شرارت الاشرافیہ بمقابلہ عدالت العالیہ

آج سارے پاکستان میں کھوٹے سکے ہی رائج الوقت ہیں۔ اسمبلیوں پر ان کا قبضہ ہے، اسمبلیاں غیر نمائندہ ہیں۔


Jabbar Jaffer April 08, 2018

برطانوی پارلیمانی نظام کو جمہوریت کی مادر ملکہ کہا جاتا ہے جہاں شاہی جمہوریت رائج ہے۔ بکنگھم پیلس میں ملکہ الزبتھ اور ڈاؤننگ اسٹریٹ وزیراعظم ہاؤس میں برطانوی وزیراعظم سکون سے زندگی گزارتے ہیں۔ تحریری آئین تک نہیں ہے، منہ زبانی کام چلاتے ہیں۔

ملکہ برطانیہ کو پارلیمنٹ برخاست کرنے کا اختیار حاصل ہے لیکن آج تک ایسا حادثہ نہیں ہوا۔ جمہوریت اتنی مستحکم ہے کہ ایک ممبر پارلیمنٹ کی برتری رکھنے والی پارٹی نہ صرف حکومت بناسکتی ہے بلکہ پورے سکون کے ساتھ اپنی میعاد پوری کرسکتی ہے، اپنے منشور پر عمل در آمد کرنے میں مصروف رہتی ہے۔ ہارس ٹریڈنگ جانتے نہیں، لوٹے استعمال ہی نہیں کرتے، کیوں؟ کیونکہ ملکہ برطانیہ جمہوری سوچ رکھتی ہیں۔ شاہانہ خناس نہیں۔ امریکا میں صدارتی جمہوریت چل رہی ہے اور خوب چل رہی ہے۔

دنیا کا مانا ہوا روشن خیال ملک فرانس ڈیگال کی جرنیلی جمہوریت پر فخر کرتا ہے۔ ترکی کی تو نجات دہندہ ہی فوج ہے اور بابائے ترکی مصطفیٰ کمال پاشا، لیکن پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں سے 70 سال پہلے گورے انگریز جاچکے ہیں لیکن اپنے پیچھے کالے انگریز چھوڑگئے ہیں، جو آج تک چمٹے ہوئے ہیں اور اپنے آقاؤں کے سکھائے ہوئے نو آبادتی ہتھکنڈوں سے حکومت کررہے ہیں، یہ خاندانی جمہوریت کے کھلاڑی اور Status que کے پجاری ہیں۔

پاکستان کا 1973ء کا آئین متفقہ آئین اس لیے کہلاتا ہے کہ اس پر اپنے وقت کے تمام جید اور قد آور سیاسی و مذہبی رہنماؤں (مسٹر بھٹو، مولانا مفتی محمود، مولانا شاہ احمد نورانی، پروفیسر غفور، خان ولی خان، وغیرہ) نے اپنے ذاتی معاملات کو ٹھوکر مار، سیاسی، ملکی، لسانی، نسلی اختلافات کا بالائے طاق رکھ کر محض ملک کی سلامتی اور قوم کی خوشحالی کی خاطر بغیر کسی اختلافی نوٹ کے دستخط کر دیے۔

آج خاندانی جمہوریت کی بدولت ملک میں لفافہ ازم رائج ہے، لفافہ نواز حکومت راج کررہی ہے۔ انتظامیہ لفافہ بردار ہے اور میڈیا ملفوف۔ تمام ریاستی اداروں پر مال بنانے کے ماہر من پسند سربراہ مسلط اور ادارے مفلوج ہیں سوائے دو اداروں فوج اور عدلیہ کے جو اپنی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔قیام پاکستان کے فوری بعد قائد اعظم نے فرمایا تھا ''مجھے پتہ ہے کہ میری جیب میں بھی چند کھوٹے سکے موجود ہیں'' آج سارے پاکستان میں کھوٹے سکے ہی رائج الوقت ہیں۔ اسمبلیوں پر ان کا قبضہ ہے، اسمبلیاں غیر نمائندہ ہیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ ''گن پوائنٹ'' پر اسمبلیوں میں آئے ہیں یا انتخابات میں حصہ لے کر۔ اگر یہ منتخب ہوکر آئے ہیں 70 سال سے آرہے ہیں تو پھر کیا خود الیکشن کمیشن ایک سوالیہ نشان نہیں ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جب تک 3D ٹیکنالوجی (دھاندلی، دھن، دھونس) کام کرتی رہیں گی، یہ آتے رہیںگے، جس کا ہوش گم کر دینے والا احوال ملاحظہ کیجیے۔

A: دھاندلی، کثرت رائے سے فیصلہ جمہورت کی بنیاد ہے مثلاً کسی حلقے میں ڈالے گئے 100 ووٹوں کی سادہ اکثریت 51 ووٹ ہیں اور دو تہائی اکثریت 66 ووٹ ہیں۔ فرض کیجیے حلقہ نمبر 420 میں 100 ووٹ ڈالے گئے اور 10 امیدوار چناؤ میں حصہ لے رہے ہیں۔ آٹھ امیدواروں نے 10،10 نویں امیدوار نے 9، 10 ویں امیدوار نے 11 ووٹ حاصل کیے۔ مروجہ طریقے کے مطابق 11 ووٹ لینے والا امیدوار کامیاب قرار پاتا ہے کیونکہ اس نے اپنے مقابلے پر کھڑے 9 امیدواروں کے مقابلے میں زیادہ ووٹ حاصل کیے۔ یہ دھاندلی کی انتہا ہے کیونکہ ڈالے گئے سو ووٹوں کی اکثریت 51 ووٹ ہیں نہ کہ 11 ووٹ۔ اس کا ترقی یافتہ ممالک میں یہ طریقہ رائج ہے کہ دوسرے مرحلے میں پہلے مرحلے کے پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں کے درمیان Run off Pointing کرادی جاتی ہے اور ووٹوں کی اکثریت پر کامیاب قرار دیا جاتا ہے۔

B: دھونس، دیہی علاقوں میں ذات برادریاں بڑا اثر و رسوخ رکھتی ہیں، جتنی بڑی برادری اتنی ہی بڑی دھونس، باقی کام چناؤ میں کم ٹرن آؤٹ اور جعلی ووٹ دکھاتے ہیں۔ یوں Electable کی ولادت باسعادت ہوتی ہے، آبائی حلقے تشکیل پاتے ہیں اور خاندانی جمہوریت جنم لیتی ہے۔

C: دھن، پاکستان میں رائج الوقت دھاندلی کے مطابق کامیابی کے لیے ڈالے گئے ووٹوں کی کم از کم اکثریت 51 فیصد ووٹوں کی ضرورت ہیں، بلکہ مقابل کھڑے ہوئے امیدواروں کے مقابلے میں کچھ وٹ زیادہ لینا کافی ہوتا ہے، جو بمشکل 12، 15 فیصد ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں جتنا ٹرن آؤٹ کم، امیدوار زیادہ سے زیادہ اور ووٹ جعلی ہوں گے، جیت اتنی ہی آسان اور اخراجات بے تحاشا ہوںگے۔ اخراجات کے لیے لاکھوں کی اجازت تو خود الیکشن کمیشن دیتا ہے، جو حقیقتاً کروڑوں میں ہوتے ہیں۔ ایسے میں کوئی عوامی نمائندہ الیکشن میں حصہ لینے کے متعلق سوچ بھی نہیں سکتا۔ اس غریب کے پاس تو ضمانت ضبط کرانے کے لیے درکار نقد رقم تک نہیں ہوتی جس کو پیشگی جمع کرانا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاگیردار، وڈیرے تو ایک طرف، صنعت کار سٹے باز مافیاز کے ڈان 20 کروڑ غریب عوام کی نمائندگی کے لیے اسمبلیوں میں گھس کر بیٹھ گئے ہیں۔جب ملک کی دو بڑی پارٹیوں کو احساس ہوا کہ جمہوریت کے حسن یعنی ''من ترا ٹانگیں گھسیٹم، تو مرا ٹانگیں گھسیٹ۔'' میں سراسر گھاٹا ہے تو انھوں نے آپس میں میثاق جمہوریت کا معاہدہ کر لیا یعنی یاد دہانی طے کر لیں۔ اس کے بعد کامیاب جمہوریت کا دور شروع ہوا۔ نتیجتاً اندرون ملک جو عوام خط افلاس کے نیچے پھسل کر جا رہے تھے قلابازیاں کھاتے ہوئے جانے لگے اور بیرون ملک عوامی رہنماؤں کے اثاثے دن دگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگے۔ وہ تو اﷲ بھلا کرے دونوں بڑی پارٹیوں میں ٹھہرا ہوگیا، سینیٹ میں ن لیگ کو شکست ہوگئی۔ ورنہ ٹاک شوز کے سیاسی پنڈتوں کے مطابق آئین و قانون میں ترمیم و اضافہ کر کے فوج میں کور کمانڈروں تک کے اور عدلیہ کے تمام ججوں کے تقرر اور برطرفی کے اختیارات وزیراعظم کو منتقل کرنے تھے۔ بے شک خطرہ ٹل گیا ہے لیکن امکان تو باقی ہے۔اس وقت پاکستان میں حق و باطل کا معرکہ گرم ہے۔ 70 سال میں پہلی مرتبہ فوج، عدلیہ اور عوام ایک پیج پر ہیں۔ پائیدار حل کے لیے مندرجہ ذیل تجاویز پر غور کرلیاجائے تو کیا حرج ہے؟

A:سادہ اکثریت 51 فی صد سے 65 فی صد تک اور دو تہائی اکثریت 66 فی صد سے 100 فی صد تک سمجھی جائے گی۔B: اپنے حلقہ سے ڈالے گئے ووٹ کی سادا اکثریت کے حامل ارکان اسمبلی قانون سازی میں حصہ لے سکتے ہیں۔C:اپنے حلقے سے ڈالے گئے ووٹوں کی دو تہائی اکثریت کے حامل ارکان اسمبلی ہی قانون سازی کے ساتھ ساتھ آئین میں ترامیم و اضافے میں بھی حصہ لے سکتے ہیں۔

نوٹ: قارئین کرام کے لیے یہ خبر صدمہ سے کم نہیں ہوگی کہ جس وقت اس کالم کو اشاعت کے لیے ادارتی شعبہ کو بھیجا جارہا تھا، جبارجعفر کے صاحبزادہ حامد دکنی نے اطلا ع دی کہ ان کے والد کا انتقال ہوگیا۔ یوں یہ مرحوم کی زندگی کا آخری یادگار کالم تھا۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور اہل خانہ و پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔