ایف پی سی سی آئی کا ملک میں آبی ذخائر بڑھانے پر زور
چین میں87ہزار،انڈیا 3ہزار200، پاکستان میں صرف150ڈیم تعمیر کیے جاسکے،غضنفربلور
فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر غضنفر بلور نے کہاہے کہ آئی ایم ایف کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پانی کی قلت کا سامنا کرنے والے ممالک میں پاکستان کا اب تیسرا نمبر ہے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر پانی کو ذخیرہ کرنے کے مناسب انتظامات نہ کیے گئے تو آنے والے وقتوں میں پاکستان کی معیشت پر اس کے شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
غضنفر بلور نے کہا کہ واپڈا کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کو ہر سال پانی کے ضائع جانے کی وجہ سے 25 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے کیونکہ پاکستان کے دریا ہر سال 145ملین ایکڑ فٹ پانی حاصل کرتے ہیں جس میں سے صرف 14ملین ایکٹر فٹ پانی کو ذخیرہ کیا جاتا ہے جبکہ باقی سب پانی ضائع جاتا ہے۔
انھوں نے کہاکہ 1951میں پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی 5260کیوبک میٹر جو 2015تک کم ہو کر 940 کیوبک میٹر تک آ گئی تھی اور اگر پانی کو ذخیرہ کرنے کے انتظامات نہ کیے گئے تو 2025تک پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی مزید کم ہوکر صرف860کیوبک میٹر تک پہنچ جائے گی جس کے معیشت اور عوام پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے پچھلے 70سال میں ملک میں صرف دو بڑے ڈیم تعمیر کیے گئے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پانی کو ذخیرہ کرنے کے بارے میں ہماری گزشتہ حکومتیں کتنی غافل رہی ہیں۔
غضنفر بلور نے کہا کہ چین نے پانی کو ذخیرہ کرنے کیلیے چھوٹے بڑے 87ہزار سے زائد ڈیم تعمیر کیے ہوئے ہیں جبکہ انڈیا نے تقریبا 3200 ڈیم تعمیر کیے ہوئے ہیں لیکن پاکستان نے پانی کو ذخیرہ کرنے کیلیے 15میٹر تک بلند صرف 150ڈیم تعمیر کیے ہیں جو مطلوبہ ضرورت سے بہت ہی کم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ زیر زمین پانی کی سطح بھی اب تیزی سے نیچے جا رہی ہے اور اگر پانی کو ذخیرہ کرنے کے ذخائر جلد تعمیر نہ کیے گئے تو مستقبل میں پاکستان کی معیشت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔
غضنفر بلور نے کہا کہ واپڈا کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کو ہر سال پانی کے ضائع جانے کی وجہ سے 25 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے کیونکہ پاکستان کے دریا ہر سال 145ملین ایکڑ فٹ پانی حاصل کرتے ہیں جس میں سے صرف 14ملین ایکٹر فٹ پانی کو ذخیرہ کیا جاتا ہے جبکہ باقی سب پانی ضائع جاتا ہے۔
انھوں نے کہاکہ 1951میں پاکستان میں پانی کی فی کس دستیابی 5260کیوبک میٹر جو 2015تک کم ہو کر 940 کیوبک میٹر تک آ گئی تھی اور اگر پانی کو ذخیرہ کرنے کے انتظامات نہ کیے گئے تو 2025تک پاکستان میں فی کس پانی کی دستیابی مزید کم ہوکر صرف860کیوبک میٹر تک پہنچ جائے گی جس کے معیشت اور عوام پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے پچھلے 70سال میں ملک میں صرف دو بڑے ڈیم تعمیر کیے گئے جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پانی کو ذخیرہ کرنے کے بارے میں ہماری گزشتہ حکومتیں کتنی غافل رہی ہیں۔
غضنفر بلور نے کہا کہ چین نے پانی کو ذخیرہ کرنے کیلیے چھوٹے بڑے 87ہزار سے زائد ڈیم تعمیر کیے ہوئے ہیں جبکہ انڈیا نے تقریبا 3200 ڈیم تعمیر کیے ہوئے ہیں لیکن پاکستان نے پانی کو ذخیرہ کرنے کیلیے 15میٹر تک بلند صرف 150ڈیم تعمیر کیے ہیں جو مطلوبہ ضرورت سے بہت ہی کم ہیں۔
انہوں نے کہا کہ زیر زمین پانی کی سطح بھی اب تیزی سے نیچے جا رہی ہے اور اگر پانی کو ذخیرہ کرنے کے ذخائر جلد تعمیر نہ کیے گئے تو مستقبل میں پاکستان کی معیشت کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔