ہم جو پیدائشی مسلمان ہیں
ہم نہ پورے مسلمان ہیں اور نہ پورے کافر درمیان کی کوئی چیز ہیں جسے منافقت بھی کہا جاتا ہے۔
WASHINGTON:
یوں تو ہمارا دعویٰ ہے کہ پاکستان کا آئین ہر پہلو سے اسلامی تعلیمات اور ہدایات کے عین مطابق ہے اور پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے لیکن اس پر بھی ہماری تسلی نہیں ہوتی اور ہم اس آئین کی مزید تشریح چاہتے ہیں ۔ ماضی کی دوسری پاکستانی حکومتوں کی طرح ہمارے حکمرانوں نے اپنے آپ کو فریب دینے کے لیے یا مسلمان عوام کو غلط فہمی میں مبتلا رکھنے کے لیے اسلام کو مسجد کی چار دیواری میں بند کر رکھا ہے ۔
آسانی کی خاطر نماز روزہ اور دوسری شخصی عبادات کو ا سلام بنا دیا گیا ہے اور مسجد سے باہر بازار میں اسلام کو ایک خطرناک مذہب قرار دیا جارہا ہے اور اس سازش میں دشمنوں کے ساتھ ہمارے اپنے بھی شامل ہیں جو مذہب کے نام پر تشدد کی راہ ہموار کر کے اسلام جیسے خوبصورت دین کو بدنام کرنے میں کسی دشمن سے پیچھے نہیں اور دشمنوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں ۔ اس طرح ہم ایک خطرناک دو عملی میں مبتلا ہو گئے ہیں ۔
سچی بات یہ ہے کہ ہم نہ پورے مسلمان ہیں اور نہ پورے کافر درمیان کی کوئی چیز ہیں جسے منافقت بھی کہا جاتا ہے۔پوری سرکاری مشینری رشوت خور ہے اور چند ایک رشوت نہیں لیتے تووہ خدا جانے خوف خدا سے ایسا کرتے ہیں یا قانون کی خوف سے۔ بہرکیف ہر دوصورت میں یہ تعریف کے مستحق ہیں لیکن ان چند سرکاری ملازمین کے سوا ہر سرکاری ملازم رشوت لیتا ہے ہاں ماسوائے ان کے بھی جو کوشش کے باوجود رشوت نہیں لے سکتے کیونکہ جہاں وہ کام کر رہے ہیں وہاں رشوت نہیں ملتی ۔
یہ لوگ ہر وقت منافع بخش تقرریوں کے لیے بھاگ دوڑ میں مصروف رہتے ہیں ۔ یہ رشوت اور بد عنوانی اعلیٰ سطح پر جا کر بے حد خوفناک ہو جاتی ہے کیونکہ یہاں اعلیٰ قومی مفادات کے سودے ہوتے ہیں ۔ جس حکومت کے ملازمین رشوت خور اور بدعنوان ہوں اس حکومت کو کوئی احمق اور عقل کا اندھا ہی اسلامی ملک کی حکومت کہہ سکتا ہے۔ میں بار بار عرض کرتا رہتا ہوں کہ نماز روزہ اور ان جیسی دوسری عبادات ہر مسلمان کا خدا کے ساتھ معاملہ ہے۔
ان عبادات میں کوتاہی کے باوجود اللہ تعالیٰ کسی کو معاف فرما سکتا ہے لیکن اصل عبادت جس کے لیے اسلام اتارا گیا وہ حقوق العباد ہیں۔ بندوں کے حقوق جو ہمارے جیسی کسی کرپٹ حکومت میں ادا نہیں کیے جاتے۔ ان حقوق کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرتا صرف وہ بندہ یا قوم معاف کر سکتی ہے جس کا کوئی حق سلب کیا جاتا ہے۔ حکومت کے نچلی سطح سے لے کر اوپر تک بدعنوان اہلکاروں کو خدا معاف نہیں کرے گا خواہ وہ کتنی ہی نمازیں پڑھیں اور روزے رکھیں۔
پیغمبر ﷺ اسلام نے جب کفار مکہ پر اسلام پیش کیا اور اپنی دعوت پر اڑے رہے تو کفار نے ان سے سودا بازی کرنے کی کوشش کی ۔کہا گیا کہ ان کے کاروبار میں مداخلت نہ کی جائے، ان کے دنیاوی جاہ و مرتبہ اور تفریق کو برقرار رہنے دیا جائے ۔ ان کی اخلاقی زندگی کو پہلے کی طرح آزاد رکھا جائے اور اس طرح انھیں کوئی دنیاوی تکلیف نہ دی جائے تو وہ بت پرستی چھوڑ کر محمد ﷺاور کعبہ کے خدا کو ایک مان لیتے ہیں اور انھیں پیغمبر تسلیم کر لیتے ہیں لیکن حضورﷺ نے جواب دیا کہ اس دنیا کو درست کرنے کے لیے تو وہ مبعوث کیے گئے ہیں ۔ یہی تو وہ انقلاب ہے جس کولانے کے لیے وہ ان کفار کا ہر ستم سہنے پر تیار ہیں۔
قران پاک اور آنحضرتﷺ کی سیرت پاک اس انقلاب کی ایک عملی تصویر تھی ۔ آج ہمارے پاکستان میں ہمارا طرز عمل اور عام زندگی کا رویہ عملاً یہی ہے جو حضور ﷺکے زمانے میں اسلام دشمنوں کا تھا کیونکہ ہم بھی اسلام کو اپنی دنیاوی زندگی میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتے ۔
بس فرق ہے تو یہ کہ ہم زبان سے توحید اور رسالت کا اقرارکرتے ہیں اور یوں امید ہے کہ ہم سزا کاٹ لینے کے بعد شاید جنت میں چلے جائیں کیونکہ ہم فنی اعتبار سے مسلمان ہیں اور یہ بھی ہمارے مغفرت کا شاید ایک سبب بن جائے کہ ہمارے اندر کچھ ایسے گروہ موجود ہیں جو اس حقیقی اسلام کے نفاذ کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں ۔ جان اور مال قربان کر رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں ابھی ایسے سر پھرے موجود ہیں جواسلام کے لیے قربانیاں دیے جا رہے ہیں، یہ وہ گروہ ہیں جو اسلام کی بات کرتے ہیں، ان کے بیٹوں اور بھائیوں نے اسلام پر اپنی جانیں نچھاورکی ہیں لیکن کچھ بدبخت لوگ ان کے بھی درپے ہیں اور مسلمان دشمنوں کی ہدایات پر ان پر پابندیاں لگائے رکھتے ہیں لیکن پابند سلاسل ہونے کے باوجود دشمن پر ان کا لرزہ طاری رہتا ہے ان کے جذبوں کو دیکھ کر مجھے یقین ہے کہ پاکستان کبھی کسی کے دست نگیں نہیں ہو سکتا ۔
پاکستان کے یہ محافظ ہر وقت اپنے وطن پر جان قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں اور جہاں ایسے جذبوں والے موجود ہوں وہ بھلا کسی کے زیر دست کیسے ہو سکتا ہے پاکستان کا وجود ہی اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور ہماری خوش قسمتی سے ہمیں اسلام کی حفاظت کرنے والے بھی مل گئے ورنہ ہمارے حکمرانوں سے تو کوئی توقع نہیں رکھی جا سکتی تھی وہ تو پاکستان کے محل وقوع کی وجہ سے ہر وقت اس کو بیچنے کے چکر میں رہتے ہیں یہ چند ایمان والے ہیں جن کا خوف انھیں اس عمل سے باز رکھتا ہے ورنہ ہم جو پہلے ہی قرضوں تلے ڈوبے ہوئے ہیں مزید ڈالروں کی امید باندھ کر خوشی سے پاگل نہ ہوجائیں ۔ پتہ نہیں ہم کیسے مسلمان ہیں اور سچ بات یہی ہے کہ ہم پیدائشی مسلمان ہیں ورنہ مسلمانوں والی کوئی بات ہم میں موجود نہیں۔
یوں تو ہمارا دعویٰ ہے کہ پاکستان کا آئین ہر پہلو سے اسلامی تعلیمات اور ہدایات کے عین مطابق ہے اور پاکستان ایک اسلامی جمہوری ملک ہے لیکن اس پر بھی ہماری تسلی نہیں ہوتی اور ہم اس آئین کی مزید تشریح چاہتے ہیں ۔ ماضی کی دوسری پاکستانی حکومتوں کی طرح ہمارے حکمرانوں نے اپنے آپ کو فریب دینے کے لیے یا مسلمان عوام کو غلط فہمی میں مبتلا رکھنے کے لیے اسلام کو مسجد کی چار دیواری میں بند کر رکھا ہے ۔
آسانی کی خاطر نماز روزہ اور دوسری شخصی عبادات کو ا سلام بنا دیا گیا ہے اور مسجد سے باہر بازار میں اسلام کو ایک خطرناک مذہب قرار دیا جارہا ہے اور اس سازش میں دشمنوں کے ساتھ ہمارے اپنے بھی شامل ہیں جو مذہب کے نام پر تشدد کی راہ ہموار کر کے اسلام جیسے خوبصورت دین کو بدنام کرنے میں کسی دشمن سے پیچھے نہیں اور دشمنوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں ۔ اس طرح ہم ایک خطرناک دو عملی میں مبتلا ہو گئے ہیں ۔
سچی بات یہ ہے کہ ہم نہ پورے مسلمان ہیں اور نہ پورے کافر درمیان کی کوئی چیز ہیں جسے منافقت بھی کہا جاتا ہے۔پوری سرکاری مشینری رشوت خور ہے اور چند ایک رشوت نہیں لیتے تووہ خدا جانے خوف خدا سے ایسا کرتے ہیں یا قانون کی خوف سے۔ بہرکیف ہر دوصورت میں یہ تعریف کے مستحق ہیں لیکن ان چند سرکاری ملازمین کے سوا ہر سرکاری ملازم رشوت لیتا ہے ہاں ماسوائے ان کے بھی جو کوشش کے باوجود رشوت نہیں لے سکتے کیونکہ جہاں وہ کام کر رہے ہیں وہاں رشوت نہیں ملتی ۔
یہ لوگ ہر وقت منافع بخش تقرریوں کے لیے بھاگ دوڑ میں مصروف رہتے ہیں ۔ یہ رشوت اور بد عنوانی اعلیٰ سطح پر جا کر بے حد خوفناک ہو جاتی ہے کیونکہ یہاں اعلیٰ قومی مفادات کے سودے ہوتے ہیں ۔ جس حکومت کے ملازمین رشوت خور اور بدعنوان ہوں اس حکومت کو کوئی احمق اور عقل کا اندھا ہی اسلامی ملک کی حکومت کہہ سکتا ہے۔ میں بار بار عرض کرتا رہتا ہوں کہ نماز روزہ اور ان جیسی دوسری عبادات ہر مسلمان کا خدا کے ساتھ معاملہ ہے۔
ان عبادات میں کوتاہی کے باوجود اللہ تعالیٰ کسی کو معاف فرما سکتا ہے لیکن اصل عبادت جس کے لیے اسلام اتارا گیا وہ حقوق العباد ہیں۔ بندوں کے حقوق جو ہمارے جیسی کسی کرپٹ حکومت میں ادا نہیں کیے جاتے۔ ان حقوق کو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرتا صرف وہ بندہ یا قوم معاف کر سکتی ہے جس کا کوئی حق سلب کیا جاتا ہے۔ حکومت کے نچلی سطح سے لے کر اوپر تک بدعنوان اہلکاروں کو خدا معاف نہیں کرے گا خواہ وہ کتنی ہی نمازیں پڑھیں اور روزے رکھیں۔
پیغمبر ﷺ اسلام نے جب کفار مکہ پر اسلام پیش کیا اور اپنی دعوت پر اڑے رہے تو کفار نے ان سے سودا بازی کرنے کی کوشش کی ۔کہا گیا کہ ان کے کاروبار میں مداخلت نہ کی جائے، ان کے دنیاوی جاہ و مرتبہ اور تفریق کو برقرار رہنے دیا جائے ۔ ان کی اخلاقی زندگی کو پہلے کی طرح آزاد رکھا جائے اور اس طرح انھیں کوئی دنیاوی تکلیف نہ دی جائے تو وہ بت پرستی چھوڑ کر محمد ﷺاور کعبہ کے خدا کو ایک مان لیتے ہیں اور انھیں پیغمبر تسلیم کر لیتے ہیں لیکن حضورﷺ نے جواب دیا کہ اس دنیا کو درست کرنے کے لیے تو وہ مبعوث کیے گئے ہیں ۔ یہی تو وہ انقلاب ہے جس کولانے کے لیے وہ ان کفار کا ہر ستم سہنے پر تیار ہیں۔
قران پاک اور آنحضرتﷺ کی سیرت پاک اس انقلاب کی ایک عملی تصویر تھی ۔ آج ہمارے پاکستان میں ہمارا طرز عمل اور عام زندگی کا رویہ عملاً یہی ہے جو حضور ﷺکے زمانے میں اسلام دشمنوں کا تھا کیونکہ ہم بھی اسلام کو اپنی دنیاوی زندگی میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتے ۔
بس فرق ہے تو یہ کہ ہم زبان سے توحید اور رسالت کا اقرارکرتے ہیں اور یوں امید ہے کہ ہم سزا کاٹ لینے کے بعد شاید جنت میں چلے جائیں کیونکہ ہم فنی اعتبار سے مسلمان ہیں اور یہ بھی ہمارے مغفرت کا شاید ایک سبب بن جائے کہ ہمارے اندر کچھ ایسے گروہ موجود ہیں جو اس حقیقی اسلام کے نفاذ کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں ۔ جان اور مال قربان کر رہے ہیں۔
ہمارے ملک میں ابھی ایسے سر پھرے موجود ہیں جواسلام کے لیے قربانیاں دیے جا رہے ہیں، یہ وہ گروہ ہیں جو اسلام کی بات کرتے ہیں، ان کے بیٹوں اور بھائیوں نے اسلام پر اپنی جانیں نچھاورکی ہیں لیکن کچھ بدبخت لوگ ان کے بھی درپے ہیں اور مسلمان دشمنوں کی ہدایات پر ان پر پابندیاں لگائے رکھتے ہیں لیکن پابند سلاسل ہونے کے باوجود دشمن پر ان کا لرزہ طاری رہتا ہے ان کے جذبوں کو دیکھ کر مجھے یقین ہے کہ پاکستان کبھی کسی کے دست نگیں نہیں ہو سکتا ۔
پاکستان کے یہ محافظ ہر وقت اپنے وطن پر جان قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں اور جہاں ایسے جذبوں والے موجود ہوں وہ بھلا کسی کے زیر دست کیسے ہو سکتا ہے پاکستان کا وجود ہی اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اور ہماری خوش قسمتی سے ہمیں اسلام کی حفاظت کرنے والے بھی مل گئے ورنہ ہمارے حکمرانوں سے تو کوئی توقع نہیں رکھی جا سکتی تھی وہ تو پاکستان کے محل وقوع کی وجہ سے ہر وقت اس کو بیچنے کے چکر میں رہتے ہیں یہ چند ایمان والے ہیں جن کا خوف انھیں اس عمل سے باز رکھتا ہے ورنہ ہم جو پہلے ہی قرضوں تلے ڈوبے ہوئے ہیں مزید ڈالروں کی امید باندھ کر خوشی سے پاگل نہ ہوجائیں ۔ پتہ نہیں ہم کیسے مسلمان ہیں اور سچ بات یہی ہے کہ ہم پیدائشی مسلمان ہیں ورنہ مسلمانوں والی کوئی بات ہم میں موجود نہیں۔