حیاء اور ایمان لازم و ملزوم
افکار و خیالات کی نگہہ داشت کرو اور پیٹ میں جو کچھ بھرا ہے اس سب کی نگرانی کرو۔
PARIS:
اللہ کے محبوب ہمارے نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ ہر دین کا کوئی امتیازی وصف ہوتا ہے اور دین اسلام کا امتیازی وصف حیاء ہے۔ یعنی ہر دین اور ہر شریعت میں اخلاق کے خاص پہلو پر نسبتا زیادہ زور دیا جاتا ہے اور زندگی میں اسے نمایاں اور غالب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جس طرح سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں رحم دلی اور عفو درگزر پر بہت زیادہ زور دیا گیا تھا، اسی طرح ہمارے دین حق اسلام میں حیاء پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔
یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن و حدیث کی اصطلاح میں حیاء کا مفہوم بہت وسیع ہے، ہمارے ہاں تو حیاء سے مراد صرف یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی فواحش سے بچے یعنی شرم ناک باتیں اور کام کرنے سے گریز کرے، لیکن قرآن و حدیث کی رُو سے حیاء فطرت انسانی کی اس کیفیت کا نام ہے کہ ہر نامناسب بات اور ناپسندیدہ کام سے اس کو تکلیف ہو نیز حیاء کا تعلق صرف اپنی ذات یا چیزوں ہی سے نہیں بل کہ حیاء کا سب سے زیادہ مستحق وہ مالک کائنات ہے جس نے بندے کو وجود بخشا اور جس کا ہر لمحے بندہ محتاج ہے اور جس کی نگاہ سے بندے کا کوئی حال اور لمحہ چھپا ہوا نہیں ہے۔
اسے یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ شرم و حیاء والے انسانوں کو سب سے زیادہ شرم و حیاء اپنے والدین، اپنے بڑوں اور اپنے محسنوں کی ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ سب بڑوں سے بڑا اور سب محسنوں کا محسن ہے لہذا بندے کو سب سے زیادہ حیاء اسی سے کرنی چاہیے۔ اور اس حیاء کا تقاضا یہ ہے کہ جو بات اور جو کام بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مرضی اور حکم کے خلاف ہو، بندے کی طبیعت اس سے خود دکھ اور اذیت محسوس کرے، اور وہ اسے کرنے سے باز رہے۔ جب بندے کا یہ حال ہوجائے تو اس کی زندگی پاک اس کی سیرت پسندیدہ اور اللہ و رسول ﷺ کی مرضی کے مطابق ہوجائے گی، جس کا اندازہ لگنا مشکل نہیں۔
حیاء ایک ایسا قیمتی وصف ہے جو انسان کو بہت سے گناہوں سے بچا لیتا اور نیکیوں کی طرف راغب کرتا ہے۔ حیاء کی اسی اہمیت کے پیش نظر رسول کریم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے اور ایمان کی شاخ جنت ہے اور ایمان کا مقام جنت ہے، بے حیائی و بے شرمی بدکاری میں سے ہے اور بدکاری دوزخ میں لے جانے والی ہے۔
حضور پاک ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ حیاء اور ایمان ساتھ ساتھ ہوتے ہیں، ان دونوں میں سے اگر کوئی ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی اٹھ جاتا ہے۔ یعنی ایمان اور حیاء لازم و ملزوم ہیں جس انسان میں یہ دونوں ہوں گے تو ساتھ ہی ہوں گے اور اگر نہیں ہوں گے تو ایک بھی نہیں ہوگا۔ افسوس! آج ہم نام کے مسلمان ان دو عظیم صفات سے محروم ہوچکے ہیں۔ حیاء تو ایمان کے ساتھ مشروط ہے جب ایمان ہی ہچکولے کھا رہا ہو تو حیاء کیسے قائم رہ سکتی ہے۔ احادیث نبوی ﷺ میں تو حیاء کو ایمان کی شاخ قرار دیا گیا ہے مگر یہ شاخ ہمارے معاشرے میں تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔ خبردار کیا گیا ہے کہ جب تم میں شرم و حیاء نہ ہو تو جو چاہو کرو۔ گویا اصل اور بنیادی جوہر شرم و حیاء ہے اگر یہی ساتھ چھور جائے تو انسان جو چاہے کرے، کرتا رہے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ کا ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: اللہ تعالیٰ سے ایسی حیاء کرو جیسے اس سے کرنی چاہیے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! الحمدﷲ ہم اللہ سے حیاء کرتے ہیں۔ یہ سن کر اللہ کے رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ نہیں ( یعنی حیاء کا مفہوم اتنا محدود نہیں ہے جتنا تم سمجھ رہے ہو ) بل کہ اللہ سے حیاء کرنے کا حق یہ ہے کہ سر اور سر میں موجود افکار و خیالات، سب کی نگہہ داشت کرو اور پیٹ اور جو کچھ اس میں بھرا ہے اس سب کی نگرانی کرو ( یعنی بُرے خیالات سے دماغ کی اور حرام و ناجائز غذا سے پیٹ کی حفاظت کرو) اور موت اور موت کے بعد قبر میں جو حالت ہونی ہے، اسے یاد کرو اور جو شخص آخرت کو اپنا مقصد حیات بنالے وہ دنیا کی آرائش و عشرت سے دست بردار ہوجائے گا اور اس چند روزہ زندگی کے عیش کے مقابلے میں آگے آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی کی کام یابی کو اپنے لیے پسند کرے گا، پس جس نے یہ سب کیا تو سمجھ لو کہ اللہ سے حیاء کا حق اس نے ادا کردیا۔
اللہ ہمیں حیادار مسلمان بنادے اور ہمیں اپنے محبوب حضور پاک ﷺ کا سچا فرماں بردار امتّی بنادے۔ آمین
اللہ کے محبوب ہمارے نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی کا مفہوم ہے کہ ہر دین کا کوئی امتیازی وصف ہوتا ہے اور دین اسلام کا امتیازی وصف حیاء ہے۔ یعنی ہر دین اور ہر شریعت میں اخلاق کے خاص پہلو پر نسبتا زیادہ زور دیا جاتا ہے اور زندگی میں اسے نمایاں اور غالب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
جس طرح سیدنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں رحم دلی اور عفو درگزر پر بہت زیادہ زور دیا گیا تھا، اسی طرح ہمارے دین حق اسلام میں حیاء پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔
یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن و حدیث کی اصطلاح میں حیاء کا مفہوم بہت وسیع ہے، ہمارے ہاں تو حیاء سے مراد صرف یہ سمجھا جاتا ہے کہ آدمی فواحش سے بچے یعنی شرم ناک باتیں اور کام کرنے سے گریز کرے، لیکن قرآن و حدیث کی رُو سے حیاء فطرت انسانی کی اس کیفیت کا نام ہے کہ ہر نامناسب بات اور ناپسندیدہ کام سے اس کو تکلیف ہو نیز حیاء کا تعلق صرف اپنی ذات یا چیزوں ہی سے نہیں بل کہ حیاء کا سب سے زیادہ مستحق وہ مالک کائنات ہے جس نے بندے کو وجود بخشا اور جس کا ہر لمحے بندہ محتاج ہے اور جس کی نگاہ سے بندے کا کوئی حال اور لمحہ چھپا ہوا نہیں ہے۔
اسے یوں بھی سمجھا جاسکتا ہے کہ شرم و حیاء والے انسانوں کو سب سے زیادہ شرم و حیاء اپنے والدین، اپنے بڑوں اور اپنے محسنوں کی ہوتی ہے اور ظاہر ہے کہ اللہ سب بڑوں سے بڑا اور سب محسنوں کا محسن ہے لہذا بندے کو سب سے زیادہ حیاء اسی سے کرنی چاہیے۔ اور اس حیاء کا تقاضا یہ ہے کہ جو بات اور جو کام بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی مرضی اور حکم کے خلاف ہو، بندے کی طبیعت اس سے خود دکھ اور اذیت محسوس کرے، اور وہ اسے کرنے سے باز رہے۔ جب بندے کا یہ حال ہوجائے تو اس کی زندگی پاک اس کی سیرت پسندیدہ اور اللہ و رسول ﷺ کی مرضی کے مطابق ہوجائے گی، جس کا اندازہ لگنا مشکل نہیں۔
حیاء ایک ایسا قیمتی وصف ہے جو انسان کو بہت سے گناہوں سے بچا لیتا اور نیکیوں کی طرف راغب کرتا ہے۔ حیاء کی اسی اہمیت کے پیش نظر رسول کریم ﷺ کے ارشاد کا مفہوم ہے کہ حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے اور ایمان کی شاخ جنت ہے اور ایمان کا مقام جنت ہے، بے حیائی و بے شرمی بدکاری میں سے ہے اور بدکاری دوزخ میں لے جانے والی ہے۔
حضور پاک ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ حیاء اور ایمان ساتھ ساتھ ہوتے ہیں، ان دونوں میں سے اگر کوئی ایک اٹھ جائے تو دوسرا بھی اٹھ جاتا ہے۔ یعنی ایمان اور حیاء لازم و ملزوم ہیں جس انسان میں یہ دونوں ہوں گے تو ساتھ ہی ہوں گے اور اگر نہیں ہوں گے تو ایک بھی نہیں ہوگا۔ افسوس! آج ہم نام کے مسلمان ان دو عظیم صفات سے محروم ہوچکے ہیں۔ حیاء تو ایمان کے ساتھ مشروط ہے جب ایمان ہی ہچکولے کھا رہا ہو تو حیاء کیسے قائم رہ سکتی ہے۔ احادیث نبوی ﷺ میں تو حیاء کو ایمان کی شاخ قرار دیا گیا ہے مگر یہ شاخ ہمارے معاشرے میں تیزی سے ختم ہوتی جا رہی ہے۔ خبردار کیا گیا ہے کہ جب تم میں شرم و حیاء نہ ہو تو جو چاہو کرو۔ گویا اصل اور بنیادی جوہر شرم و حیاء ہے اگر یہی ساتھ چھور جائے تو انسان جو چاہے کرے، کرتا رہے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے کہ حضور پاک ﷺ کا ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: اللہ تعالیٰ سے ایسی حیاء کرو جیسے اس سے کرنی چاہیے۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ! الحمدﷲ ہم اللہ سے حیاء کرتے ہیں۔ یہ سن کر اللہ کے رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ نہیں ( یعنی حیاء کا مفہوم اتنا محدود نہیں ہے جتنا تم سمجھ رہے ہو ) بل کہ اللہ سے حیاء کرنے کا حق یہ ہے کہ سر اور سر میں موجود افکار و خیالات، سب کی نگہہ داشت کرو اور پیٹ اور جو کچھ اس میں بھرا ہے اس سب کی نگرانی کرو ( یعنی بُرے خیالات سے دماغ کی اور حرام و ناجائز غذا سے پیٹ کی حفاظت کرو) اور موت اور موت کے بعد قبر میں جو حالت ہونی ہے، اسے یاد کرو اور جو شخص آخرت کو اپنا مقصد حیات بنالے وہ دنیا کی آرائش و عشرت سے دست بردار ہوجائے گا اور اس چند روزہ زندگی کے عیش کے مقابلے میں آگے آخرت کی نہ ختم ہونے والی زندگی کی کام یابی کو اپنے لیے پسند کرے گا، پس جس نے یہ سب کیا تو سمجھ لو کہ اللہ سے حیاء کا حق اس نے ادا کردیا۔
اللہ ہمیں حیادار مسلمان بنادے اور ہمیں اپنے محبوب حضور پاک ﷺ کا سچا فرماں بردار امتّی بنادے۔ آمین