مہنگائی اورمالیاتی خسارہ قابو میں ہے اسٹیٹ بینک
پاکستانی روپیہ امریکی ڈالرکے مقابلے میں5.0 فیصد کم، جاری کھاتے کاخسارہ7.4ارب ڈالر،مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا2.2فیصد رہا
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے رواں مالی سال کی پہلی ششماہی رپورٹ جاری کردی ہے جس کے مطابق مہنگائی اور مالیاتی خسارہ دونوں قابو میں رہے۔
رپورٹ کے مطابق صارفین کے اخراجات بڑھنے کے نتیجے میں گاڑیوں اور برقی مصنوعات جیسی پائیدار اشیا میں مضبوط نمو ہوئی جبکہ انفرا اسٹرکچر اور تعمیرات کی جاری سرگرمیوں نے سیمنٹ اور فولاد کے منسلک شعبوں کو تحریک دی ہے ، یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ مختلف شعبوں کے بہت سے صنعتی ادارے اپنی پیداواری گنجائش بڑھانے اور مصنوعات کو متنوع بنانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
نجی شعبے نے بھی طویل مدتی منصوبوں کے لیے شیڈولڈ بینکوں سے قرض لینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ، زراعت کے شعبے میں اگرچہ خریف کی تمام فصلوں نے اچھی کارکردگی دکھائی، تاہم زیرکاشت رقبے میں کمی کے باعث گندم کی پیداوار دباؤ میں آ گئی۔
گندم، چینی اور دالوں جیسے اہم غذائی اجزا کے معقول ذخائر کے باعث ان اجناس کی قیمتیں کم رہیں، جس کی وجہ سے غذائی مہنگائی قابو میں رہی۔ سگریٹ پر عائد ڈیوٹی کے ڈھانچے میں سازگار ردوبدل سے اس کی قیمتیں کم ہو گئیں۔ مالی سال 18کی پہلی ششماہی میں قوزی (core)مہنگائی اوسطاً بلند رہی جس کی وجہ تعلیم اور صحت عامہ کی لاگتوں میں مسلسل اضافہ ہے۔ تاہم حالیہ چند مہینوں میں اس کی رفتار مستحکم ہوئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2018 کی پہلی ششماہی میں محاصل کی وصولی میں نمو اخراجات میں ہونے والے اضافے کو پیچھے چھوڑگئی ، جو مالیاتی اظہاریوں میں وسیع البنیاد بہتری پر منتج ہوا۔ مجموعی مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کے 2.2 فیصد تک محدود رکھا گیا، جو گزشتہ برس کے 2.5 فیصد سے کم ہے۔ محاصل میں نمو کو بھرپور حقیقی معاشی سرگرمی، درآمدات (مقدار اور قیمتیں دونوں) اور پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت کی بلند سطح سے تحریک ملی۔
اسٹیٹ بینک کے بلند منافع، جائیدادوں اور انٹرپرائزز ، سول انتظامیہ اور دیگر متفرق وصولیوں کے بڑھنے سے غیرٹیکس محاصل بھی گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ رہے ، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ معیشت کا حقیقی شعبہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا تھا لیکن بیرونی شعبے کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ، برآمدات میں 8 مہینوں تک مسلسل اضافہ اور کارکنوں کی ترسیلات زر میں بحالی خوش آئند پیشرفت تھی لیکن بڑھتی ہوئی درآمدات نے ان کے اثرات کو زائل کر دیا۔
نتیجتاً مالی سال 2018 کی پہلی ششماہی میں جاری کھاتے کا خسارہ بڑھ کر 7.4 ارب ڈالر ہوگیا جبکہ گزشتہ برس یہ 4.7 ارب ڈالر تھا ، اگرچہ اس برس مالی رقوم کی آمد کی سطح بلند تھی ، تاہم یہ جاری کھاتے کے خسارے میں اضافے کے اثر کو زائل کرنے کے لیے ناکافی تھیں جس کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک کے سیال ذخائر دباؤ میں آگئے اور مالی سال 2018 کی پہلی ششماہی میں پاکستانی روپے اور امریکی ڈالر کی مساوات میں 5.0 فیصد کمی ہوئی۔
آخر میں رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت اس جانے پہچانے موڑ پر پہنچ گئی ہے جہاں توازنِ ادائیگی کو درپیش چیلنجز مربوط اور بروقت اقدامات کے متقاضی ہیں تاکہ کلی معاشی استحکام اور نمو کی رفتار کو برقرار رکھا جاسکے ، اگر بیرونی مسائل سے نمٹ لیا جائے تو دیگر مبادیات اتنی مضبوط ہیں کہ معیشت کو پائیدار بنیاد پر بلند نمو کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق صارفین کے اخراجات بڑھنے کے نتیجے میں گاڑیوں اور برقی مصنوعات جیسی پائیدار اشیا میں مضبوط نمو ہوئی جبکہ انفرا اسٹرکچر اور تعمیرات کی جاری سرگرمیوں نے سیمنٹ اور فولاد کے منسلک شعبوں کو تحریک دی ہے ، یہ بات حوصلہ افزا ہے کہ مختلف شعبوں کے بہت سے صنعتی ادارے اپنی پیداواری گنجائش بڑھانے اور مصنوعات کو متنوع بنانے پر سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
نجی شعبے نے بھی طویل مدتی منصوبوں کے لیے شیڈولڈ بینکوں سے قرض لینے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے ، زراعت کے شعبے میں اگرچہ خریف کی تمام فصلوں نے اچھی کارکردگی دکھائی، تاہم زیرکاشت رقبے میں کمی کے باعث گندم کی پیداوار دباؤ میں آ گئی۔
گندم، چینی اور دالوں جیسے اہم غذائی اجزا کے معقول ذخائر کے باعث ان اجناس کی قیمتیں کم رہیں، جس کی وجہ سے غذائی مہنگائی قابو میں رہی۔ سگریٹ پر عائد ڈیوٹی کے ڈھانچے میں سازگار ردوبدل سے اس کی قیمتیں کم ہو گئیں۔ مالی سال 18کی پہلی ششماہی میں قوزی (core)مہنگائی اوسطاً بلند رہی جس کی وجہ تعلیم اور صحت عامہ کی لاگتوں میں مسلسل اضافہ ہے۔ تاہم حالیہ چند مہینوں میں اس کی رفتار مستحکم ہوئی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالی سال 2018 کی پہلی ششماہی میں محاصل کی وصولی میں نمو اخراجات میں ہونے والے اضافے کو پیچھے چھوڑگئی ، جو مالیاتی اظہاریوں میں وسیع البنیاد بہتری پر منتج ہوا۔ مجموعی مالیاتی خسارے کو جی ڈی پی کے 2.2 فیصد تک محدود رکھا گیا، جو گزشتہ برس کے 2.5 فیصد سے کم ہے۔ محاصل میں نمو کو بھرپور حقیقی معاشی سرگرمی، درآمدات (مقدار اور قیمتیں دونوں) اور پیٹرولیم مصنوعات کی فروخت کی بلند سطح سے تحریک ملی۔
اسٹیٹ بینک کے بلند منافع، جائیدادوں اور انٹرپرائزز ، سول انتظامیہ اور دیگر متفرق وصولیوں کے بڑھنے سے غیرٹیکس محاصل بھی گزشتہ برس کے مقابلے میں زیادہ رہے ، رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اگرچہ معیشت کا حقیقی شعبہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا تھا لیکن بیرونی شعبے کو دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا ، برآمدات میں 8 مہینوں تک مسلسل اضافہ اور کارکنوں کی ترسیلات زر میں بحالی خوش آئند پیشرفت تھی لیکن بڑھتی ہوئی درآمدات نے ان کے اثرات کو زائل کر دیا۔
نتیجتاً مالی سال 2018 کی پہلی ششماہی میں جاری کھاتے کا خسارہ بڑھ کر 7.4 ارب ڈالر ہوگیا جبکہ گزشتہ برس یہ 4.7 ارب ڈالر تھا ، اگرچہ اس برس مالی رقوم کی آمد کی سطح بلند تھی ، تاہم یہ جاری کھاتے کے خسارے میں اضافے کے اثر کو زائل کرنے کے لیے ناکافی تھیں جس کے نتیجے میں اسٹیٹ بینک کے سیال ذخائر دباؤ میں آگئے اور مالی سال 2018 کی پہلی ششماہی میں پاکستانی روپے اور امریکی ڈالر کی مساوات میں 5.0 فیصد کمی ہوئی۔
آخر میں رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ پاکستانی معیشت اس جانے پہچانے موڑ پر پہنچ گئی ہے جہاں توازنِ ادائیگی کو درپیش چیلنجز مربوط اور بروقت اقدامات کے متقاضی ہیں تاکہ کلی معاشی استحکام اور نمو کی رفتار کو برقرار رکھا جاسکے ، اگر بیرونی مسائل سے نمٹ لیا جائے تو دیگر مبادیات اتنی مضبوط ہیں کہ معیشت کو پائیدار بنیاد پر بلند نمو کی راہ پر گامزن کیا جاسکتا ہے۔