آخری کوشش
سَن سینتالیس سے لے کر اپنے آخری ایام تک بزنجو صاحب جس جمہوری سیاسی جدوجہد کا حصہ رہے۔
'' حکومتی طبقات کی جانب سے دکھائی جانے والی بے حسی بعض اوقات مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیتی ہے کہ میرے کامریڈز کا اختیار کردہ موقف، جسے میں موضوعی کہہ کر رد کرتا آیا تھا، شاید ایسا نہیں ہے۔ اس کے برعکس اب میں خود سے سوال کرنے لگا ہوں: کیا میں غلط طرز ِفکر کا شکار ہوں؟ کیا میرے اندر مایوسی کا احساس مجھے میرے کامریڈز کے اختیار کردہ حقیقت پر مبنی نقطہ نظر کے درست تجزیے سے روک رہا ہے؟
پسماندہ قومیتوں کے دانشور اور صاحبِ فکر حلقے کے لیے غالب حکمران قومیت کی جانب سے اپنی عددی برتری اور بیوروکریسی اور مسلح افواج میں اپنی بالادست پوزیشن کے زور پر اپنے حقوق سے مسلسل انکار کے بوجھ کو سہارنا دشوار ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اُن کی دلیل کہ جس سے میں متفق ہونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا، یہ ہے کہ ہمیشہ کے لیے غلامی کی زندگی کوئی بھی برداشت کر سکتا ہے، نہ کرے گا۔''
یاسیت بھرے یہ الفاظ اُس عظیم سیاسی مدبر کے ہیں جو عمر بھر رجائیت کا داعی رہا۔ اس خطے کا یہ بڑا آدمی میر غوث بخش بزنجو کے نام سے پہچانا جاتا ہے، جن کی سوانح حیات ان کے قریبی ساتھی بی ایم کٹی نے مرتب کی، حال ہی میں اس کا اردو ترجمہ 'مقصد سیاست' کے نام سے شایع ہوا ہے۔ درج بالا اقتباس مذکورہ کتاب کے آخری پیراگراف سے ماخوذ ہے۔
سَن سینتالیس سے لے کر اپنے آخری ایام تک بزنجو صاحب جس جمہوری سیاسی جدوجہد کا حصہ رہے، اس نے انھیں دنیا بھر میں بھلے عالمی اعزازات سے نوازا ہو، لیکن اس روش کے باعث وہ اپنے ہی دوستوں اور اپنے ہی خطے میں اجنبی بن کر رہ گئے۔ جنت ِ گم گشتہ کی تلاش میں وہ مردودِ حرم قرار پائے۔ اسے دلچسپ حقیقت کے طور پر دیکھئے یا المیہ کہیں کہ آج بلوچستان میں جمہوری جدوجہد کے داعی وہی قوم پر ست ہیں جنہوں نے بلوچستان میں جمہوری عمل کی بنیاد رکھنے والے اس بڑے آدمی کو رسوا کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ بلوچستان کے چوراہوں پر ان کے بازاری الفاظ کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔ ان کے ظرف کا یہ عالم ہے کہ انھوں نے اس بڑے آدمی کی سیاسی پیروکاری کے باوجود، آج تک اس کے خلاف کی جانے والی ہرزہ سرائی پر ندامت تک کا اظہار نہ کیا۔
لیکن اچھے لوگوں کی ذلت کا انتقام تو قدرت بھی نہیں بھولتی، سو مکافاتِ عمل دیکھئے کہ بزنجو کی دستار پہ ہاتھ ڈالنے والے آج اپنے گریبان بچانے کی فکر میں ہیں۔ انھوں نے بزنجو کی دستار تو اپنے سر پہ سجا لی لیکن اتنا بڑا سر کہاں سے لائیں۔ سو، پروین شاکر کے بقول ان صاحبانِ دستار کے معزز پن کی جانچ کے لیے دستار کے ہر پیچ کی تحقیق لازم ٹھہری۔ بزنجو کی جمہوری جدوجہد مقصدی سیاست کے لیے تھی جب کہ یہاں مطمع نظر 'اقتداری سیاست ' ہے۔
یہی وجہ ہے کہ بزنجو نے جب جمہوری جدوجہد کا آغاز کیا تو عوام کی تقدیر میں تبدیلی کی خواہاں ہر قوت ان کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ان کے ہمراہ تھی۔ آج بلوچستان کا معروض کیسا ہی بدل چکا ہو، لیکن تاریخ کے صفحات سے اس حقیقت کو بھلا کیسے مٹایا جا سکے گا کہ بلوچستان کی پہلی جمہوری سیاسی و عوامی حکومت قائم ہوئی تو اس کے پہلے اسمبلی اجلاس میں سرداری نظام کے خاتمے کی قرارداد پیش کی گئی۔ یہ قرارداد کس نے پیش کی، کس نے اس کی تائید کی، اور کس نے اسے ناکام بنایا، ذرا بزنجو صاحب کی زبانی اس کا احوال سنیے:
'' نیپ کی جانب سے نواب خیر بخش مری نے، جو میرے گورنر بن جانے کے بعد نیپ کے صوبائی صدر منتخب ہو چکے تھے، صوبائی اسمبلی میں ایک قرارداد پیش کی، جس میں سرداری نظام کے خاتمے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ وزیر اعلیٰ سردار عطااللہ مینگل نے اس قرارداد کی تائید کی۔ حزبِ مخالف کے مٹھی بھر آزاد ارکانِ اسمبلی نے، جن کا پی پی پی قیادت سے میل جول تھا، اس کی مخالفت کی۔''
ذرا چشم تصور میں لائیے، کیا سماں ہو گا...! غوث بخش بزنجو گورنر بلوچستان، عطا اللہ مینگل وزیر اعلیٰ بلوچستان، خیر بخش مری صوبائی صدر نیشنل عوامی پارٹی۔ بلوچستان کی پہلی عوامی اسمبلی کے پہلے ہی اجلاس میں ایک نواب کھڑے ہو کر سرداری نظام کے خاتمے کی قرارداد پیش کرتا ہے، دوسرا سردار اس کی حمایت کرتا ہے، اور اسے ناکام بناتے ہیں سوشلزم کے داعی پیپلز پارٹی کے احباب۔ اب وہ احباب خود تجزیہ کر کے ہمیں بھی ذرا بتائیں کہ ایسی عوامی جمہوری سیاسی حکومت کو نو ماہ میں چلتا کرنا، جیلوں میں ڈالنا، رسوا کرنا، بھلا کس کے حق میں جاتا ہے!
بزنجو صاحب نے اپنی سوانح حیات میں بتایا ہے کہ ان کے دوستوں کے درمیان حیدرآباد جیل کی اسیری کے دوران ہی فکری خلیج حائل ہو چکی تھی۔ یہ خلیج پھر ایسی بڑھی کہ آج تک اس میں اضافہ ہی ہوتا رہا، کمی نہ ہو پائی۔ آج بلوچستان کے عوام کے دکھ درد کا مداوا کرنے کا دعویٰ رکھنے والوں کا یہ عالم ہے کہ ایک ٹیبل پر ساتھ مل کر نہیں بیٹھ سکتے۔ اور ان سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ ان کے آتے ہی بلوچستان کے سبھی دلدر دور ہو جائیں گے۔
ہم جانتے ہیں کہ 2008ء میں جب نواب رئیسانی کی حکومت قائم ہوئی تھی تو ان سے بھی بلوچستان میں قیام امن سے متعلق اسی طرح توقعات وابستہ کر لی گئی تھیں ،جس طرح آج یہ سمجھا رہا ہے کہ قوم پرستوں کے حکومت میں آنے سے بلوچستان کے تمام معاملات سلجھ جائیں گے۔ یہ یا تو بلوچستان کے بنیادی مسئلے سے کم آگاہی کا واضح مظہر ہے یا پھر معاملات سے چشم پوشی کی اعلیٰ مثال۔ یہ اعتراف تو بلوچستان کے سبھی قوم پرست برملا کر چکے ہیں کہ بلوچستان کے معاملات (بالخصوص پہاڑوں کے معاملات) اب ان کی دسترس میں نہیں رہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان مسئلے کے اب حقیقی فریقین یہی متحارب گروپ ہیں نہ کہ سیاسی جماعتیں۔ گو کہ بنیادی مسئلہ سیاسی ہی ہے، اور اس کا حتمی حل بھی سیاسی ہی ہو گا، لیکن یہ ان برسرپیکار متحارب قوتوں کی عملی شمولیت اور رضامندی کے بنا کسی صورت ممکن نہ ہو گا۔
سیاسی جماعتیں پریشر گروپ کے طور پر تو کام کر سکتی ہیں لیکن وہ بھی تب تک کسی بامعنی عمل کا حصہ نہیں بن سکتیں جب تک سیاسی بالغ نظری اور قوت کا مظاہرہ نہیں کرتیں۔ یہاں سیاسی قوتوں کی بصیرت کا یہ عالم ہے کہ ہر ایک نے یہ طے کر لیا ہے کہ اقتدار کے سمندر سے باہر اب زندگی کا کوئی امکان نہیں، خواہ اس کی قیمت کچھ بھی ہو۔ حالانکہ اس کی بجائے بلوچستان کی تمام سیاسی قوتوں کو چاہیے تھا کہ سب سے پہلے آپس میں مل بیٹھتے اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بجائے فکری الحاق کی بات کی جاتی۔
یہ تین نکاتی ایجنڈا بنا لیتے، جس کا یہ الگ الگ پلیٹ فارم سے رونا روتے رہے ہیں؛ اول، بلوچستان میں عسکری نوعیت کی تمام کارروائیاں فوری طور پر بند کی جائیں۔ دوم، گمشدگیوں اور لاشیں پھینکنے کا سلسلہ بند ہو، لاپتہ افراد سامنے لائے جائیں۔ سوم، متحارب قوتوں کے ساتھ گفت و شنید کا اختیار منتخب پارلیمنٹ کے حوالے کیا جائے۔ ان تینوں مطالبات پر انتخابات سے قبل عمل در آمد کو یقینی بنانے کے بعد ہی انتخابی عمل میں شرکت کا اعلان کیا جاتا۔ اور مطالبات پر عمل در آمد نہ ہونے کی صورت میں تمام سیاسی جماعتوں کو متفقہ طور پر انتخابی عمل سے الگ ہو جانا چاہیے تھا۔ اس سے ان مقتدر قوتوں پر دبائو بڑھتا ، سیاسی عمل کا تسلسل اب جن کی مجبوری بن چکا ہے۔
لیکن اس کی بجائے ہر جماعت اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنانے اور اس کے نمازیوں کی تعداد بڑھانے کی جتن کرتی رہی۔ نتیجہ یہ کہ بلوچ قوت تقسیم در تقسیم ہوتی رہی۔ نیز حالات میں بنا کسی عملی تبدیلی کے انتخابی عمل میں حصہ لینے کا اعلان کر کے سیاسی جماعتوں نے طاقت ور قوتوں کو گویا واک اوور دے دیا۔ انھیں یقین ہو چلا کہ یہ ہر صورت پرانی تنخواہ پہ کام کرنے کو تیار ہیں۔ اسی لیے انھوں نے اپنا لہجہ مزید درشت اور سخت بنا لیا۔ یہ گویا ایک طرح سے سر کو جھکائے رکھنے کا واضح پیغام تھا۔
سیاسی جماعتوں کو بلاشبہ جمہوری عمل کا حصہ بننا چاہیے لیکن کسی مقصد کے ساتھ اس میں حصہ لینے کی بجائے، محض اقتدار تک رسائی کو مقصد بنا لینا، بلوچستان میں اب سیاسی خود کشی کے مترادف ہے۔ بلوچستان بدقسمتی سے جس نہج پر آ پہنچا ہے، وہاں اب کسی قسم کی سیاسی غیر سنجیدگی کی گنجائش ہی نہیں رہی۔ اسے اب بھاری پن کی ضرورت ہے۔ ایسے جرأت مندانہ فیصلے لینے کی ضرورت ہے، جو یہاں کی قیادت کا خاصا رہا ہے۔
بزنجو صاحب کی کتاب کے آخری حصے سے جو اقتباس ہم نے شروع میں دیا تھا، اس کا عنوان انھوں نے 'آخری کوشش' رکھا ہے۔ جس کے آخر میں ان کا یہ اعتراف قابلِ غور ہے کہ اس آخری کوشش میں ناکامی کے بعد ان کے پاس بادلِ نخواستہ اپنے کامریڈز کی اس دلیل سے متفق ہونے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہمیشہ کے لیے غلامی کی زندگی کوئی بھی برداشت کر سکتا ہے، نہ کرے گا۔