تمہیں کینسر ہے۔۔۔
مریض کوآدھا مار دینے والے اس جملے کے خوف سے ہم کب آزاد ہوں گے؟
SYDNEY:
چند روز پہلے دفتر کی ایک ساتھی نے جلد چھٹی کی اجازت چاہی جس کی وجہ انہوں نے اپنی کسی قریبی دوست کو چھاتی کا سرطان ہونا اور عیادت کے لئے ان کے گھر جانا بتائی۔ اگلے روز جب رفیقِ کار سے ملاقات ہوئی تو اُن کی دوست کی طبیعت کے بارے میں دریافت کرنے پر جو حقائق سامنے آئے وہ یقیناً ہمارے معاشرے میں کینسر کی آگہی اور اُن تمام سماجی اور ثقافتی رویوں کا اظہار کر رہے ہیں جن میں ہم جکڑے ہوئے ہیں۔
جس خاتون کی عیادت کرنے کے لئے میری ساتھی ان کے گھر گئیں وہ گھر میں ہونے کے باوجود اُن سے نہ ملیں۔ یہ سن کر بہت حیرت ہوئی کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا۔ ساتھی نے بتایا کہ اُنھوں نے گھر والوں کے طرزعمل سے یہ بات واضح طور پر محسوس کی کہ مریضہ اور اُس کے لواحقین بیماری کی نوعیت کو چھپانا چاہ رہے تھے۔ اس لئے وہ خودکسی سے نہیں ملتی اور اُس کے گھر والے بھی ایسا ہی چاہتے تھے۔ مزید جاننے پر پتا چلا کہ مریضہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت ہی اچھے سکول میں پڑھاتی ہیں۔ لیکن اپنے مرض کے بارے میں آگہی کی کمی کے باعث اُس کی سنگینی کا بروقت اندازہ نہ کر سکیں۔ اور ثقافتی پس منظر کی وجہ سے اپنا مسئلہ کسی سے شئیر بھی نہیں کیا حتیٰ کہ شوہر سے بھی یہ بات انھوں نے چھپائی۔
جب طبیعت زیادہ خراب رہنے لگی تو گھر والوں نے زور دینا شروع کیا کہ ڈاکٹر کو دکھا یا جائے۔ تشخیص کے مراحل سے ہوتے ہوئے جب یہ بات سامنے آئی کہ اُنھیں چھاتی کا کینسر ہے اور وہ بھی ابتدائی درجات سے آگے بڑھ چکا ہے اور فوری علاج کی ضرورت ہے۔ تو خاتون نے ڈاکٹری علاج کروانے سے انکار کردیا۔ اس تمام صورتحال کا سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ خاتون کا شوہر اب اُسے اپنے گھر لے کر جانے سے کترا رہا ہے اور لڑکی کو اُس کے ماںباپ کے گھر چھوڑا ہوا ہے۔
یہ ساری تفصیل جان کر احساس ہوا کہ ہم پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بھی کئی ایک باتوں میں اب بھی جہالت کا مظاہرہ کر دیتے ہیں۔ یہ ہماری جہالت ہی ہے کہ ہم اپنے جسم اور اس کے افعال میں ہونے والی کسی بھی غیر معمول تبدیلی کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ ہم اکثر ایسی چیزوں کو کسی سے شئیر بھی نہیں کرتے۔ ڈاکٹر کے پاس جانے میں عموماً دیر کر دیتے ہیں اور ڈاکٹری علاج کو اپنی سب سے آخری ترجیح پر رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے ٹوٹکوں اور عطائیوں کے چکر میں پڑے رہتے ہیں(جو کینسر کے مرض میں توکسی بھی طرح گوارا نہیں کیا جا سکتا ) اور اگر خدانخواستہ کوئی سنگین بیماری جیسا کہ کینسر تشخیص ہو جائے تو ہم مریض کو سماجی طور پر تنہا کر دیتے ہیں اور اپنے رویوں سے کینسر کے مرض کا سن کر یعنی'' تمہیں کینسر ہے'' اس جملے کے خوف سے پہلے ہی آدھے مرے ہوئے مریض کو پورا ماردیتے ہیں۔ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے۔
جبکہ لوگوں کو کینسر جیسے مرض سے بچائو کے بارے میں آگاہی کی فراہمی، سرطان کے علاج و معالجے کی سہولیات کی دستیابی، کینسر کے مریضوں کی دیکھ بھال کے انتظامات اور ان سب کے بارے میں موثر منصوبہ بندی پر مبنی پالیسیوں کی تیاری اور اطلاق تصویر کا دوسرا رخ ہے۔ اس رخ کو اجاگر کرنا اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ بہتری کی تدابیر ہو سکیں اور7 اپریل کو دنیا بھر میں صحت کے منائے جانے والے عالمی دن جس کے لئے اِمسال ''صحت کی سہولیات کی عالمگیر رسائی۔۔۔ سب کے لئے ہر جگہ'' کا عنوان(Theme) اور '' صحت سب کے لئے'' کا نعرہ (Slogan) تجویز کیا گیا ہے ۔ اس کی مناسبت سے ملک میں کینسر جیسے نظر انداز ہونے والے شعبے کی جانب اربابِ اختیار کی توجہ مبذول کرائی جا سکے۔
ماہرین کے مطابق کینسر سے بچائو اور علاج کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ کینسر کے اعدادوشمار کے مختلف پہلوئوں کے اندراج کا مربوط نظام واضع کیا جائے جسے کینسر رجسٹری کہا جاتا ہے۔ افسوس اب تک ہمارے پاس قومی سطح پر کوئی ایسا نظام موجود نہیں جس کی مدد سے ملک میں کینسر کے مرض کی حقیقی صورتحال معلوم ہو سکے اور کینسر کی جامع پالیسیاں مرتب کی جا سکیں۔
اگر چہ وفاقی وزارت ہیلتھ سروسز، ریگو لیشن اینڈ کوآرڈینیشن نے پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل کو یہ ذمہ داری تفویض کی ہے کہ وہ ملک کے نمایاں سرکاری اور نجی ہسپتالوں کے ڈیٹا پر مبنی کینسر رجسٹری قائم کرے۔ کونسل کی ویب سائیٹ پر موجود معلومات کے مطابق اب تک 8 ہسپتال جن میں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کراچی، سول ہسپتال کراچی، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کراچی، نشتر ہسپتال ملتان، الائیڈ ہسپتال فیصل آباد، بولان ہسپتال کوئٹہ، خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاوراور آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف پیتھالوجی راولپنڈی سہ ماہی بنیادوں پر کونسل کو مئی2015 سے اعداد وشمار بھیج رہے ہیں لیکن یہ اعداد وشمار پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل کی ویب سائٹ پر دستیاب نہیں۔ اس لئے کینسر کے نئے کیسز اور اموات اور دیگر پہلوئوں کے حتمی اعداد وشمار بتانا مشکل ہے۔
تاہم اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کی انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر نے کینسر کے نئے کیسز، اموات اورPrevalence کے حوالے سے دنیا کے184 ممالک کے تخمینوں (Estimates) پر مبنی اعداد وشمار2012 میں جاری کئے تھے۔ جن کے مطابق مذکورہ سال پاکستان میں ایک لاکھ 48 ہزار افراد کینسر کا شکار ہوئے۔ ان تخمینوں کے تجزیہ کے مطابق کینسر کے نئے کیسز کی تعداد کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں 16 ویں نمبر پر تھا ۔ملک میں مردوں کی نسبت خواتین زیادہ کینسر کا شکار ہوئیں جوکہ کینسر کے تمام نئے مریضوں کے 57 فیصد حصہ پر مشتمل تھیں ۔2012 میں ملک میں 84 ہزار 5 سو90 خواتین کے نئے کیسز سامنے آئے یوں خو اتین کا نئے کیسز کے حوالے سے عالمی درجہ بندی میں وطنِ عزیز 15 ویں نمبر پر تھا۔ جبکہ مردوں کی اس تناظر میں درجہ بندی میں ہمارا 21 واں نمبر تھا اور ملک میں63 ہزار 4 سو 51 مرد کینسر کا شکار ہوئے۔
اس کے علاوہ 2012 میں پاکستان دنیا بھر میں کینسر کی اموات کی 13 ویں بڑی تعدادکا شکار بنا۔ اور ایک لاکھ ایک ہزار ایک سو 13 اموات کینسر کی وجہ سے ہوئیں۔ خواتین کی اموات کا تناسب مردوں کی نسبت زیادہ رہا۔ اعداد و شمار کے مطابق 52 فیصد کینسر اموات کا حصہ خواتین مریضوں پر مشتمل تھا۔ اور خواتین کی اموات کی تعداد کے حوالے سے ملک دنیا بھر میں12 ویں نمبر پر تھا ۔ جبکہ مردوں کی اموات کے حوالے سے ہماری رینکنگ 19 ویں بنتی تھی۔ اور 48 ہزار 4 سو49 مرد حضرات کی موت کینسر کی وجہ سے ہوئیں ۔
ملک میں کینسر کی شکار خواتین کی زیادہ تر تعداد چھاتی کے سرطان (Breast Cancer) میں مبتلا ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق 2012 میں ملک میں 34 ہزار 30 خواتین اس مرض کا شکار ہوئیں اور یہ تعداد دنیا بھر میں 12 ویں سب سے زیادہ بڑی تعداد تھی ۔ جبکہ اسی سال 16 ہزار 2 سو 32 خواتین چھاتی کے سرطان کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوئیں اور یہ دنیا میں چھاتی کے سرطان کے باعث مرنے والی خواتین کی 8 ویں بڑی تعداد تھی۔
مردوں کی زیادہ تر تعداد ہونٹوں اور منہ کے کینسر(Lip, oral cavity ) کا شکار ہوتی ہے۔ 2012 میں ملک میں 7 ہزار68 مرد اس نوعیت کے کینسر کا شکار بنے جو دنیا بھر میں اس طرح کے کینسر میں مبتلا افراد کی چھٹی بڑی تعداد تھی۔ جبکہ مرد حضرات کی اس کینسر کے باعث مرنے کی ملکی تعداد4 ہزار 46 تھی۔ جو دنیا بھر میں ہونٹ اور منہ کے کینسر کے باعث مردوں کی اموات کی پانچویں بڑی تعداد تھی۔ لیکن پاکستان میں مردوں میں کینسر کی سب سے زیادہ تعداد پھیپھڑوں کے کینسر کے باعث ہوتی ہے جن کی تعداد2012 میں 5 ہزار97 تھی اور اس طرح کے کینسر میں مرد حضرات کی اموات کی یہ تعداد دنیا بھر میں 29 ویں سب سے زیادہ تعداد تھی ۔
پاکستان میں نیشنل کینسر پروگرام کا آغاز 1994 میں ہوا لیکن بہت ہی کم لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں کیونکہ یہ پروگرام صحت کے دیگر پروگراموں کی طرح اتنا فعال اور موثر نہیں رہا ۔ ملک میں کینسر کے علاج کی سہولیات کا فقدان، آگاہی کی کمی اور سب سے بڑھ کر کینسر کے مستند اعداد وشمار کی کمی اس پروگرام کی افادیت پر بہت سے سوال اٹھا رہے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر ابو الفضل علی خان جوایکس چیف سرجن علامہ اقبال میڈیکل کالج اور جناح ہسپتال لاہور ہیں۔
کینسر کے اعداد وشمار کو اکٹھا کرنے کو سب سے زیادہ ضروری قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ''مستند اعداد وشمار نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں یہ نہیں پتا کہ ہمارے یہاں کون سے کینسر کی شدت زیادہ ہے۔ دیگر ممالک میں انھیں بہت تفصیلی پتا ہو تا ہے کہ کون سا کینسر کتنے لوگوں کو ہے ،کتنے لوگوں کو ہوتا ہے ،کس عمر میں ہوتا ہے ، کس قسم کے پس منظر میں ہوتا ہے۔ اس لئے سب سے پہلے ہمیں اپنی کینسر رجسٹری بنانی چاہئے تاکہ جو بھی کینسر کی تشخیص ہو اُس کی انٹری اس میں ہو جس طرح ہمارے پاس نادرا کا ادارہ ہے اس طرح کینسر کا بھی نیشنل ادارہ ہونا چاہئے تاکہ ہمیں پتا چلے کہ پنجاب میں کون کون سے کینسر ہیں۔ خیبر پختونخوا اور دیگر صوبوں میں کون سے ہیں۔
عورتوں کے کینسر کون سے ہیں ، بچوں کے کون سے ہیں تاکہ ہم کسی بھی کینسر کی تشخیص اور علاج فاسٹ ٹریک پر کر سکیں۔ یہ اعدادوشمار کینسر کے شعبہ میںہونے والی تحقیق میں بھی بہت معاونت کر سکتے ہیں۔ کیونکہ نئے نئے کینسر بن رہے ہیں، نئے نئے مسئلے سامنے آرہے ہیں۔ ہمیں ان کا علاج بھی دریافت کرنا ہے۔ کینسر کے علاج کے حوالے سے کچھ چیزیں خوش آئند ہیں۔ اب بہت سے کینسرز کا علاج ہو سکتا ہے۔ سی ٹی سکین، ایم آر آئی اور دوسری سہولیات جو پہلے خال خال ہوتی تھیں اب عام ہسپتالوں میں موجود ہیں اور ہم بہت سارے کینسرز کی تشخیص بر وقت کر سکتے ہیں۔ اگر ہم کوشش کریں تو۔ لیکن دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہم تمام کینسرز کے مریضوں کا علاج کر سکیں۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے آئی ہسپتال ہیں جو بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ لیکن میں نے یہ نہیں دیکھا کہ کینسر کے لئے بہت سارے ادارے کام کر رہے ہوں۔ کیونکہ این جی اوز کی توجہ کینسر کی طرف نہیں ہے۔ ادارے یہ سوچتے ہیں کہ یہ بہت بڑا کام ہے لیکن اگر ہم مل جل کر کام کریں تو یہ احسن طریقے سے ہو سکتا ہے۔ حکومت عام طور پر ان چیزوں کی طرف توجہ دیتی ہے جس پر لوگوں کا اصرار ہو اُن کی ڈیمانڈ ہو۔ اور اگر ہم لوگوں کو آگاہی دیں کہ ان کے کینسر کے علاج میں کیا خامیاں ہیں،کیا کمی ہے تو ہمیں امید ہے کہ وہ اس طرف توجہ دیں گے۔
اب نیا الیکشن ہونے والا ہے، نئے عوامی نمائندے آئیں گے تو سوشل میڈیا کو اور ڈاکٹرز کو بھرپور لابی کرنا چاہئے کہ وہ اس کو منشور میں شامل کریں۔ 18 ویں ترمیم کے بعد یہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کینسر کی سروسز فراہم کریں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام ٹیچنگ ہسپتالوں کو جامع کینسر کے ہسپتال کا درجہ دیا جائے۔ اس کے لئے انسانی وسائل کی تربیت کی جائے۔ انفراسٹرکچر بنایا جائے اور اسے جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ لیکن اس حوالے سے ایک مسئلہ کو بھی پیش نذر رکھنا ضروری ہے کہ کینسر کی Specialty میں بہت سے لوگ آنے کو ترجیح نہیں دیتے۔
لوگ سرجن بنانا چاہتے ہیں فزیشن بنانا چاہتے ہیں لیکن اس طرف نہیں آنا چاہتے۔ میں اپنے طالب علموں سے پوچھتا ہوں کہ آپ میں کتنے کینسر کے سرجن بننا چاہتے ہیں؟ تو اُنھیں کینسر کے سرجن اور فزیشن کا کوئی رول ماڈل نظر نہیں آتا۔ ہمارے یہاں بہت کم ڈاکٹر کینسر کا علاج کر رہے ہیں۔ اس لئے ہمیں نوجوان ڈاکٹرز کو اس شعبے کی طرف راغب کرنے کے لئے رول ماڈل بنانے ہوں گے۔ اس لئے کینسر کے سرجنز اور فزیشنز کی خدمات کا قومی سطح پر اعتراف کرتے ہوئے اُنھیں ایوارڈ ز دیں کیونکہ نوجوان ذہن ان چیزوں سے متاثر ہوتا ہے''۔
پروفیسر ڈاکٹر ابو الفضل علی خان نے درست کہا کہ ہمیں کینسر کے علاج کی سہولیات کی کمی کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ افرادی قوت خصوصاً کینسر کے ماہرین کی بھی شدید کمی کا سامنا ہے۔ کینسر کیئر ہسپتال اینڈ ریسرچ سینٹر فائونڈیشن کی ویب سائٹ مو جود معلومات بھی اس بات کی توثیق کر رہی ہیں۔ جن کے مطابق 2015 تک ملک میںکینسر کی تمام علاج گاہوں میں دستیاب بستر کی تعداد صرف1200 اور کینسر ماہرین کی تعداد محض 84 تھی۔ یہ صورتحال واقعی کسی المیہ سے کم نہیں کہ جس ملک میں کینسر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہو وہاں کینسر کے علاج کی سہولیات کی اتنی قلت! تو پھر کیسے کسی مریض کے علاج کا حق ہم پوری طرح ادا کر پائیں گے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد عباس کھوکھر ، سربراہ شعبہ کینسر، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور اور میو ہسپتال انکا لوجی وارڈ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ'' پاکستان میں کینسر ٹریٹمنٹ کی تقریباً تمام سہولیات میسر ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ کینسر کے مریض بہت زیادہ ہیں اور سہولیات کم ہیں۔ ہمارے پاس زیادہ تر مریض ایسی اسٹیج پر آتے ہیں جن کی اسٹیج 4ہوتی ہے۔ ان کو مسلسل علاج کی ضرورت ہوتی ہے ان کو بیڈز کی ضرورت ہے داخلہ کی ضرورت ہے۔ ادویات کی ضرورت ہے۔
ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ جو مریض ہر جگہ سے Refuse ہو کرآتا ہے ہمیں اللہ پاک نے اُس کی خدمت کیلئے چنا ہوا ہے۔ لیکن ہماری Limitations ہیں کہ ہم اگر دن رات بھی کام کریں تو ہمارے پاس بیڈ تو وہی 60 یا 70 ہیںجن کے اوپر ہروقت کوئی نا کوئی مریض موجود ہوتا ہے۔ اور اگر اس کے علاوہ مریض آنا شروع ہوجائیں۔ جن کو داخلے کی ضرورت ہے یا جن کو علاج کی ضرورت ہے تو ہم اُن کی مدد نہیں کر سکتے۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ مزید ایسے سنٹر بنائے جائیں جن میں ایسے مریض جو پرائیویٹ علاج نہیں کرا سکتے جن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں اُن کو وہاں خدمات مہیا کی جائیں۔
اس میں ایک مسئلہ ضرور آسکتا ہے کہ ہمارے پاس انسانی وسائل کی کمی یعنی انکالوجسٹس کی کمی ہے جوکہ ہر سینٹر پر موجود ہوں لیکن اس وقت حکومتی سطح پر کوششیں ہو رہی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اچھے ماہر کینسر اسپیشلسٹ تیار کئے جائیں جو اس کمی کو پورا کر سکیں اور مجھے امید ہے کہ اگلے چار پانچ سال میں حالات بہت اچھے ہوں گے۔ اُس وقت ہم یہ نہیں کہہ سکیں گے، ماہر کینسر اسپیشلسٹ موجود نہیںہے اس لئے ہم نیا کینسر سینٹر نہیں بناسکتے۔ اُس وقت شاید ہمارے پاس کینسر اسپیشلسٹ زیادہ ہوں گے اور سینٹرز کم ہوں گے۔ اگر ہم ایسی حکمت عملی بنائیںکہ کینسر سینٹر بنانے کے لئے ہم آج سے کام شروع کردیں اور اس میں کوئی دو تین سال لگتے ہیں تو ہمارے پاس اتنی ورک فورس موجود ہوگی جو ہم کھپا سکیں اور اگر ہم انھیں ملازمتیں مہیا نہیں کر سکیں گے تو یہ باہر چلے جائیں گے کیونکہ مارکیٹ اوپن ہے تو پھر ہمیں ماہر کینسر اسپیشلسٹ کی کمی رہے گی۔
یہاں ایک بات میں بتا تا چلوں کہ حکومتِ پنجاب اور ہماری ہسپتال انتظامیہ کا شکریہ کہ یہاں پر80 فیصد سے زائد مریضوں کو مہنگی ادویات جو اُن کی قوتِ خرید سے باہر ہے میو ہسپتال میں مفت ملتی ہیں اور لاہور میں ا س وقت ایسا کوئی بھی سینٹر نہیں ہے جو کینسر کی ادویات مفت فراہم کرے اورہمارے پاس بہت ساری ادویات فری ہیں۔ اس وجہ سے بھی ہمارے پاس بہت اضافی بوجھ آجاتا ہے۔ لیکن 100 فری ادویات کا ہم بھی دعویٰ نہیں کر سکتے۔ مریض کو سر جری اور کیمو کے بعد بعض ادویات طویل عرصہ تک کھانا پڑتی ہیں۔ ان ادویات کے حوالے سے حکومت پنجاب نے کچھ اقدامات کئے ہیں جس میں انھوں نے کچھ فارما سو ٹیکل کے ساتھ مل کر ایسی دوائیاں متعارف کروائی ہیں جو مریض دس سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ کھاتا ہے اُسے وہ مفت ملیں۔ یہ بہت اچھا اقدام ہے جس کی پذیرائی ضروری ہے۔
لیکن یہ ابھی کینسر کے مریضوں کا 20 سے30 فیصد حصہ کور کر رہا ہے کیونکہ بہت سی میڈیسن اور چیزیں جو Follow-up کے طور پر ضروری ہیں وہ اس پروگرام میں کور نہیں ہو رہیں۔ اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے''۔ کینسر پر تحقیق کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر محمد عباس کھوکھر کہتے ہیں کہ'' قومی سطح پر کسی حد تک تحقیق ہو رہی ہے۔ اور انشاء اللہ ایک وقت آئے گا کہ ہم کہہ سکیں گے کہ کینسر کسی بھی اسٹیج پر قابلِ علاج ہے۔ لیکن ابھی ہم اس مرحلے سے بہت دور ہیں۔ پاکستان میں ہم بد قسمتی سے نئی ادویات کی تیاری اور اس طرح کی چیزوں میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔کینسر کے اندر جینیٹک لیول پر تو کچھ ریسرچ ہو رہی ہے لیکن وہ بھی زیادہ تر نجی انسٹی ٹیوشنز میں ہورہی ہے۔ لیکن ادویات کے حوالے سے اور علاج کی نئی حکمت عملی کے حوالے سے کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جہاں پر ہم یہ Develop کرسکیں۔''
کینسر دنیا میںاموات کی دوسری بڑی وجہ ہے اور 2015 میں اس بیماری نے 8.8 ملین جانیں لیں۔ یعنی ہر 6 میں سے ایک موت اس کے باعث ہوئی۔ اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ کینسر کے آخری مراحل میں اس کی تشخیص اور علاج کی صورتحال عام ہے۔ جبکہ اگر کینسر کی ابتدائی مراحل میں تشخیص ہو جائے تو موثر علاج کے ذریعے کینسر کے مریض کے زندہ رہنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ علاج کے اخراجات کم ہوتے ہیں اورمریض کی حالت اور زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ یہ کہنا ہے پروفیسر ڈاکٹرمحمد ارشد چیمہ کا جو سرجیکل انکالوجی سوسائٹی آف پاکستان کے فائونڈننگ چیئرمین ہیں۔
وہ کینسر کی آسان الفاظ میں یوں وضاحت کرتے ہیں کہ'' ہمارے جسم کے خلیے ایک پروگرام کے تحت بڑھتے بڑھتے ایک ٹائم پر جاکر رک جاتے ہیں۔ یہ جینٹک پروگرامنگ ہے۔ اگر اس میں گڑبڑ ہو جائے اور وہ خلیہ بڑھنا بند ہی نہ کریں اور تقسیم در تقسیم ہوتے جاتے ہیں اور آخر کار اپنے میزبان کی جس کے یہاں وہ نشوونما پا رہے ہوتے ہیں اُس کی جان لے لیتے ہیں۔ کیونکہ میزبان کے سارے ریسورسز پر قبضہ کرلیتے ہیں۔'' انھوں نے کینسر سے متعلق آگاہی کو سب سے ضروری قرار دیا اور کہا کہ جین کے ذریعے کینسر صرف 10 فیصد لوگوں کو ہوتا ہے اس کی بنیادی وجہ ماحول اور ہمارا طرز زندگی ہے۔
اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے بارے میں آگاہی دینے سے مرض سے بہت حد تک بچا جا سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ کینسر ٹریٹمنٹ کے لئے ضروری ہے کہ جامع کینسر سینٹر بنائے جائیں جہاں ایک چھت کے نیچے کینسر کی تشخیص اور علاج کی تمام سہولتیں یعنی سرجری، کیمو تھراپی اور ریڈیو تھراپی وغیرہ سب ہونی چاہئے۔ اور ہر 10 لاکھ کی آبادی کے لئے ایسا ایک جامع سنٹر ہونا چاہیے۔ کیونکہ مریض جو پہلے ہی پریشان ہوتا ہے ایسے میں ہمارے ہاں اُسے فٹ بال بنا دیا جاتا ہے۔ سرجری یہاں سے ہوگی۔ کیمو وہاں سے ہوگی ۔ ریڈیشن کسی اور جگہ سے ہوگی جس سے مریض کی پریشانیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
کینسر کے مریض کی Palliative care کے حوالے سے صورتحال کو بہت مایوس کن قرار دیتے ہوئے اُن کا کہنا ہے '' کینسر کا علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے ایک Curative طریقہ علاج ہے اس میں آپ کا ہدف کینسر کو Cure کرنا ہے جو کچھ مریضوں میں ممکن ہوتا ہے اور کچھ میں ممکن نہیں ہوتا۔ جن لوگوں میں کینسر Cure ممکن نہیں ہوتی اُن کی Palliation کی جاتی ہے۔ یہ treatment to relieve ہے یعنی مریض کی کوالٹی آف لائف بہتر کی جائے۔ اگر وہ الٹی کر رہا ہے تو اُس کی الٹی کا بندوبست کیا جائے۔ اگر درد ہو رہی ہے تو درد کو رفع کیا جائے۔
اگر یرقان ہوا ہے تو اُس کا بندوبست کریں۔ اگر قبض ہے تو اُس کو ختم کیا جائے۔ مریض سے خون نکل رہا ہے۔ پس نکل رہی ہے۔ بدبو آرہی ہے ان سب کو ٹھیک کیا جائے۔اس سے نا صرف مریض کی کوالٹی آف لائف بہتر ہوگی بلکہ اُس کے اردگرد جو Care giver اُن کی بھی کوالٹی آف لائف بہتر ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ایڈوانس اسٹیج میں بعض اوقات کینسر اتنا پھیل چکا ہو تا ہے کہ گھر والے مریض سے دور رہتے ہیں کہ بد بو بہت آتی ہے۔ اُسے کھانا دینے سے کتراتے ہیں۔ اس لئے centre Palliative care بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسی فیلڈ ہے جسے پاکستان میں مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔'' کینسر میں جدید علاج کی سہولت کے حوالے سے اُ نھوں نے بتایا کہ لاہور میں ہم نے ایک ایڈوانس کینسر آپریشن شروع کیا ہے جو پیٹ میں پھیلی ہوئی کینسر کی ایسی ٹریٹمنٹ ہے جس میں ہم ہیٹ کر کے کیمو تھراپی براہ راست پیٹ میں دیتے ہیں۔ یہ ایک نیا طریقہ ہے جو پچھلے دس بارہ سال میں آیا ہے اور ہم نے پاکستان میںاس کا پہلا سینٹر لاہور میں بنایا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں کینسر کی تمام اقسام میں مجموعی طور پر چھاتی کے کینسر کا تناسب سب سے زیادہ ہوتا ہے جو نئے کینسر کیسزکے 23 فیصد کے لگ بھگ ہوتے ہیں۔ اسی طرح کینسر سے اموات کے حوالے سے بھی چھاتی کے سرطان کے شکار افراد کا تناسب سب سے زیادہ 16.1 فیصد ہے۔ جبکہ پانچ سال سے تشخیص شدہ کینسر (5-year prevalence )کے حیات مریضوں کے سب سے زیادہ تناسب کا تعلق بھی چھاتی کے کینسر کے شکار مریضوں کا ہے جو 34.8 فیصد ہے۔ پاکستان کے مختلف حصوں میں خواتین میں چھاتی کے سرطان کے حوالے سے آگہی/ علم کی سطح کو جانچنے کے لئے کئے گئے تقریباً تمام مطالعات میں یہ بات سامنے آئی کہ خواتین کو اس حوالے سے کافی علم Sufficient Knowledge نہیں ہے اکثر خواتین نے کبھی چھاتی کی سکریننگ نہیں کرائی یا کبھی خود جائزہ نہیں لیا ۔
اس کے علاوہ وہ چھاتی میں سوجن/ رسولی کو تلاش یا اس کی تشریح کرنے سے قاصر ہیں۔ جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے اپریل 2018 کے شمارے میں چھپنے والے ایک تحقیقی مقالہ'' اویرنیس، نالج اینڈ اٹیچیوڈ ٹو ورڈز بریسٹ کینسر، بریسٹ سکریننگ اینڈ ڈیٹکشن ٹیکنیکس امنگ وومن ان پاکستان'' کے مطابق '' پاکستانی خواتین خاص طور پر نوجوان خواتین میں چھاتی کے کینسر کے بارے میں علم کی کمی ہے جو ایک خطرناک علامت ہے۔ چھاتی کا کینسر اب بھی شرم، رازداری اور شرمندگی کے پردوں کے پیچھے چھپا ہوا ہے ۔ اور پاکستانی ثقافتی ترتیب میں چھاتی کے کینسر کے بارے میں بیداری ایک حساس حیثیت کی حامل ہے''۔ یعنی قدامت پسند سماجی اور ثقافتی عقائد لوگوں کو عام طور پر چھاتی کے کینسر کے بارے میں بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ موضوع معاشرے میں ممنوع Taboo سمجھا جاتا ہے اور نتیجے میں پاکستانی خواتین کی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے جن کی بہت بڑی تعداد کو مرض کے بارے میںآگاہی، ابتدائی تشخیص اور علاج کی سہولیات فراہم کر کے روکا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس کے ہم ہر سبق بہت دیر سے حاصل کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔
کینسر چیمپئینز
عبداللہ اسد ( لاہور)، مریم رانی( اسلام آباد)، عطاالرحمان( رحیم یار خان) اور چنگیزی خان (پشاور) ۔ یہ چاروں اُن بے شمار لوگوں میں سے ہیں جو کینسر کے مرض کو علاج کے بعد شکست دے چکے ہیں ۔ انھوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی بناء پر کینسر کے علاج میں مزید بہتری کے لئے جن اقدامات کی نشاندہی کی وہ کچھ یوںہیں۔
٭ انمول ہسپتال جیسے سینٹر پورے پاکستان میں ہونے چاہئیں تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کم سے کم معاشی بو جھ کے ساتھ اُن کے اپنے علاقوں میں مل سکیں۔
٭ تشخیص اور علاج کی تمام سہولتیں حتیٰ کہ ادویات اور رہنمائی بھی ایک ہی جگہ سے ملنی چاہئے۔ ادویات کی ہر وقت دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔اس کے علاوہ ان کی قیمتوں کو عام آدمی کی دسترس میں رکھا جائے۔اور مستحقین کو یہ مفت فراہم کی جائیں۔
٭ بیت المال کے نظام کو ٹھیک اور بہتر کیا جائے۔
کینسر کی علامات اور خطرے کے عوامل
ماہرین کے مطابق کینسرکی مختلف علامات ہو سکتی ہیں۔ یہ ایک رسولی کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ یا اس میں جسم کے کسی حصہ سے خون آنا ۔ یا وزن کاکم ہونا۔ یا یرقان ہونا ۔ طویل عرصہ تک کھانسی کا رہنا ۔ منہ اور زبان کا السر جو طویل عرصہ تک ٹھیک نہ ہو۔ رات کو بہت زیادہ پسینہ آنا ۔ ہاضمہ کی خرابی۔ پاخانے یا پیشاب میں خون کا آنا۔ نگلنے میں دشواری ہونا۔ مسلسل اپھارہ۔ بھوک کی کمی۔ نئے تل ظاہر ہونا۔ مسلسل سر درد ۔ ہڈیو ں میں شدید دردہونا وغیرہ نمایاں ہیں۔
ماہرین کے مطابق کینسر کے خطرے کے بنیادی طور پر تین عوامل ہیں۔ جینیاتی، ماحولیاتی اور طرزِزندگی
5 سے 10 فیصد تک کینسرجین کی وجہ سے لاحق ہو سکتے ہیں۔ ہم اپنے جینز نہیں بدل سکتے لیکن اپنے ماحول اور اپنی طرز زندگی کو بہتر بناکر 30 سے 50 فیصد کینسر کے امکان کو کم کرسکتے ہے۔ مثلاً ہر قسم کے تمباکو سے دور رہیں( پاکستان میں تمباکو کا بالواسطہ اور بلاواسطہ استعمال مردوں میں50 فیصد اور خواتین میں 30 فیصد کینسر کا باعث بنتا ہے)۔ صحت مند وزن پر آ جائیں اور پھر اس پر قائم رہیں۔ باقاعدہ جسمانی ورزش کے ساتھ حرکت کرتے رہیں۔ بہت سے پھلوں اور سبزیوں کے ساتھ صحت مند کھانا کھائیں۔ شراب نوشی سے اجتناب کریں۔ اپنی جلد کی حفاظت کریں۔ اپنے آپ کو، اپنی خاندانی تاریخ اور اپنے خطرات کو جانیں۔ باقاعدہ معائنے کروائیں اور سرطان کے سکریننگ ٹیسٹ کروائیں۔ اس کے علاوہ اپنے اردگرد کی فضاء کو آلودگی سے بچائیں خصوصاً گھروں میں ٹھوس ایندھن کے استعمال سے ہونے والے دھواں سے بچیں۔ بالائے بنفشی تابکاری اثرات سے بچیں۔ اور ایسے انفیکشنزکی ویکسینیشن یا علاج کروائیں جو کینسر کا باعث بن سکتے ہیں یعنی ہیپاٹائیٹس اور جنسی طور پر منتقل ہونے والا HPV انفیکشن۔
ایک مریضہ بچی کے والد کے مشاہدات
مدثر امین جن کی بیٹی جو اب پانچ سال کی ہے اُسے تین سال کی عمر میں خون کا کینسر (Accute Lymphobatic Lukemia) تشخیص ہو ا۔ بچی کا علاج اب مکمل ہو چکا ہے اور وہ پانچ سال تک Follow-up پر ہے۔ بیٹی کے کینسر کی تشخیص اور علاج کے سلسلے میں اپنے تجربات و مشاہدات یوں بیان کرتے ہیں۔ '' اگر پورے ملک کی بات کی جائے تو کینسر کے علاج کی سہولیات نا کافی ہیں بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نا کافی ہونے کی وجہ سے یہ سہولیات حاصل کرنا عام آدمی کیلئے بہت مشکل ہے اور مالی طور پر اس کا حصول نا ممکنات میں سے ہے۔ جب تک کہ اسے Subsidize یا مفت مہیا نہ کیا جائے۔ اُن کا کہنا ہے کہ علاج کیلئے سب سے مشکل بات اُس جگہ تک رسائی ہے جہاں کینسر کے علاج کی سہولیات موجود ہیں اور اگر کسی طور آپ کی رسائی ہو بھی جائے تو ہسپتال کے قواعد بھی عام آدمی اور مریض کیلئے علاج کے حصول کو مشکل بنا دیتے ہیں۔
علاج شروع ہونے کے بعد مریض اور کسی دیکھ بھال کرنے والے کو کچھ عرصہ اُسی جگہ رہنا پڑتا ہے جہاں اُس کا علاج ہو رہا ہو۔ اور بہت سے مریضوں اور اُن کے لواحقین کو اس ضمن میں بہت پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔ جہاں تک مریض کی دیکھ بھال کا تعلق ہے تو یہ انتہائی احتیاط برتنے کا معاملہ ہے کیونکہ کینسر میں دی جانے والی ادویات کی وجہ سے مریض کو کئی طرح کے عوارض لاحق ہونے کا اندیشہ رہتا ہے اور انتہائی نگہداشت سے کچھ حد تک ان عوارض کی روک تھام ممکن ہو سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں کینسر کا مرض خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے جبکہ دوسری طرف اس سے نمٹنے کیلئے کئے جانے والے اقدامات نا کافی ہیں۔ اس ضمن میں حکومت اور مخیر حضرات کو عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے ضروری قدم کینسر کے علاج کی سہولیات مہیا کرنا ہے اور اس کے ساتھ ان سہولیات تک آسان رسائی کو بھی ممکن بنانا ہو گا۔ اس کے علاوہ مرض کی روک تھام کیلئے لوگوں میں شعور کیلئے بھی حکومتی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے''۔
ایک مریض کی کہانی
خرم بابر لاہور کے رہائشی ہیں جنہیں24 دسمبر 1994 کو خون کا کینسر تشخیص ہوا۔ وہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ اپنی کہانی بتاتے ہیں۔ '' جب مجھے کینسر کی تشخیص ہوئی تو اُس وقت نہ مجھے اتنی آگہی تھی کہ یہ کیا ہوتا ہے اور نہ ہی میرے والدین کو پتا تھا کہ اس کے خلاف کس طرح لڑنا ہے اور کونسی جگہ سے اس کا علاج ہوتا ہے۔ میرے سکول والوں نے سکول کی لیڈی ڈاکٹر صاحبہ کو اس کام کی ذمہ داری سونپی کے خرم کو علاج گاہ مہیا کی جائے تاکہ اس کا علاج ممکن ہوسکے۔ کئی ایک نامی گرامی ڈاکٹرز سے چیک اپ کے بعد میرا علاج شوکت خانم ہسپتال میں شروع ہوا۔ شوکت خانم ہسپتال میںپہلے دن جب میں گیا تو اُس کا ماحول کسی وی آئی پی لائونج سے کم نہیں تھا جس میں آئے ہوئے ہر مہمان کیلئے جوس، چائے اور بسکٹ وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا تھا جو k. بالکل مفت تھے۔علاج کی وجہ سے جب میرے بال اترنا شروع ہوئے تو محلے داروں، کلاس فیلوز اور خاندان والوں نے طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کر دیں۔ سکول کے بچے مجھ سے دور بھاگتے تھے کہ شاید اس کو کوئی اچھوتی بیماری لگ گئی ہے۔ اور کہیں یہ ہمیں بھی نہ لگ جائے۔ کافی بچوں نے میری وجہ سے سکول تبدیل کرلیا۔ خاندان کے لوگ میرے ماں باپ کو آکر دلاسہ دیتے کہ اس کی جتنی خدمت کرسکتے ہیں کر لیں کیونکہ اس کے پاس ٹائم بہت کم ہے۔
محلے دار ہمارے گھر نہیں آتے ہمارے گھر کا کھانا نہیں کھاتے تھے۔ اور ان سب سے مجھے آج بھی لڑنا پڑتا ہے کہ وہ ایسا نہ کریں۔ 1996 میں مجھے دوبارہ کینسر نے پکڑ لیا اور بہت تکلیف دہ مرحلے سے گزرنا پڑا۔مجھے تب محسوس ہوا کہ میں واقعی مر جائوں گا مگر مجھے میرے ماں باپ اور بہن نے حوصلہ دیا اور پھر میں ٹھیک ہوا۔ 2002 میں رضاکارانہ طور پر میں نے شوکت خانم ہسپتال میں کام شروع کیا اور تب ایک مہمان کی صورت میں ریڈیو پاکستان لاہور کے ایک پروگرام میں شرکت کی تو مجھے پتا چلاکہ شوکت خانم کے علاوہ بھی ہسپتال ہیں جہاں کینسر کا علاج ہوتا ہے۔
آخر کار مختلف ہسپتالوں کا دورہ کیا اور وہاں مریضوں کے ساتھ اُن کے لواحقین کے ساتھ بیٹھا چیزوں کو دیکھا اور پھر کینسر فائٹنگ فرینڈز نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔اس تنظیم میں وہ لوگ شامل ہیں جو کینسر کے مرض کا علاج کر واکے اُسے شکست دے چکے ہیں اور کینسر چمپیئن ہیں۔اور ایسے لوگ بھی ہیں کہ جن کے گھر میں کوئی نہ کوئی کینسر مریض تھا یا ہے۔ہم اب تک کینسر مریضوں کی فلاح و بہبود کے بلڈڈونیشنز ، ادویات اور کھانے کا اہتمام کرنے جسے امور کے ساتھ ساتھ مریضوں اور اُن کے لواحقین کو علاج کے حوالے سے راہنمائی اور معاونت فراہم کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ کینسر کے بارے میں آگاہی اورکینسر سے صحت یابی حاصل کرنے والے افراد کو دوبارہ معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کے لئے مختلف نوعیت کی سرگرمیاں بھی کرتے ہیں۔ ملک میں کینسر کے علاج کی سہولیات کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ یہ سہولیات نا کافی ہیں۔اور جو ہیں بھی تو وہ صرف ملک کے بڑے شہروںمیں ہی دستیاب ہیں۔ سرکاری سہولیات صرف مریضوں کی محدود تعداد کو مل پاتی ہیں۔ جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں کینسر کا علاج عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہے۔ غریب آدمی بیت المال کے فارم لیکر اپنے بچے کے علاج اور ادویات کے لئے بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ کبھی پیسے نہیں تو کبھی ادویات شارٹ اور کبھی روایتی سستی۔ بیت المال بروقت کیسز کو نہیں نمٹاتا اس نظام کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ اُن کا کہنا تھا کہ کینسرکی آگاہی کے لئے سرکاری سطح پر فنڈ مختص ہونے چاہئے اور مہمیں چلائی جائیں۔ سستے و اعلیٰ تشخیصی اور علاج کے مراکز قائم کئے جائیں اور کینسر کی Follow-up ادویات کو سستا اور ان کی ہر وقت دستیابی کو یقینی بنا یا جائے۔ اس کے علاوہ کینسر کے مریضوں اور ان کے لواحقین کی Counseling اور رہنمائی کیلئے ہسپتالوں میں Patient care officers تعینات کئے جائیں۔''
چند روز پہلے دفتر کی ایک ساتھی نے جلد چھٹی کی اجازت چاہی جس کی وجہ انہوں نے اپنی کسی قریبی دوست کو چھاتی کا سرطان ہونا اور عیادت کے لئے ان کے گھر جانا بتائی۔ اگلے روز جب رفیقِ کار سے ملاقات ہوئی تو اُن کی دوست کی طبیعت کے بارے میں دریافت کرنے پر جو حقائق سامنے آئے وہ یقیناً ہمارے معاشرے میں کینسر کی آگہی اور اُن تمام سماجی اور ثقافتی رویوں کا اظہار کر رہے ہیں جن میں ہم جکڑے ہوئے ہیں۔
جس خاتون کی عیادت کرنے کے لئے میری ساتھی ان کے گھر گئیں وہ گھر میں ہونے کے باوجود اُن سے نہ ملیں۔ یہ سن کر بہت حیرت ہوئی کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا۔ ساتھی نے بتایا کہ اُنھوں نے گھر والوں کے طرزعمل سے یہ بات واضح طور پر محسوس کی کہ مریضہ اور اُس کے لواحقین بیماری کی نوعیت کو چھپانا چاہ رہے تھے۔ اس لئے وہ خودکسی سے نہیں ملتی اور اُس کے گھر والے بھی ایسا ہی چاہتے تھے۔ مزید جاننے پر پتا چلا کہ مریضہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت ہی اچھے سکول میں پڑھاتی ہیں۔ لیکن اپنے مرض کے بارے میں آگہی کی کمی کے باعث اُس کی سنگینی کا بروقت اندازہ نہ کر سکیں۔ اور ثقافتی پس منظر کی وجہ سے اپنا مسئلہ کسی سے شئیر بھی نہیں کیا حتیٰ کہ شوہر سے بھی یہ بات انھوں نے چھپائی۔
جب طبیعت زیادہ خراب رہنے لگی تو گھر والوں نے زور دینا شروع کیا کہ ڈاکٹر کو دکھا یا جائے۔ تشخیص کے مراحل سے ہوتے ہوئے جب یہ بات سامنے آئی کہ اُنھیں چھاتی کا کینسر ہے اور وہ بھی ابتدائی درجات سے آگے بڑھ چکا ہے اور فوری علاج کی ضرورت ہے۔ تو خاتون نے ڈاکٹری علاج کروانے سے انکار کردیا۔ اس تمام صورتحال کا سب سے زیادہ تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ خاتون کا شوہر اب اُسے اپنے گھر لے کر جانے سے کترا رہا ہے اور لڑکی کو اُس کے ماںباپ کے گھر چھوڑا ہوا ہے۔
یہ ساری تفصیل جان کر احساس ہوا کہ ہم پڑھے لکھے ہونے کے باوجود بھی کئی ایک باتوں میں اب بھی جہالت کا مظاہرہ کر دیتے ہیں۔ یہ ہماری جہالت ہی ہے کہ ہم اپنے جسم اور اس کے افعال میں ہونے والی کسی بھی غیر معمول تبدیلی کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ ہم اکثر ایسی چیزوں کو کسی سے شئیر بھی نہیں کرتے۔ ڈاکٹر کے پاس جانے میں عموماً دیر کر دیتے ہیں اور ڈاکٹری علاج کو اپنی سب سے آخری ترجیح پر رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے ٹوٹکوں اور عطائیوں کے چکر میں پڑے رہتے ہیں(جو کینسر کے مرض میں توکسی بھی طرح گوارا نہیں کیا جا سکتا ) اور اگر خدانخواستہ کوئی سنگین بیماری جیسا کہ کینسر تشخیص ہو جائے تو ہم مریض کو سماجی طور پر تنہا کر دیتے ہیں اور اپنے رویوں سے کینسر کے مرض کا سن کر یعنی'' تمہیں کینسر ہے'' اس جملے کے خوف سے پہلے ہی آدھے مرے ہوئے مریض کو پورا ماردیتے ہیں۔ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے۔
جبکہ لوگوں کو کینسر جیسے مرض سے بچائو کے بارے میں آگاہی کی فراہمی، سرطان کے علاج و معالجے کی سہولیات کی دستیابی، کینسر کے مریضوں کی دیکھ بھال کے انتظامات اور ان سب کے بارے میں موثر منصوبہ بندی پر مبنی پالیسیوں کی تیاری اور اطلاق تصویر کا دوسرا رخ ہے۔ اس رخ کو اجاگر کرنا اس لحاظ سے بھی ضروری ہے کہ بہتری کی تدابیر ہو سکیں اور7 اپریل کو دنیا بھر میں صحت کے منائے جانے والے عالمی دن جس کے لئے اِمسال ''صحت کی سہولیات کی عالمگیر رسائی۔۔۔ سب کے لئے ہر جگہ'' کا عنوان(Theme) اور '' صحت سب کے لئے'' کا نعرہ (Slogan) تجویز کیا گیا ہے ۔ اس کی مناسبت سے ملک میں کینسر جیسے نظر انداز ہونے والے شعبے کی جانب اربابِ اختیار کی توجہ مبذول کرائی جا سکے۔
ماہرین کے مطابق کینسر سے بچائو اور علاج کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ کینسر کے اعدادوشمار کے مختلف پہلوئوں کے اندراج کا مربوط نظام واضع کیا جائے جسے کینسر رجسٹری کہا جاتا ہے۔ افسوس اب تک ہمارے پاس قومی سطح پر کوئی ایسا نظام موجود نہیں جس کی مدد سے ملک میں کینسر کے مرض کی حقیقی صورتحال معلوم ہو سکے اور کینسر کی جامع پالیسیاں مرتب کی جا سکیں۔
اگر چہ وفاقی وزارت ہیلتھ سروسز، ریگو لیشن اینڈ کوآرڈینیشن نے پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل کو یہ ذمہ داری تفویض کی ہے کہ وہ ملک کے نمایاں سرکاری اور نجی ہسپتالوں کے ڈیٹا پر مبنی کینسر رجسٹری قائم کرے۔ کونسل کی ویب سائیٹ پر موجود معلومات کے مطابق اب تک 8 ہسپتال جن میں جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کراچی، سول ہسپتال کراچی، نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کراچی، نشتر ہسپتال ملتان، الائیڈ ہسپتال فیصل آباد، بولان ہسپتال کوئٹہ، خیبر ٹیچنگ ہسپتال پشاوراور آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف پیتھالوجی راولپنڈی سہ ماہی بنیادوں پر کونسل کو مئی2015 سے اعداد وشمار بھیج رہے ہیں لیکن یہ اعداد وشمار پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل کی ویب سائٹ پر دستیاب نہیں۔ اس لئے کینسر کے نئے کیسز اور اموات اور دیگر پہلوئوں کے حتمی اعداد وشمار بتانا مشکل ہے۔
تاہم اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کی انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسر نے کینسر کے نئے کیسز، اموات اورPrevalence کے حوالے سے دنیا کے184 ممالک کے تخمینوں (Estimates) پر مبنی اعداد وشمار2012 میں جاری کئے تھے۔ جن کے مطابق مذکورہ سال پاکستان میں ایک لاکھ 48 ہزار افراد کینسر کا شکار ہوئے۔ ان تخمینوں کے تجزیہ کے مطابق کینسر کے نئے کیسز کی تعداد کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں 16 ویں نمبر پر تھا ۔ملک میں مردوں کی نسبت خواتین زیادہ کینسر کا شکار ہوئیں جوکہ کینسر کے تمام نئے مریضوں کے 57 فیصد حصہ پر مشتمل تھیں ۔2012 میں ملک میں 84 ہزار 5 سو90 خواتین کے نئے کیسز سامنے آئے یوں خو اتین کا نئے کیسز کے حوالے سے عالمی درجہ بندی میں وطنِ عزیز 15 ویں نمبر پر تھا۔ جبکہ مردوں کی اس تناظر میں درجہ بندی میں ہمارا 21 واں نمبر تھا اور ملک میں63 ہزار 4 سو 51 مرد کینسر کا شکار ہوئے۔
اس کے علاوہ 2012 میں پاکستان دنیا بھر میں کینسر کی اموات کی 13 ویں بڑی تعدادکا شکار بنا۔ اور ایک لاکھ ایک ہزار ایک سو 13 اموات کینسر کی وجہ سے ہوئیں۔ خواتین کی اموات کا تناسب مردوں کی نسبت زیادہ رہا۔ اعداد و شمار کے مطابق 52 فیصد کینسر اموات کا حصہ خواتین مریضوں پر مشتمل تھا۔ اور خواتین کی اموات کی تعداد کے حوالے سے ملک دنیا بھر میں12 ویں نمبر پر تھا ۔ جبکہ مردوں کی اموات کے حوالے سے ہماری رینکنگ 19 ویں بنتی تھی۔ اور 48 ہزار 4 سو49 مرد حضرات کی موت کینسر کی وجہ سے ہوئیں ۔
ملک میں کینسر کی شکار خواتین کی زیادہ تر تعداد چھاتی کے سرطان (Breast Cancer) میں مبتلا ہوتی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے اعدادوشمار کے مطابق 2012 میں ملک میں 34 ہزار 30 خواتین اس مرض کا شکار ہوئیں اور یہ تعداد دنیا بھر میں 12 ویں سب سے زیادہ بڑی تعداد تھی ۔ جبکہ اسی سال 16 ہزار 2 سو 32 خواتین چھاتی کے سرطان کی وجہ سے اس دنیا سے رخصت ہوئیں اور یہ دنیا میں چھاتی کے سرطان کے باعث مرنے والی خواتین کی 8 ویں بڑی تعداد تھی۔
مردوں کی زیادہ تر تعداد ہونٹوں اور منہ کے کینسر(Lip, oral cavity ) کا شکار ہوتی ہے۔ 2012 میں ملک میں 7 ہزار68 مرد اس نوعیت کے کینسر کا شکار بنے جو دنیا بھر میں اس طرح کے کینسر میں مبتلا افراد کی چھٹی بڑی تعداد تھی۔ جبکہ مرد حضرات کی اس کینسر کے باعث مرنے کی ملکی تعداد4 ہزار 46 تھی۔ جو دنیا بھر میں ہونٹ اور منہ کے کینسر کے باعث مردوں کی اموات کی پانچویں بڑی تعداد تھی۔ لیکن پاکستان میں مردوں میں کینسر کی سب سے زیادہ تعداد پھیپھڑوں کے کینسر کے باعث ہوتی ہے جن کی تعداد2012 میں 5 ہزار97 تھی اور اس طرح کے کینسر میں مرد حضرات کی اموات کی یہ تعداد دنیا بھر میں 29 ویں سب سے زیادہ تعداد تھی ۔
پاکستان میں نیشنل کینسر پروگرام کا آغاز 1994 میں ہوا لیکن بہت ہی کم لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں کیونکہ یہ پروگرام صحت کے دیگر پروگراموں کی طرح اتنا فعال اور موثر نہیں رہا ۔ ملک میں کینسر کے علاج کی سہولیات کا فقدان، آگاہی کی کمی اور سب سے بڑھ کر کینسر کے مستند اعداد وشمار کی کمی اس پروگرام کی افادیت پر بہت سے سوال اٹھا رہے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر ابو الفضل علی خان جوایکس چیف سرجن علامہ اقبال میڈیکل کالج اور جناح ہسپتال لاہور ہیں۔
کینسر کے اعداد وشمار کو اکٹھا کرنے کو سب سے زیادہ ضروری قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے ''مستند اعداد وشمار نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں یہ نہیں پتا کہ ہمارے یہاں کون سے کینسر کی شدت زیادہ ہے۔ دیگر ممالک میں انھیں بہت تفصیلی پتا ہو تا ہے کہ کون سا کینسر کتنے لوگوں کو ہے ،کتنے لوگوں کو ہوتا ہے ،کس عمر میں ہوتا ہے ، کس قسم کے پس منظر میں ہوتا ہے۔ اس لئے سب سے پہلے ہمیں اپنی کینسر رجسٹری بنانی چاہئے تاکہ جو بھی کینسر کی تشخیص ہو اُس کی انٹری اس میں ہو جس طرح ہمارے پاس نادرا کا ادارہ ہے اس طرح کینسر کا بھی نیشنل ادارہ ہونا چاہئے تاکہ ہمیں پتا چلے کہ پنجاب میں کون کون سے کینسر ہیں۔ خیبر پختونخوا اور دیگر صوبوں میں کون سے ہیں۔
عورتوں کے کینسر کون سے ہیں ، بچوں کے کون سے ہیں تاکہ ہم کسی بھی کینسر کی تشخیص اور علاج فاسٹ ٹریک پر کر سکیں۔ یہ اعدادوشمار کینسر کے شعبہ میںہونے والی تحقیق میں بھی بہت معاونت کر سکتے ہیں۔ کیونکہ نئے نئے کینسر بن رہے ہیں، نئے نئے مسئلے سامنے آرہے ہیں۔ ہمیں ان کا علاج بھی دریافت کرنا ہے۔ کینسر کے علاج کے حوالے سے کچھ چیزیں خوش آئند ہیں۔ اب بہت سے کینسرز کا علاج ہو سکتا ہے۔ سی ٹی سکین، ایم آر آئی اور دوسری سہولیات جو پہلے خال خال ہوتی تھیں اب عام ہسپتالوں میں موجود ہیں اور ہم بہت سارے کینسرز کی تشخیص بر وقت کر سکتے ہیں۔ اگر ہم کوشش کریں تو۔ لیکن دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہم تمام کینسرز کے مریضوں کا علاج کر سکیں۔
آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے آئی ہسپتال ہیں جو بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ لیکن میں نے یہ نہیں دیکھا کہ کینسر کے لئے بہت سارے ادارے کام کر رہے ہوں۔ کیونکہ این جی اوز کی توجہ کینسر کی طرف نہیں ہے۔ ادارے یہ سوچتے ہیں کہ یہ بہت بڑا کام ہے لیکن اگر ہم مل جل کر کام کریں تو یہ احسن طریقے سے ہو سکتا ہے۔ حکومت عام طور پر ان چیزوں کی طرف توجہ دیتی ہے جس پر لوگوں کا اصرار ہو اُن کی ڈیمانڈ ہو۔ اور اگر ہم لوگوں کو آگاہی دیں کہ ان کے کینسر کے علاج میں کیا خامیاں ہیں،کیا کمی ہے تو ہمیں امید ہے کہ وہ اس طرف توجہ دیں گے۔
اب نیا الیکشن ہونے والا ہے، نئے عوامی نمائندے آئیں گے تو سوشل میڈیا کو اور ڈاکٹرز کو بھرپور لابی کرنا چاہئے کہ وہ اس کو منشور میں شامل کریں۔ 18 ویں ترمیم کے بعد یہ صوبائی حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ کینسر کی سروسز فراہم کریں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام ٹیچنگ ہسپتالوں کو جامع کینسر کے ہسپتال کا درجہ دیا جائے۔ اس کے لئے انسانی وسائل کی تربیت کی جائے۔ انفراسٹرکچر بنایا جائے اور اسے جلد از جلد مکمل کیا جائے۔ لیکن اس حوالے سے ایک مسئلہ کو بھی پیش نذر رکھنا ضروری ہے کہ کینسر کی Specialty میں بہت سے لوگ آنے کو ترجیح نہیں دیتے۔
لوگ سرجن بنانا چاہتے ہیں فزیشن بنانا چاہتے ہیں لیکن اس طرف نہیں آنا چاہتے۔ میں اپنے طالب علموں سے پوچھتا ہوں کہ آپ میں کتنے کینسر کے سرجن بننا چاہتے ہیں؟ تو اُنھیں کینسر کے سرجن اور فزیشن کا کوئی رول ماڈل نظر نہیں آتا۔ ہمارے یہاں بہت کم ڈاکٹر کینسر کا علاج کر رہے ہیں۔ اس لئے ہمیں نوجوان ڈاکٹرز کو اس شعبے کی طرف راغب کرنے کے لئے رول ماڈل بنانے ہوں گے۔ اس لئے کینسر کے سرجنز اور فزیشنز کی خدمات کا قومی سطح پر اعتراف کرتے ہوئے اُنھیں ایوارڈ ز دیں کیونکہ نوجوان ذہن ان چیزوں سے متاثر ہوتا ہے''۔
پروفیسر ڈاکٹر ابو الفضل علی خان نے درست کہا کہ ہمیں کینسر کے علاج کی سہولیات کی کمی کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ افرادی قوت خصوصاً کینسر کے ماہرین کی بھی شدید کمی کا سامنا ہے۔ کینسر کیئر ہسپتال اینڈ ریسرچ سینٹر فائونڈیشن کی ویب سائٹ مو جود معلومات بھی اس بات کی توثیق کر رہی ہیں۔ جن کے مطابق 2015 تک ملک میںکینسر کی تمام علاج گاہوں میں دستیاب بستر کی تعداد صرف1200 اور کینسر ماہرین کی تعداد محض 84 تھی۔ یہ صورتحال واقعی کسی المیہ سے کم نہیں کہ جس ملک میں کینسر کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہو وہاں کینسر کے علاج کی سہولیات کی اتنی قلت! تو پھر کیسے کسی مریض کے علاج کا حق ہم پوری طرح ادا کر پائیں گے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد عباس کھوکھر ، سربراہ شعبہ کینسر، کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی لاہور اور میو ہسپتال انکا لوجی وارڈ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ'' پاکستان میں کینسر ٹریٹمنٹ کی تقریباً تمام سہولیات میسر ہیں۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ کینسر کے مریض بہت زیادہ ہیں اور سہولیات کم ہیں۔ ہمارے پاس زیادہ تر مریض ایسی اسٹیج پر آتے ہیں جن کی اسٹیج 4ہوتی ہے۔ ان کو مسلسل علاج کی ضرورت ہوتی ہے ان کو بیڈز کی ضرورت ہے داخلہ کی ضرورت ہے۔ ادویات کی ضرورت ہے۔
ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ جو مریض ہر جگہ سے Refuse ہو کرآتا ہے ہمیں اللہ پاک نے اُس کی خدمت کیلئے چنا ہوا ہے۔ لیکن ہماری Limitations ہیں کہ ہم اگر دن رات بھی کام کریں تو ہمارے پاس بیڈ تو وہی 60 یا 70 ہیںجن کے اوپر ہروقت کوئی نا کوئی مریض موجود ہوتا ہے۔ اور اگر اس کے علاوہ مریض آنا شروع ہوجائیں۔ جن کو داخلے کی ضرورت ہے یا جن کو علاج کی ضرورت ہے تو ہم اُن کی مدد نہیں کر سکتے۔ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ مزید ایسے سنٹر بنائے جائیں جن میں ایسے مریض جو پرائیویٹ علاج نہیں کرا سکتے جن کا کوئی پُرسانِ حال نہیں اُن کو وہاں خدمات مہیا کی جائیں۔
اس میں ایک مسئلہ ضرور آسکتا ہے کہ ہمارے پاس انسانی وسائل کی کمی یعنی انکالوجسٹس کی کمی ہے جوکہ ہر سینٹر پر موجود ہوں لیکن اس وقت حکومتی سطح پر کوششیں ہو رہی ہیں کہ زیادہ سے زیادہ اچھے ماہر کینسر اسپیشلسٹ تیار کئے جائیں جو اس کمی کو پورا کر سکیں اور مجھے امید ہے کہ اگلے چار پانچ سال میں حالات بہت اچھے ہوں گے۔ اُس وقت ہم یہ نہیں کہہ سکیں گے، ماہر کینسر اسپیشلسٹ موجود نہیںہے اس لئے ہم نیا کینسر سینٹر نہیں بناسکتے۔ اُس وقت شاید ہمارے پاس کینسر اسپیشلسٹ زیادہ ہوں گے اور سینٹرز کم ہوں گے۔ اگر ہم ایسی حکمت عملی بنائیںکہ کینسر سینٹر بنانے کے لئے ہم آج سے کام شروع کردیں اور اس میں کوئی دو تین سال لگتے ہیں تو ہمارے پاس اتنی ورک فورس موجود ہوگی جو ہم کھپا سکیں اور اگر ہم انھیں ملازمتیں مہیا نہیں کر سکیں گے تو یہ باہر چلے جائیں گے کیونکہ مارکیٹ اوپن ہے تو پھر ہمیں ماہر کینسر اسپیشلسٹ کی کمی رہے گی۔
یہاں ایک بات میں بتا تا چلوں کہ حکومتِ پنجاب اور ہماری ہسپتال انتظامیہ کا شکریہ کہ یہاں پر80 فیصد سے زائد مریضوں کو مہنگی ادویات جو اُن کی قوتِ خرید سے باہر ہے میو ہسپتال میں مفت ملتی ہیں اور لاہور میں ا س وقت ایسا کوئی بھی سینٹر نہیں ہے جو کینسر کی ادویات مفت فراہم کرے اورہمارے پاس بہت ساری ادویات فری ہیں۔ اس وجہ سے بھی ہمارے پاس بہت اضافی بوجھ آجاتا ہے۔ لیکن 100 فری ادویات کا ہم بھی دعویٰ نہیں کر سکتے۔ مریض کو سر جری اور کیمو کے بعد بعض ادویات طویل عرصہ تک کھانا پڑتی ہیں۔ ان ادویات کے حوالے سے حکومت پنجاب نے کچھ اقدامات کئے ہیں جس میں انھوں نے کچھ فارما سو ٹیکل کے ساتھ مل کر ایسی دوائیاں متعارف کروائی ہیں جو مریض دس سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ کھاتا ہے اُسے وہ مفت ملیں۔ یہ بہت اچھا اقدام ہے جس کی پذیرائی ضروری ہے۔
لیکن یہ ابھی کینسر کے مریضوں کا 20 سے30 فیصد حصہ کور کر رہا ہے کیونکہ بہت سی میڈیسن اور چیزیں جو Follow-up کے طور پر ضروری ہیں وہ اس پروگرام میں کور نہیں ہو رہیں۔ اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے''۔ کینسر پر تحقیق کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر محمد عباس کھوکھر کہتے ہیں کہ'' قومی سطح پر کسی حد تک تحقیق ہو رہی ہے۔ اور انشاء اللہ ایک وقت آئے گا کہ ہم کہہ سکیں گے کہ کینسر کسی بھی اسٹیج پر قابلِ علاج ہے۔ لیکن ابھی ہم اس مرحلے سے بہت دور ہیں۔ پاکستان میں ہم بد قسمتی سے نئی ادویات کی تیاری اور اس طرح کی چیزوں میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔کینسر کے اندر جینیٹک لیول پر تو کچھ ریسرچ ہو رہی ہے لیکن وہ بھی زیادہ تر نجی انسٹی ٹیوشنز میں ہورہی ہے۔ لیکن ادویات کے حوالے سے اور علاج کی نئی حکمت عملی کے حوالے سے کوئی ایسا ادارہ نہیں ہے جہاں پر ہم یہ Develop کرسکیں۔''
کینسر دنیا میںاموات کی دوسری بڑی وجہ ہے اور 2015 میں اس بیماری نے 8.8 ملین جانیں لیں۔ یعنی ہر 6 میں سے ایک موت اس کے باعث ہوئی۔ اور ایسا اس وجہ سے ہے کہ کینسر کے آخری مراحل میں اس کی تشخیص اور علاج کی صورتحال عام ہے۔ جبکہ اگر کینسر کی ابتدائی مراحل میں تشخیص ہو جائے تو موثر علاج کے ذریعے کینسر کے مریض کے زندہ رہنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ علاج کے اخراجات کم ہوتے ہیں اورمریض کی حالت اور زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ یہ کہنا ہے پروفیسر ڈاکٹرمحمد ارشد چیمہ کا جو سرجیکل انکالوجی سوسائٹی آف پاکستان کے فائونڈننگ چیئرمین ہیں۔
وہ کینسر کی آسان الفاظ میں یوں وضاحت کرتے ہیں کہ'' ہمارے جسم کے خلیے ایک پروگرام کے تحت بڑھتے بڑھتے ایک ٹائم پر جاکر رک جاتے ہیں۔ یہ جینٹک پروگرامنگ ہے۔ اگر اس میں گڑبڑ ہو جائے اور وہ خلیہ بڑھنا بند ہی نہ کریں اور تقسیم در تقسیم ہوتے جاتے ہیں اور آخر کار اپنے میزبان کی جس کے یہاں وہ نشوونما پا رہے ہوتے ہیں اُس کی جان لے لیتے ہیں۔ کیونکہ میزبان کے سارے ریسورسز پر قبضہ کرلیتے ہیں۔'' انھوں نے کینسر سے متعلق آگاہی کو سب سے ضروری قرار دیا اور کہا کہ جین کے ذریعے کینسر صرف 10 فیصد لوگوں کو ہوتا ہے اس کی بنیادی وجہ ماحول اور ہمارا طرز زندگی ہے۔
اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ان کے بارے میں آگاہی دینے سے مرض سے بہت حد تک بچا جا سکتا ہے ۔ اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ کینسر ٹریٹمنٹ کے لئے ضروری ہے کہ جامع کینسر سینٹر بنائے جائیں جہاں ایک چھت کے نیچے کینسر کی تشخیص اور علاج کی تمام سہولتیں یعنی سرجری، کیمو تھراپی اور ریڈیو تھراپی وغیرہ سب ہونی چاہئے۔ اور ہر 10 لاکھ کی آبادی کے لئے ایسا ایک جامع سنٹر ہونا چاہیے۔ کیونکہ مریض جو پہلے ہی پریشان ہوتا ہے ایسے میں ہمارے ہاں اُسے فٹ بال بنا دیا جاتا ہے۔ سرجری یہاں سے ہوگی۔ کیمو وہاں سے ہوگی ۔ ریڈیشن کسی اور جگہ سے ہوگی جس سے مریض کی پریشانیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
کینسر کے مریض کی Palliative care کے حوالے سے صورتحال کو بہت مایوس کن قرار دیتے ہوئے اُن کا کہنا ہے '' کینسر کا علاج دو طرح سے کیا جاتا ہے ایک Curative طریقہ علاج ہے اس میں آپ کا ہدف کینسر کو Cure کرنا ہے جو کچھ مریضوں میں ممکن ہوتا ہے اور کچھ میں ممکن نہیں ہوتا۔ جن لوگوں میں کینسر Cure ممکن نہیں ہوتی اُن کی Palliation کی جاتی ہے۔ یہ treatment to relieve ہے یعنی مریض کی کوالٹی آف لائف بہتر کی جائے۔ اگر وہ الٹی کر رہا ہے تو اُس کی الٹی کا بندوبست کیا جائے۔ اگر درد ہو رہی ہے تو درد کو رفع کیا جائے۔
اگر یرقان ہوا ہے تو اُس کا بندوبست کریں۔ اگر قبض ہے تو اُس کو ختم کیا جائے۔ مریض سے خون نکل رہا ہے۔ پس نکل رہی ہے۔ بدبو آرہی ہے ان سب کو ٹھیک کیا جائے۔اس سے نا صرف مریض کی کوالٹی آف لائف بہتر ہوگی بلکہ اُس کے اردگرد جو Care giver اُن کی بھی کوالٹی آف لائف بہتر ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ایڈوانس اسٹیج میں بعض اوقات کینسر اتنا پھیل چکا ہو تا ہے کہ گھر والے مریض سے دور رہتے ہیں کہ بد بو بہت آتی ہے۔ اُسے کھانا دینے سے کتراتے ہیں۔ اس لئے centre Palliative care بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک ایسی فیلڈ ہے جسے پاکستان میں مکمل طور پر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔'' کینسر میں جدید علاج کی سہولت کے حوالے سے اُ نھوں نے بتایا کہ لاہور میں ہم نے ایک ایڈوانس کینسر آپریشن شروع کیا ہے جو پیٹ میں پھیلی ہوئی کینسر کی ایسی ٹریٹمنٹ ہے جس میں ہم ہیٹ کر کے کیمو تھراپی براہ راست پیٹ میں دیتے ہیں۔ یہ ایک نیا طریقہ ہے جو پچھلے دس بارہ سال میں آیا ہے اور ہم نے پاکستان میںاس کا پہلا سینٹر لاہور میں بنایا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں کینسر کی تمام اقسام میں مجموعی طور پر چھاتی کے کینسر کا تناسب سب سے زیادہ ہوتا ہے جو نئے کینسر کیسزکے 23 فیصد کے لگ بھگ ہوتے ہیں۔ اسی طرح کینسر سے اموات کے حوالے سے بھی چھاتی کے سرطان کے شکار افراد کا تناسب سب سے زیادہ 16.1 فیصد ہے۔ جبکہ پانچ سال سے تشخیص شدہ کینسر (5-year prevalence )کے حیات مریضوں کے سب سے زیادہ تناسب کا تعلق بھی چھاتی کے کینسر کے شکار مریضوں کا ہے جو 34.8 فیصد ہے۔ پاکستان کے مختلف حصوں میں خواتین میں چھاتی کے سرطان کے حوالے سے آگہی/ علم کی سطح کو جانچنے کے لئے کئے گئے تقریباً تمام مطالعات میں یہ بات سامنے آئی کہ خواتین کو اس حوالے سے کافی علم Sufficient Knowledge نہیں ہے اکثر خواتین نے کبھی چھاتی کی سکریننگ نہیں کرائی یا کبھی خود جائزہ نہیں لیا ۔
اس کے علاوہ وہ چھاتی میں سوجن/ رسولی کو تلاش یا اس کی تشریح کرنے سے قاصر ہیں۔ جرنل آف پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے اپریل 2018 کے شمارے میں چھپنے والے ایک تحقیقی مقالہ'' اویرنیس، نالج اینڈ اٹیچیوڈ ٹو ورڈز بریسٹ کینسر، بریسٹ سکریننگ اینڈ ڈیٹکشن ٹیکنیکس امنگ وومن ان پاکستان'' کے مطابق '' پاکستانی خواتین خاص طور پر نوجوان خواتین میں چھاتی کے کینسر کے بارے میں علم کی کمی ہے جو ایک خطرناک علامت ہے۔ چھاتی کا کینسر اب بھی شرم، رازداری اور شرمندگی کے پردوں کے پیچھے چھپا ہوا ہے ۔ اور پاکستانی ثقافتی ترتیب میں چھاتی کے کینسر کے بارے میں بیداری ایک حساس حیثیت کی حامل ہے''۔ یعنی قدامت پسند سماجی اور ثقافتی عقائد لوگوں کو عام طور پر چھاتی کے کینسر کے بارے میں بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ موضوع معاشرے میں ممنوع Taboo سمجھا جاتا ہے اور نتیجے میں پاکستانی خواتین کی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے جن کی بہت بڑی تعداد کو مرض کے بارے میںآگاہی، ابتدائی تشخیص اور علاج کی سہولیات فراہم کر کے روکا جا سکتا ہے۔ لیکن افسوس کے ہم ہر سبق بہت دیر سے حاصل کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔
کینسر چیمپئینز
عبداللہ اسد ( لاہور)، مریم رانی( اسلام آباد)، عطاالرحمان( رحیم یار خان) اور چنگیزی خان (پشاور) ۔ یہ چاروں اُن بے شمار لوگوں میں سے ہیں جو کینسر کے مرض کو علاج کے بعد شکست دے چکے ہیں ۔ انھوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی بناء پر کینسر کے علاج میں مزید بہتری کے لئے جن اقدامات کی نشاندہی کی وہ کچھ یوںہیں۔
٭ انمول ہسپتال جیسے سینٹر پورے پاکستان میں ہونے چاہئیں تاکہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کم سے کم معاشی بو جھ کے ساتھ اُن کے اپنے علاقوں میں مل سکیں۔
٭ تشخیص اور علاج کی تمام سہولتیں حتیٰ کہ ادویات اور رہنمائی بھی ایک ہی جگہ سے ملنی چاہئے۔ ادویات کی ہر وقت دستیابی کو یقینی بنایا جائے۔اس کے علاوہ ان کی قیمتوں کو عام آدمی کی دسترس میں رکھا جائے۔اور مستحقین کو یہ مفت فراہم کی جائیں۔
٭ بیت المال کے نظام کو ٹھیک اور بہتر کیا جائے۔
کینسر کی علامات اور خطرے کے عوامل
ماہرین کے مطابق کینسرکی مختلف علامات ہو سکتی ہیں۔ یہ ایک رسولی کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ یا اس میں جسم کے کسی حصہ سے خون آنا ۔ یا وزن کاکم ہونا۔ یا یرقان ہونا ۔ طویل عرصہ تک کھانسی کا رہنا ۔ منہ اور زبان کا السر جو طویل عرصہ تک ٹھیک نہ ہو۔ رات کو بہت زیادہ پسینہ آنا ۔ ہاضمہ کی خرابی۔ پاخانے یا پیشاب میں خون کا آنا۔ نگلنے میں دشواری ہونا۔ مسلسل اپھارہ۔ بھوک کی کمی۔ نئے تل ظاہر ہونا۔ مسلسل سر درد ۔ ہڈیو ں میں شدید دردہونا وغیرہ نمایاں ہیں۔
ماہرین کے مطابق کینسر کے خطرے کے بنیادی طور پر تین عوامل ہیں۔ جینیاتی، ماحولیاتی اور طرزِزندگی
5 سے 10 فیصد تک کینسرجین کی وجہ سے لاحق ہو سکتے ہیں۔ ہم اپنے جینز نہیں بدل سکتے لیکن اپنے ماحول اور اپنی طرز زندگی کو بہتر بناکر 30 سے 50 فیصد کینسر کے امکان کو کم کرسکتے ہے۔ مثلاً ہر قسم کے تمباکو سے دور رہیں( پاکستان میں تمباکو کا بالواسطہ اور بلاواسطہ استعمال مردوں میں50 فیصد اور خواتین میں 30 فیصد کینسر کا باعث بنتا ہے)۔ صحت مند وزن پر آ جائیں اور پھر اس پر قائم رہیں۔ باقاعدہ جسمانی ورزش کے ساتھ حرکت کرتے رہیں۔ بہت سے پھلوں اور سبزیوں کے ساتھ صحت مند کھانا کھائیں۔ شراب نوشی سے اجتناب کریں۔ اپنی جلد کی حفاظت کریں۔ اپنے آپ کو، اپنی خاندانی تاریخ اور اپنے خطرات کو جانیں۔ باقاعدہ معائنے کروائیں اور سرطان کے سکریننگ ٹیسٹ کروائیں۔ اس کے علاوہ اپنے اردگرد کی فضاء کو آلودگی سے بچائیں خصوصاً گھروں میں ٹھوس ایندھن کے استعمال سے ہونے والے دھواں سے بچیں۔ بالائے بنفشی تابکاری اثرات سے بچیں۔ اور ایسے انفیکشنزکی ویکسینیشن یا علاج کروائیں جو کینسر کا باعث بن سکتے ہیں یعنی ہیپاٹائیٹس اور جنسی طور پر منتقل ہونے والا HPV انفیکشن۔
ایک مریضہ بچی کے والد کے مشاہدات
مدثر امین جن کی بیٹی جو اب پانچ سال کی ہے اُسے تین سال کی عمر میں خون کا کینسر (Accute Lymphobatic Lukemia) تشخیص ہو ا۔ بچی کا علاج اب مکمل ہو چکا ہے اور وہ پانچ سال تک Follow-up پر ہے۔ بیٹی کے کینسر کی تشخیص اور علاج کے سلسلے میں اپنے تجربات و مشاہدات یوں بیان کرتے ہیں۔ '' اگر پورے ملک کی بات کی جائے تو کینسر کے علاج کی سہولیات نا کافی ہیں بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ نا کافی ہونے کی وجہ سے یہ سہولیات حاصل کرنا عام آدمی کیلئے بہت مشکل ہے اور مالی طور پر اس کا حصول نا ممکنات میں سے ہے۔ جب تک کہ اسے Subsidize یا مفت مہیا نہ کیا جائے۔ اُن کا کہنا ہے کہ علاج کیلئے سب سے مشکل بات اُس جگہ تک رسائی ہے جہاں کینسر کے علاج کی سہولیات موجود ہیں اور اگر کسی طور آپ کی رسائی ہو بھی جائے تو ہسپتال کے قواعد بھی عام آدمی اور مریض کیلئے علاج کے حصول کو مشکل بنا دیتے ہیں۔
علاج شروع ہونے کے بعد مریض اور کسی دیکھ بھال کرنے والے کو کچھ عرصہ اُسی جگہ رہنا پڑتا ہے جہاں اُس کا علاج ہو رہا ہو۔ اور بہت سے مریضوں اور اُن کے لواحقین کو اس ضمن میں بہت پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔ جہاں تک مریض کی دیکھ بھال کا تعلق ہے تو یہ انتہائی احتیاط برتنے کا معاملہ ہے کیونکہ کینسر میں دی جانے والی ادویات کی وجہ سے مریض کو کئی طرح کے عوارض لاحق ہونے کا اندیشہ رہتا ہے اور انتہائی نگہداشت سے کچھ حد تک ان عوارض کی روک تھام ممکن ہو سکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں کینسر کا مرض خطرناک حد تک بڑھ رہا ہے جبکہ دوسری طرف اس سے نمٹنے کیلئے کئے جانے والے اقدامات نا کافی ہیں۔ اس ضمن میں حکومت اور مخیر حضرات کو عملی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے ضروری قدم کینسر کے علاج کی سہولیات مہیا کرنا ہے اور اس کے ساتھ ان سہولیات تک آسان رسائی کو بھی ممکن بنانا ہو گا۔ اس کے علاوہ مرض کی روک تھام کیلئے لوگوں میں شعور کیلئے بھی حکومتی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے''۔
ایک مریض کی کہانی
خرم بابر لاہور کے رہائشی ہیں جنہیں24 دسمبر 1994 کو خون کا کینسر تشخیص ہوا۔ وہ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہیں۔ اپنی کہانی بتاتے ہیں۔ '' جب مجھے کینسر کی تشخیص ہوئی تو اُس وقت نہ مجھے اتنی آگہی تھی کہ یہ کیا ہوتا ہے اور نہ ہی میرے والدین کو پتا تھا کہ اس کے خلاف کس طرح لڑنا ہے اور کونسی جگہ سے اس کا علاج ہوتا ہے۔ میرے سکول والوں نے سکول کی لیڈی ڈاکٹر صاحبہ کو اس کام کی ذمہ داری سونپی کے خرم کو علاج گاہ مہیا کی جائے تاکہ اس کا علاج ممکن ہوسکے۔ کئی ایک نامی گرامی ڈاکٹرز سے چیک اپ کے بعد میرا علاج شوکت خانم ہسپتال میں شروع ہوا۔ شوکت خانم ہسپتال میںپہلے دن جب میں گیا تو اُس کا ماحول کسی وی آئی پی لائونج سے کم نہیں تھا جس میں آئے ہوئے ہر مہمان کیلئے جوس، چائے اور بسکٹ وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا تھا جو k. بالکل مفت تھے۔علاج کی وجہ سے جب میرے بال اترنا شروع ہوئے تو محلے داروں، کلاس فیلوز اور خاندان والوں نے طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کر دیں۔ سکول کے بچے مجھ سے دور بھاگتے تھے کہ شاید اس کو کوئی اچھوتی بیماری لگ گئی ہے۔ اور کہیں یہ ہمیں بھی نہ لگ جائے۔ کافی بچوں نے میری وجہ سے سکول تبدیل کرلیا۔ خاندان کے لوگ میرے ماں باپ کو آکر دلاسہ دیتے کہ اس کی جتنی خدمت کرسکتے ہیں کر لیں کیونکہ اس کے پاس ٹائم بہت کم ہے۔
محلے دار ہمارے گھر نہیں آتے ہمارے گھر کا کھانا نہیں کھاتے تھے۔ اور ان سب سے مجھے آج بھی لڑنا پڑتا ہے کہ وہ ایسا نہ کریں۔ 1996 میں مجھے دوبارہ کینسر نے پکڑ لیا اور بہت تکلیف دہ مرحلے سے گزرنا پڑا۔مجھے تب محسوس ہوا کہ میں واقعی مر جائوں گا مگر مجھے میرے ماں باپ اور بہن نے حوصلہ دیا اور پھر میں ٹھیک ہوا۔ 2002 میں رضاکارانہ طور پر میں نے شوکت خانم ہسپتال میں کام شروع کیا اور تب ایک مہمان کی صورت میں ریڈیو پاکستان لاہور کے ایک پروگرام میں شرکت کی تو مجھے پتا چلاکہ شوکت خانم کے علاوہ بھی ہسپتال ہیں جہاں کینسر کا علاج ہوتا ہے۔
آخر کار مختلف ہسپتالوں کا دورہ کیا اور وہاں مریضوں کے ساتھ اُن کے لواحقین کے ساتھ بیٹھا چیزوں کو دیکھا اور پھر کینسر فائٹنگ فرینڈز نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔اس تنظیم میں وہ لوگ شامل ہیں جو کینسر کے مرض کا علاج کر واکے اُسے شکست دے چکے ہیں اور کینسر چمپیئن ہیں۔اور ایسے لوگ بھی ہیں کہ جن کے گھر میں کوئی نہ کوئی کینسر مریض تھا یا ہے۔ہم اب تک کینسر مریضوں کی فلاح و بہبود کے بلڈڈونیشنز ، ادویات اور کھانے کا اہتمام کرنے جسے امور کے ساتھ ساتھ مریضوں اور اُن کے لواحقین کو علاج کے حوالے سے راہنمائی اور معاونت فراہم کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ کینسر کے بارے میں آگاہی اورکینسر سے صحت یابی حاصل کرنے والے افراد کو دوبارہ معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کے لئے مختلف نوعیت کی سرگرمیاں بھی کرتے ہیں۔ ملک میں کینسر کے علاج کی سہولیات کے حوالے سے اُن کا کہنا ہے کہ یہ سہولیات نا کافی ہیں۔اور جو ہیں بھی تو وہ صرف ملک کے بڑے شہروںمیں ہی دستیاب ہیں۔ سرکاری سہولیات صرف مریضوں کی محدود تعداد کو مل پاتی ہیں۔ جبکہ پرائیویٹ سیکٹر میں کینسر کا علاج عام لوگوں کی دسترس سے باہر ہے۔ غریب آدمی بیت المال کے فارم لیکر اپنے بچے کے علاج اور ادویات کے لئے بھاگ دوڑ کرتا ہے۔ کبھی پیسے نہیں تو کبھی ادویات شارٹ اور کبھی روایتی سستی۔ بیت المال بروقت کیسز کو نہیں نمٹاتا اس نظام کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے علاوہ اُن کا کہنا تھا کہ کینسرکی آگاہی کے لئے سرکاری سطح پر فنڈ مختص ہونے چاہئے اور مہمیں چلائی جائیں۔ سستے و اعلیٰ تشخیصی اور علاج کے مراکز قائم کئے جائیں اور کینسر کی Follow-up ادویات کو سستا اور ان کی ہر وقت دستیابی کو یقینی بنا یا جائے۔ اس کے علاوہ کینسر کے مریضوں اور ان کے لواحقین کی Counseling اور رہنمائی کیلئے ہسپتالوں میں Patient care officers تعینات کئے جائیں۔''