اقتدار

پانی کی قلت، اور صاف پانی کی فراہمی ہمارے ملک کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔

Jvqazi@gmail.com

KARACHI:
اقتدار کی بھی اپنی اہمیت ہے، جو اس کا مالک ہے اسے اگر اقتدار میں رہنا ہے اور سنبھالنا نہیں آتا تو پھر اقتدار کوئی اور لے اڑتا ہے، کوئی اور تعاقب میں رہتا ہے اور پھر یہ رسہ کشی اپنا بیانیہ بناتی ہے۔ کوئی غدار وطن ٹھہرتا ہے تو کوئی محب وطن، کوئی قاتل تو کوئی مقتول، کوئی منصف تو کوئی وکیل، اور اس طرح درباریوں کی قطاریں لگ جاتی ہیں۔ ان درباریوں کی پھر اشرافیہ بنتی ہیں۔

اس ملک میں جب عوام کے نام پر حکمران حکومت نہ کر پائیں اور انھیں یقین ہو کہ پاکستان کے نام پر جو انھیں ووٹ ملا ہے اب اس کو برقرار رکھنا ان کے بس کی بات نہیں، بیلٹ باکس کے پراسز سے وہ کترانے لگیں، آئین دینے سے انکاری ہو جائیں اور اسمبلی اپنی مدت طویل کرنے کے لیے خود قانون سازی کرنے لگے۔

ادھر مشرقی پاکستان میں مسلم لیگ ایک ہی جھٹکے میں اقلیت میں آ گئی کہ وہاں الیکشن کی بنیاد بیانیہ پر تھی اور مغربی پاکستان میں ان کا بھرم کچھ اس طرح سے رہ گیا کہ یہاں الیکشنز Electable کے سکوں پر جمتے تھے کہ کیسے لوگ ووٹ، برادریوں اور قبیلوں کے توسط سے دیتے تھے، اور یہ سب راجہ، چوہدری، خان، مسلم لیگ تھے، مسلم لیگ گئی تو مارشل لاء میں تھے، مارشل لاء گئی تو بھٹو کے ساتھ، بھٹو گئے تو ضیاء الحق۔ یوں کہیے جہاں جہاں اقتدار گیا، صاحباں خودبخود دبے پاؤں وہیں پہنچ جاتے تھے۔

پاکستان تو بنا مگر سرد جنگ اپنے زوروں پر تھی، ہم نے جب لوگوں سے اقتدار چھینا تو خود ہماری ہی پتنگ کٹ گئی۔ اسکندر مرزا فوج کے سربراہ کو کابینہ میں لے آئے، پھر یوں ہوا کہ اسمبلی تحلیل ہوئی، حکومت رخصت ہوئی اور ابھی چھ ماہ بھی نہ گزرے تھے جن کے اشاروں پر اقتدار پر قبضہ ہوا وہ خود ان کو رخصت کر بیٹھے، اور جنھوں نے ان کو رخصت کیا وہ سرد جنگ کے داؤ پیچ سے بخوبی واقف تھے۔ ان کو جو امریکا نے کہا، سر تسلیم خم کیا، لیکن یہ نیا پاکستان تھا جس میں ابھی پرانے ہندوستان کے آداب و باقیات باقی تھے۔ ابھی ہمارا تسلسل رواں دواں تھا۔

اور یوں پھر کچھ گوروں نے بھی عنایات کیں، مسئلہ کشمیر کو ادھورا چھوڑ گئے۔ ادھر افغانستان بحیثیت Buffer state ہمیں ورثے میں ملا۔ سرد جنگ نے کیا کیا برپا نہ کیا۔ یہاں اقتدار پر قبضہ کرنے والوں کی چاندی لگ گئی، انھوں نے پاکستان امریکا کو ٹھیکے پر دے دیا۔ امریکا کو یہاں ایک بندے سے بات کرنا بہتر لگتی تھی، اس کے برعکس کہ وہ پارلیمنٹ سے بات کرے، قائد ایوان سے بات کرے۔


مطلب یہ کہ تاریخ کے دریچوں کو ضرور کھول کر دیکھا جائے، ورنہ اگر یہ دریچے بند رہے تو پھر کچھ بھی آگے نظر نہ آئے گا۔

سی پیک ابھی اپنے مراحل میں ہے۔ دنیا اب نئے تضادات کے ساتھ بدل رہی ہے۔ بہت سی توڑ پھوڑ ہونی ہے۔ سرد جنگ نہ سہی مگر اس سے ملتی جلتی کوئی نئی جنگ کے نقارے بج چکے ہیں۔ ہم اب امریکا کے ٹھیکے پر نہیں۔ مگر جو ترتیب ان ادوار سے بنی ہے وہ اب بھی باقی ہے، اب بھی وہی اشرافیہ ہے اور اس اشرافیہ کا تسلسل ہے۔ اب بھی عوام سوئے ہوئے ہیں، لیکن برادریوں کی بنیادوں پر ووٹ دینے کے عمل کا تناسب بتدریج کم ہوا ہے۔ پھر بھی اس رسم نے بلوچستان کے سینیٹ میں اپنے اثرات دکھائے۔ بھٹوازم دیہی سندھ سے رخصت ہوا، لوگ پھر واپس وڈیروں کے پاس گروی ہوئے۔

شہری سندھ میں بیانیہ سے ووٹ ہو گا، مگر ووٹ ہو گا کس کا، اس پر سوالیہ نشان ہے۔ فرض کر لیں یہ رسہ کشی میاں صاحب جیت جاتے ہیں اور مریم ان کی جانشین ہو کر ابھرتی ہیں۔ ان کے بھی درباری ہیں۔ تو انھوں نے بھی دس موٹر وے اور بنانے ہیں اور اربوں ڈالر کے قرضے اور لینے ہیں۔ Orange train کے جال بچھانے ہیں اور اگر بجلی کے یونٹ نصب کرنے کے بعد بھی لوڈشیڈنگ ہوتی رہی تو کسی نہ کسی کو Escape goat بنا کر اپنے آپ کو جمہوریت کا پاسبان بنا دینا ہے۔

اور پھر اسٹیبلشمنٹ و عدلیہ کے خلاف توپیں کھول دینی ہیں، نہ اسپتال دینے ہیں، نہ اسکول، نہ ٹھیکے، غریب وہیں کے وہیں، کوئی پرسان حال نہیں۔ فرض کر لیں کہ ملک میں فوجی اقتدار واپس آتا ہے تو پھر یہ سارے کے سارے اپنے زور سے جیت کر واپس ان کے پاس، اور پھر ایک نئی مسلم لیگ بنے گی۔

مگر اس بار امریکا غائب ہے، وہ اگر ہے تو کسی بھی ایڈونچر کی مخالفت کرے گا۔ اگر کیری لوگر بل کو بھی ہم جاری رکھیں گے تو سی پیک کے حساب میں چین کو اچھا نہ لگے گا۔ یہاںیہ بات درست ہے کہ مقامی سطح پر ایسے اقدامات کے لیے ماحول کا موجود ہونا ضروری ہے، مگر ایسا بھی نہیں جس طرح سے ماضی میں ہوتا تھا۔ ہوس ہے کہ دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے۔ صاحب اقتدار لوگ اس کی شدید لپیٹ میں ہیں۔ ماحولیات کے حوالے سے ہماری دہلیز پر بہت بڑا بحران کھڑا ہے۔

پانی کی قلت، اور صاف پانی کی فراہمی ہمارے ملک کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگی، اور زرمبادلے کے ذخائر میں قلت، یہ وقت سر جوڑ کر بیٹھنے کا ہے۔ مل جل کے اقتدار کو عوام کی امانت سمجھ کر آگے بڑھنا ہے۔ آہستہ آہستہ اس سرد جنگ کے بنے بیانیہ سے چھٹکارا حاصل ہو گا۔ ورنہ نہ جانے کتنی ملالہ ان بہتانوں کا شکار ہوں گی اور نہ جانے کتنے فتنے اور پیدا ہوں گے۔ یہ جدل جو ہمارے ورثے میں ہے اسے دفن کرنا ہو گا، جو صحیح ہے اسے تسلیم کرنا ہو گا، جو صحیح نہیں ہے اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔
Load Next Story