہ نہیں۔

قبل اس کے کہ گیلانی جیسے سب سے سینئر سیاستدان اپنے مؤقف میں کوئی تبدیلی پیدا کر لیں ہمیں موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ کشمیری پنڈت ہماری ثقافت کا حصہ ہیں لہٰذا انھیں عمومی ہندو مسلم سوال کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔ سید گیلانی نے مجھے بتایا کہ انھوں نے کشمیری پنڈتوں کے معاملے کو کشمیر کے مجموعی تنازعے کا حصہ بیان کر کے غلطی کی تھی۔ لیکن وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے غیر ضروری طور پر ان لوگوں کو تنازعے کا ایک موقع فراہم کیا ہے جو کہتے ہیں کہ کشمیر برصغیر کی تقسیم کا نامکمل حصہ ہے۔

وہ چاہتے ہیں کہ اس ریاست کو بھی مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا جائے جن بنیادوں پر برصغیر کی تقسیم عمل میں آئی تھی۔ اس وقت کے وزیراعلیٰ مفتی محمد سعید نے کوشش کی تھی کہ کشمیر کی ایسی تقسیم کی جائے جس میں کشمیری پنڈت محفوظ اور مامون انداز سے رہ سکیں۔ فی الوقت 30,000 کے قریب کشمیری پنڈت وادی میں ہیں جب کہ ان کی مجموعی تعداد چار لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

جب تک شیخ عبداللہ کو کشمیر کے معاملات پر بالادستی حاصل تھی تو وہ سیاست میں مذہب کی دخل اندازی کے حق میں نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر ایک سیکولر ریاست ہے لہٰذا اس کی مذہبی بنیادوں پر تقسیم نہیں ہو سکتی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسلامی ملک پاکستان کے ساتھ الحاق کو بھی تیار نہ ہوئے کیونکہ وہ فرقہ واریت کے بجائے اجتماعیت کی سیاسیت پر یقین رکھتے تھے۔ تحریک آزادی کے دوان شیخ عبداللہ نے مسلم لیگ کے بجائے کانگریس کا ساتھ دیا۔

وہ نئی دہلی کی اس پالیسی کے بھی خلاف تھے جس میں وہ مضبوط مرکز پر زور دیتے تھے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ شیخ عبداللہ اگرچہ وزیراعظم نہرو کے گہرے دوست تھے مگر وہ نہرو کے مضبوط مرکزی کی پالیسی کے حامی نہیں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مرکزی حکومت امور خارجہ، مواصلات اور دفاع کے علاوہ باقی تمام محکموں کا اختیار ریاستوں کو دے جیسا کہ تقسیم برصغیر کے موقع پر کشمیریوں سے وعدہ کیا گیا تھا۔

اس کھلم کھلا اختلاف پر شیخ عبداللہ کو جنوبی شہر کوڈرائی کنالہ میں 12 سال تک جیل میں گزارنے پڑے تاآنکہ پنڈت نہرو کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا کہ شیخ عبداللہ کا مطالبہ حق بجانب تھا۔ شیخ عبداللہ کا یہ بیان بہت مشہور ہو گیا کہ کشمیر کو خود مختار ریاست کا درجہ نہ دیا گیا تو کشمیری عوام بھارتی گندم کھانا بند کر دیں گے۔

سیکولرازام پر شیخ کا یقین بہت مضبوط اور گہرا تھا اور ان کو اس بات پر حیرت ہوئی تھی کہ کیا بھارت طویل عرصے تک اجتماعیت پسند رہ سکے گا یا فرقہ پرستی کا شکار ہو جائے گا۔ کشمیریوں کو اس بات کا احساس ہے یا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مقبوضہہ ریاست بے حد منجھے ہوئے لوگوں کی خدمات سے محروم ہو چکے ہیں۔

کشمیری پنڈت ملک کے مختلف علاقوں میں چلے گئے ہیں اور انھیں اپنی اعلیٰ تعلیمی استعداد کی وجہ سے بڑی اچھی ملازمتیں مل چکی ہیں۔ کشمیری پنڈت اب واپس وادی میں نہیں جائیں گے۔ حتیٰ کہ حکومت انھیں ان کی پسند کی ملازمتیں فراہم کرنے کا وعدہ ہی کیوں نہ کر لے۔

حقیقت یہ ہے کہ کشمیر اپنے نوجوانوں کی کریم سے محروم ہو چکا ہے جو کہ تکنیکی اعتبار سے ریاست کو اقتصادی میدان میں بہت ترقی یافتہ بنانے کے قابل تھے۔ اس کے باوجود سرینگر کو چاہیے کہ وہ کشمیری پنڈتوں کے لیے وادی میں پھر مناسب حالات پیدا کرے کیونکہ وہ کئی دہائیوں تک سیکولرازم سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ اگر اس سمت میں کوششیں نہ کی گئیں تو کشمیری باقی ملک سے بالکل ہی کٹ جائے گا۔

(ترجمہ: مظہر منہاس)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں