ہزاروں ملالہ پیدا ہونگی
ملالہ کا مطالبہ شام، عراق، فلسطین، سعودی عرب، پاکستان، افعانستان اور تمام ممالک کی لڑکیوں کے لیے ہے۔
خوبصورت یونیفارم میں ملبوس سیکڑوں لڑکیاں اب پہاڑوں کے سائے میں قائم سوات کی تحصیل شانگلہ میں قائم کیپال کول ماڈل اسکول میں تعلیم حاصل کرنے جا رہی ہیں۔ یہ ماڈل اسکول پاکستان کی دوسری نوبل انعام یافتہ طالبہ ملالہ یوسفزئی کی امداد سے تعمیر ہوا ہے۔
ملالہ نے نوبل پرائز سے ملنے والی رقم اس اسکول کی تعمیر کے لیے وقف کی تھی۔ پہلے اس علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اسکول نہیں تھا ، مگر اسکول کے پرنسپل اور بچوں کے والدین خوفزدہ ہیں۔ انھیں خوف ہے کہ طالبان اس اسکول پر حملہ کر کے اسے تباہ کر دیں گے۔ اس تین منزلہ اسکول میں 183 طالبات زیر تعلیم ہیں جن میں 38 یتیم بچیاں ہیں۔
اسکول جانے والی بچیوں کی عمریں پانچ سے بارہ برسوں کے درمیان ہیں ۔اس ماڈل اسکول میں جدید لائبریری اور لیباریٹری ہے اورکشادہ کمرے ہیں، یوں شانگلہ کے دقیانوسی ماحول میں لڑکیوں کی تعلیم کا ایک راستہ کھل گیا ہے۔ ملالہ کو 4 سال قبل ایک قاتلانہ حملے کے بعد نیم مردہ حالت میں برطانیہ منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ بیڈ فورڈ کے اسپتال میں مہینوں زیر علاج رہی۔ ملالہ اب آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے ۔
ملالہ گزشتہ ہفتے اپنے والدین ، بہن ، بھائیوں کے ساتھ پاکستان آئی اور سوات بھی گئی تو اس کے خلاف ایک مذموم مہم شروع ہوگئی۔ طالبان ذہن رکھنے والے عناصر نے پنجاب کے اسکول میں ایک احتجاجی مہم جمعے کو چلائی مگر طالبات نے اس منفی مہم کو مسترد کر دیا ۔ جب طالبان نے افغانستان میں عروج پایا تو انھوں نے ملا عمر کی قیادت میں ایک ایسی ریاست قائم کی جس میں خواتین اور غیر مسلم شہریوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی ۔
ملا عمر نے افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگادی ۔ خواتین کے محرم کے بغیر اور قرون وسطیٰ کا برقعہ پہنے بغیرگھر سے نکلنے پر پابندی لگادی۔ یہی وجہ تھی کہ جب تک ملا عمرکی افغانستان میں خلافت قائم رہی خواتین کو نہ تو تعلیم حاصل کرنے نہ ہی ملازمت کرنے کے حقوق حاصل ہوئے۔
ایک افغان خاتون نے طالبان دور میں ایک غیر ملکی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب افغان خواتین کے لیے صرف ایک پیشہ بچا ہے وہ عصمت فروشی کا ہے۔ پھر جب طالبان حکومت ختم ہوئی اور ایک مخصوص منصوبے کے تحت القاعدہ اور طالبان کے لیے پاکستان کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے راستے کھول دیے گئے تو ان کا سب سے پہلے نشانہ خواتین اور غیر مسلم شہری تھے۔
اب طالبان اور ان کے حامی جنگجوؤں کا ہدف لڑکیوں کے اسکول تھے۔ یوں سیکڑوں اسکولوں کی عمارتیں اڑا دی گئیں۔ طالبان کا بنیادی مقصد خواتین کوگھروں میں مقید کرنا تھا، گزشتہ صدی میں بڑی عظیم جنگیں لڑی گئیں اور ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا میں بہت سی جنگیں ہوئیں مگر طالبان کی واحد جنگ ہے جس میں صرف خواتین کے اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا۔
جب ایک منصوبے کے تحت ملا فضل اﷲ کی قیادت میں طالبان نے سوات پر قبضہ کیا تو ان کا پہلا نشانہ خواتین کے اسکول و کالج تھے۔ ملالہ کے والد ضیاء الدین نے منگورہ میں ایک اعلیٰ معیارکا اسکول قائم کیا ہوا تھا۔ ملالہ اس اسکول میں زیر تعلیم تھی۔ ملالہ کے والد خواتین کی تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے تھے۔ انھوں نے ملالہ کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھرپور حوصلہ افزائی کی تھی، یوں ملالہ میں تقریرکرنے اور لکھنے کی صلاحیتیں بہتر ہوگئی تھیں۔
طالبان کے سوات پر قبضے کے دوران ملالہ کا اسکول بند کر دیا گیا۔ اس سے تعلیم حاصل کرنے کا حق چھین لیا گیا اور وہ اپنی دوستوں کی محفلوں سے محروم ہوگئی۔ ملالہ نے گل مکئی کے نام سے روزانہ اپنی ڈائری تحریرکرنا شروع کی۔
بی بی سی پشاور دفترکے ایک صحافی کو علم ہوا کہ استاد ضیاء الدین کی بیٹی ڈائری لکھتی ہے تو انھوں نے ملالہ کی ڈائری حاصل کی اور اس کی تحریرکو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر منتقل کیا۔ تعلیم سے محرومی ، سوات کے شہروں اورگاؤں میں مختلف چوراہوں پر پھانسیوں، ملا فضل اﷲ کے ایف ایم ریڈیو کے ذریعے دشنام ، پروپیگنڈا اور جھوٹی موٹی باتیں سب کچھ بی بی سی کی ویب سائٹ پر منتقل ہونے لگا ۔ بی بی سی اردو کے سامعین اور ویب سائٹ پڑھنے والوں کو روزانہ ایک دلچسپ تحریر پڑھنے کو ملنے لگی، یوں دنیا کی نظریں ''گل مکئی'' کی طرف مبذول ہونے لگیں۔
پاکستانی فوج نے سوات میں آپریشن کیا ۔آپریشن سے پہلے لاکھوں لوگوں کو وادی سے نیچے مردان اور پشاور وغیرہ کے علاقوں میں منتقل کیا گیا۔ ملالہ اپنے خاندان کے ساتھ بے گھر ہوگئی۔ اس کو مردان کے عارضی خیمہ بستی میں چند ماہ گزارنے پڑے، آخرکار طالبان کے جبرکا دور ختم ہوا ۔ ملالہ اور اس کا خاندان اپنے گھرکو منتقل ہوا ۔ ملالہ نے بہت سے واقعات اپنی ڈائری کے ذریعے لاکھوں لوگوں تک پہنچائے۔ جب سوات میں سکون ہوگیا اور اسکول وکالج کھل گئے، ملالہ اسکول جانے لگی۔
یہ بات عام ہوگئی کہ گل مکئی دراصل ملالہ تھی۔ طالبان نے ملالہ کو قتل کرنے کی ٹھانی۔ پختون روایات میں لڑکیوں ، عورتوں اور نہتے لوگوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ یہی وجہ تھی کہ ملالہ اور اس کے والدکوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے تھے، مگر پھر ملالہ اسکول سے واپس ویگن میں گھر جارہی تھی تو طالبان دہشت گردوں نے 19 اکتوبر 2012ء کو ملالہ کو نشانہ بنایا ۔
ملالہ شدید زخمی ہوگئی اور اس کی دو ساتھی لڑکیاں بھی اس حملے کی لپیٹ میں آئیں۔ ملالہ کو پہلے پشاور اور پھرکچھ دنوں بعد برطانیہ منتقل کیا گیا۔ ڈاکٹروں نے ملالہ کی جان بچانے کے لیے سب کچھ کیا مگر دائیں بازو کی سیاسی تنظیمیں جو دراصل طالبان کو ہمیشہ تحفظ فراہم کرتی رہی ہیں ان کے کارندوں نے سوشل میڈیا پر ملالہ کے خلاف ایک جھوٹی مہم شروع کردی اور یہ ثابت کرنا شروع کیا کہ یہ سب کچھ امریکا کی سازش ہے۔
ملالہ پرکوئی حملہ نہیں ہوا۔ یہ پروپیگنڈا ملک بھر میں کیا گیا تو نوجوانوں کو ملالہ کے خلاف جھوٹا مواد فراہم کیا گیا ۔اس مہم کو منظم کرنے میں دیگر اداروں نے بھی اہم کردار ادا کیا جو طالبان کی حکومت کو دوبارہ قائم کرنے کے خواہاں تھے۔ ملالہ ٹھیک ہوگئی۔ اس کے والدین نے سیکیورٹی کی بناء پر برطانیہ میں رہنے کا فیصلہ کیا۔
جب ملالہ کی خواتین کی تعلیم کے لیے قربانی کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا ، ملالہ کو سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی اور پھر ملالہ کو امن کے نوبل پرائزکے لیے نامزد کیا گیا تو بھارت کے سماجی کارکن جنھوں نے ساری زندگی سڑکوں پر زندگی بسر کرنے والے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے وقف کی تھی کے ساتھ اس کو نوبل پرائز دیا گیا ۔
پاکستان کے دو فرزندوں کو ان کی تعلیم کی خدمات پر نوبل پرائز سے نوازا گیا مگر بدقسمتی سے رجعت پسندوں نے ان دونوں کی پذیرائی نہیں کی۔ ملالہ نے نوبل پرائز اور دنیا بھر میں ملنے والے دیگر انعامات سے حاصل ہونے والی رقوم افریقہ اور ایشیائی ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے وقف کردی۔ دنیا کے کئی ممالک میں ملالہ کے عطیے سے اسکول تعمیر ہورہے ہیں۔
سعودی عرب کے ولی عہد نے گزشتہ دنوں انکشاف کیا تھا کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران امریکا کی مدد سے سعودی عرب کے مختلف ممالک میں ایک خاص مکتبہ فکرکے مدرسے قائم کیے گئے تھے۔ امریکی امداد سے چلنے والے مدرسوں سے دہشت گرد پیدا ہوئے جو ملالہ کے محض اس بناء پر دشمن ہیں کہ اس نے صرف اور صرف خواتین کی تعلیم کے حق کے لیے بات کی۔ ملالہ کا مطالبہ شام، عراق، فلسطین، سعودی عرب، پاکستان، افعانستان اور تمام ممالک کی لڑکیوں کے لیے ہے مگر امریکی امداد سے چلنے والے مدرسوں سے پیدا ہونے والے دہشت گرد ملالہ کی جان کے دشمن ہیں۔
بہر حال شانگلہ کے ایک دکاندار فرمان اﷲ نے جس کی بیٹی شانگلہ کے ماڈل اسکول میں زیر تعلیم ہے کہا ہے کہ '' اب ملالہ ایک نہیں ، اس اسکول سے ہزاروںملالہ پیدا ہوں گی۔''
ملالہ نے نوبل پرائز سے ملنے والی رقم اس اسکول کی تعمیر کے لیے وقف کی تھی۔ پہلے اس علاقے میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اسکول نہیں تھا ، مگر اسکول کے پرنسپل اور بچوں کے والدین خوفزدہ ہیں۔ انھیں خوف ہے کہ طالبان اس اسکول پر حملہ کر کے اسے تباہ کر دیں گے۔ اس تین منزلہ اسکول میں 183 طالبات زیر تعلیم ہیں جن میں 38 یتیم بچیاں ہیں۔
اسکول جانے والی بچیوں کی عمریں پانچ سے بارہ برسوں کے درمیان ہیں ۔اس ماڈل اسکول میں جدید لائبریری اور لیباریٹری ہے اورکشادہ کمرے ہیں، یوں شانگلہ کے دقیانوسی ماحول میں لڑکیوں کی تعلیم کا ایک راستہ کھل گیا ہے۔ ملالہ کو 4 سال قبل ایک قاتلانہ حملے کے بعد نیم مردہ حالت میں برطانیہ منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ بیڈ فورڈ کے اسپتال میں مہینوں زیر علاج رہی۔ ملالہ اب آکسفورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے ۔
ملالہ گزشتہ ہفتے اپنے والدین ، بہن ، بھائیوں کے ساتھ پاکستان آئی اور سوات بھی گئی تو اس کے خلاف ایک مذموم مہم شروع ہوگئی۔ طالبان ذہن رکھنے والے عناصر نے پنجاب کے اسکول میں ایک احتجاجی مہم جمعے کو چلائی مگر طالبات نے اس منفی مہم کو مسترد کر دیا ۔ جب طالبان نے افغانستان میں عروج پایا تو انھوں نے ملا عمر کی قیادت میں ایک ایسی ریاست قائم کی جس میں خواتین اور غیر مسلم شہریوں کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی ۔
ملا عمر نے افغانستان میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگادی ۔ خواتین کے محرم کے بغیر اور قرون وسطیٰ کا برقعہ پہنے بغیرگھر سے نکلنے پر پابندی لگادی۔ یہی وجہ تھی کہ جب تک ملا عمرکی افغانستان میں خلافت قائم رہی خواتین کو نہ تو تعلیم حاصل کرنے نہ ہی ملازمت کرنے کے حقوق حاصل ہوئے۔
ایک افغان خاتون نے طالبان دور میں ایک غیر ملکی ریڈیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ اب افغان خواتین کے لیے صرف ایک پیشہ بچا ہے وہ عصمت فروشی کا ہے۔ پھر جب طالبان حکومت ختم ہوئی اور ایک مخصوص منصوبے کے تحت القاعدہ اور طالبان کے لیے پاکستان کے زیر انتظام قبائلی علاقوں کے راستے کھول دیے گئے تو ان کا سب سے پہلے نشانہ خواتین اور غیر مسلم شہری تھے۔
اب طالبان اور ان کے حامی جنگجوؤں کا ہدف لڑکیوں کے اسکول تھے۔ یوں سیکڑوں اسکولوں کی عمارتیں اڑا دی گئیں۔ طالبان کا بنیادی مقصد خواتین کوگھروں میں مقید کرنا تھا، گزشتہ صدی میں بڑی عظیم جنگیں لڑی گئیں اور ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا میں بہت سی جنگیں ہوئیں مگر طالبان کی واحد جنگ ہے جس میں صرف خواتین کے اسکولوں کو نشانہ بنایا گیا۔
جب ایک منصوبے کے تحت ملا فضل اﷲ کی قیادت میں طالبان نے سوات پر قبضہ کیا تو ان کا پہلا نشانہ خواتین کے اسکول و کالج تھے۔ ملالہ کے والد ضیاء الدین نے منگورہ میں ایک اعلیٰ معیارکا اسکول قائم کیا ہوا تھا۔ ملالہ اس اسکول میں زیر تعلیم تھی۔ ملالہ کے والد خواتین کی تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے تھے۔ انھوں نے ملالہ کی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں بھرپور حوصلہ افزائی کی تھی، یوں ملالہ میں تقریرکرنے اور لکھنے کی صلاحیتیں بہتر ہوگئی تھیں۔
طالبان کے سوات پر قبضے کے دوران ملالہ کا اسکول بند کر دیا گیا۔ اس سے تعلیم حاصل کرنے کا حق چھین لیا گیا اور وہ اپنی دوستوں کی محفلوں سے محروم ہوگئی۔ ملالہ نے گل مکئی کے نام سے روزانہ اپنی ڈائری تحریرکرنا شروع کی۔
بی بی سی پشاور دفترکے ایک صحافی کو علم ہوا کہ استاد ضیاء الدین کی بیٹی ڈائری لکھتی ہے تو انھوں نے ملالہ کی ڈائری حاصل کی اور اس کی تحریرکو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے بی بی سی کی اردو ویب سائٹ پر منتقل کیا۔ تعلیم سے محرومی ، سوات کے شہروں اورگاؤں میں مختلف چوراہوں پر پھانسیوں، ملا فضل اﷲ کے ایف ایم ریڈیو کے ذریعے دشنام ، پروپیگنڈا اور جھوٹی موٹی باتیں سب کچھ بی بی سی کی ویب سائٹ پر منتقل ہونے لگا ۔ بی بی سی اردو کے سامعین اور ویب سائٹ پڑھنے والوں کو روزانہ ایک دلچسپ تحریر پڑھنے کو ملنے لگی، یوں دنیا کی نظریں ''گل مکئی'' کی طرف مبذول ہونے لگیں۔
پاکستانی فوج نے سوات میں آپریشن کیا ۔آپریشن سے پہلے لاکھوں لوگوں کو وادی سے نیچے مردان اور پشاور وغیرہ کے علاقوں میں منتقل کیا گیا۔ ملالہ اپنے خاندان کے ساتھ بے گھر ہوگئی۔ اس کو مردان کے عارضی خیمہ بستی میں چند ماہ گزارنے پڑے، آخرکار طالبان کے جبرکا دور ختم ہوا ۔ ملالہ اور اس کا خاندان اپنے گھرکو منتقل ہوا ۔ ملالہ نے بہت سے واقعات اپنی ڈائری کے ذریعے لاکھوں لوگوں تک پہنچائے۔ جب سوات میں سکون ہوگیا اور اسکول وکالج کھل گئے، ملالہ اسکول جانے لگی۔
یہ بات عام ہوگئی کہ گل مکئی دراصل ملالہ تھی۔ طالبان نے ملالہ کو قتل کرنے کی ٹھانی۔ پختون روایات میں لڑکیوں ، عورتوں اور نہتے لوگوں کو نشانہ نہیں بنایا جاتا۔ یہی وجہ تھی کہ ملالہ اور اس کے والدکوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے تھے، مگر پھر ملالہ اسکول سے واپس ویگن میں گھر جارہی تھی تو طالبان دہشت گردوں نے 19 اکتوبر 2012ء کو ملالہ کو نشانہ بنایا ۔
ملالہ شدید زخمی ہوگئی اور اس کی دو ساتھی لڑکیاں بھی اس حملے کی لپیٹ میں آئیں۔ ملالہ کو پہلے پشاور اور پھرکچھ دنوں بعد برطانیہ منتقل کیا گیا۔ ڈاکٹروں نے ملالہ کی جان بچانے کے لیے سب کچھ کیا مگر دائیں بازو کی سیاسی تنظیمیں جو دراصل طالبان کو ہمیشہ تحفظ فراہم کرتی رہی ہیں ان کے کارندوں نے سوشل میڈیا پر ملالہ کے خلاف ایک جھوٹی مہم شروع کردی اور یہ ثابت کرنا شروع کیا کہ یہ سب کچھ امریکا کی سازش ہے۔
ملالہ پرکوئی حملہ نہیں ہوا۔ یہ پروپیگنڈا ملک بھر میں کیا گیا تو نوجوانوں کو ملالہ کے خلاف جھوٹا مواد فراہم کیا گیا ۔اس مہم کو منظم کرنے میں دیگر اداروں نے بھی اہم کردار ادا کیا جو طالبان کی حکومت کو دوبارہ قائم کرنے کے خواہاں تھے۔ ملالہ ٹھیک ہوگئی۔ اس کے والدین نے سیکیورٹی کی بناء پر برطانیہ میں رہنے کا فیصلہ کیا۔
جب ملالہ کی خواتین کی تعلیم کے لیے قربانی کو بین الاقوامی سطح پر سراہا گیا ، ملالہ کو سلامتی کونسل کے خصوصی اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی اور پھر ملالہ کو امن کے نوبل پرائزکے لیے نامزد کیا گیا تو بھارت کے سماجی کارکن جنھوں نے ساری زندگی سڑکوں پر زندگی بسر کرنے والے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے وقف کی تھی کے ساتھ اس کو نوبل پرائز دیا گیا ۔
پاکستان کے دو فرزندوں کو ان کی تعلیم کی خدمات پر نوبل پرائز سے نوازا گیا مگر بدقسمتی سے رجعت پسندوں نے ان دونوں کی پذیرائی نہیں کی۔ ملالہ نے نوبل پرائز اور دنیا بھر میں ملنے والے دیگر انعامات سے حاصل ہونے والی رقوم افریقہ اور ایشیائی ممالک میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے وقف کردی۔ دنیا کے کئی ممالک میں ملالہ کے عطیے سے اسکول تعمیر ہورہے ہیں۔
سعودی عرب کے ولی عہد نے گزشتہ دنوں انکشاف کیا تھا کہ سوویت یونین کے خلاف جنگ کے دوران امریکا کی مدد سے سعودی عرب کے مختلف ممالک میں ایک خاص مکتبہ فکرکے مدرسے قائم کیے گئے تھے۔ امریکی امداد سے چلنے والے مدرسوں سے دہشت گرد پیدا ہوئے جو ملالہ کے محض اس بناء پر دشمن ہیں کہ اس نے صرف اور صرف خواتین کی تعلیم کے حق کے لیے بات کی۔ ملالہ کا مطالبہ شام، عراق، فلسطین، سعودی عرب، پاکستان، افعانستان اور تمام ممالک کی لڑکیوں کے لیے ہے مگر امریکی امداد سے چلنے والے مدرسوں سے پیدا ہونے والے دہشت گرد ملالہ کی جان کے دشمن ہیں۔
بہر حال شانگلہ کے ایک دکاندار فرمان اﷲ نے جس کی بیٹی شانگلہ کے ماڈل اسکول میں زیر تعلیم ہے کہا ہے کہ '' اب ملالہ ایک نہیں ، اس اسکول سے ہزاروںملالہ پیدا ہوں گی۔''