پھر بھی خوش ہیں پاکستانی
پاکستانی عوام کے حالات اپنے پڑوسی ممالک ہندوستان اور چین کے حالات سے بھی بہتر ہیں۔
KARACHI:
لیجیے، ایک مژدۂ جاں فزا آیا ہے۔
اور ذرا دیکھیے کہ کیا خبر آئی ہے کہ سُن کر آپ کا سیروں خون ہی تو بڑھ جائے گا۔ دیکھنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ کیسے دنوں میں اور کس طرح کے حالات میں یہ خبر آئی ہے۔ ایک طرف سیاسی مقتدرہ کے لوگ احتجاج کے نعرے لگاتے ہوئے عوام کو بتا رہے ہیں کہ اُن کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جارہا ہے، جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی سازش ہورہی ہے، ملکی ترقی کے پہیے کو الٹا گھمانے کی کوشش کی جارہی ہے وغیرہ۔ دوسری طرف عدلیہ کہہ رہی ہے کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں، وہ عوام کی بہتری، خوش حالی اور ملک کی ترقی کے لیے کررہے ہیں۔ ہم اب مافیا اور لٹیرے سیاست دانوں سے اس ملک اور اس کے عوام کو نجات دلانا چاہتے ہیں۔ ہم قومی اداروں کی اصلاح کرکے انھیں ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں وغیرہ۔ اور جو اُدھر دیکھیے تو فوج کو آئے دن اندرونی اور بیرونی دونوں سطحوں پر متحارب قوتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
ان کے علاوہ مذہبی جماعتیں الگ آئے دن ہمیں آپ کو بتاتی رہتی ہیں کہ دین خطرے میں ہے، دین کے خلاف تباہ کن ایجنڈے کے تحت کام ہورہا ہے۔ سازشی عناصر دینی حمیت ختم کرنے کے درپے ہیں، مذہب دشمنی کے لیے ہر روز نئے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں، تاکہ اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کو ختم کردیا جائے اور اس کے عوام پھر دشمن قوتوں کے ہاتھ میں آجائیں۔ یہ اور ایسے ہی کئی اور مسائل و مباحث آپ اور ہم روز ٹی وی چینلز پر تبصرے اور تجزیے کے پروگرامز میں سنتے اور اخبارات کے اداریوں اور کالمز میں پڑھتے ہیں۔ یہ سب باتیں اتنے تواتر اور اس قدر شدومد سے سامنے آتی ہیں کہ آپ ان سے اختلاف محسوس کرنے کے باوجود خود کو ان کے منفی اور اعصاب شکن اثر سے مکمل طور پر نہیں بچاسکتے۔
ایسے خراب اور دباؤ کے حالات میں جب آپ کو ایک اچھی خبر ملتی ہے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے گھٹن اور تھکن کے ماحول میں اچانک تازہ ہوا کا ایک جھونکا سا آگیا ہے۔ سانس بحال ہونے کی ایک صورت پیدا ہوگئی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارے جیسے سیاسی، سماجی اور قومی حالات سے دوچار لوگوں کے لیے ایسی کوئی خوش کن خبر حیات بخش ہوا کے جھونکے سے کسی طرح کم نہیں ہوتی۔ تازہ اور زیادہ مقدار میں آکسیجن پھیپھڑوں تک پہنچتی ہے تو سانس بحال اور سینہ کشادہ ہوجاتا ہے۔ پژمردگی کی کیفیت میں یک بہ یک کمی آجاتی ہے۔ اچھا لیجیے، پہلے تو اب آپ وہ خبر سنیے، باقی باتیں اُس کے بعد کرتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے زیرِاہتمام ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ 2018ء شائع ہوئی ہے، جس میں پاکستان کا نمبر 75 ہے۔ خیال رہے کہ یہ رپورٹ 156 ممالک کے متعلق تیار کی گئی ہے۔ یقیناً اب آپ جاننے کے خواہش مند ہوں گے کہ اس خبر میں خوشی کا کون سا پہلو ہے، کیوںکہ بظاہر کوئی غیرمعمولی بات تو اس میں نظر نہیں آرہی۔ جی ہاں، خوشی کا پہلو ہے، بلکہ ایک نہیں، ایک سے زیادہ ہیں۔ دیکھیے، پہلی بات تو خوشی کی یہ ہے کہ پچھلے سال پاکستان کا اس شمار قطار میں نمبر 80 تھا، جو اس بار بہتری کا نقشہ پیش کرتے ہوئے 75 ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے، اس سے لازمی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اُن سب پیمانوں کی رُو سے جن کے ذریعے اس نوع کی رپورٹس مرتب کی جاتی ہیں، پاکستان کے عوام پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال قدرے زیادہ مطمئن، آسودہ اور خوش حال ہیں۔
خوشی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس رپورٹ کے مطابق پاکستانی عوام کے حالات اپنے پڑوسی ممالک ہندوستان اور چین کے حالات سے بھی بہتر ہیں۔ اس لیے کہ ان دونوں ممالک کا نمبر اس رپورٹ میں پاکستان کے بعد آتا ہے۔ ہماری خوشی کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اس وقت جب ملک میں اداروں کے تصادم کے حالات ہیں اور سیاسی دنگل کا شور برپا ہے، امن و امان کی صورتِ حال بار بار تشویش ناک ہوئی جاتی ہے، ایسے وقت بھی پاکستان اپنے پڑوسیوں سے بہتر صورتِ حال کا نقشہ پیش کررہا ہے۔ اب ایک لمحے کو سوچیے کہ اگر یہ سب کھیل تماشا جو اِس وقت ہمارے یہاں چل رہا ہے، اگر اس میں واقعی بہتری آجائے تو ہمارا ملک کس درجہ ترقی کی منازل طے کرسکتا ہے۔
آئیے اب ذرا دیکھیں کہ یہ کہ رپورٹ کس بنیاد پر یا کن اصولوں کے تحت مرتب کی گئی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اس رپورٹ کو تیار کرنے کے لیے 6 بنیادی نکات کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے، جو کہ حسبِ ذیل ہیں:
1۔ فی کس آمدنی
2۔ اوسط عمر
3۔ سماجی تعاون
4۔ باہمی رواداری
5۔ آزادی
6۔ کرپشن
اس رپورٹ میں پاکستان کی جو بھی ریٹنگ ہوئی ہے، اس کے لیے جو کچھ بھی کہا گیا ہے اور اس کی ترقی، خوش حالی اور آسودگی کے بارے میں جو بھی بتایا جارہا ہے، بلاشبہہ کسی تأمل کے بغیر سب سے پہلے اس پر ہمیں خوش ہونا چاہیے اور طمانیت محسوس کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ یہ ایک عالمی سطح کے ادارے کا کام ہے۔ ٹھیک ہے، ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ایسے ادارے اس نوع کے کام اپنے ایک خاص ایجنڈے کے تحت کرتے ہیں اور ان کے لیے وہ اپنے کچھ اہداف بھی رکھتے ہیں۔ تاہم ملک اور قوم کے بارے میں خوش کن خبر کہیں سے آئے اور کسی بھی عنوان سے آئے، اس پر ہمیں خوشی اور طمانیت کا اظہار تو کرنا ہی چاہیے۔ سچ پوچھیے تو ہمیں ایسی خبروں کی اشد ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں حالات، معاملات، اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا سب کے سب ذہنی دباؤ کو بڑھانے اور وسوسوں اور اندیشوں کو پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ شاید ہی کوئی دن ایسا جاتا ہو کہ جب روز و شب کا نقشہ عام آدمی کے اندر مایوسی نہ پیدا کرتا ہو اور اس کے ذہن و دل میں یہ احساس نہ جاگتا ہو کہ:
محوِاندیشۂ ایام ہوئی جاتی ہے
زندگی باعثِ آلام ہوئی جاتی ہے
ایسے حالات میں اگر کسی طرف سے کوئی اچھی خبر آتی ہے، کوئی جھونکا ہوا کا آتا ہے تو واقعی جیسے سانس کی بحالی کا احساس ہی تو ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں اخبارات اور چینلز کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی ریٹنگ کے چکر میں یا عوام کو اپنے ساتھ مصروف رکھنے کی کوشش میں اس حقیقت کو بالکل فراموش کرچکے ہیں کہ بھوک اور نیند کی طرح اعصاب شکن تجربات کو سہارنے کے لیے بھی آدمی کی سکت اور ہمت اپنی ایک حد رکھتی ہے۔ اڑتالیس گھنٹے سے زیادہ کی بھوک اور نیند جس طرح آدمی کو نڈھال کرتی جاتی ہے، اسی طرح مسلسل اعصابی دباؤ بھی اسے پژمردہ کرتا چلا جاتا ہے۔ اگر یہ صورتِ حال تبدیل نہ ہو تو یہ دباؤ اس کے لیے جان لیوا حد تک تباہ کن ہوسکتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس قسم کے تجربات کی مثالیں ہمیں دنیا بھر کے ممالک اور معاشروں میں دیکھنے کو مل سکتی ہیں، لیکن اس کی جو شرح ہمارے یہاں ہے، وہ اس درجہ زیادہ ہے کہ کسی بھی مہذب قوم اور تعلیم یافتہ معاشرے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ الیکٹرونک میڈیا نے تو یوں لگتا ہے کہ اعصاب شکنی کے عمل کو جیسے ہمارا روزمرہ معمول بنا دیا ہے۔ خیر، اس موضوع پر تفصیل سے اور الگ بات کی ضرورت ہے۔ فی الحال ہم اس رپورٹ اور اس قبیل کی دوسری خبروں کے حوالے سے بالاصرار یہ کہیں گے کہ ہمارے میڈیا کے لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ ایسی خوش کن اور امید افزا اطلاعات کو بھی زیادہ سے زیادہ نشر کیا جانا چاہیے، تاکہ معاشرے میں مثبت احساس کی ترسیل بھی ممکنہ حد تک ہوسکے۔
اب جہاں تک ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ 2018ء کا تعلق ہے تو اس پر خوشی کا اظہار کرنے کے بعد ہمیں ذرا توجہ سے اور عقلی انداز میں اس پر غور بھی کرنا چاہیے۔ جیسا کہ بتایا گیا کہ یہ رپورٹ چھے فیکٹرز کو پیشِ نظر رکھ کر بنائی گئی ہے، جن کا ذکر ہم اس گفتگو کے ابتدائی حصے میں کرچکے ہیں۔ اب اگر ہم دیکھیں تو ان میں سے پہلے دو فیکٹرز وہ ہیں جن کے بارے میں خود ہمارے قومی اداروں کا تیارکردہ ڈیٹا بھی کسی حد تک ہمیں مل جائے گا۔ علاوہ ازیں دنیا کے دوسرے بڑے معاشی ادارے (جیسے یو این ڈی پی اور ورلڈ بینک وغیرہ) بھی ان فیکٹرز کے حوالے سے اپنا ڈیٹا نہ صرف تیار کرتے رہتے ہیں، بلکہ اُسے اَپ ڈیٹ بھی کیا جاتا ہے۔ اس طرح ہم اس رپورٹ میں دیے گئے اعدادوشمار کی درستی کا اندازہ ان کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے باآسانی لگا سکتے ہیں۔
اس مرحلے پر یہ بات بھی ہمیں واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ آج ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں، اُس میں فرد ہو یا قوم، ملک ہو یا معاشرہ، اب کسی کی بھی پرائیویٹ لائف اُس طرح ممکن نہیں ہے جس طرح چند دہائی پہلے ہوسکتی تھی۔ سوشل میڈیا اب آہنی پردوں کے پیچھے سے وہ خبریں اور حقائق بھی نکال کر لے جاتا ہے کہ جن کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس کے ثبوت کے لیے امریکا کے ڈونلڈ ٹرمپ اور جرمنی کی اینجلا مرکل جیسی شخصیات کی پرائیویٹ لائف کے معاملات و مسائل کے منظرِ عام پر آنے سے آپ اس بات کی اہمیت اور مسئلے کی نوعیت کو ذرا سہولت سے سمجھ سکتے ہیں۔ اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ آج فرد ہو یا قوم اپنے حقائق اور احوال پر مکمل طور سے اور دیر تک پردہ ڈالنے سے قاصر ہے۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے، اُس کا ریکارڈ بہرحال کہیں نہ کہیں مرتب ہورہا ہے اور جب ضرورت ہوگی، وہ ریکارڈ سامنے بھی آجائے گا۔ اس لیے کوئی بھی رپورٹ خواہ وہ کسی فرد نے ترتیب دی ہو یا ادارے نے حقیقت کے برخلاف بہت زیادہ نہیں ہوسکتی۔ تھوڑا بہت تناسب گڑبڑ ہوسکتا ہے، لیکن کوئی رپورٹ مکمل غلط یا گمراہ کن ہو، ایسا ممکن نہیں ہے۔ دوسرے اداروں کے اس نوع کے کام سے تقابلی جائزے کے ذریعے فی الفور اُس کی حقیقت اور اصلیت واضح ہوجاتی ہے۔
ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ نے پہلے دو فیکٹرز کے جو اعداد و شمار دیے ہیں، ان کا موازنہ یو این ڈی پی اور ورلڈ بینک وغیرہ کی رپورٹ سے کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُس میں حقیقت کے قریب ہی رہنے کی کوشش کی گئی ہے۔ البتہ باقی چار فیکٹرز ایک حد تک اضافی یا relative نظر آتے ہیں۔ ایسا اس رپورٹ میں پیش کیے گئے اعدادوشمار کی وجہ سے نہیں کہا جارہا، بلکہ ان کی نوعیت ہی ایسی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ فیکٹرز کمیّت سے نہیں، کیفیت سے تعلق رکھتے ہیں۔
اب جہاں تک پہلے دو فیکٹرز کی بات ہے، تو اُن کا تعلق حکومتی منصوبہ بندی، لائحۂ عمل اور اقدامات سے ہوتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ ان کا انحصار حکومت اور اُس کی پالیسیز پر ہے کہ وہ اپنی معیشت کو کس طرح بہتری کی طرف لاتی ہے، ملکی درآمدات اور برآمدات میں کس طرح توازن پیدا کرتی ہے کہ اُس کے اثرات عام آدمی کی زندگی میں ظاہر ہوں۔ اس کے لیے سب سے بڑا پیمانہ ہے، فی کس آمدنی۔ رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ اس وقت پاکستان میں فی کس آمدنی 1441 ڈالر ہے۔ اس کے مقابلے ہم ہندوستان میں دیکھیں تو وہ 1852 ڈالر ہے اور چین میں 8583 ڈالر ہے۔ یہ تو ہوا پہلا فیکٹر، اب لگے ہاتھوں دوسرا بھی دیکھ لیجیے۔ پاکستان میں اوسط عمر کا تخمینہ (بوقتِ ولادت) 66 سال ہے۔ ہندوستان میں 68 سال، جب کہ چین میں 76 سال ہے۔
ان دو فیکٹرز کے اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو پاکستان اپنے دونوں ہمسایہ ممالک چین اور ہندوستان سے بہتر حالات میں نظر نہیں آتا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان دونوں اور خصوصاً چین سے تو نمایاں طور سے پیچھے ہے۔ اس کے اور چین کے درمیان جو فاصلہ اعداد و شمار دکھا رہے ہیں، وہ تو برسوں، بلکہ دہائیوں میں بھی برابر ہوجائے تو پاکستان کی آئندہ نسلوں کے دن پِھر جائیں گے، خاص طور سے فی کس آمدنی کے تناسب سے۔ اب سوال یہ ہے کہ پھر پاکستان کو اس رپورٹ میں چین اور ہندوستان سے زیادہ خوش حال ملک کس بنیاد پر قرار دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے، اس کی بنیاد آخری چار فیکٹرز ہیں۔ جیسا کہ ہم نے گذشتہ سطور میں عرض کیا کہ ان آخری چار فیکٹرز کا تعلق کمیّت سے نہیں، بلکہ کیفیت سے ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ اگر پاکستان کے لوگ خوش، مطمئن اور آسودہ نظر آتے ہیں تو اس وجہ سے نہیں کہ سیاسی حکومتوں کے اقدامات نے اس ملک کے عوام کی تقدیر بدل دی ہے۔ چناںچہ اب اُن کے دن پھر گئے ہیں اور ملک میں ہن برس رہا ہے۔ نہیں، ایسا کچھ نہیں ہے۔ سیاسی رہنماؤں نے تو ملک کی کشتی ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس کے باوجود یہ ملک بچا ہوا ہے اور چل رہا ہے تو یہ اللہ کا سہارا ہے اور اس کے عوام کی سخت جانی۔
اللہ کا سہارا تو صاف سمجھ میں آتا ہے، سو اُس کے بارے میں کچھ کہنے سننے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ البتہ عوام کی سخت جانی پر ہم ضرور بات کرتے ہیں۔ دیکھیے اگر حالات کی خرابی، ذہنی دباؤ، اداروں کے ٹکراؤ، بجلی پانی کے مسائل، فی کس آمدنی کی اس درجہ کمی کہ آبادی کا ایک بڑا تناسب خطِ غربت سے نیچے ہے، اس کے باوجود عوام اپنے ملک سے مایوس نہیں اور نہ ہی اپنے اہلِ اقتدار اور سیاسی راہ نماؤں کو کوستے ہیں۔ اِس کا مطلب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ اُن کے اندر امید کی کرن ابھی جاگتی ہے۔ انھیں پورا یقین ہے کہ اُن کے حالات ضرور سنوریں گے، اور ملک میں لازماً بہتری آئے گی۔ زندگی کو جن حالات اور مسائل کے ساتھ انھوں نے گزارا ہے، اُن کی آئندہ نسلیں ضرور اُن سے چھٹکارا پالیں گی۔ یہ سخت جانی دراصل ایک امید، ایک یقین کی پیدا کردہ ہے۔ بہ قول شاعر:
ایک امید مگر مجھ کو سنبھالے ہوئے
وقت ویسے تو خوش آثار نہیں ہے کوئی
اب ذرا سوچیے کہ آخر یہ امید کیا ہے اور کیوں ہے؟ یہ امید دراصل وطنِ عزیز سے اس کے عوام کی غیرمشروط اور غیر متزلزل محبت ہے۔ حالات کی خرابی، سیاست دانوں کی بدقماشی، اشرافیہ کی بے مہری- یہ سب اپنی جگہ، لیکن عوام کے دلوں میں اس ملک سے جو سچی، گہری اور کبھی ختم نہ ہونے والی محبت ہے، وہ اس قدر توانا ہے کہ جب اظہار کی سطح پر آتی ہے، قمقمے روشن کردیتی ہے۔ یہی وہ کیفیت ہے جو اس رپورٹ کے آخری چار فیکٹرز میں عوام کے اطمینان، آسودگی اور خوشی کا ایسا گراف سامنے لاتی ہے کہ ہندوستان تو چھوڑیے نئی عالمی طاقت بن کر ابھرنے والا چین بھی اس دوڑ میں اس سے پیچھے رہ جاتا ہے۔ عوام کے دلوں میں جب تک یہ محبت قائم ہے، پاکستان کو کوئی طاقت مٹا سکتی ہے اور نہ ہی مایوسی کے اندھیرے غار میں دھکیل سکتی ہے۔
لیجیے، ایک مژدۂ جاں فزا آیا ہے۔
اور ذرا دیکھیے کہ کیا خبر آئی ہے کہ سُن کر آپ کا سیروں خون ہی تو بڑھ جائے گا۔ دیکھنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ کیسے دنوں میں اور کس طرح کے حالات میں یہ خبر آئی ہے۔ ایک طرف سیاسی مقتدرہ کے لوگ احتجاج کے نعرے لگاتے ہوئے عوام کو بتا رہے ہیں کہ اُن کے حقوق پر ڈاکا ڈالا جارہا ہے، جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی سازش ہورہی ہے، ملکی ترقی کے پہیے کو الٹا گھمانے کی کوشش کی جارہی ہے وغیرہ۔ دوسری طرف عدلیہ کہہ رہی ہے کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں، وہ عوام کی بہتری، خوش حالی اور ملک کی ترقی کے لیے کررہے ہیں۔ ہم اب مافیا اور لٹیرے سیاست دانوں سے اس ملک اور اس کے عوام کو نجات دلانا چاہتے ہیں۔ ہم قومی اداروں کی اصلاح کرکے انھیں ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتے ہیں وغیرہ۔ اور جو اُدھر دیکھیے تو فوج کو آئے دن اندرونی اور بیرونی دونوں سطحوں پر متحارب قوتوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
ان کے علاوہ مذہبی جماعتیں الگ آئے دن ہمیں آپ کو بتاتی رہتی ہیں کہ دین خطرے میں ہے، دین کے خلاف تباہ کن ایجنڈے کے تحت کام ہورہا ہے۔ سازشی عناصر دینی حمیت ختم کرنے کے درپے ہیں، مذہب دشمنی کے لیے ہر روز نئے ہتھکنڈے استعمال کیے جارہے ہیں، تاکہ اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کو ختم کردیا جائے اور اس کے عوام پھر دشمن قوتوں کے ہاتھ میں آجائیں۔ یہ اور ایسے ہی کئی اور مسائل و مباحث آپ اور ہم روز ٹی وی چینلز پر تبصرے اور تجزیے کے پروگرامز میں سنتے اور اخبارات کے اداریوں اور کالمز میں پڑھتے ہیں۔ یہ سب باتیں اتنے تواتر اور اس قدر شدومد سے سامنے آتی ہیں کہ آپ ان سے اختلاف محسوس کرنے کے باوجود خود کو ان کے منفی اور اعصاب شکن اثر سے مکمل طور پر نہیں بچاسکتے۔
ایسے خراب اور دباؤ کے حالات میں جب آپ کو ایک اچھی خبر ملتی ہے تو یوں لگتا ہے کہ جیسے گھٹن اور تھکن کے ماحول میں اچانک تازہ ہوا کا ایک جھونکا سا آگیا ہے۔ سانس بحال ہونے کی ایک صورت پیدا ہوگئی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ہمارے جیسے سیاسی، سماجی اور قومی حالات سے دوچار لوگوں کے لیے ایسی کوئی خوش کن خبر حیات بخش ہوا کے جھونکے سے کسی طرح کم نہیں ہوتی۔ تازہ اور زیادہ مقدار میں آکسیجن پھیپھڑوں تک پہنچتی ہے تو سانس بحال اور سینہ کشادہ ہوجاتا ہے۔ پژمردگی کی کیفیت میں یک بہ یک کمی آجاتی ہے۔ اچھا لیجیے، پہلے تو اب آپ وہ خبر سنیے، باقی باتیں اُس کے بعد کرتے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے زیرِاہتمام ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ 2018ء شائع ہوئی ہے، جس میں پاکستان کا نمبر 75 ہے۔ خیال رہے کہ یہ رپورٹ 156 ممالک کے متعلق تیار کی گئی ہے۔ یقیناً اب آپ جاننے کے خواہش مند ہوں گے کہ اس خبر میں خوشی کا کون سا پہلو ہے، کیوںکہ بظاہر کوئی غیرمعمولی بات تو اس میں نظر نہیں آرہی۔ جی ہاں، خوشی کا پہلو ہے، بلکہ ایک نہیں، ایک سے زیادہ ہیں۔ دیکھیے، پہلی بات تو خوشی کی یہ ہے کہ پچھلے سال پاکستان کا اس شمار قطار میں نمبر 80 تھا، جو اس بار بہتری کا نقشہ پیش کرتے ہوئے 75 ہوگیا ہے۔ ظاہر ہے، اس سے لازمی طور پر ثابت ہوتا ہے کہ اُن سب پیمانوں کی رُو سے جن کے ذریعے اس نوع کی رپورٹس مرتب کی جاتی ہیں، پاکستان کے عوام پچھلے سال کے مقابلے میں اس سال قدرے زیادہ مطمئن، آسودہ اور خوش حال ہیں۔
خوشی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس رپورٹ کے مطابق پاکستانی عوام کے حالات اپنے پڑوسی ممالک ہندوستان اور چین کے حالات سے بھی بہتر ہیں۔ اس لیے کہ ان دونوں ممالک کا نمبر اس رپورٹ میں پاکستان کے بعد آتا ہے۔ ہماری خوشی کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ اس وقت جب ملک میں اداروں کے تصادم کے حالات ہیں اور سیاسی دنگل کا شور برپا ہے، امن و امان کی صورتِ حال بار بار تشویش ناک ہوئی جاتی ہے، ایسے وقت بھی پاکستان اپنے پڑوسیوں سے بہتر صورتِ حال کا نقشہ پیش کررہا ہے۔ اب ایک لمحے کو سوچیے کہ اگر یہ سب کھیل تماشا جو اِس وقت ہمارے یہاں چل رہا ہے، اگر اس میں واقعی بہتری آجائے تو ہمارا ملک کس درجہ ترقی کی منازل طے کرسکتا ہے۔
آئیے اب ذرا دیکھیں کہ یہ کہ رپورٹ کس بنیاد پر یا کن اصولوں کے تحت مرتب کی گئی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ اس رپورٹ کو تیار کرنے کے لیے 6 بنیادی نکات کو پیشِ نظر رکھا گیا ہے، جو کہ حسبِ ذیل ہیں:
1۔ فی کس آمدنی
2۔ اوسط عمر
3۔ سماجی تعاون
4۔ باہمی رواداری
5۔ آزادی
6۔ کرپشن
اس رپورٹ میں پاکستان کی جو بھی ریٹنگ ہوئی ہے، اس کے لیے جو کچھ بھی کہا گیا ہے اور اس کی ترقی، خوش حالی اور آسودگی کے بارے میں جو بھی بتایا جارہا ہے، بلاشبہہ کسی تأمل کے بغیر سب سے پہلے اس پر ہمیں خوش ہونا چاہیے اور طمانیت محسوس کرنی چاہیے۔ اس لیے کہ یہ ایک عالمی سطح کے ادارے کا کام ہے۔ ٹھیک ہے، ہمیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ایسے ادارے اس نوع کے کام اپنے ایک خاص ایجنڈے کے تحت کرتے ہیں اور ان کے لیے وہ اپنے کچھ اہداف بھی رکھتے ہیں۔ تاہم ملک اور قوم کے بارے میں خوش کن خبر کہیں سے آئے اور کسی بھی عنوان سے آئے، اس پر ہمیں خوشی اور طمانیت کا اظہار تو کرنا ہی چاہیے۔ سچ پوچھیے تو ہمیں ایسی خبروں کی اشد ضرورت ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں حالات، معاملات، اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا سب کے سب ذہنی دباؤ کو بڑھانے اور وسوسوں اور اندیشوں کو پھیلانے میں لگے ہوئے ہیں۔ شاید ہی کوئی دن ایسا جاتا ہو کہ جب روز و شب کا نقشہ عام آدمی کے اندر مایوسی نہ پیدا کرتا ہو اور اس کے ذہن و دل میں یہ احساس نہ جاگتا ہو کہ:
محوِاندیشۂ ایام ہوئی جاتی ہے
زندگی باعثِ آلام ہوئی جاتی ہے
ایسے حالات میں اگر کسی طرف سے کوئی اچھی خبر آتی ہے، کوئی جھونکا ہوا کا آتا ہے تو واقعی جیسے سانس کی بحالی کا احساس ہی تو ہوتا ہے۔ ہمارے یہاں اخبارات اور چینلز کا ایک بہت بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ اپنی ریٹنگ کے چکر میں یا عوام کو اپنے ساتھ مصروف رکھنے کی کوشش میں اس حقیقت کو بالکل فراموش کرچکے ہیں کہ بھوک اور نیند کی طرح اعصاب شکن تجربات کو سہارنے کے لیے بھی آدمی کی سکت اور ہمت اپنی ایک حد رکھتی ہے۔ اڑتالیس گھنٹے سے زیادہ کی بھوک اور نیند جس طرح آدمی کو نڈھال کرتی جاتی ہے، اسی طرح مسلسل اعصابی دباؤ بھی اسے پژمردہ کرتا چلا جاتا ہے۔ اگر یہ صورتِ حال تبدیل نہ ہو تو یہ دباؤ اس کے لیے جان لیوا حد تک تباہ کن ہوسکتا ہے۔ یہ سچ ہے کہ اس قسم کے تجربات کی مثالیں ہمیں دنیا بھر کے ممالک اور معاشروں میں دیکھنے کو مل سکتی ہیں، لیکن اس کی جو شرح ہمارے یہاں ہے، وہ اس درجہ زیادہ ہے کہ کسی بھی مہذب قوم اور تعلیم یافتہ معاشرے میں اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ الیکٹرونک میڈیا نے تو یوں لگتا ہے کہ اعصاب شکنی کے عمل کو جیسے ہمارا روزمرہ معمول بنا دیا ہے۔ خیر، اس موضوع پر تفصیل سے اور الگ بات کی ضرورت ہے۔ فی الحال ہم اس رپورٹ اور اس قبیل کی دوسری خبروں کے حوالے سے بالاصرار یہ کہیں گے کہ ہمارے میڈیا کے لوگوں کو سمجھنا چاہیے کہ ایسی خوش کن اور امید افزا اطلاعات کو بھی زیادہ سے زیادہ نشر کیا جانا چاہیے، تاکہ معاشرے میں مثبت احساس کی ترسیل بھی ممکنہ حد تک ہوسکے۔
اب جہاں تک ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ 2018ء کا تعلق ہے تو اس پر خوشی کا اظہار کرنے کے بعد ہمیں ذرا توجہ سے اور عقلی انداز میں اس پر غور بھی کرنا چاہیے۔ جیسا کہ بتایا گیا کہ یہ رپورٹ چھے فیکٹرز کو پیشِ نظر رکھ کر بنائی گئی ہے، جن کا ذکر ہم اس گفتگو کے ابتدائی حصے میں کرچکے ہیں۔ اب اگر ہم دیکھیں تو ان میں سے پہلے دو فیکٹرز وہ ہیں جن کے بارے میں خود ہمارے قومی اداروں کا تیارکردہ ڈیٹا بھی کسی حد تک ہمیں مل جائے گا۔ علاوہ ازیں دنیا کے دوسرے بڑے معاشی ادارے (جیسے یو این ڈی پی اور ورلڈ بینک وغیرہ) بھی ان فیکٹرز کے حوالے سے اپنا ڈیٹا نہ صرف تیار کرتے رہتے ہیں، بلکہ اُسے اَپ ڈیٹ بھی کیا جاتا ہے۔ اس طرح ہم اس رپورٹ میں دیے گئے اعدادوشمار کی درستی کا اندازہ ان کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے باآسانی لگا سکتے ہیں۔
اس مرحلے پر یہ بات بھی ہمیں واضح طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ آج ہم جس دنیا میں سانس لے رہے ہیں، اُس میں فرد ہو یا قوم، ملک ہو یا معاشرہ، اب کسی کی بھی پرائیویٹ لائف اُس طرح ممکن نہیں ہے جس طرح چند دہائی پہلے ہوسکتی تھی۔ سوشل میڈیا اب آہنی پردوں کے پیچھے سے وہ خبریں اور حقائق بھی نکال کر لے جاتا ہے کہ جن کا پہلے تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس کے ثبوت کے لیے امریکا کے ڈونلڈ ٹرمپ اور جرمنی کی اینجلا مرکل جیسی شخصیات کی پرائیویٹ لائف کے معاملات و مسائل کے منظرِ عام پر آنے سے آپ اس بات کی اہمیت اور مسئلے کی نوعیت کو ذرا سہولت سے سمجھ سکتے ہیں۔ اس کا صاف صاف مطلب یہ ہے کہ آج فرد ہو یا قوم اپنے حقائق اور احوال پر مکمل طور سے اور دیر تک پردہ ڈالنے سے قاصر ہے۔ کوئی چاہے یا نہ چاہے، اُس کا ریکارڈ بہرحال کہیں نہ کہیں مرتب ہورہا ہے اور جب ضرورت ہوگی، وہ ریکارڈ سامنے بھی آجائے گا۔ اس لیے کوئی بھی رپورٹ خواہ وہ کسی فرد نے ترتیب دی ہو یا ادارے نے حقیقت کے برخلاف بہت زیادہ نہیں ہوسکتی۔ تھوڑا بہت تناسب گڑبڑ ہوسکتا ہے، لیکن کوئی رپورٹ مکمل غلط یا گمراہ کن ہو، ایسا ممکن نہیں ہے۔ دوسرے اداروں کے اس نوع کے کام سے تقابلی جائزے کے ذریعے فی الفور اُس کی حقیقت اور اصلیت واضح ہوجاتی ہے۔
ورلڈ ہیپی نیس رپورٹ نے پہلے دو فیکٹرز کے جو اعداد و شمار دیے ہیں، ان کا موازنہ یو این ڈی پی اور ورلڈ بینک وغیرہ کی رپورٹ سے کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ اُس میں حقیقت کے قریب ہی رہنے کی کوشش کی گئی ہے۔ البتہ باقی چار فیکٹرز ایک حد تک اضافی یا relative نظر آتے ہیں۔ ایسا اس رپورٹ میں پیش کیے گئے اعدادوشمار کی وجہ سے نہیں کہا جارہا، بلکہ ان کی نوعیت ہی ایسی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ فیکٹرز کمیّت سے نہیں، کیفیت سے تعلق رکھتے ہیں۔
اب جہاں تک پہلے دو فیکٹرز کی بات ہے، تو اُن کا تعلق حکومتی منصوبہ بندی، لائحۂ عمل اور اقدامات سے ہوتا ہے۔ مراد یہ ہے کہ ان کا انحصار حکومت اور اُس کی پالیسیز پر ہے کہ وہ اپنی معیشت کو کس طرح بہتری کی طرف لاتی ہے، ملکی درآمدات اور برآمدات میں کس طرح توازن پیدا کرتی ہے کہ اُس کے اثرات عام آدمی کی زندگی میں ظاہر ہوں۔ اس کے لیے سب سے بڑا پیمانہ ہے، فی کس آمدنی۔ رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ اس وقت پاکستان میں فی کس آمدنی 1441 ڈالر ہے۔ اس کے مقابلے ہم ہندوستان میں دیکھیں تو وہ 1852 ڈالر ہے اور چین میں 8583 ڈالر ہے۔ یہ تو ہوا پہلا فیکٹر، اب لگے ہاتھوں دوسرا بھی دیکھ لیجیے۔ پاکستان میں اوسط عمر کا تخمینہ (بوقتِ ولادت) 66 سال ہے۔ ہندوستان میں 68 سال، جب کہ چین میں 76 سال ہے۔
ان دو فیکٹرز کے اعداد و شمار کی روشنی میں دیکھا جائے تو پاکستان اپنے دونوں ہمسایہ ممالک چین اور ہندوستان سے بہتر حالات میں نظر نہیں آتا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ان دونوں اور خصوصاً چین سے تو نمایاں طور سے پیچھے ہے۔ اس کے اور چین کے درمیان جو فاصلہ اعداد و شمار دکھا رہے ہیں، وہ تو برسوں، بلکہ دہائیوں میں بھی برابر ہوجائے تو پاکستان کی آئندہ نسلوں کے دن پِھر جائیں گے، خاص طور سے فی کس آمدنی کے تناسب سے۔ اب سوال یہ ہے کہ پھر پاکستان کو اس رپورٹ میں چین اور ہندوستان سے زیادہ خوش حال ملک کس بنیاد پر قرار دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے، اس کی بنیاد آخری چار فیکٹرز ہیں۔ جیسا کہ ہم نے گذشتہ سطور میں عرض کیا کہ ان آخری چار فیکٹرز کا تعلق کمیّت سے نہیں، بلکہ کیفیت سے ہے۔ مطلب اس کا یہ ہے کہ اگر پاکستان کے لوگ خوش، مطمئن اور آسودہ نظر آتے ہیں تو اس وجہ سے نہیں کہ سیاسی حکومتوں کے اقدامات نے اس ملک کے عوام کی تقدیر بدل دی ہے۔ چناںچہ اب اُن کے دن پھر گئے ہیں اور ملک میں ہن برس رہا ہے۔ نہیں، ایسا کچھ نہیں ہے۔ سیاسی رہنماؤں نے تو ملک کی کشتی ڈبونے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس کے باوجود یہ ملک بچا ہوا ہے اور چل رہا ہے تو یہ اللہ کا سہارا ہے اور اس کے عوام کی سخت جانی۔
اللہ کا سہارا تو صاف سمجھ میں آتا ہے، سو اُس کے بارے میں کچھ کہنے سننے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ البتہ عوام کی سخت جانی پر ہم ضرور بات کرتے ہیں۔ دیکھیے اگر حالات کی خرابی، ذہنی دباؤ، اداروں کے ٹکراؤ، بجلی پانی کے مسائل، فی کس آمدنی کی اس درجہ کمی کہ آبادی کا ایک بڑا تناسب خطِ غربت سے نیچے ہے، اس کے باوجود عوام اپنے ملک سے مایوس نہیں اور نہ ہی اپنے اہلِ اقتدار اور سیاسی راہ نماؤں کو کوستے ہیں۔ اِس کا مطلب اس کے سوا کیا ہوسکتا ہے کہ اُن کے اندر امید کی کرن ابھی جاگتی ہے۔ انھیں پورا یقین ہے کہ اُن کے حالات ضرور سنوریں گے، اور ملک میں لازماً بہتری آئے گی۔ زندگی کو جن حالات اور مسائل کے ساتھ انھوں نے گزارا ہے، اُن کی آئندہ نسلیں ضرور اُن سے چھٹکارا پالیں گی۔ یہ سخت جانی دراصل ایک امید، ایک یقین کی پیدا کردہ ہے۔ بہ قول شاعر:
ایک امید مگر مجھ کو سنبھالے ہوئے
وقت ویسے تو خوش آثار نہیں ہے کوئی
اب ذرا سوچیے کہ آخر یہ امید کیا ہے اور کیوں ہے؟ یہ امید دراصل وطنِ عزیز سے اس کے عوام کی غیرمشروط اور غیر متزلزل محبت ہے۔ حالات کی خرابی، سیاست دانوں کی بدقماشی، اشرافیہ کی بے مہری- یہ سب اپنی جگہ، لیکن عوام کے دلوں میں اس ملک سے جو سچی، گہری اور کبھی ختم نہ ہونے والی محبت ہے، وہ اس قدر توانا ہے کہ جب اظہار کی سطح پر آتی ہے، قمقمے روشن کردیتی ہے۔ یہی وہ کیفیت ہے جو اس رپورٹ کے آخری چار فیکٹرز میں عوام کے اطمینان، آسودگی اور خوشی کا ایسا گراف سامنے لاتی ہے کہ ہندوستان تو چھوڑیے نئی عالمی طاقت بن کر ابھرنے والا چین بھی اس دوڑ میں اس سے پیچھے رہ جاتا ہے۔ عوام کے دلوں میں جب تک یہ محبت قائم ہے، پاکستان کو کوئی طاقت مٹا سکتی ہے اور نہ ہی مایوسی کے اندھیرے غار میں دھکیل سکتی ہے۔