ترقی و خوشحالی کا روڈ میپ
توانائی کا بحران دہشت گردی کے بعد پاکستان کا اولین مسئلہ ہے۔
ملک کو اس وقت جس اقتصادی اور معاشی بحران کا سامنا ہے،اس کا تقاضا ہے کہ پاکستان اپنے تجارتی روابط کو بڑھائے تاکہ ملکی برآمدات میں اضافے کا براہ راست فائدہ ملکی معیشت کو پہنچے۔ بہتر تجارتی پالیسی کی عدم موجودگی اور سفارتی اہلکاروں کی عدم دلچسپی کے باعث ہم ابھی تک بین الاقوامی منڈیوں تک بھرپور انداز میں رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے جب کہ دوسری جانب خطے میں بھارت کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
بھارت نے اپنی بہتر منصوبہ بندی اور مثبت اور کارآمد سفارت کاری کی بدولت دنیا بھر میں اپنی برآمدات میں اضافہ کیا ہے اور عالمی منڈیوں تک رسائی حاصل کی ہے، لیکن وطن عزیز کے اکثر سفارت کار بیرون ممالک میں اپنا اچھا وقت گزارتے ہیں اور نوکری کی میعاد پوری ہونے پر واپس لوٹ آتے ہیں ۔اسی تناظر میں لاہور چیمبر نے پاکستان کے تھائی لینڈ، ازبکستان اورکمبوڈیا میں تعینات سفیروں کو ایک روڈ میپ قابل عمل تجاویز کی صورت میں دیا ہے تاکہ یہ سفیر پاکستانی تاجروں کے بین الاقوامی تعلقات کے استحکام ،ملک کی بیرونی تجارت بڑھانے اور معاشی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے بہتر انداز میں کام کرسکیں ۔
اقتصادی اعداد وشمار کے مطابق یہ ممالک اربوں ڈالر کی اشیا مہنگے داموں دیگر ممالک سے اس وقت درآمد کر رہے ہیں جب کہ پاکستان یہی اشیا انھیں سستے داموں فراہم کرسکتا ہے ۔ پاکستانی اشیا معیار میں بین الاقوامی اسٹینڈرز کے عین مطابق ہیں۔ لاہور چیمبر نے سفیروں پر زور دیا کہ وہ تجارتی وفود کے تبادلے اور سنگل کنٹری نمائشوں کے انعقاد پر توجہ دیں ۔یہ انتہائی صائب اور مثبت تجویز ہے ہم توقع رکھتے ہیں کہ ان ممالک میں تعینات پاکستانی سفیر پوری تندہی سے تاجروں سے راہ و رسم بڑھائیں گے اور تجارتی وفود کے تبادلے سے تجارت کو فروغ حاصل ہوگا۔
ان ممالک میں پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی مانگ میں بھرپور اضافہ بھی ممکن ہے،زرعی ملک ہونے کے ناتے پاکستان میں پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار بھی کثیرتعداد میں ہوتی ہے، جدید ترین سائنسی طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پھلوں اور سبزیوں کی برآمدات کو فروغ دینے کے لیے اقدامات اٹھانے سے کثیرزرمبادلہ ہمیںبآسانی حاصل ہوسکتا ہے جو ہماری معیشت کی گرتی ہوئی ساکھ بحال کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہوگا۔ لیکن اس منفی سوچ کا کیا کیجیے کہ چند ماہ پیشتر کراچی کے ایکسپو سینٹر میں ہونے والی بھارتی اشیا کی تجارتی نمائش مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے باعث ناکامی سے دوچار بھی ہوچکی ہے۔
ایک سنہری موقع جو یقیناپاک بھارت تجارت کے فروغ میں سنگ میل ثابت ہوتا ، جو ہم نے اپنی محدود سوچ کے باعث ضایع کردیا۔ ہمیں عالمی تناظر اور ملکی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی سوچ فکر،طرزعمل اور تجارتی رجحانات کو بدلنا ہوگا ہم محدود رہ کر کبھی دنیا کے ساتھ قدم ملا کر نہیں چل پائیں گے۔ تھائی لینڈ میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے ان کی حلال گوشت اور حلال خوراک کی ضروریات پاکستان باآسانی پوری کرسکتا ہے اور اس کے بدلے میں پاکستان میں تھائی لینڈ کی سرمایہ کاری توانائی کے بحران کے حل میں بہت مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔
توانائی کا بحران دہشت گردی کے بعد پاکستان کا اولین مسئلہ ہے، روزگار کے مواقعے اسی وقت بڑھ سکتے ہیں جب بند صنعتی یونٹ دوبارہ کھل جائیں صنعت وحرفت کا جام پہیہ ایک بار پھر رواں ہو۔ یہ پہیہ رواں ہوگیا تو ہمیں ترقی کی منازل طے کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔اس مقصد کے لیے پاکستان کا سفارتی محاذ مشترکہ سرمایہ کاری اور ملک میں سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔
بھارت نے اپنی بہتر منصوبہ بندی اور مثبت اور کارآمد سفارت کاری کی بدولت دنیا بھر میں اپنی برآمدات میں اضافہ کیا ہے اور عالمی منڈیوں تک رسائی حاصل کی ہے، لیکن وطن عزیز کے اکثر سفارت کار بیرون ممالک میں اپنا اچھا وقت گزارتے ہیں اور نوکری کی میعاد پوری ہونے پر واپس لوٹ آتے ہیں ۔اسی تناظر میں لاہور چیمبر نے پاکستان کے تھائی لینڈ، ازبکستان اورکمبوڈیا میں تعینات سفیروں کو ایک روڈ میپ قابل عمل تجاویز کی صورت میں دیا ہے تاکہ یہ سفیر پاکستانی تاجروں کے بین الاقوامی تعلقات کے استحکام ،ملک کی بیرونی تجارت بڑھانے اور معاشی سرگرمیوں کے فروغ کے لیے بہتر انداز میں کام کرسکیں ۔
اقتصادی اعداد وشمار کے مطابق یہ ممالک اربوں ڈالر کی اشیا مہنگے داموں دیگر ممالک سے اس وقت درآمد کر رہے ہیں جب کہ پاکستان یہی اشیا انھیں سستے داموں فراہم کرسکتا ہے ۔ پاکستانی اشیا معیار میں بین الاقوامی اسٹینڈرز کے عین مطابق ہیں۔ لاہور چیمبر نے سفیروں پر زور دیا کہ وہ تجارتی وفود کے تبادلے اور سنگل کنٹری نمائشوں کے انعقاد پر توجہ دیں ۔یہ انتہائی صائب اور مثبت تجویز ہے ہم توقع رکھتے ہیں کہ ان ممالک میں تعینات پاکستانی سفیر پوری تندہی سے تاجروں سے راہ و رسم بڑھائیں گے اور تجارتی وفود کے تبادلے سے تجارت کو فروغ حاصل ہوگا۔
ان ممالک میں پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی مانگ میں بھرپور اضافہ بھی ممکن ہے،زرعی ملک ہونے کے ناتے پاکستان میں پھلوں اور سبزیوں کی پیداوار بھی کثیرتعداد میں ہوتی ہے، جدید ترین سائنسی طریقوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پھلوں اور سبزیوں کی برآمدات کو فروغ دینے کے لیے اقدامات اٹھانے سے کثیرزرمبادلہ ہمیںبآسانی حاصل ہوسکتا ہے جو ہماری معیشت کی گرتی ہوئی ساکھ بحال کرنے میں معاون ومددگار ثابت ہوگا۔ لیکن اس منفی سوچ کا کیا کیجیے کہ چند ماہ پیشتر کراچی کے ایکسپو سینٹر میں ہونے والی بھارتی اشیا کی تجارتی نمائش مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے باعث ناکامی سے دوچار بھی ہوچکی ہے۔
ایک سنہری موقع جو یقیناپاک بھارت تجارت کے فروغ میں سنگ میل ثابت ہوتا ، جو ہم نے اپنی محدود سوچ کے باعث ضایع کردیا۔ ہمیں عالمی تناظر اور ملکی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی سوچ فکر،طرزعمل اور تجارتی رجحانات کو بدلنا ہوگا ہم محدود رہ کر کبھی دنیا کے ساتھ قدم ملا کر نہیں چل پائیں گے۔ تھائی لینڈ میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے ان کی حلال گوشت اور حلال خوراک کی ضروریات پاکستان باآسانی پوری کرسکتا ہے اور اس کے بدلے میں پاکستان میں تھائی لینڈ کی سرمایہ کاری توانائی کے بحران کے حل میں بہت مدد گار ثابت ہوسکتی ہے۔
توانائی کا بحران دہشت گردی کے بعد پاکستان کا اولین مسئلہ ہے، روزگار کے مواقعے اسی وقت بڑھ سکتے ہیں جب بند صنعتی یونٹ دوبارہ کھل جائیں صنعت وحرفت کا جام پہیہ ایک بار پھر رواں ہو۔ یہ پہیہ رواں ہوگیا تو ہمیں ترقی کی منازل طے کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔اس مقصد کے لیے پاکستان کا سفارتی محاذ مشترکہ سرمایہ کاری اور ملک میں سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔