مصافحہ
اسلامی آداب کی روشنی میں۔
LONDON:
٭ مصافحہ کے اسلامی آداب
حضرت آیت اللہ محمدی ری شہری نے اپنی معروف کتاب '' میزان الحکمت'' جلد5، صفحہ527 تا 531 پر اِس ضمن میں بہترین، مفید اور جامع معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ وہ رقم طراز ہیں کہ امامِ ششم، حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ارشاد فرماتے ہیں: ''آپس میں ملاقات کرو تو سلام و مصافحہ کرو اور جب پھر جدا ہو تو استغفار کرو۔'' ( اُصولِ کافی۔ جلد2، صفحہ181)''جب مسلمان آنحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہم راہ کسی جنگ میں جاتے ہوئے گھنے درختوں والی جگہ سے گزرتے اور پھر جدا ہونے لگتے تو ایک دوسرے کو دیکھ کر آپس میں مصافحہ کرتے۔'' (اصولِ کافی۔ جلد 2، صفحہ181)
''آنحضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب بھی کسی شخص سے مصافحہ فرماتے تو جب تک وہ شخص اپنا ہاتھ نہ کھینچ لیتا، اُس وقت تک حضور ِاکرمؐ اپنا ہاتھ نہیں کھینچتے تھے۔'' (اُصولِ کافی۔ جلد 2، صفحہ181)مصافحہ کینے اور غصّے کو مٹاتا ہے۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔ اِس کے متعلق رسالت مآب آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ احادیث ِ مبارکہ ہماری راہ نمائی کرتی ہیں:'' آپس میں مصافحہ کِیا کرو کہ یہ کینے کو مٹاتا ہے۔''( بحار الانوار۔ علّامہ مجلسیؒ۔ جلد 77، صفحہ 165)''آپس میں مصافحہ کِیا کرو، کیوں کہ مصافحہ کینے اور غصّے کو دُور کرتا ہے۔'' (بحار۔ جلد 77، صفحہ 158)
٭ مصافحہ گناہوں کو کیسے ختم کرتا ہے۔۔۔۔۔ ؟ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ارشاداتِ مُبارکہ ہیں : ''جب ایک مومن دوسرے مومن سے مصافحہ کرتا ہے اور پھر وہ ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔ تو اُن پر کوئی گناہ باقی نہیں رہ جاتا۔'' (بحار۔ جلد 76، صفحہ20 ، اُصولِ کافی۔ جلد 2)''جب اپنے (مومن) بھائی سے ملاقات کرو تو مصافحہ کِیا کرو اور اُس سے کشادہ روئی اور خندہ پیشانی کا اظہار کرو، اِس طرح جب تم جدا ہوگے تو تمہارے تمام گناہ جاتے رہیں گے۔'' (بحار۔ جلد 76، صفحہ 20)
''جب کوئی شخص اپنے ساتھی سے مصافحہ کرتا ہے تو ان میں سے جو مصافحہ کرنے میں پہل کرتا ہے، اُس کا ثواب اُس شخص سے زیادہ ہوتا ہے جو مصافحے سے ہاتھ چھڑاتا ہے، اِس طرح ان کے گناہ جھڑ جاتے ہیں اور ان پر کوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔''( اُصولِ کافی۔ جلد 4، صفحہ 181)عورت سے مصافحے کے ضمن میں دِینی تعلیمات میں یہ راہ نمائی ملتی ہے۔ معاشرے کے ہر طبقے کے افراد بالخصوص ہمارے حکم ران توجّہ فرمائیں۔رحمۃ للعالمین، شفیع المذنبین، مراد المشتاقین، راحت العاشقین آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم : ''عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی نامحرم مرد سے مصافحہ کرے، مگر کپڑے کے پیچھے سے، نہ ہی وہ بیعت کرسکتی ہے، مگر کپڑے کے پیچھے سے۔'' (کنز العمال۔ حدیث 25346)'' میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔'' (کنز العمال۔ حدیث 475،476 ،489)ابوبصیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے پوچھا کہ کیا مرد کسی ایسی عورت سے مصافحہ کرسکتا ہے جو اُس کے لیے نامحرم ہو؟
امامؓ نے فرمایا: نہیں۔ البتہ کپڑے کے پیچھے سے۔'' (وسائل الشیعہ۔ جلد 14، صفحہ151)'' لیکن جس عورت کے لیے جائز ہوتا ہے کہ کسی مرد سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو، تو مرد اُس کے ساتھ مصافحہ نہیں کرسکتا، البتہ کپڑے کے پیچھے سے، اور اُس کی ہتھیلی کو نہ دبائے۔'' (وسائل الشیعہ۔ جلد 14، صفحہ151)٭ دُشمن سے مصافحہ اِس ضمن میں یہ راہ نمائی ملتی ہے۔ نبی کریم آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشادِ مُبارکہ کا مفہوم ہے: '' اپنے دُشمن سے مصافحہ کرو، خواہ اُسے یہ بات پسند نہ بھی ہو، کیوں کہ یہ ایک ایسا امر ہے جس کی بجا آوری کا اللہ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ فرماتا ہے: یعنی ( دُشمن کی سختی کا) ایسے طریقے سے جواب دو جو نہایت اچھا ہو۔ (ایسا کرو گے تو ) تم دیکھو گے کہ جس سے دُشمنی تھی گویا وہ تمہارا گہرا دوست ہے۔ یہ بات صرف انھی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو صبر کرنے والے اور بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں۔ تم اپنے دُشمن سے اِس سے بڑھ کر اور کیا انتقام لے سکتے ہوکہ اِس بارے میں تم اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کررہے ہو۔'' (بحار۔ جلد 71، صفحہ421)
اگر سوچا جائے، تو اِس میں بہترین پیغام ہے۔ صاحبانِ عقل و شعور کے لیے عمدہ ترین درس و نصیحت ہے۔ اللہ سے صمیمِ قلب سے دُعا ہے کہ اللہ رحمن و رحیم ہم سب کو اپنے حبیب آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طفیل یہ توفیق اور سعادت کرامت فرمائے کہ ہم تمام تر دِینی تعلیماتِ حمیدہ کو سمجھیں اور پھر اِن پر خلوصِ دل سے حتی الامکان عمل پیرا رہیں۔ ( آمین) اگرچہ اِس پُر آشوب دُنیا میں رہ کر جہاں قدم قدم پر بھٹکنے کے امکانات پائے جاتے ہیں، یہ اتنا آسان کام نہیں ہے، لیکن اگر انسان نیک جذبے اور نیک نیتی کے ساتھ کوشش کرے، تو پھر یقیناً مشکل بھی نہیں ہے۔
٭ مصافحہ کے اسلامی آداب
حضرت آیت اللہ محمدی ری شہری نے اپنی معروف کتاب '' میزان الحکمت'' جلد5، صفحہ527 تا 531 پر اِس ضمن میں بہترین، مفید اور جامع معلومات بہم پہنچائی ہیں۔ وہ رقم طراز ہیں کہ امامِ ششم، حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ ارشاد فرماتے ہیں: ''آپس میں ملاقات کرو تو سلام و مصافحہ کرو اور جب پھر جدا ہو تو استغفار کرو۔'' ( اُصولِ کافی۔ جلد2، صفحہ181)''جب مسلمان آنحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ہم راہ کسی جنگ میں جاتے ہوئے گھنے درختوں والی جگہ سے گزرتے اور پھر جدا ہونے لگتے تو ایک دوسرے کو دیکھ کر آپس میں مصافحہ کرتے۔'' (اصولِ کافی۔ جلد 2، صفحہ181)
''آنحضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جب بھی کسی شخص سے مصافحہ فرماتے تو جب تک وہ شخص اپنا ہاتھ نہ کھینچ لیتا، اُس وقت تک حضور ِاکرمؐ اپنا ہاتھ نہیں کھینچتے تھے۔'' (اُصولِ کافی۔ جلد 2، صفحہ181)مصافحہ کینے اور غصّے کو مٹاتا ہے۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے۔ اِس کے متعلق رسالت مآب آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی یہ احادیث ِ مبارکہ ہماری راہ نمائی کرتی ہیں:'' آپس میں مصافحہ کِیا کرو کہ یہ کینے کو مٹاتا ہے۔''( بحار الانوار۔ علّامہ مجلسیؒ۔ جلد 77، صفحہ 165)''آپس میں مصافحہ کِیا کرو، کیوں کہ مصافحہ کینے اور غصّے کو دُور کرتا ہے۔'' (بحار۔ جلد 77، صفحہ 158)
٭ مصافحہ گناہوں کو کیسے ختم کرتا ہے۔۔۔۔۔ ؟ حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کے ارشاداتِ مُبارکہ ہیں : ''جب ایک مومن دوسرے مومن سے مصافحہ کرتا ہے اور پھر وہ ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں۔ تو اُن پر کوئی گناہ باقی نہیں رہ جاتا۔'' (بحار۔ جلد 76، صفحہ20 ، اُصولِ کافی۔ جلد 2)''جب اپنے (مومن) بھائی سے ملاقات کرو تو مصافحہ کِیا کرو اور اُس سے کشادہ روئی اور خندہ پیشانی کا اظہار کرو، اِس طرح جب تم جدا ہوگے تو تمہارے تمام گناہ جاتے رہیں گے۔'' (بحار۔ جلد 76، صفحہ 20)
''جب کوئی شخص اپنے ساتھی سے مصافحہ کرتا ہے تو ان میں سے جو مصافحہ کرنے میں پہل کرتا ہے، اُس کا ثواب اُس شخص سے زیادہ ہوتا ہے جو مصافحے سے ہاتھ چھڑاتا ہے، اِس طرح ان کے گناہ جھڑ جاتے ہیں اور ان پر کوئی گناہ باقی نہیں رہتا۔''( اُصولِ کافی۔ جلد 4، صفحہ 181)عورت سے مصافحے کے ضمن میں دِینی تعلیمات میں یہ راہ نمائی ملتی ہے۔ معاشرے کے ہر طبقے کے افراد بالخصوص ہمارے حکم ران توجّہ فرمائیں۔رحمۃ للعالمین، شفیع المذنبین، مراد المشتاقین، راحت العاشقین آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم : ''عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ کسی نامحرم مرد سے مصافحہ کرے، مگر کپڑے کے پیچھے سے، نہ ہی وہ بیعت کرسکتی ہے، مگر کپڑے کے پیچھے سے۔'' (کنز العمال۔ حدیث 25346)'' میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔'' (کنز العمال۔ حدیث 475،476 ،489)ابوبصیرؓ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام جعفر صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ سے پوچھا کہ کیا مرد کسی ایسی عورت سے مصافحہ کرسکتا ہے جو اُس کے لیے نامحرم ہو؟
امامؓ نے فرمایا: نہیں۔ البتہ کپڑے کے پیچھے سے۔'' (وسائل الشیعہ۔ جلد 14، صفحہ151)'' لیکن جس عورت کے لیے جائز ہوتا ہے کہ کسی مرد سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہو، تو مرد اُس کے ساتھ مصافحہ نہیں کرسکتا، البتہ کپڑے کے پیچھے سے، اور اُس کی ہتھیلی کو نہ دبائے۔'' (وسائل الشیعہ۔ جلد 14، صفحہ151)٭ دُشمن سے مصافحہ اِس ضمن میں یہ راہ نمائی ملتی ہے۔ نبی کریم آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشادِ مُبارکہ کا مفہوم ہے: '' اپنے دُشمن سے مصافحہ کرو، خواہ اُسے یہ بات پسند نہ بھی ہو، کیوں کہ یہ ایک ایسا امر ہے جس کی بجا آوری کا اللہ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ فرماتا ہے: یعنی ( دُشمن کی سختی کا) ایسے طریقے سے جواب دو جو نہایت اچھا ہو۔ (ایسا کرو گے تو ) تم دیکھو گے کہ جس سے دُشمنی تھی گویا وہ تمہارا گہرا دوست ہے۔ یہ بات صرف انھی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو صبر کرنے والے اور بڑے خوش نصیب ہوتے ہیں۔ تم اپنے دُشمن سے اِس سے بڑھ کر اور کیا انتقام لے سکتے ہوکہ اِس بارے میں تم اللہ تعالیٰ کی فرماں برداری کررہے ہو۔'' (بحار۔ جلد 71، صفحہ421)
اگر سوچا جائے، تو اِس میں بہترین پیغام ہے۔ صاحبانِ عقل و شعور کے لیے عمدہ ترین درس و نصیحت ہے۔ اللہ سے صمیمِ قلب سے دُعا ہے کہ اللہ رحمن و رحیم ہم سب کو اپنے حبیب آنحضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے طفیل یہ توفیق اور سعادت کرامت فرمائے کہ ہم تمام تر دِینی تعلیماتِ حمیدہ کو سمجھیں اور پھر اِن پر خلوصِ دل سے حتی الامکان عمل پیرا رہیں۔ ( آمین) اگرچہ اِس پُر آشوب دُنیا میں رہ کر جہاں قدم قدم پر بھٹکنے کے امکانات پائے جاتے ہیں، یہ اتنا آسان کام نہیں ہے، لیکن اگر انسان نیک جذبے اور نیک نیتی کے ساتھ کوشش کرے، تو پھر یقیناً مشکل بھی نہیں ہے۔