آبادی پر مارٹر حملے الم ناک

رپورٹ کے مطابق اقلیتوں کو انتہا پسند بلاروک ٹوک نشانہ بناتے ہیں اور موت کے گھاٹ اتارتے ہیں۔

تیراہ، باڑہ، میرانشاہ سمیت متعدد حساس و شورش زدہ علاقوں میں بم و مارٹر دھماکے اور تخریب کاری ودہشت گردی کی وارداتیں انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی داخلی وخارجی سازشوں سے منسلک ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی/ فائل

فاٹا میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کی آگ اب شہروں تک آپہنچی ۔ موت کے سوداگروں نے معصوم بچوں کو مارٹر گولے مارکر انسانیت کی دھجیاں فضائے آسمانی میں اڑا دی ہیں۔ منگل کو پشاور دھماکوں سے گونج اٹھا،مختلف علاقوںمیںمارٹرگولے گرنے سے بچوں،خواتین سمیت23افراد زخمی ہو گئے جب کہ وادی تیراہ میں سیکیورٹی فورسزکے آپریشن میں اب تک110شدت پسندہلاک اور 23 سیکیورٹی اہلکارشہید ہوگئے ہیں، مبصرین کے مطابق سوات کے بعد یہ دہشت گردوں کے نئے ٹھکانے تیراہ میں فوج کی فیصلہ کن کارروائی بتائی جاتی ہے ، تیراہ پر فوج کا کنٹرول ہوگیا ہے۔

پشاور میں مارٹر گولوں سے حملہ ایک ہولناک واقعہ ہے ،چنانچہ دہشت گردوں کے بزدلانہ اور جنگجویانہ ایجنڈے کی شدت اور ان کے اہداف کی ہلاکت خیزی کا سیکیورٹی فورسز کو ابھی سے بہ خوبی اندازہ لگا لینا چاہیے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ خیبر پختونخوا کے شہر اگر محفوظ نہیں رہے تو دہشت گردی کی تباہ کاریوں سے کوئی نہیں بچ سکے گا۔ان ملک دشمنوں کے قدم بیگناہ انسانوں کو موت کی نیند سلادینے سے پہلے روک دینے چاہئیں ، اگر پورے علاقے کی دہشت گردوں کے قبضے سے بازیابی اور امن کے قیام کا ہدف پورا نہ ہوا تو کوئی نہیں کہہ سکتا کہ خیبرپختونخوا میں الیکشن ہوں گے بھی یا نہیں کیونکہ یورپی یونین کے مبصر مائیکل گاہلر کاکہنا ہے کہ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر صوبہ بلوچستان اورفاٹا کے علاقوں میںمبصرین تعینات نہیں کیے جائیں گے۔

یوں دنیا کو بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سیکیورٹی خدشات کے باعث مبصرین کی عدم تعیناتی سے کوئی مثبت پیغام نہیں مل سکے گا۔تاہم دہشت گردوں کے خلاف آپریشن کی اطلاعات خوش آیند ہیں، ملکی سالمیت، انتخابی ماحول کی سازگاری اور پولنگ سٹیشنوں پر فوج کی تعیناتی سمیت پورے ملک میں امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنانا ایک زبردست چیلنج ہے۔

تیراہ، باڑہ، میرانشاہ سمیت متعدد حساس و شورش زدہ علاقوں میں بم و مارٹر دھماکے اور تخریب کاری ودہشت گردی کی وارداتیں انتخابات کو سبوتاژ کرنے کی داخلی وخارجی سازشوں سے منسلک ہیں، اس لیے حکام ان طاغوتی قوتوں اور غیر ملکی ایجنٹوں کی سرکوبی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں، دہشت گردوں کا مارٹر گولوں کے ساتھ پشاور میں داخل ہونا المناک ہے ، اس سیکیورٹی لیپس کا تدارک ہونا چاہیے، مجرمانہ غفلت ہوئی ہے تو ذمے داروں کا احتساب کریں، تساہل کے نتیجے میں اہل پاکستان کو دہشت گردوںکے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔

اس ضمن میں دیکھا جائے کہ آتشیں اسلحہ کس طرح دہشت گردوں کے تصرف میں آتا ہے ، ظاہر ہے یہ سارا اسلحہ افغانستان کے سرحدی راستے سے آتا ہے، وار لارڈز اس تجارت میں ملوث ہیں اور تحریک طالبان پاکستان اس نیٹ ورک کی نگرانی پر مامور ہے۔ لہٰذا ارباب اختیار کو بلا تاخیر تزویراتی گہرائی کے مد نظر سرحد پر حفاظتی باڑ لگانے کی ان ریاستی کوششوں کی ابتدا کرنی چاہیے جس کی تنصیب پر غیر ملکی قوتوں نے بوجوہ مخالفت کی،جب کہ یہ قومی سلامتی ، ملک کی جغرافیائی وحدت اور خود مختاری کے تحفظ کا معاملہ ہے۔ دہشت گردوں کو روکنے کے لیے خاردارباڑ ناگزیر ہے۔تاہم فوج نے اپنی جاں نثاری سے کالعدم تنظیموںکے زیرتسلط علاقے کاکنٹرول دوبارہ حاصل کرلیا ہے۔


اس کنٹرول کو مستقل حیثیت دی جانی چاہیے، دہشت گردوں کا تعاقب جاری رکھا جائے۔ شہر میں مارٹر دھماکوں کے ساتھ ہی لوگوں کا گھرچھوڑکر بھاگ نکلنا جتنا تکلیف دہ ہے اس کا کوئی بھی درد مند شخص اندازہ لگا سکتا ہے۔دہشت گرد قریب آتے انتخابات کے ساتھ ہی اپنی وارداتوں سے خوف کا ماحول پیدا کرنے کی سازش میں مصروف ہیں جسے سختی سے کچلنے کی ضرورت ہے۔ ادھر پاکستانی عسکری حکام کاکہنا ہے کہ وادی تیراہ میںجمعہ سے شروع ہونے والے آپریشن میںاب تک 110شدت پسند مارے گئے ہیں جب کہ اس کارروائی میں23اہلکاربھی شہید ہوئے،خیبرایجنسی کے اس علاقے میںآپریشن تین کالعدم شدت پسند تنظیموں لشکر اسلام،انصارالاسلام اورتحریک طالبان کے مابین کئی ہفتوں سے جاری جھڑپوں کے بعد شروع کیاگیا تھا، اے ایف پی نے فوجی حکام کے حوالے سے کہا ہے کہ اس آپریشن میں سیکیورٹی فورسزکو فضائیہ کی مدد بھی حاصل ہے ۔

ادھر اقوام متحدہ کے قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے کے مطابق جھڑپوں کے نتیجے میں تیراہ سے 40 ہزار سے زیادہ افراد نقل مکانی پرمجبور ہوئے ہیں۔ فاٹا میں غیر معمولی اقدامات اس لیے ناگزیر ہیں کہ اس علاقے میں وہ انسانیت بیزار اور پاکستان دشمن قوتیں سرگرم ہیں جن کے بارے میں عالمی میڈیا روز رپورٹیں جاری کر رہا ہے، ایک امریکی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان ایسا ملک بن گیا ہے جو اپنے ہی پیدا کردہ عفریتوں کی زد میں ہے ، بیشتر سیاسی اور اقتصادی ادارے ناکارہ ہو چکے ہیں اور تبدیلی کے آثارنظر نہیں آ رہے۔

امریکی اخبار'انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبیون، نے منگل کو پاکستان میں پہلی مرتبہ منتخب حکومت کی پانچ سالہ مدت پوری کرنے اورمئی کے انتخابات پر جائزہ رپورٹ میں کہا ہے کہ سابق حکومت کا واحد کارنامہ ہے کہ اس نے پانچ سال پورے کیے ہیں ،جن کی اہمیت ان خوفناک واقعات کے نیچے دب گئی ہے جو آئے دن اس ملک میں ہوتے رہتے ہیں۔رپورٹ میںتجزیہ نگار ولیم مائی لم کے حوالے سے کہا گیا کہ اِن واقعات سے اِس تاثر کو تقویت پہنچتی ہے کہ اس ملک کی کوئی کل سیدھی نہیں اور وہ کمزوری اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ ولیم مائی لم جو پاکستان میں امریکی سفیر رہ چکے ہیں اور ممتاز اہل قلم مانے جاتے ہیں کہتے ہیں کہ ظلم کے نتیجے میں مزید ظلم پلتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق اقلیتوں کو انتہا پسند بلاروک ٹوک نشانہ بناتے ہیں اور موت کے گھاٹ اتارتے ہیں اوراس پر شیخی بھی بھگارتے ہیں۔ تشدد کا شکار محض اقلیتیں ہی نہیں بلکہ بنیاد پرستوں نے مسلمان کی جو تنگ نظر تعریف مقرر کر رکھی ہے،اگر کوئی شخص اس پر پورا نہیں اترتا تو اس پر حملے کا زیادہ امکان ہے۔جگہ جگہ صوفیوں کی خانقاہوں کو بھی شدت پسند نشانہ بناتے ہیں ۔انسانیت دوست سرگرم کارکنوں کو غریبوں میں معاشرتی اور طبی امداد تقسیم کرنے پر گولی ماردی جاتی ہے ۔

انتہا پسندوں نے حال ہی میں کراچی میں پروین رحمن کو گولی مار کر ہلاک کردیا جو ایک این جی او کی سربراہ تھیں۔ ادھرانتخابات کی آمد آمد ہے،سیاست دانوں سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ اِن شدت پسندوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا عہد کریں گے لیکن اِس کے برعکس وہ ان کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔یہ گویا ایک فرد جرم ہے جو اس امریکی نے اہل پاکستان اور اس کی اشرافیہ کے خلاف جاری کی ہے۔ان کا فیصلہ کن انداز تحریر دیکھئے جس میں وہ کہتے ہیں کہ'' مغرب اور پاکستان کے پڑوسیوں کو مشورہ ہے کہ وہ جوہری اسلحے سے لیس ملک(پاکستان) کے تنزل کے سیاسی اور اسٹرٹیجک عواقب پر غورکریں۔

کیا ارباب اختیار کو وکی لیکس سے ابل کر باہر آنے والے ان 34 ہزار انکشافات کی ہولناکی کا ادراک ہے جو پاکستان کی داخلی سیاست سے متعلق ہیں ؟اورکیا شفاف ملکی انتخابات کے قومی خواب کو شرمندہ تعبیر ہوتا دیکھنے کی آرزو اتنی مستحکم اور طاقتور ہے کہ اس کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لیے غیر ملکی میڈیائی حملوں کی شدت سے بچائوکا متبادل بھی ڈھونڈا جارہا ہو ؟ یہ چشم کشا حقیقت ہے کہ خیبر پختونخوا، بلوچستان سمیت ملک بھر میںانتخابات کا انعقاد ایک اعصاب شکن چیلنج ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں طالبان کی دھمکیوں سے پیدا شدہ خوف وہراس کے ازالے کی جانب ٹھوس اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔
Load Next Story