کہیں ہم فراموش نہ کردیں
کراچی پر سیاسی پارٹیوں کے مسلح کارکنان اور جرائم پیشہ گروہوں کا راج تھا۔
کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں پی ایس ایل کے فائنل اور بعد ازاں تین انٹرنیشنل ٹی ٹوئنٹی میچوں میں پُرجوش تماشائیوں کی زندہ دلی سے ثابت ہوگیا کہ کراچی (اور ملک)کا امن لوٹ آیا ہے، جو اس سے پہلے داخلی تنازعات کی نذر ہوچکا تھا۔
کراچی میں کھیلوں کے شائقین کو ایسے مواقع سے محروم کردیا گیا تھا، طویل عرصے تک ان کی زندگی پر سیاسی، مذہبی اور جرائم پیشہ دہشت گردوں کے خوف کا گہرا سایہ چھایا رہا، یہی وجہ ہے کہ اہل کراچی کے لیے یہ خوف سے آزادی اور پاکستان میں کھیلوں کی واپسی کے سبب دہری خوشی کا موقع تھا۔ میچ کے آغاز سے قبل قومی ترانہ چلایا گیا اور ساؤنڈ سسٹم خراب ہوگیا تو میدان کے حاضرین نے مل کر بہ آواز بلند ترانہ پڑھا۔ کیا اسٹیج سے حب وطن کا اظہار اس سے بہتر ہوسکتا تھا؟
جنرل نصیر اﷲ بابر اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 1994اور 95کے دوران آپریشن کرکے جو نتائج حاصل کیے تھے، پرویز مشرف نے ذاتی مقاصد کے لیے انھیں برباد کردیا۔ ایم کیو ایم کی ہنگامہ آرائیوں پر سیکیورٹی اداروں کو خاموش تماشائی بنے رہنے کا حکم تھا۔ 2008ء میں مشرف حکومت کے خاتمے کے بعد پیپلز پارٹی سے قیام امن کے لیے کارروائی کی توقع کی جا رہی تھی لیکن ایم کیوایم مشرف سے بھی زیادہ زرداری کی ضرورت تھی۔
پیپلز پارٹی کے متعلقہ وزیر کارندے بن کر رہ گئے اور لندن میں ایم کیو ایم کے قائد کی تسکین کا سامان کرتے رہے۔ سیاسی پارٹیوں سے وابستہ شرپسند عناصر آزادی سے اپنی سرگرمیوں میں مصروف تھے، پولیس ذاتی اور سیاسی مفادات کے لیے ہونے والے سمجھوتوں کی نذر ہوچکی تھی اور انٹیلی جینس جمع کرنے کا مربوط نظام مفلوج تھا، ملزمان کی گرفتاری کے اختیارات کے بغیر سیکیورٹی ادارے خاموشی سے اس صورت حال کا تماشا دیکھنے پر مجبور تھے۔
عسکریت پسند اگر گرفتار ہو بھی جاتے تھے تو انھیں پولیس تھانوں میں شاہانہ انداز میں لایا جاتا اور جب وہ رہا ہوتے تو ان پر گل پاشی کی جاتی۔ ایک پوری دہائی تک مفلوج رہنے کی وجہ سے سیکیورٹی فورس کے نظم وضبط اور عزم کو ٹھیس پہنچی، 2000ء سے لے کر 2010ء تک کے دور میں ان کی کام کرنے کی اہلیت اور صلاحیت بری طرح متاثر ہوئی، اس مدت میں کمان کرنے والے دو افسران پر بھی اس صورت حال کا منحوس سایہ پڑا۔
کراچی پر سیاسی پارٹیوں کے مسلح کارکنان اور جرائم پیشہ گروہوں کا راج تھا، ایم کیو ایم کے سیکٹر آفس اسلحے کے زور پر الطاف حسین کے احکامات شہر پر نافذ کرتے رہے۔ سندھ کے حکمران ان عسکری دھڑوں کو ''قانونی'' شکل دے چکے تو کراچی کے شہریوں کی آہ و فغاں بلند ہوئی اور بالآخر کیانی کا صبر بھی جواب دے گیا۔ انھوں نے جنوبی وزیرستان میں شورش کے خلاف آپریشن کی قیادت سے فارغ ہونے والے میجر جنرل اعجاز چوہدری کو اپریل 2010میں ڈی جی رینجرز سندھ تعینات کیا۔
اعجاز چوہدری نے رینجرز کی ازسر نو تنظیم کی۔ ان کے لیے ڈالمیا میں کلو گینگ کے خلاف کارروائی پہلی آزمائش ثابت ہوئی، اس کے بعد جنرل کیانی کی مدد سے اعجاز چوہدری نے آپریشنز کا سلسلہ شروع کیا۔ ستمبر 2011میں جب سپریم کورٹ نے انھیں طلب کیا، اعجاز چوہدری نے سندھ کے حکمران اتحاد میں سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے جرائم پیشہ افراد کی مہر بند فہرست چیف جسٹس افتخار چوہدری کو پیش کردی۔
صوبے میں ''جمہوری'' طرز حکمرانی کی روسیاہی نے عدالت کو بھی حیرت میں ڈال دیا، سپریم کورٹ نے ڈی جی رینجرز کو کارروائیاں جاری رکھنے کے احکامات جاری کیے اور ہفتہ وار بنیادوں پر رینجرز کی کارکردگی کا جائزہ لیا جانے لگا۔ اسی عمل کے نتیجے میں کم از کم شہری سندھ میں 2013کے انتخابات کا پُرامن انعقاد ممکن ہوا۔ اکتوبر 2011 کے بعد چھے ماہ تک اعجاز چوہدری ڈی جی رینجرز رہے اور مارچ 2012میں ترقی کرکے لیفٹیننٹ جنرل ہوکر 5کور کے کمانڈر بننے کے بعد عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشنز کا حصہ رہے۔
کیانی نے ریٹائرمنٹ سے صرف دو ہفتے قبل اعجاز چوہدری کی جگہ دوسرے افسر کو اس عہدے پر فائز کردیا۔ سجاد غنی کے بعد لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار کراچی کے کور کمانڈر بنے۔ جنرل راحیل شریف کے آرمی چیف بننے کے بعد کراچی میں ہونے والی کارروائیوں کی رفتار میں واضح تیزی آئی۔ پشاور میں اے پی ایس سانحے کے بعد جب آپریشن ''ضرب عضب'' کا آغاز ہوا تو کراچی میں بھی قیام امن کے لیے کارروائیاں اپنے عروج پر پہنچ گئیں۔
کراچی میں رینجرز کو جرائم کے خلاف چومکھی لڑنا پڑی، جرائم پیشہ اور دہشت گردوںکا مقابلہ بھی کرنا پڑا اور حکومت سندھ میں ان عناصر کے سرپرستوں کی مخالفت کا بھی سامنا کیا۔ اس پر سوا یہ کہ 2015میں سندھ حکومت نے ایک قرارداد منظور کی جس میں رینجرز کو ملزمان کی گرفتاری کے لیے دیے گئے اختیارات کو مشروط کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔الطاف حسین نے 22اگست کو اپنی نفرت انگیز تقریر میں پاکستان کو توڑنے کی بات کرکے اپنے عزائم کا اظہار کیا اور ساتھ ہی ملک جلد ختم ہوجانے کی پیش گوئی بھی کی۔
الطاف حسین کی تقریر پر مجمعے کے ردّعمل سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ محض وقتی جذبات نہیں تھے بلکہ سوچا سمجھا پاگل پن تھا۔کیل کانٹوں سے لیس ایم کیو ایم کے کارکن زینب مارکیٹ کے اطراف میں پوزیشنز سنبھال چکے تھے۔ اگر رینجرز کو ٹریفک کی وجہ سے تاخیر نہ ہوتی تو سیکڑوں معصوم شہریوں کا قتل عام ہوسکتا تھا، بعد میں جس کا الزام رینجرز کے سر لگادیا جاتا۔ایم کیو ایم کا یہ منصوبہ بھارتی خفیہ ادارے ''را'' نے پاک فوج کو بدنام کرنے کے لیے ترتیب دیا تھا۔
جنرل راحیل شریف کی مکمل حمایت کے ساتھ، جنرل نوید مختار نے 23اگست کو فیصلہ کُن اقدامات کیے۔ پورے کراچی میں خوف و دہشت پھیلانے کے لیے استعمال ہونے والے ایم کیو ایم کے 122سیکٹر اور یونٹ دفاتردو دنوں کے اندر مسمار کردیے گئے۔وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی سیاسی اور انتظامی معاونت کے ساتھ، ایم کیو ایم کے دہشت گردی کے اڈّوں کی بیخ کُنی کراچی کی تاریخ کے نئے دور کا آغاز تھا۔ کور کمانڈر کے برمحل اقدام سے بہترین نتائج برآمد ہوئے۔
ایم کیو ایم اب دھڑوں میں تقسیم ہورہی ہے، کراچی کی اس طاقتور ترین سیاسی جماعت کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور کراچی کو اس کی چھینی گئی آزادی واپس مل گئی۔ 2014میں کراچی دنیا کے تین سو شہروں میں چھٹا خطرناک ترین شہر تھا، 2016 میں صورت حال اس قدر بہتر ہوئی کہ اس درجہ بندی میں 50ویں نمبر پر آگیا، یہ رینجرز(فوج ہی کہیے) کی بے مثال کاوشوں کا ثبوت ہے۔
کراچی کے کور کمانڈر شاہد بیگ مرزا اور ڈی جی رینجرز میجر جنرل محمد سعید کو بالترتیب اپنے پیش رو لیفٹننٹ نوید مختار اور میجر جنرل (موجودہ لیفٹننٹ جنرل) بلال اکبر کے طے کیے گئے سنگ میل سے آگے کا سفر جاری رکھنا ہوگا۔ سندھ حکومت نے ان کے راستے میں کئی سیاسی رکاوٹیں لاکھڑی کی ہیں لیکن اس کے باوجود قانون کے نفاذ کے لیے اُسی عزم سے کام کرنا ہوگا، اعجاز چوہدری، نوید مختار اور بلال اکبر نے جس کا مظاہرہ کیا۔ کئی مجرم اور دہشت گرد ابھی تک گرفت میں نہیں آسکے، شہر کا کیا ہوگا اگر فوج واپس چلی گئی؟
''نظریہ ضرورت'' کے تحت جمہورت کو پٹری سے اتارنے کا واویلا سیاست داں اور زر خرید میڈیا کررہے ہیں، دراصل سیاست دان ہی ہیں جو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے اہم ترین اداروں کو کرپٹ کرکے جمہوریت کی راہ کھوٹی کرتے ہیں۔
پاکستان میں کرکٹ کی واپسی کی نیک نامی سمیٹتے اور پی ایس ایل کی کامیابی کا جشن مناتے ہوئے سیکیورٹی اداروں کے کردار کا تذکرہ کرتے ہوئے بخل سے کام لیا گیا ہے، بلکہ پاکستان کو محفوظ بنانے کے لیے عظیم الشان قربانیاں دینے والے فوج اور پولیس اہلکاروں کا برسبیل تذکرہ بھی نہیں کیا گیا۔ کہیں ہم فراموش نہ کردیں کہ یہ ان ہی کی قربانیاں ہیں جن کے باعث ملک میں کرکٹ کی واپسی ہوئی ورنہ اس سے پہلے تو پی ایس ایل صرف ایک ''یاترا'' تھی جس سے صرف دبئی کی تجوریاں بھری جارہی تھیں۔
(فاضل کالم نگار سیکیورٹی اور دفاعی امور کے تجزیہ کار ہیں)