سیاسی پیش رفت کا ایک راستہ
برسر اقتدار پارٹی پاناما لیکس کے شکنجے میں اس طرح پھنسی ہوئی ہے کہ اس کے پائے رفتن نہیں ہے۔
اعلیٰ تعلیم یافتہ ، مہذب اہل علم، اہل دانش، ادیب، شاعر حضرات کا یہ بڑا عجیب رویہ ہوتا ہے کہ اگرکوئی دوست کوئی ساتھی بیمار ہوتا ہے یا کسی مشکل میں گرفتار ہوتا ہے تو ایسے دوست ایسے ساتھی کی جس طرح دلجوئی کرنا چاہیے بالکل نہیں کی جاتی۔ یہ رویے خصوصاً ترقی پسند حلقوں میں زیادہ دیکھے جاسکتے ہیں جب کہ بعض مذہبی جماعتوں میں اس حوالے سے زیادہ ہمدردی زیادہ انسانیت کے رویے دیکھے جاسکتے ہیں۔
آج یہ بات اس لیے یاد آئی کہ آج اپنی کتاب '' ریگ زار'' کے فلیپ پر شوکت صدیقی کا نام نظر سے گزرا ، شوکت صدیقی مرحوم کا شمار ملک کے ایسے ممتاز ادیبوں میں ہوتا ہے جن کی کتابیں ملک کے اندر ملک کے باہر یکساں طور پر مقبول ہیں اور جن کے مختلف زبانوں میں ترجمے ہوچکے ہیں۔
شوکت صدیقی اگرچہ ادیب تھے اور ان کا تعلق ادب سے تھا لیکن مرحوم کو بائیں بازو کی سیاست سے ہمیشہ دلچسپی رہی جب بھی ہماری ملاقات ہوتی وہ بائیں بازو کی سیاست کا احوال ضرور پوچھتے۔ شوکت صدیقی ایک طویل عرصے تک بیمار رہے اپنی بیماری کی وجہ سے وہ وہیل چیئر پر آگئے تھے اور ایک طویل عرصے تک بلکہ موت تک وہ وہیل چیئر پر ہی رہے ۔
اس دوران دوستوں کی جانب سے جتنی توجہ کی ضرورت تھی وہ اس سے محروم رہے اور جب انتقال ہوا تو جنازے میں بھی اتنے لوگ نہ تھے جتنے ایک معروف اور دنیا بھر میں ادب کے حوالے سے معروف شخص کے جنازے میں ہونے چاہیے تھے۔ یہ صورتحال صرف شوکت صدیقی کے ساتھ ہی نہ تھی بلکہ کئی ترقی پسند سیاسی رہنماؤں اور قلمکاروں کے ساتھ اسی قسم کا رویہ رہا ، اگرچہ بعض دوست بیمار دوستوں اور ضرورت مند دوستوں کی ہمیشہ دیکھ بھال کرتے رہے ہیں۔
معراج محمد خان کا شمار ترقی پسند ایسے رہنماؤں میں ہوتا ہے جنھوں نے زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ عوام کے حقوق کی جدوجہد میں گزارا اور قید و بند کی طویل آزمائشوں سے گزرے ، عمر کے آخری حصے میں وہ شدید بیمار ہوئے یہاں تک کہ وہ بول بھی نہیں سکتے تھے ان کے قریبی دوستوں اور رفیقوں میں اظہر جمیل سر فہرست تھے۔
ایک اجلاس کے حوالے سے جب میں نے اظہر جمیل سے رابطہ کرکے اس میں معراج کی شرکت کی بات کی تو اظہر جمیل ایڈووکیٹ نے بڑے دکھ سے کہا۔'' بیدری بھائی! ہم مردہ پرست لوگ ہیں جب تک کوئی ساتھی بیمار اور زندہ رہتا ہے اسے نظرانداز کیا جاتا ہے لیکن جب وہ انتقال کر جاتا ہے تو بڑے اعزاز اور دلچسپی کے ساتھ اس کے تعزیتی جلسے کرتے ہیں، ان تعزیتی جلسوں میں مرحوم کی خدمات کا بڑی دلسوزی کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔''
اظہر جمیل کی اس بات کو سن کرکئی دوست نظروں اور خیالوں میں آگئے جو ساری زندگی عوامی حقوق اور اس استحصالی نظام کو بدلنے کی جدوجہد میں بتا چکے تھے۔ ان بے شمار لوگوں میں ایک دوست محمد زبیر بھی تھا جس کی ساری زندگی مزدوروں میں گزری جس کی عمر کا آدھا حصہ جیلوں میں گزرا ، اس کے جنازے میں وہ لوگ شامل نہ تھے جو ان کے قریبی دوستوں میں شامل تھے ، اس عظیم انسان کو لانڈھی میں ریلوے لائن کے قریب دفنایا گیا اور کسی نے ان کی قبر کو پکا بنانے کی زحمت نہ کی اس طرح زبیرکی قبر بھی زبیر کی طرح وقت کی دھول میں گم ہوگئی اس کی کوئی شناخت نہیں رہی ۔
جن ملکوں میں اشرافیائی بالادستی ہوتی ہے ان ملکوں کی اشرافیہ کی یہ منظم اور منصوبہ بندکوشش ہوتی ہے کہ سیاسی قیادت عوام ، مزدوروں،کسانوں سے نہ ابھرے اس مذموم مقصد کے لیے عوامی حلقوں خصوصاً محنت کش حلقوں مزدوروں کسانوں کو دبا کر رکھا جاتا ہے جب بھی یہ طبقات اپنے طبقاتی حقوق کے لیے ہڑتالوں وغیرہ کی طرف آتے ہیں ، انھیں ریاستی طاقت کے ذریعے کچل دیا جاتا ہے۔
ایوب خان کے زوال کے بعد ملک میں خصوصاً کراچی میں مزدور قیادت اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ہاتھوں میں آگئی تھی جو قانون ساز اداروں میں جانے کی اہلیت رکھتے تھے ۔ اس خوف کی وجہ سے اس وقت مزدور تحریکوں کو ہی ریاستی طاقت سے کچل دیا گیا اور ٹریڈ یونین کو اس طرح روند دیا گیا کہ آج تک ٹریڈ یونین بحال نہ ہوسکی۔ یہی حال دوسرے طبقات کا ہے جن میں کسان سرفہرست ہیں۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اگرکوئی مزدور اپنے کارخانے یا ملز میں ٹریڈ یونین کا نام بھی لیتا ہے تو اسے کان پکڑ کر ملز سے باہر کردیا جاتا ہے۔
مزدوروں کسانوں میں حوصلہ بڑھانے کے لیے اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والوں کو سراہا جاتا ہے ، انھیں ایوارڈ دیے جاتے ہیں، انھیں ان کی زندگی ہی میں خراج تحسین خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے، ان کے ناموں کی اجتماعی یادگاریں بنائی جاتی ہیں تاکہ ان کی اور آنے والی نسلوں کی حوصلہ افزائی ہو۔ میں نے کارکردگی کے حوالے سے محمد زبیرکا ذکرکیا ہے ایسے بے شمار دوست ہیں جنھوں نے ٹریڈ یونین اورکسانوں اور ہاریوں کے علاوہ دوسرے محاذ پر ناقابل فراموش خدمات انجام دیں لیکن ایک تو فطری نالائقی کی وجہ سے دوسرے لابنگ کلچر کی وجہ سے یہ لوگ گوشہ گمنامی میں پڑے ہوئے ہیں۔
آج پاکستان جس 70 سالہ اشرافیائی اسٹیٹس کو میں دھنسا ہوا ہے اس سے عوام کو نکالنے کے لیے سب سے پہلے ایسی طاقتوں ایسی سیاسی جماعتوں ایسی قیادت کو آگے لانا پڑے گا جو اب تک اقتدار سے باہر رہی ہے اور جس کا تعلق مڈل کلاس سے ہو۔ یہ بات میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ عوام میں یعنی نچلے طبقات میں کوئی ایسی موثر اور مقبول پارٹی اور قیادت نہیں ہے جو اشرافیائی قیادت کو چیلنج کرسکے۔
برسر اقتدار پارٹی پاناما لیکس کے شکنجے میں اس طرح پھنسی ہوئی ہے کہ اس کے پائے رفتن نہیں ہے۔ بد قسمتی سے بائیں بازوکی کوئی ایسی مقبول پارٹی نہیں ہے جو اس خلا کو پُرکرسکے جو اشرافیائی پارٹی کی سیاست بدری اور نا اہلی کی وجہ سے پیدا ہوا ہے پارٹیوں کے نام پر جو بے شمار دھڑے موجود ہیں، ان میں ایک بھی ایسا دھڑا موجود نہیں ، جسے عوام بڑے پیمانے پر جانتے ہوں جس کی قیادت عوام میں جانی پہچانی ہو ۔
میں نے دوستوں کے ساتھ بے رخی کے رویے سے کالم کا آغاز کیا تھا کیونکہ بائیں بازو میں کوئی ایسی ترغیب دکھائی نہیں دیتی جو کارکنوں میں آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرے۔ جیساکہ ہم نے بار بار کہا ہے اس ملک کے 20 کروڑ عوام اور عوامی سیاست کو آگے بڑھنے کا موقع اس وقت تک نہیں ملے گا جب تک ملک کو Status Quo کے بھنور سے باہر نہ نکالا جائے۔ سیاسی حالات سے اندازہ ہو رہا ہے کہ بے شمار مقدمات میں پھنسی ماضی کی قیادت کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نظر نہیں آرہا ہے کہ وہ فی الوقت سیاست سے کنارہ کش ہوجائے، ایسی صورت میں ایسی سیاسی جماعت کی حمایت ضروری ہے جو اقتدار میں نہ رہی ہو اور کرپشن کے حوالے سے بدنام نہ ہو، فی الوقت پیش رفت کا یہی ایک راستہ ہے۔