اولاد نعمت کے ساتھ آزمائش

 آج کل والدین ہفتوں اپنے بچوں سے بات کرنے سے محروم رہتے ہیں۔

 آج کل والدین ہفتوں اپنے بچوں سے بات کرنے سے محروم رہتے ہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

 

اولاد اللہ کا بہت بڑا انعام ہے۔ ایک ایسا انعام جس کے لیے انبیائے کرام علیہم السلام نے بھی دعائیں مانگی ہیں۔ مال اور اولاد انسان کے لیے دنیا کی زینت ہیں۔ لہٰذا ہمیں اس نعمت کی قدر کرنی چاہیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ : ''اپنی اولاد کی عزت کرو۔ '' (ابن ماجہ)

عزت سے مراد یہ ہے کہ یہ ایک قیمتی متاع ہے اس کی قدر کرو، اسے ضایع نہ کرو۔ اولاد کی قدر میں سے ایک یہ ہے کہ ان کا اچھا نام رکھا جائے۔ بے تکا اور بے معنی نام بعد میں اولاد کے لیے شرمندگی کا باعث بنتا ہے۔ اولاد کی قدر یہ بھی ہے کہ ان کی اچھی تربیت کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : '' کسی والد نے اپنی اولاد کو بہترین اخلاق سے اچھا تحفہ نہیں دیا۔''

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم : ''جب بچہ بولنے لگے تو اسے اللہ کے نام سکھاؤ۔ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان کے دل میں ڈالیں، ان کی اطاعت کا جذبہ پیدا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک کا مفہوم ہے: ''جب بچہ سات سال کا ہوجائے اسے نماز کا حکم دو اور جب دس سال کا ہوجائے اسے سرزنش کرو۔'' ( ترمذی) اس میں حکمت یہ ہے کہ جب بچہ اللہ کی نافرمانی کرے گا تو والدین کی اطاعت کیسے کرے گا۔

اولاد کی تربیت میں یہ بھی ہے کہ انہیں ادب سکھایا جائے۔ دائیں ہاتھ سے کھانا کھانا، بیٹھ کر پانی پینا، بڑوں کا احترام کرنا، اساتذہ کی عزت کرنا، اکڑ کر نہ چلنا، چلّا کر بات نہ کرنا وغیرہ۔ اولاد کی تربیت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ان سے محبت کی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''وہ شخص ہم میں سے نہیں جو بچوں پر رحم نہ کرے۔ ( ترمذی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بچوں کو اٹھاتے اور پیار کرتے، حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو اپنے مبارک کندھوں پہ بٹھا کر سیر کراتے اور دوران سجدہ جب وہ آپؐ پر سوار ہوجاتے تو آپؐ اپنے سجدے کو طویل فرما دیتے۔ آج کل والدین ہفتوں بچوں سے بات کرنے سے محروم رہتے ہیں۔ بہت سے والدین ایسے بھی ہیں جنہیں یہ علم نہیں ان کا کون سا بچہ کون سی جماعت میں ہے۔ بچوں سے گفت گو کرنا ان میں گھلنا ملنا ان کی تربیت کے لیے ضروری ہے۔ بہت سی مائیں ایسی ہیں جو بچوں کو والد سے متنفر رکھتی ہیں، نتیجتاً بچے والد سے دور رہنے میں عافیت سمجھنے لگتے ہیں۔

اولاد کی تربیت میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کے درمیان عدل و انصاف کیا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: '' اللہ سے ڈرو اور اولاد کے درمیان انصاف کرو۔ (بخاری و مسلم) آپ صلی علیہ وسلم کا فرمان کا مفہوم ہے: '' جو شخص بیٹیوں کی وجہ سے آزمایا گیا یہ بیٹیاں اس کے لیے جہنم سے نجات کا باعث ہوں گی۔'' (مسلم) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا، مفہوم : ''جس کو اللہ نے دو بیٹیاں دیں اس نے ان کی اچھی پرورش کی، یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں تو یہ شخص جنت میں میرے ساتھ اس طرح ہوگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں انگلیوں کو ملایا۔'' (مسلم)۔

اگر ایک بچے کو نوازا جائے اور دوسرے کو محروم رکھا جائے تو عدل نہ کرنے کی وجہ سے بچے ایک دوسرے سے متنفر ہوجائیں گے، ان میں بغض و حسد پیدا ہوگا۔ اولاد کی تربیت کا یہ بھی حصہ ہے کہ انہیں تعلیم دی جائے چاہے بیٹے ہوں یا بیٹیاں۔ بہت سے گھرانوں میں بیٹی کو تعلیم دینا معیوب اور غیر ضروری سمجھا جاتا ہے حالاں کہ تعلیم انسان کی زندگی میں نکھار پیدا کرتی ہے، خصوصا لڑکیوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا چاہیے تاکہ مستقبل میں تعلیم یافتہ گھرانے وجود میں آسکیں۔


اسلام کی تعلیمات عام کرنے میں عورتوں نے بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ موجودہ جدید دور میں بھی بہت سے مواقع ایسے آتے ہیں جہاں علاج معالجے کے لیے عورتوں کی ضرورت ہوتی ہے لہٰذا ان کی تعلیم پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

اسلام سے پہلے لوگ اپنی بچیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے، بیٹی کی پیدائش کی خبر سن کر ہی ان کے چہرے غم سے سیاہ ہوجاتے۔ ذرا سوچیے! اس ماں پر کیا گزرتی ہوگی جسے معلوم ہو کہ اس کی بچی کو زندہ درگور کردیا جائے گا۔ لاکھوں درود و سلام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ جنہوں نے معاشرے کو ایسا نظام دیا کہ بیٹی کو پالنا رسوائی نہیں بل کہ سعادت سمجھا جانے لگا۔

اپنی اولاد کی حفاظت کے لیے ہمیں چاہیے ہم اپنے معاشرے کو اسلامی بنائیں اس سے ہمیں اپنی بیٹیوں کی حفاظت اور پرورش کرنے میں آسانی ہوگی۔ جہاں اللہ نے اولاد کو ایک نعمت فرمایا وہیں اسے ایک آزمائش بھی قرار دیا۔ ہمیں اولاد کی محبت میں اللہ سے غافل نہیں ہونا چاہیے، اولاد کے لیے حلال روزی کا انتظام کریں ایسا نہ ہو کہ اولاد کو راضی کرتے کرتے ہم خود کو جہنم میں ڈال دیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: ''بد نصیب ہے وہ جو دوسروں کی دنیا بناتے خود جہنم میں جا گرے۔''

اولاد کی تربیت میں یہ بھی شامل ہے کہ اولاد کو پرسکون ماحول فراہم کیا جائے۔ والدین کے درمیان لڑائی جھگڑے اولاد کا سکون برباد کردیتے ہیں۔ ان کی تعلیم اور اخلاق پر اس سے بہت برُا اثر پڑتا ہے۔ بہت سے بچے گھریلو جھگڑوں سے نیم پاگل یا نفسیاتی امراض میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ان تمام باتوں سے بچتے ہوئے گھر کا ماحول خوش گوار رکھیں۔ جس گھر میں گالم گلوچ کا ماحول ہوگا وہاں بچے بھی یہی سب کرنے لگیں گے۔ اس کے برعکس جہاں نماز، تلاوت قرآن، روزوں کی پابندی اور دیگر اچھے اخلاق کا ماحول ہوگا وہاں بچے ان سب باتوں پر خود بہ خود عمل شروع کردیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ''ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔'' (مسلم)

اپنی اولاد کی بہتر تربیت کے لیے ان کے دوستوں پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔ انسان سب سے زیادہ دوستوں کی صحبت سے متاثر ہوتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے۔'' ( ترمذی) اولاد کی اصلاح دعا کے ذریعے کریں، والد کی دعا اولاد کے حق میں قبول کی جاتی ہے۔ بچوں کو بددعا کبھی نہیں دینی چاہیے کہیں وہی قبولیت دعا کا وقت ہو اور بعد میں ہمیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑے۔ اپنے بچوں کو یہ دعا دینی چاہیے: ''اے اللہ! میری اولاد کو میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا۔ ''

اگر والدین اپنی اولاد کی اچھی تربیت کریں گے اور ان کے لیے دعائے خیر کرتے رہیں گے تو یہی بچے اپنے والدین کے لیے پھل دار درخت ثابت ہوں گے۔ جوانی میں ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک، بڑھاپے میں سہارا اور مرنے کے بعد شفاعت کا ذریعہ بنیں گے۔ یاد رکھیں اگر ہم نے آج اپنی اولاد کے معاملے میں بے پرواہی برتی تو دنیا میں تو رسوائی اور پریشانی کا سامنا کرنا ہی پڑے گا مگر آخرت میں ان کے حصے کا گناہ بھی ہمارے پلڑے میں ڈال دیا جائے گا۔

اللہ ہمیں اپنی دنیا اور آخرت کی فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

 
Load Next Story