لاپتہ افراد کا کیس ادارے کاغذی کارروائیوں میں مصروف ہیں سندھ ہائیکورٹ
فاضل چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ حکومت لاپتہ افراد کے معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دے
لاہور:
سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیرعالم نے لاپتہ افراد کی بازیابی اور تفتیش کے معاملے میں قانون نافذکرنے والے اداروں کی کارکردگی کو انتہائی مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وزارت داخلہ کو اداروں میں تعاون اور ورکنگ صورتحال سے کوئی دلچسپی نہیں، مختلف ادارے آپس میں دست و گریباں ہیں اور ایک دوسرے کو معلومات فراہم نہ کرکے نیچا دکھانے میں مصروف ہیں،
قانون نافذ کرنے والے ادارے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے صرف کاغذی کارروائی پر اکتفا کررہے ہیں۔ پولیس کی غیرسنجیدگی سے اندازاہ کیا جاسکتا ہے کہ کراچی میں امن و امان کی صورت حال کو کیسے کنٹرول کیا جارہا ہے؟۔ فاضل چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ حکومت لاپتہ افراد کے معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دے، عدالت نے محکمہ پولیس میں تبادلوں کی روش پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سیکریٹری ہوم اور آئی جی سندھ کو ہدایت کی کسی بھی پولیس افسر کا اس وقت تک تبادلہ نہ کیاجائے جب تک وہ کسی سنجیدہ نوعیت کی غفلت کا مرتکب نہ ہو۔
چیف جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے جمعرات کو لاپتہ افراد کی بازیابی کیلیے دائر کی گئی 40 سے زائد درخواستوں کی سماعت کی،عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ تفتیشی افسران اپنا فرض ادا کرنے کے بجائے عدالتی حکم کا انتظار کرتے ہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے عملی اقدام کے بجائے صرف کاغذی کارروائی پر ہی اکتفاء کیا جارہا ہے،
عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے 21دسمبر2011کو ایک فیصلے میں آئی جی سندھ کو ہدایت کی تھی کہ اداروں کے مابین رابطوں کے فقدان کوختم کرنے کیلیے ایک مشترکہ تفتیشی مکینز م بنائیں مگر اس حکم پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا، سیکریٹری داخلہ اس معاملے پر ذاتی طور پر توجہ دیں اور وفاقی اداروں، رینجرز، آئی ایس آئی، آئی بی، سی آئی ڈی، سی آئی اے اور اے وی سی سی جیسے اداروں کے درمیان رابطوں کا مربوط نظام تشکیل دیا جائے۔ عدالت نے رینجرز کی جانب سے پیش کی گئی
رپورٹس پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ رینجرز کے اختیارات سے متعلق عدالت کی معاونت کریں اور یہ بھی بتائیں کہ رینجرز کس اختیار کے تحت ملزمان کو گرفتار کرتی ہے اور وفاقی یا صوبائی حکومت میں کس کے ماتحت ہے اور جوابدہ ہے،
عدالت نے جمعرات کو پیش ہونے والے تمام افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ کو ہدایت کی کہ مذکورہ افسران کی کارکردگی کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے،عدالت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لاپتاافراد کی بازیابی کیلیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے تمام لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت 30اگست تک ملتوی کردی۔
سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مشیرعالم نے لاپتہ افراد کی بازیابی اور تفتیش کے معاملے میں قانون نافذکرنے والے اداروں کی کارکردگی کو انتہائی مایوس کن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وزارت داخلہ کو اداروں میں تعاون اور ورکنگ صورتحال سے کوئی دلچسپی نہیں، مختلف ادارے آپس میں دست و گریباں ہیں اور ایک دوسرے کو معلومات فراہم نہ کرکے نیچا دکھانے میں مصروف ہیں،
قانون نافذ کرنے والے ادارے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے صرف کاغذی کارروائی پر اکتفا کررہے ہیں۔ پولیس کی غیرسنجیدگی سے اندازاہ کیا جاسکتا ہے کہ کراچی میں امن و امان کی صورت حال کو کیسے کنٹرول کیا جارہا ہے؟۔ فاضل چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ حکومت لاپتہ افراد کے معاملے پر سنجیدگی سے توجہ دے، عدالت نے محکمہ پولیس میں تبادلوں کی روش پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سیکریٹری ہوم اور آئی جی سندھ کو ہدایت کی کسی بھی پولیس افسر کا اس وقت تک تبادلہ نہ کیاجائے جب تک وہ کسی سنجیدہ نوعیت کی غفلت کا مرتکب نہ ہو۔
چیف جسٹس مشیر عالم کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے جمعرات کو لاپتہ افراد کی بازیابی کیلیے دائر کی گئی 40 سے زائد درخواستوں کی سماعت کی،عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ تفتیشی افسران اپنا فرض ادا کرنے کے بجائے عدالتی حکم کا انتظار کرتے ہیں، قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے عملی اقدام کے بجائے صرف کاغذی کارروائی پر ہی اکتفاء کیا جارہا ہے،
عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ سندھ ہائی کورٹ نے 21دسمبر2011کو ایک فیصلے میں آئی جی سندھ کو ہدایت کی تھی کہ اداروں کے مابین رابطوں کے فقدان کوختم کرنے کیلیے ایک مشترکہ تفتیشی مکینز م بنائیں مگر اس حکم پر بھی عمل درآمد نہیں کیا گیا، سیکریٹری داخلہ اس معاملے پر ذاتی طور پر توجہ دیں اور وفاقی اداروں، رینجرز، آئی ایس آئی، آئی بی، سی آئی ڈی، سی آئی اے اور اے وی سی سی جیسے اداروں کے درمیان رابطوں کا مربوط نظام تشکیل دیا جائے۔ عدالت نے رینجرز کی جانب سے پیش کی گئی
رپورٹس پر بھی عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے ڈپٹی اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل کو ہدایت کی کہ رینجرز کے اختیارات سے متعلق عدالت کی معاونت کریں اور یہ بھی بتائیں کہ رینجرز کس اختیار کے تحت ملزمان کو گرفتار کرتی ہے اور وفاقی یا صوبائی حکومت میں کس کے ماتحت ہے اور جوابدہ ہے،
عدالت نے جمعرات کو پیش ہونے والے تمام افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ کو ہدایت کی کہ مذکورہ افسران کی کارکردگی کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے،عدالت نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو لاپتاافراد کی بازیابی کیلیے ٹھوس اقدامات کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے تمام لاپتہ افراد کے مقدمات کی سماعت 30اگست تک ملتوی کردی۔