خاتمہ بالایمان

’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما۔ اور ہمیں آگ (جہنم ) کے عذاب سے بچا۔‘‘

’’اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما۔ اور ہمیں آگ (جہنم ) کے عذاب سے بچا۔‘‘ فوٹو: فائل

اللہ تعالیٰ جس کو ایمان کی سلامتی والی موت نصیب فرما دیں اس سے بڑا خوش قسمت بھلا اور کون ہوسکتا ہے! بسا اوقات انسان ساری زندگی جنت سے قریب کرنے والے اعمال کرتا رہتا ہے لیکن ان میں ریاکاری، دکھاوا اور خودنمائی کا زہر بھی خود ملاتا رہتا ہے جس کی وجہ سے اخلاص، رضائے الہی اور خدا کی خوش نودی ختم ہوجاتی ہے۔ اب خدائے لم یزل کا قانون عدل یہ ہے کہ جو جیسا کام کرے اس کا صلہ اس کو ویسا ہی ملے، اس لیے کبھی گناہوں کا زہر یوں ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی کا اختتام بہت بُرا ہوتا ہے۔

کبھی خدا کا دریائے کریم یوں موج مارتا ہے کہ نالائق اور عذاب کے مستحق کا بیڑا پار لگ جاتا ہے۔ وہ ساری زندگی نافرمانی میں مبتلا رہتا ہے ایسے اعمال کرتا ہے جو اسے جہنم کے کنارے پر لاکھڑا کرتے ہیں لیکن یکایک وہ کریم ذات اس کو حسن خاتمہ کی دولت عطا کر دیتی ہے۔

اس لیے ہم سب کو ہر وقت حسن خاتمہ کی فکر کرتے رہنا چاہیے، اس کے کرم کو مانگتے ہی رہنا چاہیے۔ اس کے کرم کو اپنی طرف متوجہ کرنے والے چند اعمال کا تذکرہ ہم کرتے ہیں، جن کو کرتے رہنے سے انسان شقاوت و بدبختی سے محفوظ ہوجاتا ہے اور خاتمہ بالایمان کی دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے۔

٭ نعمت ایمان پر شُکر: اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شُکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اس ذات نے ہمیں گھر بیٹھے اسلام کی دولت نصیب فرمائی، اس کی قدر دنیا میں صحیح معنوں میں معلوم نہیں ہوسکتی، آخرت میں جب کفار کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا اور بعض بدعمل اہل ایمان کو بھی جہنم میں ڈالا جائے گا، کچھ عرصے بعد کفار اْن اہل ایمان کو طعنہ دیں گے کہ ہم کافر ہو کر جہنم میں اور تم مسلمان ہو کر بھی جہنم میں، ہمارے کفر نے ہمیں نقصان پہنچایا تو تمہارے ایمان نے تمہیں کون سے فائدہ دیا ؟ جیسے ہم ویسے ہی تم۔ اللہ تعالیٰ ملائکہ کو حکم دیں گے کہ تم جہنم سے تمام اہل ایمان کو نکال کر جنت میں داخل کردو، چناں چہ ملائکہ جہنم میں اتریں گے ان پر جہنم کی آگ ایسے ہی بے اثر ہوجائے گی جیسے دنیا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈی ہوگئی تھی، ملائکہ بدعمل اہل ایمان کو جہنم سے نکال کر جنت میں پہنچائیں گے، جب کفار یہ منظر دیکھیں گے کہ صرف کلمہ اسلام کی وجہ سے اہل ایمان کو ہمیشہ کے لیے جہنم سے نجات اور جنت میں داخلہ نصیب ہو رہا ہے تو وہ بے ساختہ ہو کر یہ حسرت کریں گے کاش ہم بھی مسلمان ہوتے۔ اس لیے اسلام والی نعمت اور ایمان والی حالت پر اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا شُکر ادا کرنے میں یہ تاثیر رکھی ہے کہ اس سے نعمت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے، نعمت ایمان پر شُکر کرنے کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ایمان والی موت نصیب ہوتی ہے۔

٭ کثرت ذکر اللہ :اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر میں ایسی تاثیر رکھی ہے کہ جو شخص اس کو تسلسل کے ساتھ کثرت سے کرتا رہے تو ایسا شخص خاتمہ بالایمان کی سرفرازی پالیتا ہے۔ کثرت ذکر اللہ کے لیے صحبتِ اہل اللہ ضروری ہے، اولیاء اللہ کی مجالس میں اصلاح عقائد و اعمال کی غرض سے طلب علم کی نیت سے شریک ہوتے رہنا چاہیے۔ اس بابرکت عبادت کی مبارک عادت میں موت کے وقت انسان کے حسن خاتمہ کی ضمانت ہے۔ کثرت سے ذکر اللہ کرنے والے کو اللہ کریم آخر وقت میں کلمہ طیبہ نصیب فرماتے ہیں۔

حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: '' جو شخص کلمہ پڑھتے ہوئے فوت ہوا تو جنت میں داخل ہو گا۔''

(سنن ابی داؤد، باب فی التلقین، حدیث نمبر3118)

٭ دعاؤں کا اہتمام: خاتمہ بالایمان اللہ کریم کی بہت بڑی نعمت ہے اسی پر اخروی زندگی کی کام یابی کا مدار ہے، لہٰذا اس نعمت کے حصول کے لیے اللہ تعالی سے خوب دعائیں مانگنی چاہییں۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں ایسی دعائیں مذکور ہیں ان میں سے صرف تین دعائیں ذکر کی جاتی ہیں۔ جن کو اہتمام سے مانگنے پر اللہ خاتمہ بالایمان نصیب فرمائیں گے:

ترجمہ: ''اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما۔ اور ہمیں آگ (جہنم ) کے عذاب سے بچا۔''

ترجمہ: ''اے ہمارے رب! آپ نے جو ہمیں ہدایت نصیب فرمائی ہے (اسی پر برقرار رکھیے گا) اس کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ نہ پیدا ہونے دینا۔''

ترجمہ: (اے اللہ ) '' آپ ہی دنیا اور آخرت میں میری حفاظت فرمانے والے ہیں ۔ مجھے اس حالت میں موت نصیب فرمانا کہ میں فرماں بردار ہوں اور (حشر میں ) نیک لوگوں کے ساتھ جمع فرمانا۔''


نوٹ:اس بات کی کوشش کریں کہ عربی میں دعائیں یاد کریں اور مانگیں۔ تاہم اگر عربی میں یاد کرنا کسی بھی وجہ سے دشوار ہو تو اپنی زبان میں اللہ سے حسن خاتمہ کی دعائیں مانگیں۔

٭ اللہ سے حسن ظن رکھنا:ﷲ تعالیٰ سے خیر، مغفرت، ثواب اور انعام کی امید رکھیں۔ انسان میں یہ کیفیت اس وقت تک پیدا نہیں ہوتی جب تک وہ گناہوں میں مبتلا رہتا ہے۔ پہلا کام یہ کرنا ہے کہ گناہ اور گناہوں والی جگہیں چھوڑ دیں، دوسرا کام سابقہ گناہوں پر صدق دل کے ساتھ توبہ کریں، اس کے بعد استغفار کریں۔ تیسرا کام آئندہ اس گناہ کو چھوڑنے کا پکا ارادہ کریں۔ اس کے باوجود پھر بھی گناہ ہوجائے فوراً توبہ کریں۔ بار بار توبہ کرنے سے انسان کے قلب کی کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ اسے خدا کی ذات کے رحم و کرم اور بخشش و مغفرت کی آس لگ جاتی ہے۔ پھر اسی کیفیت میں مزید تقویت پیدا ہوتی ہے تو انسان کو یقین کامل ہوجاتا ہے کہ اللہ پاک ضرور میری مغفرت فرما دیں گے۔

حدیث قدسی کا مفہوم ہے: '' سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں اپنے بندے کے قلبی احساس کی رعایت کرتا ہوں۔''

(صحیح مسلم ، باب فضل الذکر، حدیث نمبر 6902)

٭ صلوٰۃ و سلام : اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد ﷺ کی ذات بابرکات کے ساری مخلوقات بالخصوص انسانوں پر اتنے احسانات ہیں کہ جن کو شمار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اور نہ ہی ان احسانات کا بدلہ چکایا جا سکتا ہے۔ ہاں آپ ﷺ کے حقوق میں ایک اہم حق آپ ﷺ پر صلوٰۃ و سلام کا تحفہ پیش کرنا ہے۔ کیوں کہ اہل اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص مدینہ منورہ میں آپ ﷺ کے روضۂ مبارکہ کے قریب درود بھیجے تو آپؐ خود سنتے ہیں اور جواب بھی عنایت فرماتے ہیں اور اگر کوئی دور سے بھیجے تو ملائکہ آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں۔ درود پاک خدا کی بارگاہ میں اتنی مقبول ترین عبادت ہے کہ اگر ریاکاری سے بھی کی جائے اللہ تب بھی قبول فرما لیتے ہیں، درود بھیجنے والے شخص پر اللہ تعالیٰ نظر رحمت فرماتے ہیں اور جس پر اللہ کی نظر عنایت ہوجائے اس کو خاتمہ بالایمان کی دولت مل جاتی ہے۔

٭ مسواک : احادیث مبارکہ میں مسواک کرنے کے فضائل و احکام تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔ مشائخ فرماتے ہیں کہ مسواک کرنے کے ستّر فوائد ہیں ان میں سے ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ مسواک کرنے والے کا خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے۔

اہم ترین بات: خاتمہ بالایمان صرف اسے نصیب ہوتا ہے جس کے عقائد درست ہوں ان میں لچک، کم زوری اور فساد نہ ہو، اس لیے خاتمہ بالایمان کے لیے بنیادی چیز عقائد کا درست اور پختہ ہونا ضروری ہے۔ مذکورہ بالا اعمال اور دیگر تمام مسنون اعمال حسن خاتمہ کے لیے معاون ہیں۔ اس سے یہ بات بھی واضح طور پر سمجھ میں آ رہی ہے کہ اگر عقائد درست نہ ہوں اور اعمال سنت کے مطابق نہ ہوں تو حسن خاتمہ کے لیے کی جانے والی تمام محنتوں کا اختتام بُرا ہوتا ہے۔

آخر میں مختصراً چند ان اعمال کا تذکرہ بھی ضروری ہے جن کی وجہ سے انسان خاتمہ بالایمان کی دولت سے محروم ہو جاتا ہے۔

فرائض و واجبات کو مسلسل ترک کرتے رہنا۔ شرعی احکام و مسائل کا مذاق اڑانا۔

اہل اسلام کی مقتدر شخصیات علمائے دین کی بہ وجہ علم دین تحقیر و تذلیل کرنا۔ توبہ میں تاخیر کرنا۔ حقوق العباد کی ادائی میں کوتاہی کرنا۔

اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ذات ہمیں ان تمام کاموں کی توفیق نصیب فرمائے جن کی برکت سے حسن خاتمہ کی سعادت ملتی ہے اور ایسے تمام کاموں سے محفوظ فرمائے جن کی نحوست سے خاتمہ بالایمان سے محرومی ملتی ہے۔ کیوں کہ اعمال کا دار و مدار حسن خاتمہ پر ہے۔ آمین

 
Load Next Story