وزیراعظم پاکستان کا دورۂ کابل خوش آئند پیش رفت

افغان صدارتی محل میں صدر اشرف غنی نے پرتپاک استقبال اور انھیں گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔


Editorial April 08, 2018
افغان صدارتی محل میں صدر اشرف غنی نے پرتپاک استقبال اور انھیں گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔ فوٹو: فائل

پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی کی دعوت پر وزیرخارجہ، وزیرداخلہ، گونر خیبرپختونخوا اور قومی سلامتی کے مشیر کے ہمراہ کابل کا دورہ کیا۔ افغان صدارتی محل میں صدر اشرف غنی نے پرتپاک استقبال اور انھیں گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا۔

وزیراعظم پاکستان کا حالیہ دورہ کابل کئی مثبت اشاروں اور گفت و شنید کے تناظر میں خوش آئند اور مستقبل میں پاک افغان تعلقات میں بہتری کی نوید لیے ہوئے ہے۔ ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پاکستان اور افغانستان دونوں نے ہی ایک دوسرے کے خلاف بیان بازی سے گریز کرتے ہوئے دہشتگردوں کو دونوں ممالک کے لیے مشترکہ خطرہ اور دشمن قرار دیتے ہوئے اس سے مل کر نمٹنے پر اتفاق کیا ہے۔

الزام تراشی کے رویے اور مسائل کے حل کی جانب پیش قدمی سے گریز نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سردمہری کو جنم دیا تھا، صائب ہوگا کہ ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر نئی جہت میں آگے بڑھا جائے۔ وزیراعظم پاکستان اور افغان صدر نے ون آن ون ملاقات کے بعد وفود کی سطح کے مذاکرات کیے جس میں افغانستان میں امن اور مصالحت، انسداد دہشت گردی، افغان مہاجرین کی واپسی، باہمی تجارت اور علاقائی رابطے سمیت پاک افغان تعلقات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے افغان صدر کے امن اور مفاہمت کے وژن اور طالبان کو امن مذاکرات کی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہوئے طالبان پر زور دیا کہ وہ امن کی پیشکش کا مثبت جواب دیں اور بغیر کسی تاخیر کے امن عمل میں شامل ہوں۔ وزیراعظم نے افغان عوام کے لیے 40 ہزار ٹن گندم کا تحفہ دینے کا بھی اعلان کیا۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے پہل کی ہے اور اپنی مخلصانہ کوششوں سے خود کو افغانستان کا دوست ثابت کیا ہے۔

اب افغانستان کو بھی سمجھنا ہوگا کہ دونوں ممالک کا امن، خوشحالی اور استحکام ایک دوسرے سے منسلک ہے، اس لیے دونوں ریاستوں کو مل کر مشترکہ مسائل سے نمٹنا ہوگا، نیز اپنی سرزمین کو ایک دوسرے کے خلاف ریاست دشمن سرگرمیوں کے لیے استعمال نہ ہونے دینے پر اتفاق ہونا بھی خوش آئند امر ہے۔ افغانستان کو بھارتی سازشوں سے بھی ہوشیار رہنا ہوگا۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ افغان مسئلے کا کوئی فوجی حل نہیں اور اس کا سیاسی حل ہی بہترین آپشن ہے۔ نیز سیاست کو اقتصادی تعلقات متاثر کرنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، پاکستان اور افغانستان کو وسطی ایشیا سے ملانے کے لیے اہم ریل، روڈ، گیس پائپ لائن اور توانائی منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے مشترکہ کاوشوں کی جانب بڑھا جائے۔ اس سلسلے میں پاک افغان رہنماؤں کا چمن، قندھار، ہرات ریلوے لائن، پشاور کابل موٹروے اور باقی رابطے کے منصوبوں کو آگے لے جانے پر اتفاق مستقبل میں بہتر اور مستحکم تعلقات کی نوید ہے۔

علاوہ ازیں افغان مہاجرین کی واپسی کی ٹائم لائن اور میکنزم کو فائنل کرنا بھی ازحد ضروری ہے۔ افغان مہاجرین کے مستقل قیام اور سرحد پار سے شدت پسند عناصر کی کارروائیوں نے پاکستان کو کثیر جہتی مسائل سے دوچار کیا ہے۔ دہشت گردی دونوں ممالک کے لیے مشترکہ دشمن اور خطرہ ہے، اس سلسلے میں باہمی لائحہ عمل طے کیا جائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔