ہر روز ایک نئی قیامت
کیا نظام ہے، کیسا انصاف ہے کہ بجائے ملزم کو سزا دلوانے کے اپنے غصے کی آگ ملزم کی بہن سے زیادتی کرکے لی گئی۔
WELLINGTON:
ہر روز ایک نئی ہولناک خبر سامنے آتی ہے۔ جب سے زینب کے ساتھ زیادتی کا واقعہ ہوا ہے اس کے بعد تواتر سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ پنچایتی نظام کی خرابیوں سے سب واقف ہیں لیکن کوئی حکومت کچھ کرنے کو تیار نہیں، کیونکہ انھیں ووٹوں سے مطلب ہے جو پنچایتی اور جرگہ نظام کے حوالے سے انھیں ملتے ہیں۔
برسر اقتدار لوگ سب جانتے ہیں کہ اس نظام کی کیا کیا خرابیاں ہیں، لیکن انھیں دور کرنا تو درکنار ان کے بارے میں سوچتے تک نہیں۔ جہالت سب برائیوں کی جڑ ہے۔ تعلیم کا تناسب ہمارے ملک میں کتنا ہے، سب جانتے ہیں، زیادہ تر آبادی دیہاتوں پر مشتمل ہے، جہاں چوہدری، جاگیردار، سردار اور وڈیرے کی طاقت کے آگے لوگ بے بس ہیں۔
خبریں تو ہمیشہ ہی آتی رہی ہیں، کچھ عرصہ پہلے بھی پنچایت کے فیصلے نے بدلہ لینے کے لیے مخالف پارٹی کو خاتون سے زیادتی کی اجازت دی تھی۔ وہ بھی ایک ہولناک واقعہ تھا، جب بے بس لڑکی چیختی رہی لیکن باہر ''جواں مرد'' بیٹھے تماشا دیکھتے رہے۔ زینب کے ساتھ زیادتی کے بعد لگا تھا کہ اب شاید حکومتی اہلکاروں کو عقل آجائے اور ایسے واقعات نہ ہوں لیکن اس وقت دو خبریں میرے سامنے ہیں جنھیں پڑھ کر ہر حساس اور فہمیدہ انسان رنجیدہ اور شرمندہ ہوا ہوگا۔
یہ کیسا معاشرہ ہے، جنگلی، وحشی اور ظالم۔ جہاں عورت کو صرف جنسی ضرورت پوری کرنے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جرم مرد کرتے ہیں لیکن سزا عورت کو ملتی ہے۔ کہاں ہیں وہ ثناخوان تقدیس مشرق والے، 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منانے والے، انھیں غیرت آنی چاہیے ایسی خبریں پڑھ کر، خواتین کی انجمنوں کو احتجاج کرنا چاہیے لیکن وہ تو فائیو اسٹار ہوٹلوں میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں اور سیمیناروں تک محدود ہے۔
اس وقت دو خبروں نے مجھے یہ کالم لکھنے پہ مجبور کیا۔ پہلی خبر پیر محل کے علاقے کی ہے جہاں ایک لڑکی سے زیادتی کی گئی۔ بدلے میں پنچایت نے فیصلہ دیا کہ متاثرہ لڑکی کا بھائی ملزم کی بہن سے زیادتی کرے گا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ محلہ غریب آباد کا رہائشی وسیم سعید زیادتی کرتے ہوئے پکڑا گیا، جسے لڑکی کے بھائی نے دیکھ لیا۔
بے غیرتی کی حد ان غیرت مندوں کی یہ دیکھیے کہ ملزم نے لڑکی کے بھائی سے منت سماجت کی کہ وہ اس بات کا تذکرہ کسی سے نہ کرے اور گھر والوں کو نہ بتائے لیکن لڑکی کے بھائی بلال نے اپنے بڑے بھائی رمضان کو بتادیا۔ اس نے ملزم کے بھائی اور ماں کو بلوایا اور بتایا کہ ان کے بیٹے نے کیا حرکت کی ہے، نیز یہ کہ وہ تھانے میں رپورٹ کریں گے اور پولیس کارروائی کریں گے جس پر ملزم کی ماں اور بھائی نے صلح کی منت سماجت کی، جس پر متاثرہ پارٹی نے کہا کہ ''بدلے میں ہم آپ کی بیٹی سے زیادتی کریں گے، ورنہ معاملہ پولیس میں دے دیں گے''، جس پر ملزم کی ماں اور بھائی نے اپنی بیٹی اور بہن کو خود زیادتی کے لیے پیش کردیا، جس پر متاثرہ لڑکی کے بھائی رمضان نے 21 مارچ کو روبینہ بی بی کے ساتھ زیادتی کی۔
دونوں فریقوں نے بذریعہ پنچایت صلح نامہ تحریر کروایا۔ دونوں پارٹیاں دو لڑکیوں کو تباہ کرنے کے بعد اسٹامپ فروش کے پاس صلح کا اسٹامپ تحریر کروا رہے تھے کہ کسی دردمند نے پولیس کو اطلاع دے دی، جس پر پولیس نے تمام ملزمان کو گرفتار کرلیا اور مقدمہ درج کرلیا۔ کیا واقعی یہ ملزمان سزا پاسکیں گے یا پنچایتی نظام کی برکتوں کو سلام کرتے ہوئے مک مکا کرلیں گے۔ کیونکہ دو لڑکیاں برباد ہوگئیں اور ہوس کا شکار ہوگئیں۔
کیا نظام ہے، کیسا انصاف ہے کہ بجائے ملزم کو سزا دلوانے کے اپنے غصے کی آگ ملزم کی بہن سے زیادتی کرکے لی گئی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ملزم کی ماں اور بھائی نے بخوشی اپنی بیٹی روبینہ کو قتل عمد کے لیے پیش کردیا۔ غیرت مند بھائی ایسے ہوتے ہیں۔ کسی نے ان دونوں لڑکیوں کے بارے میں نہیں سوچا، جن پر قیامت گزر گئی۔
پہلی پر مجرمانہ حملہ کرکے اور دوسری کو ہوس کی بھینٹ چڑھا کر کیا دونوں کی ماؤں کے کلیجوں میں ٹھنڈک پڑگئی ہوگی۔ ایسے واقعات آئے دن ہوتے ہیں کوئی گبرو جوان کسی لڑکی پر مجرمانہ حملہ کرتا ہے، پکڑا جاتا ہے تو پنچایتی فیصلے کے مطابق غیرت مند بھائی اپنی بہن کو پیش کردیتا ہے کہ ''لو ۔۔۔جو جی چاہے کرو، میری بہن حاضر ہے، تم اپنی بہن کا بدلہ میری بہن سے زیادتی کرکے لے لو۔'' زندہ باد! پاکستانی معاشرہ اور پنچایتی نظام زندہ باد۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان زندہ باد۔
دوسرا المناک واقعہ معصوم زینب کے واقعے سے ملتا جلتا ہے۔ مریدکے میں ایک شخص نے 6 سالہ ایمان کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر اسے قتل کردیا۔ اس وحشی کا نام بابر ہے اور اس نے ایمان سے پہلے کئی معصوم بچیوں سے زیادتی کا اعتراف کیا۔ ملزم پولیس کی تحویل میں ہے لیکن تعجب خیز امر یہ ہے کہ ملزم کی نشاندہی ایمان فاطمہ کی والدہ نے اس وقت کی جب انھیں یہ کہا گیا کہ اگر وہ کسی پر شک ظاہر کریں گی یا ملزم کو پکڑوادیں گی تو وزیراعلیٰ 5 لاکھ روپے انعام دیں گے، تب جاکر انھوں نے ملزم بابر کی نشاندہی کی اور وہ پولیس کی پکڑ میں آیا۔
پولیس پارٹی کو بہترین کارکردگی پر ایک لاکھ روپے انعام ضرور دیا گیا لیکن ایمان فاطمہ کی والدہ کو انعام دینے کا خبر میں کوئی ذکر نہیں۔ ڈی پی او شیخوپورہ کو چاہیے کہ وہ اپنا وعدہ پورا کریں اور ایمان کی والدہ کی بھی اشک شوئی انعام دلوا کر کریں۔ کیونکہ اگر وہ نشاندہی نہ کرتیں تو ملزم کبھی نہ پکڑا جاتا اور مزید معصوم کلیوں کو مسلتا رہتا۔ گوکہ جان کی قیمت مال نہیں ہوتا لیکن رقم دینے سے غریبی کا دکھ ضرور کم ہوجاتا ہے۔
ہمارے ہاں تو یہ عام روایت ہے کہ فوراً لاشوں کا سودا ہوجاتا ہے کیونکہ حکومت کو احتجاج کا خطرہ ہوتا ہے۔ لیکن یہاں معصوم ایمان ایک غریب عورت کی بیٹی تھی جو شاید خوف کی وجہ سے ملزم کی نشاندہی نہیں کر رہی تھی۔ لیکن جب انھوں نے ملزم کو پکڑوادیا تو پولیس پارٹی کو اپنا وعدہ پورا کرنا چاہیے۔ ایک تو ان کی بیٹی درندگی کا شکار ہوئی، اوپر سے ان سے جھوٹا وعدہ صرف اس لیے کیا گیا کہ وہ ملزم کو پکڑوا دیں اور جب ایسا ہوگیا تو انھیں کوئی رقم نہیں دی گئی، جوکہ سراسر زیادتی ہے۔
جنسی جرائم میں اضافے کا سبب سوشل میڈیا پہ ڈالا جانے والا فحش مواد، فحش فلمیں اور فحش لٹریچر بھی ہے۔ رہی سہی کسر موبائل فون نے پوری کردی ہے۔ پرائمری کلاسوں کے بچوں کے ہاتھوں میں اینڈرائیڈ موبائل فون خود ماں باپ لے کر دیتے ہیں۔ یہ کیسی تباہی پھیلا رہے ہیں، اس کا اندازہ جنسی جرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے، جگہ جگہ فحش فلموں کی نمایش نوجوان طبقے میں ان جرائم کے اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ معاشرہ ایک خوفناک ڈگر پر کھڑا ہے۔ جہاں ہر روز ایک زینب، ایمان، کائنات اور عاصمہ قتل ہورہی ہیں۔
ہر روز ایک نئی ہولناک خبر سامنے آتی ہے۔ جب سے زینب کے ساتھ زیادتی کا واقعہ ہوا ہے اس کے بعد تواتر سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ پنچایتی نظام کی خرابیوں سے سب واقف ہیں لیکن کوئی حکومت کچھ کرنے کو تیار نہیں، کیونکہ انھیں ووٹوں سے مطلب ہے جو پنچایتی اور جرگہ نظام کے حوالے سے انھیں ملتے ہیں۔
برسر اقتدار لوگ سب جانتے ہیں کہ اس نظام کی کیا کیا خرابیاں ہیں، لیکن انھیں دور کرنا تو درکنار ان کے بارے میں سوچتے تک نہیں۔ جہالت سب برائیوں کی جڑ ہے۔ تعلیم کا تناسب ہمارے ملک میں کتنا ہے، سب جانتے ہیں، زیادہ تر آبادی دیہاتوں پر مشتمل ہے، جہاں چوہدری، جاگیردار، سردار اور وڈیرے کی طاقت کے آگے لوگ بے بس ہیں۔
خبریں تو ہمیشہ ہی آتی رہی ہیں، کچھ عرصہ پہلے بھی پنچایت کے فیصلے نے بدلہ لینے کے لیے مخالف پارٹی کو خاتون سے زیادتی کی اجازت دی تھی۔ وہ بھی ایک ہولناک واقعہ تھا، جب بے بس لڑکی چیختی رہی لیکن باہر ''جواں مرد'' بیٹھے تماشا دیکھتے رہے۔ زینب کے ساتھ زیادتی کے بعد لگا تھا کہ اب شاید حکومتی اہلکاروں کو عقل آجائے اور ایسے واقعات نہ ہوں لیکن اس وقت دو خبریں میرے سامنے ہیں جنھیں پڑھ کر ہر حساس اور فہمیدہ انسان رنجیدہ اور شرمندہ ہوا ہوگا۔
یہ کیسا معاشرہ ہے، جنگلی، وحشی اور ظالم۔ جہاں عورت کو صرف جنسی ضرورت پوری کرنے کی چیز سمجھا جاتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ جرم مرد کرتے ہیں لیکن سزا عورت کو ملتی ہے۔ کہاں ہیں وہ ثناخوان تقدیس مشرق والے، 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منانے والے، انھیں غیرت آنی چاہیے ایسی خبریں پڑھ کر، خواتین کی انجمنوں کو احتجاج کرنا چاہیے لیکن وہ تو فائیو اسٹار ہوٹلوں میں منعقد ہونے والی کانفرنسوں اور سیمیناروں تک محدود ہے۔
اس وقت دو خبروں نے مجھے یہ کالم لکھنے پہ مجبور کیا۔ پہلی خبر پیر محل کے علاقے کی ہے جہاں ایک لڑکی سے زیادتی کی گئی۔ بدلے میں پنچایت نے فیصلہ دیا کہ متاثرہ لڑکی کا بھائی ملزم کی بہن سے زیادتی کرے گا۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ محلہ غریب آباد کا رہائشی وسیم سعید زیادتی کرتے ہوئے پکڑا گیا، جسے لڑکی کے بھائی نے دیکھ لیا۔
بے غیرتی کی حد ان غیرت مندوں کی یہ دیکھیے کہ ملزم نے لڑکی کے بھائی سے منت سماجت کی کہ وہ اس بات کا تذکرہ کسی سے نہ کرے اور گھر والوں کو نہ بتائے لیکن لڑکی کے بھائی بلال نے اپنے بڑے بھائی رمضان کو بتادیا۔ اس نے ملزم کے بھائی اور ماں کو بلوایا اور بتایا کہ ان کے بیٹے نے کیا حرکت کی ہے، نیز یہ کہ وہ تھانے میں رپورٹ کریں گے اور پولیس کارروائی کریں گے جس پر ملزم کی ماں اور بھائی نے صلح کی منت سماجت کی، جس پر متاثرہ پارٹی نے کہا کہ ''بدلے میں ہم آپ کی بیٹی سے زیادتی کریں گے، ورنہ معاملہ پولیس میں دے دیں گے''، جس پر ملزم کی ماں اور بھائی نے اپنی بیٹی اور بہن کو خود زیادتی کے لیے پیش کردیا، جس پر متاثرہ لڑکی کے بھائی رمضان نے 21 مارچ کو روبینہ بی بی کے ساتھ زیادتی کی۔
دونوں فریقوں نے بذریعہ پنچایت صلح نامہ تحریر کروایا۔ دونوں پارٹیاں دو لڑکیوں کو تباہ کرنے کے بعد اسٹامپ فروش کے پاس صلح کا اسٹامپ تحریر کروا رہے تھے کہ کسی دردمند نے پولیس کو اطلاع دے دی، جس پر پولیس نے تمام ملزمان کو گرفتار کرلیا اور مقدمہ درج کرلیا۔ کیا واقعی یہ ملزمان سزا پاسکیں گے یا پنچایتی نظام کی برکتوں کو سلام کرتے ہوئے مک مکا کرلیں گے۔ کیونکہ دو لڑکیاں برباد ہوگئیں اور ہوس کا شکار ہوگئیں۔
کیا نظام ہے، کیسا انصاف ہے کہ بجائے ملزم کو سزا دلوانے کے اپنے غصے کی آگ ملزم کی بہن سے زیادتی کرکے لی گئی۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ ملزم کی ماں اور بھائی نے بخوشی اپنی بیٹی روبینہ کو قتل عمد کے لیے پیش کردیا۔ غیرت مند بھائی ایسے ہوتے ہیں۔ کسی نے ان دونوں لڑکیوں کے بارے میں نہیں سوچا، جن پر قیامت گزر گئی۔
پہلی پر مجرمانہ حملہ کرکے اور دوسری کو ہوس کی بھینٹ چڑھا کر کیا دونوں کی ماؤں کے کلیجوں میں ٹھنڈک پڑگئی ہوگی۔ ایسے واقعات آئے دن ہوتے ہیں کوئی گبرو جوان کسی لڑکی پر مجرمانہ حملہ کرتا ہے، پکڑا جاتا ہے تو پنچایتی فیصلے کے مطابق غیرت مند بھائی اپنی بہن کو پیش کردیتا ہے کہ ''لو ۔۔۔جو جی چاہے کرو، میری بہن حاضر ہے، تم اپنی بہن کا بدلہ میری بہن سے زیادتی کرکے لے لو۔'' زندہ باد! پاکستانی معاشرہ اور پنچایتی نظام زندہ باد۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان زندہ باد۔
دوسرا المناک واقعہ معصوم زینب کے واقعے سے ملتا جلتا ہے۔ مریدکے میں ایک شخص نے 6 سالہ ایمان کو زیادتی کا نشانہ بنایا اور پھر اسے قتل کردیا۔ اس وحشی کا نام بابر ہے اور اس نے ایمان سے پہلے کئی معصوم بچیوں سے زیادتی کا اعتراف کیا۔ ملزم پولیس کی تحویل میں ہے لیکن تعجب خیز امر یہ ہے کہ ملزم کی نشاندہی ایمان فاطمہ کی والدہ نے اس وقت کی جب انھیں یہ کہا گیا کہ اگر وہ کسی پر شک ظاہر کریں گی یا ملزم کو پکڑوادیں گی تو وزیراعلیٰ 5 لاکھ روپے انعام دیں گے، تب جاکر انھوں نے ملزم بابر کی نشاندہی کی اور وہ پولیس کی پکڑ میں آیا۔
پولیس پارٹی کو بہترین کارکردگی پر ایک لاکھ روپے انعام ضرور دیا گیا لیکن ایمان فاطمہ کی والدہ کو انعام دینے کا خبر میں کوئی ذکر نہیں۔ ڈی پی او شیخوپورہ کو چاہیے کہ وہ اپنا وعدہ پورا کریں اور ایمان کی والدہ کی بھی اشک شوئی انعام دلوا کر کریں۔ کیونکہ اگر وہ نشاندہی نہ کرتیں تو ملزم کبھی نہ پکڑا جاتا اور مزید معصوم کلیوں کو مسلتا رہتا۔ گوکہ جان کی قیمت مال نہیں ہوتا لیکن رقم دینے سے غریبی کا دکھ ضرور کم ہوجاتا ہے۔
ہمارے ہاں تو یہ عام روایت ہے کہ فوراً لاشوں کا سودا ہوجاتا ہے کیونکہ حکومت کو احتجاج کا خطرہ ہوتا ہے۔ لیکن یہاں معصوم ایمان ایک غریب عورت کی بیٹی تھی جو شاید خوف کی وجہ سے ملزم کی نشاندہی نہیں کر رہی تھی۔ لیکن جب انھوں نے ملزم کو پکڑوادیا تو پولیس پارٹی کو اپنا وعدہ پورا کرنا چاہیے۔ ایک تو ان کی بیٹی درندگی کا شکار ہوئی، اوپر سے ان سے جھوٹا وعدہ صرف اس لیے کیا گیا کہ وہ ملزم کو پکڑوا دیں اور جب ایسا ہوگیا تو انھیں کوئی رقم نہیں دی گئی، جوکہ سراسر زیادتی ہے۔
جنسی جرائم میں اضافے کا سبب سوشل میڈیا پہ ڈالا جانے والا فحش مواد، فحش فلمیں اور فحش لٹریچر بھی ہے۔ رہی سہی کسر موبائل فون نے پوری کردی ہے۔ پرائمری کلاسوں کے بچوں کے ہاتھوں میں اینڈرائیڈ موبائل فون خود ماں باپ لے کر دیتے ہیں۔ یہ کیسی تباہی پھیلا رہے ہیں، اس کا اندازہ جنسی جرائم کی بڑھتی ہوئی تعداد ہے، جگہ جگہ فحش فلموں کی نمایش نوجوان طبقے میں ان جرائم کے اضافے کا سبب بن رہی ہے۔ معاشرہ ایک خوفناک ڈگر پر کھڑا ہے۔ جہاں ہر روز ایک زینب، ایمان، کائنات اور عاصمہ قتل ہورہی ہیں۔