ایم کیو ایم کہیں نہیں گئی
موجودہ حالات میں ایم کیو ایم تتر بتر، ٹکڑے ٹکڑے اور بلکہ مزید ٹکڑوں میں بٹتی نظر آرہی ہے۔
کبھی آٹھ تو کبھی چار سینیٹرز، کبھی چوبیس تو کبھی چھبیس ایم این اے، ان کے علاوہ پچاس یا اس سے زیادہ منتخب ہونے والے ایم پی اے، تو کبھی چھوٹی اور کبھی فوج ظفر موج کی مانند بھاری بھرکم رابطہ کمیٹی کا نام ہی ایم کیو ایم نہیں، بلکہ ایم کیو ایم مہاجر ووٹر کے ہاتھ میں موصول ووٹ کی پرچی اور اس پر ثبت ہونے والی مہر ہی اصل میں ایم کیو ایم ہے، جو گلی کوچے کے کارکن کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے آج بھی ہر محلے کے گھر گھر میں اپنا خاموش وجود رکھتا ہے۔ جو حالات کے جبر بھی سہتا ہے، لیکن امید کی شمع اپنے ذہن میں بجھنے نہیں دیتا۔
اس کی بنیادی وجہ ایک ایسی ہجرت، جو دنیا کے اعداد و شمار کے اعتبار سے سب سے بڑی ہجرت کہلاتی ہے، یہ عمل جو مشکل ترین مرحلہ تھا، اس کے درد سے گزرنے کے بعد جب 17 برس تک بھی اپنی پہچان نہ ملی تو ہجرت کے عمل سے روشنی کی طرح اپنے اندر سے پھوٹ کے آنے والے لفظ مہاجر کو اپنی ذیلی شناخت بنانے پر اپنے آپ کو مجبور پایا، جس کو ایک الہامی عمل بھی کہا جاسکتا تھا، اسی کو اپنی شناخت بنالیا اور آیندہ بھی بنائے رہیں گے، کیونکہ ذرے ذرے کو اکٹھا کرکے اینٹ بنانا اور پھر ان اینٹوں سے دیوار بنانے کا عمل ہی سنگلاخ عمارت کا پتہ دیتا ہے۔
برصغیر کے ہر حصے سے اپنے وجود کو سمیٹ کر لانے والوں کو، جو اپنی ایک خاص اقدار کے مالک تھے اور رسم و رواج کے ایک ایسے بندھن میں بندھے ہوئے تھے جس نے آج تک سندھ میں بسے ان لوگوں کو ایک ڈور میں پرو دیا، جسے مہاجر کہتے ہیں۔
جنھیں بھربھری مٹی کی دیوار سمجھ کر سنگین ترین الزامات کے ذریعے لاکھ ملیامیٹ کرنے کی کوششیں کی گئیں اور اب تک جاری ہیں، لیکن تمام تر تہمتوں اور الزامات کے باوجود غداری کے کوئی الزامات ثابت نہ ہوسکے۔
اور ہوتے بھی کیسے، جن کے آباؤ اجداد نے اس ریاست کی بنیاد رکھی ہو اور ان بنیادوں میں وابستگی کی وہ سوچ رچی بسی ہو، جس کے تحت ان کے آباؤ اجداد نے یہ خطہ زمین حاصل کیا تھا، اور آج کی گھڑی تک اسی سوچ کا تسلسل ہے جو اس کو قائم ودائم رکھنے کے لیے کوشاں ہیں اور اپنی ذیلی پہچان مہاجر کی آواز کے ساتھ اپنی کمیونٹی کی بے نامی کو ایک مستقل نام دے چکے ہیں اور اس ہی کو لے کر سبز ہلالی پرچم کے سائے کے نیچے اپنے حقوق کے طلبگار ہیں، اور اب اس شناخت کو ختم کرنا ان کے اپنے بس میں بھی نہیں اور اس کو مٹانے کی کوششیں بھی محض خام خیالی ہی ہوسکتی ہیں۔
گو کہ بدلتے موسم اور تند ہوائیں دریاؤں کے رخ کو ادھر سے ادھر تو کرسکتی ہیں، بہاؤ میں تیزی اور کمی اس کا راستہ تک تبدیل کرسکتی ہیں، لیکن بالآخر سارے دریا جاکر سمندر ہی میں گرتے ہیں، جس طرح اس وقت بھی کبھی ٹھہرتے تو کبھی ٹھاٹیں مارتے سمندر اور دریاؤں کی لہروں سے مہاجر ہی کی صدا سنائی دے رہی ہے۔
موجودہ حالات میں ایم کیو ایم تتر بتر، ٹکڑے ٹکڑے اور بلکہ مزید ٹکڑوں میں بٹتی نظر آرہی ہے، لیکن اس کی فکر اور سوچ کا بہاؤ اسی سمندر کی جانب ہے، جس کی لہریں اپنی پہچان کے سر الاپ رہی ہیں۔
جیسا کہ میں نے ابتدا میں تحریر کیا، ایم کیو ایم کسی فرد کا نام نہیں، بلکہ اس کی اصل طاقت تو وہ عوام ہیں، جن کی سوچ میں مہاجر اور ہاتھ میں حقوق کی حصولی کا پلے کارڈ ہے اور ساتھ ہی وہ کارکن ہیں، جنھیں اپنی شناخت کا علم اٹھائے زندگی کے 35 برس گزر چکے ہیں، ان ہی کی محنت اور کاوش نے 1987ء کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے اپنی پہچان کے جھنڈے گاڑ کر زمانے میں اپنے وجود کو منوانے پر مجبور کردیا تھا اور اسی سے جڑے اگلے انتخابات 1988ء کے ذریعے صوبائی اور قومی ایوانوں میں جاکر اپنے علم تو بلند کرواتے رہے، لیکن مقتدر قوتوں میں اس قبولیت کو دلی کے بجائے مجبوری کے طور پر سمجھا جاتا رہا، جس کے سبب احساس محرومی بھی موجود رہا۔
آپ کو یاد دلاتی چلوں کہ 2013ء کے انتخابات کے بعد 25 ایم این اے کے ہوتے ہوئے بھی صرف ایک وزارت اور دوسری وزارت سے ایک چوتھائی حصہ دیا گیا، جب کہ شمالی علاقہ جات کی ایک سیاسی پارٹی کے 7 ایم این ایز پر 4 وزراتیں دی گئیں، لیکن مہاجر اور کارکن اس بات کی تہہ کو پہنچ چکا ہے کہ اعتماد کو متزلزل رکھنے کے لیے بے زمینی کا طعنہ، ملازمتوں کے اشتہاروں میں ڈومیسائل کا لاحقہ لگانا اور یک جنبش قلم کے ذریعے ان کو کنٹریکٹ ملازمتوں میں رکھ کر نکال دینا، قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زمینی و بنیادی حقوق سے محروم رکھنا، آج بھی ان کے مقدر کا حصہ بنائے جانے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن کتنے بھی ٹکڑے ہوجائیں، مہاجر جاگ رہا ہے اور اپنی بے زمینی کو ختم کرنے کے لیے عدالت کے اس فیصلے کا نفاذ چاہتا ہے، جس کی رو سے سپریم کورٹ آف پاکستان کی لاہور رجسٹری کے فل بینچ کے10 مئی 2015ء کے ہونے والے اس فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے، جو لیاقت علی خان اور پنڈت جواہر لال نہرو کے معاہدے کے تحت متروکہ املاک کی ملکیت صرف ہندوستان سے آنے والے مہاجروں کو دی جائے گی۔
(یاد رہے مذکورہ فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر مسلسل توہین عدالت ہورہی ہے) لہٰذا اس کے حقداروں نے قانون سازی کے ذریعے احترام عدالت کا پرچم بلند کیا ہے اور اب باشعور مہاجر فیصلہ کرچکا ہے کہ پاکستان بنانے والے ہی پاکستان کو بچائیں گے، جس کے لیے ان کے اپنے وجود کی مضبوطی بھی ضروری ہے۔
مہاجروں کے آئینی و قانونی مسائل کے حل کی طرف پارلیمنٹ میں متروکہ سندھ کا بل بھی جمع کروا دیا ہے، جس سے اب سندھ میں مہاجروں کو کوئی بے زمین نہیں کہہ سکے گا اور نہ ہی سمندر میں پھینکنے کی بات کرے گا، کیونکہ مہاجروں نے 1947ء میں تبادلہ آبادی کے معاہدے کے تحت بھارت سے پاکستان اور سندھ میں ہجرت کی تھی۔ جب کہ ان کی جائیدادیں سندھ سے بھارت جانے والے ہندوؤں کو مل گئیں، لیکن معاہدے کے مطابق مہاجروں کو ملنے والی ہندوؤں کی وہ جائیداد، جو وہ چھوڑ کر گئے تھے، جن میں زرعی و غیر زرعی، نہری اور بارانی زمینیں، جائیدادیں، ملازمتیں اور حکومت میں مہاجروں کی نمایندگی شامل تھے، جو صرف انھی کا حق تھا اور ہے، اس کے علاوہ 1965ء میں دشمن کی چھوڑی ہوئی جائیداد اور 1971ء میں بنگالیوں کی چھوڑی ہوئی جائیداد پر بھی انھی کا حق تھا۔
بدقسمتی سے قابضین نے اس پر اپنے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں، لہٰذا اب سینیٹ و قومی اسمبلی میں ہونے والی ترمیمات کے ذریعے ملکیت کا جھگڑا ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔
اب جہاں تک مہاجروں کے ووٹ کی بات ہے تو جناب آیندہ الیکشن میں مہاجر اپنی سیاسی جہد مسلسل کو چند لٹیروں کے ہاتھوں لٹنے نہیں دے گا،کیونکہ اس نے ملک کی تاریخ میں اپنی یکجہتی اور سیاسی نظریاتی حدود میں کسی کو دخل اندازی کا اختیار نہیں دیا ہے۔ جس کی ابتدا 1987ء کے بلدیاتی الیکشن سے 2016ء تک صرف کامیابی ہی رہی ہے، اس نے ملک میں ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے، جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
اس کی بنیادی وجہ ایک ایسی ہجرت، جو دنیا کے اعداد و شمار کے اعتبار سے سب سے بڑی ہجرت کہلاتی ہے، یہ عمل جو مشکل ترین مرحلہ تھا، اس کے درد سے گزرنے کے بعد جب 17 برس تک بھی اپنی پہچان نہ ملی تو ہجرت کے عمل سے روشنی کی طرح اپنے اندر سے پھوٹ کے آنے والے لفظ مہاجر کو اپنی ذیلی شناخت بنانے پر اپنے آپ کو مجبور پایا، جس کو ایک الہامی عمل بھی کہا جاسکتا تھا، اسی کو اپنی شناخت بنالیا اور آیندہ بھی بنائے رہیں گے، کیونکہ ذرے ذرے کو اکٹھا کرکے اینٹ بنانا اور پھر ان اینٹوں سے دیوار بنانے کا عمل ہی سنگلاخ عمارت کا پتہ دیتا ہے۔
برصغیر کے ہر حصے سے اپنے وجود کو سمیٹ کر لانے والوں کو، جو اپنی ایک خاص اقدار کے مالک تھے اور رسم و رواج کے ایک ایسے بندھن میں بندھے ہوئے تھے جس نے آج تک سندھ میں بسے ان لوگوں کو ایک ڈور میں پرو دیا، جسے مہاجر کہتے ہیں۔
جنھیں بھربھری مٹی کی دیوار سمجھ کر سنگین ترین الزامات کے ذریعے لاکھ ملیامیٹ کرنے کی کوششیں کی گئیں اور اب تک جاری ہیں، لیکن تمام تر تہمتوں اور الزامات کے باوجود غداری کے کوئی الزامات ثابت نہ ہوسکے۔
اور ہوتے بھی کیسے، جن کے آباؤ اجداد نے اس ریاست کی بنیاد رکھی ہو اور ان بنیادوں میں وابستگی کی وہ سوچ رچی بسی ہو، جس کے تحت ان کے آباؤ اجداد نے یہ خطہ زمین حاصل کیا تھا، اور آج کی گھڑی تک اسی سوچ کا تسلسل ہے جو اس کو قائم ودائم رکھنے کے لیے کوشاں ہیں اور اپنی ذیلی پہچان مہاجر کی آواز کے ساتھ اپنی کمیونٹی کی بے نامی کو ایک مستقل نام دے چکے ہیں اور اس ہی کو لے کر سبز ہلالی پرچم کے سائے کے نیچے اپنے حقوق کے طلبگار ہیں، اور اب اس شناخت کو ختم کرنا ان کے اپنے بس میں بھی نہیں اور اس کو مٹانے کی کوششیں بھی محض خام خیالی ہی ہوسکتی ہیں۔
گو کہ بدلتے موسم اور تند ہوائیں دریاؤں کے رخ کو ادھر سے ادھر تو کرسکتی ہیں، بہاؤ میں تیزی اور کمی اس کا راستہ تک تبدیل کرسکتی ہیں، لیکن بالآخر سارے دریا جاکر سمندر ہی میں گرتے ہیں، جس طرح اس وقت بھی کبھی ٹھہرتے تو کبھی ٹھاٹیں مارتے سمندر اور دریاؤں کی لہروں سے مہاجر ہی کی صدا سنائی دے رہی ہے۔
موجودہ حالات میں ایم کیو ایم تتر بتر، ٹکڑے ٹکڑے اور بلکہ مزید ٹکڑوں میں بٹتی نظر آرہی ہے، لیکن اس کی فکر اور سوچ کا بہاؤ اسی سمندر کی جانب ہے، جس کی لہریں اپنی پہچان کے سر الاپ رہی ہیں۔
جیسا کہ میں نے ابتدا میں تحریر کیا، ایم کیو ایم کسی فرد کا نام نہیں، بلکہ اس کی اصل طاقت تو وہ عوام ہیں، جن کی سوچ میں مہاجر اور ہاتھ میں حقوق کی حصولی کا پلے کارڈ ہے اور ساتھ ہی وہ کارکن ہیں، جنھیں اپنی شناخت کا علم اٹھائے زندگی کے 35 برس گزر چکے ہیں، ان ہی کی محنت اور کاوش نے 1987ء کے بلدیاتی انتخابات کے نتائج نے اپنی پہچان کے جھنڈے گاڑ کر زمانے میں اپنے وجود کو منوانے پر مجبور کردیا تھا اور اسی سے جڑے اگلے انتخابات 1988ء کے ذریعے صوبائی اور قومی ایوانوں میں جاکر اپنے علم تو بلند کرواتے رہے، لیکن مقتدر قوتوں میں اس قبولیت کو دلی کے بجائے مجبوری کے طور پر سمجھا جاتا رہا، جس کے سبب احساس محرومی بھی موجود رہا۔
آپ کو یاد دلاتی چلوں کہ 2013ء کے انتخابات کے بعد 25 ایم این اے کے ہوتے ہوئے بھی صرف ایک وزارت اور دوسری وزارت سے ایک چوتھائی حصہ دیا گیا، جب کہ شمالی علاقہ جات کی ایک سیاسی پارٹی کے 7 ایم این ایز پر 4 وزراتیں دی گئیں، لیکن مہاجر اور کارکن اس بات کی تہہ کو پہنچ چکا ہے کہ اعتماد کو متزلزل رکھنے کے لیے بے زمینی کا طعنہ، ملازمتوں کے اشتہاروں میں ڈومیسائل کا لاحقہ لگانا اور یک جنبش قلم کے ذریعے ان کو کنٹریکٹ ملازمتوں میں رکھ کر نکال دینا، قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زمینی و بنیادی حقوق سے محروم رکھنا، آج بھی ان کے مقدر کا حصہ بنائے جانے کی کوشش کی جارہی ہے، لیکن کتنے بھی ٹکڑے ہوجائیں، مہاجر جاگ رہا ہے اور اپنی بے زمینی کو ختم کرنے کے لیے عدالت کے اس فیصلے کا نفاذ چاہتا ہے، جس کی رو سے سپریم کورٹ آف پاکستان کی لاہور رجسٹری کے فل بینچ کے10 مئی 2015ء کے ہونے والے اس فیصلے پر عملدرآمد کیا جائے، جو لیاقت علی خان اور پنڈت جواہر لال نہرو کے معاہدے کے تحت متروکہ املاک کی ملکیت صرف ہندوستان سے آنے والے مہاجروں کو دی جائے گی۔
(یاد رہے مذکورہ فیصلے پر عملدرآمد نہ کرنے پر مسلسل توہین عدالت ہورہی ہے) لہٰذا اس کے حقداروں نے قانون سازی کے ذریعے احترام عدالت کا پرچم بلند کیا ہے اور اب باشعور مہاجر فیصلہ کرچکا ہے کہ پاکستان بنانے والے ہی پاکستان کو بچائیں گے، جس کے لیے ان کے اپنے وجود کی مضبوطی بھی ضروری ہے۔
مہاجروں کے آئینی و قانونی مسائل کے حل کی طرف پارلیمنٹ میں متروکہ سندھ کا بل بھی جمع کروا دیا ہے، جس سے اب سندھ میں مہاجروں کو کوئی بے زمین نہیں کہہ سکے گا اور نہ ہی سمندر میں پھینکنے کی بات کرے گا، کیونکہ مہاجروں نے 1947ء میں تبادلہ آبادی کے معاہدے کے تحت بھارت سے پاکستان اور سندھ میں ہجرت کی تھی۔ جب کہ ان کی جائیدادیں سندھ سے بھارت جانے والے ہندوؤں کو مل گئیں، لیکن معاہدے کے مطابق مہاجروں کو ملنے والی ہندوؤں کی وہ جائیداد، جو وہ چھوڑ کر گئے تھے، جن میں زرعی و غیر زرعی، نہری اور بارانی زمینیں، جائیدادیں، ملازمتیں اور حکومت میں مہاجروں کی نمایندگی شامل تھے، جو صرف انھی کا حق تھا اور ہے، اس کے علاوہ 1965ء میں دشمن کی چھوڑی ہوئی جائیداد اور 1971ء میں بنگالیوں کی چھوڑی ہوئی جائیداد پر بھی انھی کا حق تھا۔
بدقسمتی سے قابضین نے اس پر اپنے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں، لہٰذا اب سینیٹ و قومی اسمبلی میں ہونے والی ترمیمات کے ذریعے ملکیت کا جھگڑا ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائے گا۔
اب جہاں تک مہاجروں کے ووٹ کی بات ہے تو جناب آیندہ الیکشن میں مہاجر اپنی سیاسی جہد مسلسل کو چند لٹیروں کے ہاتھوں لٹنے نہیں دے گا،کیونکہ اس نے ملک کی تاریخ میں اپنی یکجہتی اور سیاسی نظریاتی حدود میں کسی کو دخل اندازی کا اختیار نہیں دیا ہے۔ جس کی ابتدا 1987ء کے بلدیاتی الیکشن سے 2016ء تک صرف کامیابی ہی رہی ہے، اس نے ملک میں ایک ایسی تاریخ رقم کی ہے، جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔