نبیؐ جی کا نگر تھا اور میں تھا  آخری قسط

مکہ اپنی تاریخی حیثیت کے اعتبار سے کالے کالے پہاڑوں کا شہر ہے۔

hamdam.younus@gmail.com

مکہ مکرمہ میں قیام کا یہ آخری دن تھا، میں نے گاڑی میں بیٹھنے سے پہلے حرم کی طرف الوداعی نظر ڈالی اور پھرگاڑی میں بیٹھ گیا، اب ہماری گاڑی مکہ شہر سے ہوتی ہوئی مدینے کی طرف رواں دواں تھی۔

مکہ اپنی تاریخی حیثیت کے اعتبار سے کالے کالے پہاڑوں کا شہر ہے، راستے میں دائیں اور بائیں حد نظر تک گہرے بھورے اور کالے پہاڑوں کی بھرمار تھی مکہ کے زیریں علاقے میں کچھ شہری آبادیاں بھی تھیں مگر وہاں زیادہ چہل پہل نہیں تھی۔ راستے میں عصر کی نماز کا وقت ہوگیا تھا ڈرائیور نے ایک جگہ گاڑی روکی اور ہم نے نماز قریبی مسجد میں ادا کی اور پھر سفر جاری رہا کچھ دیر کے بعد ڈرائیور نے کہا کہ اب ہم مدینے کی حدود میں داخل ہو رہے ہیں۔

میں نے ڈرائیور سے کہا گاڑی کا اے۔سی بند کردو اور ونڈو کھول دو تاکہ مدینے کی ہوائیں سانسوں سے ٹکراتی رہیں۔ مجھے اس وقت اپنی نو عمری کے زمانے میں سنی ہوئی ایک نعت کے بول شدت سے یاد آرہے تھے ''مدینہ نہ دیکھا توکچھ بھی نہ دیکھا'' مذکورہ نعت کے اشعار خیال و فکر کو مہکا رہے تھے اسی دوران مجھے مرزا غالبؔ کا ایک شعر بھی شدت سے یاد آیا۔

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

غالبؔ صریرِ خامہ نوائے سروش ہے

میں مدینے کی ہواؤں کو اپنی سانسوں میں سمو رہا تھا اور میرے ذہن میں بھی نعت کے اشعار ترتیب پا رہے تھے جو کچھ یوں تھے۔

میں مدینے کی ہوا سانسوں میں بھر لوں تو چلوں

جی کرے اپنی جبیں مٹی پہ دھر لوں تو چلوں

ایک ٹھنڈک سے بھرا احساس ہے دل کو میرے

خوب بھیجوں میں درود اور دعا کرلوں تو چلوں

کچھ ہی دیر بعد مدینہ شہر کی روشنیاں آنکھوں کو خیرہ کر رہی تھیں اب ہماری گاڑی مسجد نبوی کے بالکل قریب ایک ہوٹل کے پاس آکے رکی، اسی ہوٹل الصالحہ میں ہمارا قیام تھا ہمیں پانچ دن مدینہ منورہ میں رہنے کی سعادت حاصل ہو رہی تھی، مسجد نبوی کو ہم نے ہمیشہ صرف تصویروں میں دیکھا تھا یا ٹی وی پر اس کے مناظر دیکھ کر روحانی سرور حاصل کیا کرتے تھے۔ اب مسجد نبوی میں مغرب کی نماز ادا کی اور پھر عشا کی اذان تک مسجد کے صحن ہی میں بیٹھے رہے یہاں کا ماحول اور یہاں کی دنیا ہی الگ تھی۔

عشا کی نماز کی ادائیگی کے بعد ہم روضہ اطہر نبی اکرمؐ کی زیارت کے لیے خود کو تیار کر رہے تھے۔ عورتوں اور مردوں کے لیے یہاں الگ الگ راستے اور الگ الگ دروازے تھے۔ دل میں خوشی اور انبساط کی لہریں موجزن تھیں اور ہونٹوں پر درود کے الفاظ تھے خوشا کہ ہمیں دربار نبیؐ میں حاضری کی سعادت حاصل ہو رہی تھی۔ سیکڑوں افراد قطار در قطار درود و سلام پڑھتے ہوئے روضہ نبیؐ کی طرف بڑھ رہے تھے۔ پھر روضہ نبیؐ ہماری آنکھوں کے سامنے تھا۔

اس وقت جوکیفیت تھی الفاظ بھی اس کیفیت کو بیان نہیں کرسکتے تھے۔ کسی کو بھی اپنا ہوش نہیں تھا بس ہونٹوں پر درود وسلام اور آنکھیں اشکبار تھیں ہر شخص یہاں دنیا کے فکر و الم سے دور خوشی کے جذبات میں ڈوبا ہوا تھا سب لوگ روضہ انورؐ سے ملحق دیوارکو ہاتھ لگاتے ہوئے آگے بڑھتے جا رہے تھے، دربار نبیؐ پر حاضری دے کر میں دروازے سے باہر نکلا مسجد کے صحن کے فرش پر دو رکعت نفل شکرانے کے ادا کیے اور دیر تک مسجد میں رہتے ہوئے اپنوں، غیروں اور ساری امت مسلمہ کی بھلائی اور خوشیوں بھری زندگی کے لیے دعائیں کرتا رہا، پاکستان کی سالمیت اور ترقی کی بھی ہونٹوں پر دعائیں مچلتی رہیں۔ پھر نماز شکرانہ کے بعد روضہ نبیؐ کے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے سلام پڑھا۔

یانبیؐ سلام علیک' یارسولؐ سلام علیک

یاحبیب سلام علیک' صلوٰۃ اللہ علیک

اور پھر ندامت بھرے آنسوؤں کے ساتھ واپس اس دروازے کی طرف آگیا جہاں بیگم میراانتظار کر رہی تھیں۔ آج ہمیں روضہ رسولؐ پر حاضری دینے کی پہلی بار سعادت حاصل ہوئی تھی۔ پھر ہم اپنے دل سے سارا دنیاوی بوجھ دور کرتے ہوئے ہوٹل پہنچے، میں بستر پر لیٹا تو نیند کوسوں دور تھی۔ روضہ انورؐ کا روح پرور منظر آنکھوں کے سامنے آگیا تھا اور نعت کے اشعار ذہن میں اترتے جا رہے تھے۔ میں نے بستر سے اٹھ کر وہ اشعار کاغذ پر رقم کیے اور پھر انھیں دھیمے دھیمے لہجے میں پڑھتا رہا وہ چند اشعار قارئین کی نذر ہیں۔

دیارِ حرم اور دیارِ نبیؐ کا


مسافر بنا تو یہ احساس جاگا

دیارِ نبی پر ملی دل کو راحت

کہ ہر سُو جہاں نور ہی نور دیکھا

......

کروں کیا بیاں دل کی حالت کو ہمدمؔؔ

کہ جب سامنے آئی روضے کی جالی

مچلتی رہیں بس دعائیں لبوں پر

دیارِ نبیؐ پہ بنا تھا سوالی

میں نے دیار نبیؐ پر تین مرتبہ حاضری دی تھی۔ میں اور بیگم فجرکی نماز کی ادائیگی کے بعد ہوٹل آجاتے تھے پھر ظہر کی نماز کی مسجد نبوی میں ادائیگی کے بعد دوپہر کا کھانا کسی پاکستانی ہوٹل میں کھاتے تھے۔ جہاں کھانا سستا بھی ہوتا تھا اور اچھا بھی۔ کھانے کے بعد میں اور بیگم روزانہ بنگالی بازارکی طرف نکل جاتے تھے۔ وہاں ایک جگہ کبوتروں کا غول کا غول ہوتا تھا اور وہاں لوگ کبوتروں کو پیار سے دانہ ڈالتے تھے، ہم نے بھی وہاں کبوتروں کے لیے دانہ ڈالا مدینے کے کبوتر بھی انسانوں میں گھل مل جاتے تھے اور دائیں بائیں گھومتے رہتے تھے۔

بنگالی بازار میں ہر طرح کے کپڑے، جائے نماز اور کھجوریں زائرین یہاں سب سے زیادہ خریدتے تھے، وہاں کئی قسم کی کھجوریں، گٹھلی اور بغیر گٹھلی کی کھجوریں بھی ملتی تھیں اور ایک خاص قسم کی اجوہ کھجور کا بڑا چرچا تھا۔ جو دیگر کھجوروں سے ذرا مہنگی بھی تھی، روایت ہے کہ اجوہ کجھور جنت کی کھجور ہے۔ اس کھجورکی گٹھلیوں میں بڑی شفا ہے، دل کے امراض کے لیے بھی یہ گٹھلیاں کام آتی ہیں۔

ہم نے کئی قسم کی کھجوریں اورخاص طور پر اجوہ کھجور بھی خریدی۔ ہم دونوں میاں بیوی عصرکی نماز کے بعد ہوٹل جانے کے بجائے مسجد نبوی کے صحن ہی میں بیٹھے رہتے تھے۔ مغرب اور عشا کی نماز پڑھنے کے بعد ہی ہوٹل جاتے تھے۔

مسجد نبوی میں خوشنما چھتریاں بھی اپنا ایک الگ حسن رکھتی تھیں، ہم گھنٹوں ان چھتریوں کو بند ہوتے دیکھنے کے لیے بیٹھے رہتے تھے، آخر چوتھے روز ہم نے ان چھتریوں کو بند ہوتے بھی دیکھا جو آٹومیٹک سسٹم سے جڑی ہوئی تھیں اور سیکڑوں چھتریاں ایک ساتھ آہستہ آہستہ کھلتی تھیں اور آہستہ آہستہ بند ہوتی تھیں اور جب یہ چھتریاں بند ہوتی تھیں تو بالکل بند ہونے سے پہلے عقاب کی شکل اختیار کرلیتی تھیں پھر بند ہوجاتی تھیں، مسجد نبوی میں کبھی کبھی یوں بھی ہوتا تھا کہ کچھ اللہ کے بندے صحن میں کھجوریں اورکبھی کبھی فروٹ کے ساتھ جوس کے ڈبے اورکھانے کے لنچ بکس بھی تقسیم کرتے تھے اور یوں زائرین کی خدمت کرکے خوشیاں حاصل کرتے تھے۔ صحن مسجد نبوی میں بھی کچھ اشعار ہوئے۔ دو اشعار قارئین کی نذر:

کہ دل کا بوجھ دل سے مٹ گیا تھا

مدینے کی ہواؤں کا اثر تھا

کہ ہر پل نور کی بارش ملی تھی

حسیں کتنا نبی جی کا نگر تھا

ایک دن ہم مدینے کی تاریخی مساجد اور جبل احد بھی دیکھنے گئے اور حضور اکرمؐ کے چچا امیر حمزہؓ کے مزار پر بھی حاضری دی تھی۔ ہمارے نبی جیؐ کے نگر میں پانچ دن پورے ہوچکے تھے، اب مسجد نبوی اور مدینے کی گلیوں کو الوداع کہنے کا وقت آگیا تھا۔ ہوٹل سے تمام سامان لے کر نیچے آئے دروازے پر ہماری گاڑی کھڑی تھی۔ گاڑی میں مسجد نبوی پر بھیگی بھیگی آنکھوں سے آخری نظر ڈالی اور گاڑی میں بیٹھ گئے اب گاڑی مدینہ ایئرپورٹ کی طرف جا رہی تھی۔ ایئرپورٹ زیادہ دور نہیں تھا۔

ایئرپورٹ پر پاسپورٹ دکھا کر ہم نے آب زم زم معمولی رقم دے کر خریدا تاکہ پاکستان کے رشتے داروں اور امریکا کے احباب کے لیے بھی آب زم زم اور کھجوروں کا تبرک دے سکیں۔ ایئرپورٹ ہی کے ہوٹل میں ہم نے ہلکا سا ناشتہ کیا اور بورڈنگ کا انتظار کرنے لگے اسی دوران ایئرپورٹ پر بارش شروع ہوگئی اور ہم اس موسلا دھار بارش کو شیشے سے اس پار دیکھتے رہے۔ پھر جہاز میں بیٹھنے کی باری آگئی اور مدینہ سے جہاز نے کراچی کے لیے اڑان بھری اور دیار حرم کا ہمارا یہ روح پرور سفر اختتام پذیر ہوا۔
Load Next Story