فلمی شعبے پر ایک تحقیقی کتاب

یہ کتاب چار سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے جسے تین حصوں میں منقسم کیا گیا ہے۔

usmandamohi@yahoo.com

ملک پر ڈر و خوف کے سائے تو طالبان اور ان کی اتحادی دہشتگرد تنظیموں کے متحرک ہونے کے بعد پڑنا شروع ہوئے تھے مگر کراچی وہ بدقسمت شہر ہے جو اس سے بھی پہلے سے دہشتگردی کا شکار ہو چکا تھا۔

گزشتہ تیس سال تک اس شہر پر دہشتگردی کے سائے منڈلاتے رہے۔ اس دوران جہاں اس شہر کے امن کو تہہ و بالا کیا گیا وہاں اسے شہر خموشاں میں تبدیل کرنے والوں نے اس کے روایتی حسن، رونق اور روشنیوں کو بھی دھندلا دیا تھا ساتھ ہی عوام کو ذہنی کوفت اور گھٹن میں مبتلا کردیا تھا۔ تفریح انسانی جبلت کا حصہ ہے۔ کراچی کے عوام کرکٹ کے شوقین ہیں اور فلمیں دیکھنے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں مگر کرکٹ کے میدان تو پہلے ہی ویران ہوچکے تھے اور سینما ہالوں کو جانا ڈر و خوف کی نذر ہوگیا تھا۔

یہ اذیت ناک کیفیت پورے تیس سال تک جاری رہنے کے بعد اب شہر میں امن بحال ہو گیا ہے۔ خوش قسمتی سے اب شہر میں انٹرنیشنل کرکٹ بھی بحال ہوگئی ہے اور گزشتہ دنوں یہاں ایک پر رونق انٹرنیشنل فلم فیسٹیول بھی منعقد ہوا ہے۔ اس میں کئی ممالک کے مندوبین نے شرکت کی جن میں ہدایت کار، فن کار، موسیقار اور گلوکار بھی شامل بھی تھے۔

اس فلمی میلے میں کئی ممالک کی چنیدہ فلمیں بھی دکھائی گئیں۔ گوکہ اس شہر میں فلموں سے دلچسپی رکھنے والوں کی کمی نہیں ہے مگر فلمی شعبے پر تحقیق کرنے کی جانب کم ہی توجہ کی گئی۔ جب کہ کئی ممالک میں فلموں پر بھرپور تحقیقی کام ہوا ہے اور ہنوز جاری ہے۔ تاہم اب اس شہر کے ایک ہونہار فرزند سجاد احمد سجاد نے اس شعبے پر تحقیق کرکے ایک ضخیم کتاب مرتب کی ہے جس کا نام ''فلموں کی دنیا کے ایک سو گیارہ سال'' ہے۔

اس سے پہلے ان کی ایک اور تحقیقی کتاب ''فلم اور سنگیت کی دنیا'' شایع ہو چکی ہے جو برصغیر کی فلمی موسیقی سے متعلق ہے۔ ان کی تازہ متذکرہ بالا کتاب عالمی فلمی صنعت کا مکمل احاطہ کرتی ہے۔ سجاد کا یہ تحقیقی کام اپنی مثال آپ ہے۔

یہ کتاب چار سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے جسے تین حصوں میں منقسم کیا گیا ہے۔ حصہ اول میں فلمی دنیا کی تاریخ پیش کی گئی ہے دوسرے حصے میں ہالی وڈ، بالی وڈ اور لالی وڈ میں بننے والی فلموں کے تذکرے کے ساتھ ساتھ ان پر سیر حاصل بحث کی گئی ہے جب کہ تیسرے حصے میں ان کی آیندہ آنے والی کتابوں کا تعارف پیش کیا گیا ہے۔

اس کتاب میں دنیا میں بننے والی پہلی فلم سے لے کر موجودہ دور تک کی فلموں کی معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں۔ ان کیمطابق دنیا میں فلم کا سب سے ابتدائی تصور روم میں رہنے والے ایک جرمن ماہر ریاضی دان مسٹر اتھاندسن کرچر نے پیش کیا تھا۔ یہ بات 1640ء کی ہے جب اس نے ایک جادوئی لالٹین نامی ایک مشین ایجاد کی تھی، اس جادوئی لالٹین(Magic Lantern) کے ذریعے شفاف کاغذ پر بنی ہوئی تصویروں کا عکس کسی پردے یا دیوار پر دکھایا جاسکتا تھا۔


اس واقعے کے تقریباً دو سو سال بعد 1824ء میں ایک برطانوی سائنس دان پیٹر مارک روگیٹ نے نظریہ ثبات یعنی "Persistance of Vision" پیش کیا۔ اس نظریے کے تحت کسی بھی چیز کے دیکھنے کے بعد انسانی ذہن میں چند لمحوں تک اس کی شبیہہ برقرار رہتی ہے۔ اس نظریے نے ثابت کیا کہ متحرک تصویروں کی مدد سے کسی بھی چیز کے عکس کو حرکت کرتا ہوا دکھایا جاسکتا ہے اور اسی بنیادی اصول پر فلم وجود میں آئی۔

1832ء میں بیلجیم کے ایک ڈاکٹر جوزف اور سوئٹزرلینڈ کے سائمن رٹز نے ایک ایسی مشن ایجاد کی جو فلم دکھانے کی بالکل ابتدائی مشین تھی۔ 1839ء میں فرانس کے لوئس داگیرے نے فوٹو گرافی کا اولین طریقہ ایجاد کیا۔ نومبر 1877ء میں امریکا کے تھامس ایڈیسن نے آواز کو ریکارڈ کرکے دوبارہ سنانیوالا آلہ فونوگراف ایجاد کر لیا۔ اسی نے فلم ریکارڈ کرنے اور اسے دکھانے والی مشین بھی ایجاد کرکے دنیا میں تہلکا مچا دیا۔ بعد میں 1895ء میں فرانس کے دو نوجوانوں نے ایڈیسن کے کام کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے پروجیکٹر ایجاد کیا اور پھر پردے پر فلمیں دکھائی جانے لگیں۔

سجاد نے برصغیر میں سب سے پہلے بننے والی فلم کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان کی تحقیق کے مطابق 7 جولائی 1896ء کو بمبئی کے لومیئر برادران نے اپنے سینما ٹو گراف کا تعارف کرایا اور اس تعارفی پروگرام کے ذریعے برصغیر میں پہلی دفعہ چند مختصر انگریزی بغیر آواز والی فلمیں دکھائی گئیں۔ اس کے ٹھیک دس دن بعد 18 جولائی 1896ء کو بمبئی کے ناولٹی تھیٹر میں جسے ایک سینما کی شکل دے دی گئی تھی عوام کے سامنے یہ فلمیں دکھائی گئیں اور اس طرح برصغیر میں فلموں کا آغاز ہوگیا۔ پھر 1907ء میں بمبئی میں سب سے پہلا سینما گھر تعمیر ہوا۔

1913ء میں بابائے فلم ڈھنڈی گووند پھالکے نے اپنی بنائی ہوئی فلم ''راجہ ہریش چندر'' کو نمایش کے لیے پیش کیا۔ یہ ہندوستان کی پہلی فیچر فلم تھی۔ 1931ء میں پہلی بولتی ہوئی فلم ''عالم آرا'' پیش کی گئی۔ یہ سلسلہ پھر رفتہ رفتہ تیز ہوتا گیا نئے نئے پروڈیوسر، ہدایت کار، ایکٹر اور ایکٹریسز اس قافلے میں شامل ہوتے گئے۔ سجاد نے پاکستانی فلم انڈسٹری کا بھی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

لکھتے ہیں بمبئی کی طرح لاہور میں بھی فلموں کے متعارف ہونے کے ساتھ ہی فلمیں بننا شروع ہوگئی تھیں۔ لاہور اس وقت بمبئی کے بعد برصغیر کا دوسرا بڑا فلمی مرکز تھا۔ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا لاہور میں اس وقت بھی فلمیں بن رہی تھیں۔ پاکستان بننے کے تقریباً ایک سال بعد 17 اگست 1948ء کو ''تیری یاد'' نامی پہلی پاکستانی فلم لاہور کے پربھات ٹاکیز میں نمایش کے لیے پیش کی گئی تھی۔

برصغیر میں بننے والی پہلی سندھی اور پشتو فلموں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ یہ 1940ء اور 1941ء میں بنائی گئی تھیں جن کے نام ''ایکتا'' اور ''لیلیٰ مجنوں'' تھے۔ پاکستان اور بھارت میں بننے والی نامور فلموں پر بھی سیر حاصل بحث کی گئی ہے ان کی خوبیوں اور خامیوں پر بھی نظر ڈالی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سجاد احمد سجاد نے اپنی پہلی کتاب کی طرح اس تازہ کتاب کو بھی اپنی محنت اور فلموں سے اپنی دیوانہ وار دلچسپی کو بروئے کار لاتے ہوئے اسے پوری دنیا کی فلم انڈسٹری کا انسائیکلوپیڈیا بنا دیا ہے۔ ان کی یہ کتاب پاکستانی شایقین فلم کے لیے ایک انمول تحفے سے کم نہیں ہے۔

امید ہے کہ فلم کے شعبے پر تحقیق کرنے والے اس کتاب کو ایک معتبر حوالے کے طور پر استعمال کرسکیں گے۔ ایسی بیش بہا کتاب تحریر کرنے پر میں اپنی جانب سے انھیں دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ وہ آیندہ بھی اس شعبے پر مزید تحقیق کا سلسلہ جاری رکھیں گے اور مزید نئی کتابیں پیش کریں گے۔
Load Next Story