کچرا اٹھانے والی کمپنی کو رقم جاری نہ کرنے کا حکم برقرار

کمپنی اربوں روپے لے رہی ہے، شہر سے کچرا نہیں اٹھاپائی، جسٹس(ر) امیر ہانی مسلم

سندھ حکومت چینی کمپنی کو سالانہ ایک ارب روپے دے رہی ہے، سیکریٹری بلدیات۔ فوٹو:فائل

ISTANBUL:
واٹر کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر)امیر ہانی مسلم نے چینی کمپنی کی ادائیگی بحال کرنے کی درخواست مسترد کردی جب کہ کمیشن نے اضلاع جنوبی اورشرقی میں کچرا اٹھانے والی چینی کمپنی کو رقم جاری نہ کرنے کا حکم برقرار رکھتے ہوئے 16 اپریل تک سیکریٹری بلدیات کو کمپنی کا جائزہ لے کر رپورٹ پیش کرنے اور تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو کنٹونمنٹس کیلیے کوآرڈی نیٹر، فوکل پرسن مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔

سندھ ہائی کورٹ میں واٹر کمیشن کی کارروائی جسٹس( ر)امیر ہانی مسلم کی سربراہی میں ہوئی،سیکریٹری بلدیات سمیت دیگر اعلیٰ حکام کمیشن کے روبرو پیش ہوئے،شہر میں کچرا اٹھانے سے متعلق ایم ڈی سالڈ ویسٹ بورڈ نے بتایا کہ کمیشن کے حکم پر کچرا اٹھانے والی ایک کمپنی کی ادائیگی روک دی ہے،چینی کمپنیوں کی سیکیورٹی کے اقدامات کررہے ہیں،پولیس نے یونین کے بجائے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا ہے،چینی ملازمین کے تحفظ کیلیے پولیس کی مدد لے رہے ہیں۔

کمیشن کے سربراہ نے ریمارکس دیے کہ حکومت کی رٹ کہاں ہے ؟کمیشن کا کام تحفظ فراہم کرنا نہیں، کمیشن نے استفسار کیا کہ ویسٹ میں پانچ ایسکیویٹرز چل رہے ہیں، کے ایم سی کو معلوم نہیں؟کمیشن کو بتایا گیا کہ واٹر بورڈ نے ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرادیا، ایس ایس پی ویسٹ نے بتایا کہ 2 ایکسیویٹرز قبضے میں لیے ، ووٹر بورڈ نے دعویٰ کیا کہ ان کے ہیں۔

کمیشن نے ریمارکس دیے کہ آپ نے مزدوروں کو پکڑ لیا آپ کو مالک نہیں مل رہا، کون پانی چوری کررہا ہے اصل ملزمان کو پکڑیں،کمیشن نے سرکاری وکیل سے سوال کیا کہ زیر زمین پانی ریاست کی ملکیت نہیں؟ جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے استفسار کیا کہ زیر زمین پانی حکومت کی اجازت کے بغیرکوئی کیسے نکال سکتا ہے ؟

واٹر بورڈ کے افسر نے بتایاکہ زیر زمین پانی کے حوالے سے قانون بنانے کی سفارشات وزیر بلدیات کو بھجوادی ہیں، کمیشن نے سیکریٹری بلدیات کو ہدایت کی ایک ماہ گزر گیا نوٹیفکیشن جاری کرائیں، چینی کمپنی کے وکیل نے کہا کہ ادائیگی روکنے سے بھاری مالی نقصان ہورہا ہے، کمیشن نے ریمارکس دیے کہ اگر چین میں ایسا کام کررہے ہوتے تو جیل بھیج دیا جاتا۔

جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے کہا کہ صرف پیسے لے رہے ہیں کوئی کام نہیں کررہے ہیں، کمیشن نے چینی کمپنی کی ادائیگی بحال کرنے کی درخواست مسترد کردی، کمیشن نے ریمارکس دیے کہ جب چینی کمپنی کام کرے گی تو پیسہ بھی ملے گا، چینی کمپنی کے وکیل نے کہا کہ کمپنی نے چپس لگا دی ہیں،کمیشن نے وکیل کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ آپ ادھر ادھر کی بات نہ کریں گاڑیوں کی تفصیل بتائیں۔

وکیل نے درخواست کی کہ ایک موقع دے دیں اگلی سماعت پر پیش کردیں گے، جسٹس (ر) امیر ہانی مسلم نے ریمارکس میں کہا کہ تین بار ہدایت دے چکے ہیں ،آج تفصیل نہ دی تو ساتھ حکم دیں گے، کمیشن نے سائوتھ اور ایسٹ میں کچرا اٹھانے والی چینی کمپنی کی رقم جاری نہ کرنے کا حکم برقرار رکھا، کمیشن نے ریمارکس دیے کہ کمپنی نے معاہدے کے مطابق کام نہیں کیا تو معاہدہ منسوخ کیوں نہیں کرتے؟

چینی کمپنی کے سی ای او نے کہا کہ 10 دن ہوگئے ڈمپنگ سینٹرز بنادیے، کچھ چپس بھی لگا دیں، کمیشن نے کہا کہ معاہدے کے مطابق آپ کو کام شروع کرنا چاہیے تھا، سی ای او نے بتایا کہ صدر، لیاری اور دیگر علاقوں میں 700 ملازمین لگا کر کام کرایا،کمیشن نے کہا کہ آپ نے ایک ملین ڈالر لیا، اتنا پیسہ کسی پاکستانی کو دیتے تو پورا شہر صاف ہوجاتا۔

سی ای او نے کہا کہ آپ وزٹ کرلیں حقیقت کا اندازہ ہوجائے گا، کمیشن نے سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ 6 بار دورہ کرچکا ہوں سارا دن روڈ پر کھڑا رہوں؟ سوچ سمجھ کر بات کریں، 100 گاڑیاں کھڑی کرکے ملینز ڈالرز لے رہے ہیں یہ مفت کا پیسہ نہیں، کمیشن نے کمپنی کے وکیل کو کہا کہ آپ فیز ایٹ سے آتے ہیں وہاں سے یہاں تک آپ کو کچرا نظر نہیں آتا ؟ آپ کی مرضی کے وقت میں دورہ کروں ؟ 24 گھنٹے شہر صاف ہونا چاہیے۔

سیکریٹری بلدیات نے بتایا کہ حکومت چینی کمپنی کو سالانہ ایک ارب روپے دے رہی ہے،کمیشن نے ریمارکس دیے کہ اتنی خطیر رقم خرچ کرنے پر بھی کچرا نہیں اٹھ رہا تو کچھ اور کریں، سیکریٹری بلدیات نے کہا کہ چینی کمپنیوں کو مسائل حل کرنے کیلیے ایک ہفتہ کی مہلت دے دیں،کمیشن نے ریمارکس دیے کہ 90فیصد مسائل تو سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے پیدا کردہ ہیں۔

کمیشن نے سیکریٹری بلدیات کو چینی کمپنی کا جائزہ لے کر 16 اپریل تک رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا، کمیشن نے ریمارکس دیے کہ کنٹونمنٹس اور بلدیاتی اداروں کے مابین رابطے کیلیے کو آرڈینیٹر ہونا چاہیے، کراچی کو سینٹرلائزڈ ہونا چاہیے، کمیشن نے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز کو کنٹونمنٹس کیلیے کوآرڈینیٹر / فوکل پرسن مقرر کرنے کا حکم دیدیا،کمیشن نے چیئرمین سینٹرل ریحان ہاشمی سے مکالمے میں کہا کہ آپ اپنے تحفظات بورڈ کے ذریعے کیوں حل نہیں کرتے؟


آپ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈکے ممبر ہیں،اپنے مسائل حل کرائیں،ریحان ہاشمی نے کہا کہ کچرا پھینکنے والوں کے خلاف کارروائی کا اختیار بھی ڈی ایم سیزکودیا جائے،کمیشن کے سربراہ نے ریحان ہاشمی سے سوال کیا کہ آپ اپنے علاقے کو کب صاف کریں گے؟ ریحان ہاشمی نے کہا کہ سندھ حکومت پر 2015 سے ایک ارب روپے سے زائد رقم واجب الادا ہے، آبادی کے لحاظ ضلع وسطی کراچی کا سب سے بڑا علاقہ ہے، 3 ہزار ٹن یومیہ کچرا ضلعی وسطی میں پیدا ہوتا ہے، وسائل دے دیے جائیں تو کچرا صاف کردیں گے۔

کمیشن نے ریمارکس دیے کہ آپ اپنے وسائل سے بھی کچرا صاف کرسکتے ہیں،درخواست گزار شہاب استو نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود شہر صاف نہیں ہوا، کمیشن نے ریمارکس میں کہا کہ جس نے شہر صاف کرنا ہے وہ ہے نہیں ہم کس کو حکم دیں؟ شہاب استو نے موقف اپنایا کہ شہر کا برا حال ہوچکا ہے، سب ادارے چاہیں تو شہر صاف ہوسکتا ہے۔

کمیشن نے کہا کہ ڈی جی سالڈ ویسٹ منیجمنٹ بورڈ ملک سے باہر ہیں، وہ واپس آجائیں تو ہم بھی حکم جاری کریں گے، شہر صاف نہ ہوا تو ہم مئیر کراچی سے کہیں گے اپنی جیب سے کراچی کو صاف کرائیں، 17 ڈی ایچ کیو اسپتال ہیں جس میں سے سات اسپتالوں کی حالت غیر تسلی بخش ہے، جن اسپتالوں کی حالت خراب ہے اس کا ذمے دار کون ہے، حکومت کے کروڑوں روپے خرچ ہوچکے ہیں۔

چیئرمین پلاننگ کمیشن وسیم احمد نے کہا کہ 6 تسلی بخش ہیں اور بس ٹھیک ہیں، کمیشن نے ریمارکس دیے کہ مٹھی اسپتال میں 5 فیصد کام ہوا ہے تو فارغ کریں، وسیم احمد نے کہا 2009 سے اسکیمز بنائی گئیں ہیں ابھی تک مکمل نہیں ہوئیں، 9 سال سے چیزیں چل رہی ہیں لیکن فائدہ نہیں ہورہا، بلین روپے خرچ ہوچکے ہیں لیکن ہوا کچھ نہیں، کمیشن نے کہا کہ 5،5 10، 10 سال اسکیموں کو چلاتے ہیں، کارروائی کے دوران سائٹ ایسوسی ایشن حکام اپنے وکیل کے ہمراہ پیش ہوئے۔

کمیشن نے ریمارکس دیے کہ سائٹ ایریاز میں فیکٹریاں مین لائن ٹرپ کرکے کنکشن لگا لیتے ہیں۔ سائیٹ ایسوسی ایشن کے وکیل نے کہا کہ ایک کمیٹی بنادی جائے جو ان معاملات کو دیکھے،کمیشن نے کہا کہ کمیٹی وغیرہ کچھ نہیں کرتی ہیں ہم خود کریں گے، جتنے پانی کے پائپس ہیں انھیں فیکٹریوں کے انھیں الگ کریں گے، انڈسٹری بورنگ سے پانی کیوں نہیں لیتی، وکیل نے موقف دیا کہ سائٹ ایسوسی ایشن کو جو پانی چاہیے وہ نہیں مل رہا۔

کمیشن نے ریمارکس میں کہا کہ جی ہمیں معلوم ہے کہ انڈسٹری کو مطلوبہ پانی نہیں دیا جارہا، اگلے چند ماہ میں مزید بہتری آئے گی، زندگی کے لیے پانی ضروری ہے ،انڈسٹری کے لیے بھی لیکن ترجیحات کو مد نظر رکھ کر انڈسٹری کے سب سئول پانی میں مسائل ہیں، وکیل نے بتایا سائٹ ایسوسی ایشن موجود ہے یہ بھی مسئلہ کا حل چاہتے ہیں، سائٹ ایسوسی ایشن کو 20 ایم جی ڈی پانی کی ضرورت ہے۔

کمیشن نے ریمارکس میں کہا کہ اصل مسئلہ پانی کی تقسیم کا ہے، کمبائین ایفولینٹ ٹریٹمنٹ پلانٹ کا پروجیکٹ ڈائریکٹر کون ہے، آپ کو کیا چانس دیں جو کام نہیں کررہا ہم خود فارغ کردیں گے،بلوائیں پروجیکٹ ڈائریکٹر کو لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں، پروجیکٹ ڈائریکٹر کو تبدیل کرنا چاہیے،کمیشن نے استفسار کیا کہ کون بناتا ہے۔

پروجیکٹ ڈائریکٹر، فوکل پرسن نے بتایا کہ چیف سیکریٹری صاحبتعینات کرتے ہیں، کمیشن میں موجود واٹر ہائیڈرینٹ کے مالک نے کہا کہ 4ہائیڈرنٹ ملیر میں ہیں، وال مین پیسے لے کر پانی بند کرتا ہے، کمیشن نے استفسار کیا کہ ملیر کا ایکس ا ی این کون ہے، پری ٹریٹمنٹ پلانٹ کے بغیر دنیا میں کہیں بھی انڈسٹری چلا کہ دیکھا دیں، آپ بڑا وکیل کرکے قانون کے خلاف اسٹے لے کر آجائیں۔

کمیشن نے سائٹ ایسوسی ایشن کے ذمے دران سے مکالمے میں کہا کہ جو قانون ہیں اسکو جاکر چیلنج کریں، پری ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے میں کتنا خرچ آتا ہے، لوگوں کی زندگیاں بچائیں گے ،چاہیے انڈسٹری کیوں نہ بند کرنی پڑے، پری ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانا قانون کے مطابق ضروری ہے،سائٹ ایسوسی ایشن کے ذمے داران بولے سر آپ ہماری ایکسپورٹ بند کرادیں گے کیا؟ کمیشن نے انڈسٹری حکام کو ہدایت کی کہ جاکر پری ٹریٹمنٹ پلانٹ لگائیں۔

کمیشن نے ریمارکس دیے کہ بڑا وکیل کریں اور جاکر اسٹے لے لیں، قانون کے مطابق پری ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانا ضروری ہے، انڈسٹری والے 50 لاکھ ایک کروڑ روپے خرچ کرنے کو تیار نہیں ہیں،عالمی خریداروں کو لکھیں گے کہ انڈسٹریز کی یہ صورتحال ہے جہاں انڈسٹریز کا فضلہ آتا ہے وہاں انسان تو کیا جانور بھی نہیں کھڑا ہوسکتا، وکیل سائٹ ایسوسی ایشن نے استدعا کی ٹریٹمنٹ پلانٹ لگانے کے حوالے سے 10 دن کی مہلت دی جائے، کمیشن نے متعلقہ حکام کو آئندہ کارروائی تک رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔

 
Load Next Story