اِن میں سے کوئی نہیں…
دوسری مثال‘ ترقی پذیر ممالک میں سے ہمارے برادر ملک بنگلہ دیش کی ہے …
نواز شریف نے کہا ہے کہ مہذب معاشروں میں ووٹ نہ دینا جرم ہے۔ آج ہم ببانگِ دہل اس جرم کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہم نے عمرِ عزیز کے چونتیس سال گزرنے پر بھی آج تک ووٹ نہیں ڈالا۔ اور ہم ہی نہیں، ہمارے جاننے والوں میں اکثریت ان شہریوں کی ہے، جو اس سعادت سے اب تک محروم رہے ہیں۔ ہاں! ہمارے کچھ دوست ایسے ہیں جو ووٹ کاسٹ کرتے ہیں تو وہ خود اس کا صاف اقرار کرتے ہیں کہ ہمارا ووٹ امیدوار کے امین، باکردار اور محب وطن ہونے کی بنیاد پر نہیں بلکہ لسانی و قومی بنیاد پر ڈالا گیا ہے (ان دوستوں سے معذرت)۔ بہرحال تمہید برطرف اس بار ہم نے پکا عزم کر لیا تھا کہ ہم پولنگ اسٹیشن ضرور جائیں گے۔
اور ہمارے اس عزم کے پیچھے الیکشن کمیشن کا ملکی تاریخ کا وہ انوکھا فیصلہ تھا جس میں انھوں نے بیلٹ پیپر میں ایک خانہ خالی رکھنے کا ارادہ کیا، جس سے ووٹر کو تمام امیدوار مسترد کرنے کا اختیار حاصل ہو جاتا، یعنی بار بار کے جانے پہچانے اور آزمائے چہروں کو مسترد کرنے کا حق۔ تفصیل یہ تھی کہ اگر خالی خانے میں 51 فیصد ووٹروں نے مہر لگا کر تمام امیدواروں پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا تو اس حلقے کا الیکشن کالعدم قرار دیا جائے گا اور دوبارہ انتخاب کرایا جائے گا۔ کیا زبردست فیصلہ تھا، جسے بیک زبان ہو کر تمام پارٹی سیاستدانوں نے کارِ لاحاصل قرار دیا، اس فیصلے پر طرح طرح سے پھبتیاں کسیں اور پھر یوں جمہوریت کے علمبرداروں نے جمہوریت کے نقصان کا واویلا مچا کر ایسا دباؤ ڈالا کہ یہ فیصلہ مؤخر کر نا پڑا۔
انتخابات میں بیلٹ پیپر پر ایک خانہ خالی چھوڑنا یعنی ایک خانے میں ''اِن میں سے کوئی نہیں'' (none of the above) کا نشان پاکستان کی انتخابی تاریخ میں تو بے شک ایک انوکھی بات ہو گی، لیکن دنیا کے کئی ممالک میں انتخابات میں بیلٹ پیپر میں ایک خانہ ''ان میں سے کوئی نہیں'' کا رکھا جاتا ہے، اور یہ ممالک وہ ہیں جہاں جمہوریت وہ پری ہے جو اپنے تمام حسن کے ساتھ آسمانِ سیاست میں اڑان بھرتی ہے۔ ہم یہاں صرف دو مثالیں پیش کرتے ہیں، ایک ترقی یافتہ ممالک میں سے امریکا کی کہ وہاں انتخابی بیلٹ پیپرز کے آخر میں بھی یہ خانہ موجود ہوتا ہے۔
آپ سرچ انجن گوگل پر امریکا الیکشن2012ء سرچ کر لیجیے، آپ کے سامنے2012ء کے صدارتی الیکشن کا بیلٹ پیپر آ جائے گا، آپ ملاحظہ کر لیں گے کہ بیلٹ پیپر پر مٹ رومنی اور اوباما کے خانوں کے بعد (none of the above) کا خانہ موجود ہے۔ یعنی امریکی عوام کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اگر ان دونوں کو صدارت کے اہل نہیں سمجھتے تو دونوں کو مسترد کر دیں۔ اس خانے کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مختلف سروے کرنے والی ٹیموں اور تھنک ٹینکس کو عوام میں امیدواروں کی حقیقی ''مقبولیت'' کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے۔
دوسری مثال' ترقی پذیر ممالک میں سے ہمارے برادر ملک بنگلہ دیش کی ہے ... گو بنگلہ دیش میں جمہوریت کا حال کچھ ایسا تسلی بخش نہیں، لیکن بنگلہ دیش کے انتخابی بیلٹ پیپرز کے آخر میں بھی یہ خانہ موجود ہے۔ اور اس سے بڑھ کر بنگلہ دیش کے ہر پولنگ اسٹیشن کے باہر اور اندر بنگلہ دیش الیکشن کمیشن کی جانب سے پوسٹر لگائے جاتے ہیں کہ ووٹر جس امیدوار کو ووٹ ڈالنے جا رہا ہے، کیا وہ دیانتدار ہے؟ لہٰذا ہمیشہ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ ڈالیے۔ بنگلہ دیشی الیکشن کمیشن کے ان اقدامات کی وجہ سے تمام سیاسی پارٹیوں پر یہ دباؤ ہوتا ہے کہ وہ مقابلے میں ایسے امیدوار کو کھڑا کریں جس کی شہرت اچھی ہوتی ہے۔
جب دنیا کے دوسرے ممالک میں یہ مثال موجود ہے تو پھر ہمارے ہاں اس کو تمام سیاستدانوں نے اس شدت سے رد کیوں کیا؟ آخر انھیں کس بات کا خوف ہے؟ کیا اس بات کا کہ کہیں پاکستانی عوام کی انتخابی عمل سے لاتعلقی اور تمام سیاسی مداریوں پر عدم اعتمادی کھل کر سامنے نہ آ جائے۔ اے کاش کہ یہ فیصلہ مؤخر نہ ہوتا تو ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ اس بار انتخابی نتائج سیاسی پارٹیوں کے لیے کافی حیرت انگیز ہوتے۔ موروثی سیاست کرنے والے چہروں کو لگ پتہ جاتا کہ عوام ان کی شکلوں سے کتنے بیزار ہو چکے ہیں اور ان کے دلفریب نعروں کا کیسا مضحکہ اڑاتے ہیں۔
یہ محض زور بیان نہیں بلکہ کسی بھی حلقے میں جا کر ایک سروے کر لیں، خود جان جائیں گے کہ عوام کی اکثریت کو اب کسی کے بے روح نعروں سے کوئی دلچسپی نہیں رہی ہے، جس کا ایک واضح ثبوت عوام کی اکثریت کا انتخابات سے لاتعلق رہنا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ووٹرز ٹرن آؤٹ بمشکل تمام 30 سے 35 فیصد رہتا ہے، یعنی 65 سے 70 فیصد ووٹر ووٹ ہی نہیں ڈالتے۔ جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ ہمارا شمار بھی انھی میں ہوتا ہے، کیوں کہ جب ہم پورے خلوص سے یہ سمجھتے ہیں کہ جن امیدواروں کے نام ہمارے سامنے انتخاب کے لیے پیش کیے گئے ہیں، وہ اس کے اہل نہیں تو ہم کیسے ان میں سے کسی کو سلیکٹ کر سکتے ہیں؟
اور جب پہلی بار ہمارے ملک میں ہمارے جیسی خاموش اکثریت کو یہ موقع دیا جا رہا تھا کہ ہم موجودہ سیاسی چہروں سے کھل کر بیزاری کا اظہار کر سکیں تو یہ موقع ہم سے چھین لیا گیا۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ لازمی ووٹ ڈالنے کا قانون لایا جا رہا ہے، یعنی ہر شہری اس بات کا قانوناً پابند ہو گا کہ وہ ووٹ ڈالے، اگر ایسا نہیں کرے گا تو وہ قانون کی نگاہ میں مجرم ہے جیسا کہ نواز شریف نے مہذب معاشروں کی مثال دیتے ہوئے بھی کہا، لیکن نواز شریف یہ بتائیں کہ انھوں نے مہذب معاشروں کے عوام کی مثال دی تو ہم ان سے کہتے ہیں کہ مہذب معاشرے کے سیاستدانوں کی کوئی مثال بھی تو پیش کریں اور پھر جب انتخابی بیلٹ پیپر پر خانہ خالی چھوڑنے کی مثال موجود ہے تو پھر وہ کیوں اس میں رکاوٹ بن گئے ہیں۔
اگر لازمی ووٹ کاسٹ کا قانون بنتا ہے تو کوئی ہمیں یہ بتائے گا کہ قانون کی عدالت میں مجرم بننے سے بچنے کے لیے کیا آدمی اپنے ضمیر کی عدالت میں مجرم بن سکتا ہے؟ کیا ہم قانون کی پابندی کی وجہ سے پولنگ اسٹیشن پر کھڑے ہو کر محض اپنے ضمیر کو تسلی دینے کے لیے اپنے دل میں یہ حساب کریں کہ ان میں سے کون کم برا ہے اور کون زیادہ؟ تا کہ کم برے کو ووٹ دے سکیں ... یا للعجب!