تینوں طرزمیں قیادت کا دباؤ نہیں ٹیم کوٹیسٹ میں اچھا پرفارم کرنا پڑے گا سرفراز احمد

سرفراز احمد کا ایکسپریس کے ایڈیٹر اسپورٹس سلیم خالق کوخصوصی انٹرویو

سرفراز احمد کا ایکسپریس کے ایڈیٹر اسپورٹس سلیم خالق کوخصوصی انٹرویو۔ فوٹو: عرفان علی

ایکسپریس:2016میں پاکستانی ٹیسٹ ٹیم کا گذشتہ دورئہ انگلینڈ بڑا یادگار رہا تھا،سیریز 2-2سے برابر کرنے والے اسکواڈ میں آپ بھی شامل تھے،اس بار کیا توقعات وابستہ ہیں؟

سرفرازاحمد: وہ بڑا خوشگوار تجربہ تھا،فرق یہ ہے کہ اس وقت ہمیں ایک عرصے تک پاکستان کے لیے خدمات سرانجام دینے والے سینئرز کی خدمات حاصل تھیں،مصباح الحق نے لارڈز میں شاندار سنچری سے ٹیم کا مورال بلند کیا،آخری ٹیسٹ میں یونس خان نے ڈبل سنچری بنائی،اس بار ٹیم کا تجربہ کم لیکن باصلاحیت کھلاڑیوں کی خدمات حاصل ہیں،ہم پوری کوشش کرینگے کہ بھرپور تیاری کے ساتھ میدان میں اتریں اور مشکل سیریز میں بہتر کارکردگی دکھائیں،11اپریل سے شروع ہونے والے کیمپ میں بھی ہمیں اچھی ٹریننگ کا موقع ملے گا۔

ایکسپریس:ٹیسٹ ٹیم کے بیٹنگ آرڈر میں کیاکسی تبدیلی کا امکان ہے؟

سرفرازاحمد:کیمپ کے لیے20،22کرکٹرز کو مدعو کیا گیا ہے،حتمی فیصلہ تو مل بیٹھ کر کریںگے،البتہ میرا خیال ہے کہ انگلینڈ میں بطور اوپنر کھیلنے کا تجربہ رکھنے والے اظہر علی کو ہی اننگز کاآغاز کرنے کے لیے بھیجا جائے گا،وہ گذشتہ 4،5 سال سے ہماری بیٹنگ لائن کا اہم ستون ہیں،ان کا ساتھ دینے کے لیے شان مسعود اور سمیع اسلم جبکہ کیمپ میں فخر زمان بھی شامل ہوئے ہیں، ان تینوں میں سے ہی کوئی کریز پر جائے گا،کم ازکم3اوپنرز کا انتخاب ہوگا،کیمپ کے بعد کوچز کی مشاورت سے حتمی اسکواڈ کا انتخاب کریںگے۔

ایکسپریس:کیا آپ سمجھتے ہیں نوجوان کرکٹرز میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ مصباح الحق اور یونس خان کا خلا پُرکرسکیں گے؟

سرفراز احمد:کھلاڑیوں کو صلاحیتوں کی بنیاد پر ہی سلیکٹرز ٹیم میں شامل کرتے ہیں،بہترین دستیاب کرکٹرز کو تسلسل کے ساتھ مواقع دینے سے ہی ان کا کھیل نکھرے گا،امید ہے کہ اچھا پرفارم کر کے وہ مستقبل کی ضروریات کو پورا کریںگے،کسی بھی کرکٹر کا کیریئر آگے بڑھانے کے لیے انگلینڈ،آسٹریلیا اور جنوبی افریقہ جیسے ملکوں میں اچھی کارکردگی دکھانا ضروری ہے،توقع ہے کہ نوجوانوں کا کھیل نکھرتا جائے گا اور وہ خود کو سینئرز کا خلا پُرکرنے کے قابل بنائیں گے۔



ایکسپریس: نئے ٹیلنٹ میں کسی چیز کی کمی کا احساس ہوتا ہے؟

سرفراز احمد: ناتجربہ کاری ٹیم کا اہم مسئلہ نظر آتا ہے،سری لنکا کیخلاف ٹیسٹ سیریز میں ہماری ناکامی کی وجہ یہ تھی کہ کئی بیٹسمین اچھے آغاز کو بڑے اسکور میں بدلنے میں ناکام رہے،مصباح الحق نصف سنچری بناتے تو پتا ہوتااب 80،90 تک جائیں گے، خاص طور پر یونس خان کبھی50کرتے تو یقین ہوتا کہ اب سنچری بھی مکمل ہوگی،نوجوان بیٹسیمنوں کو اپنا مزاج بھی اس طرح کا ذمہ دارانہ بنانا ہوگا،ہماری کوشش ہو گی انھیں نیٹ میں دیر تک کھیلنے کا موقع دیں،انگلینڈ میں پریکٹس اور کینٹ کیخلاف چار روزہ میچ کھیل کر اچھا تجربہ ہوگا۔

ایکسپریس:کیا سلیکشن کے معاملات میں چیف سلیکٹر انضمام الحق آپ سے رائے طلب کرتے ہیں؟

سرفراز احمد: جی بالکل وہ ہمیشہ مشاورت کرتے ہیں، جہاں بھی چند لوگ مل بیٹھ کر بات کریں تو اختلاف رائے ہوسکتا ہے،اس میں کوئی برائی نہیں، سب کا مقصد ایک یعنی ٹیم کی بھلائی ہوتا ہے،میرا چیف سلیکٹر کے ساتھ اچھا تال میل ہے،وہ سپورٹ بھی کرتے ہیں،وہ ٹیموں کے انتخاب میں کپتان اور کوچ دونوں سے بات کرتے اور ضرورت کا خیال رکھتے ہیں۔

ایکسپریس: فواد عالم کے لیے لوگ بہت کہتے ہیں کہ انھیں ٹیم میں ہونا چاہیے،کیا دورئہ انگلینڈ کے لیے منتخب کرنے کا ارادہ ہے؟

سرفراز احمد:کیمپ کے لیے طلب شدہ کرکٹرزمیں فواد عالم بھی شامل ہیں،اس کا مطلب یہی ہوا کہ ان کی سلیکشن پر غور ہو رہا ہے،ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد کھلاڑیوں کی فارم اور فٹنس کے ساتھ ٹیم کی ضرورت کا خیال رکھتے ہوئے حتمی اسکواڈ کا انتخاب کرینگے۔

ایکسپریس:کامران اکمل کے بارے میں بھی کہا جاتا ہے کہ انھیں موقع ملنے چاہیے لیکن کوچ ان کی فٹنس اور فیلڈنگ سے مطمئن نہیں لگتے۔

سرفراز احمد: کامران اکمل نے پی ایس ایل میں بڑی شاندار بیٹنگ کی، میں ماضی میں کپتان بنا تو ان کو موقع دیا تھا، مجھے ٹیم میں ان کی شمولیت پر کبھی کوئی اعتراض نہیں رہا لیکن ہیڈ کوچ مکی آرتھر کی اپنی سوچ اور پلاننگ ہے،وہ آج نہیں مستقبل کی طرف بھی دیکھ رہے ہیں،کوچ نے نئے کھلاڑیوں کو مواقع دیے جنھوں نے پرفارم بھی کیا،آئندہ بھی جو ٹیم کے لیے بہتر ہوا وہی کھیلے گا۔

ایکسپریس: گذشتہ دورئہ انگلینڈ میں یاسر شاہ نے ٹیم کو لارڈز ٹیسٹ میں فتح دلائی تھی، اس بار ان سے کیا توقعات وابستہ ہوںگی؟

سرفراز احمد: یاسر شاہ ہمارے اہم بولر اور گذشتہ چند برس میں ٹیسٹ فتوحات کے مرکزی کردار رہے ہیں،انھوں نے لارڈز میں میزبان ٹیم کی10وکٹیں اڑائی تھیں،اوول ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں بھی5شکار کیے،اس بار بھی لیگ اسپنر سے بہترین کارکردگی کی امیدیں وابستہ ہیں،اب بھی ان کا اہم کردار ہو گا۔

ایکسپریس:گذشتہ دورئہ انگلینڈ میں پاکستانی کرکٹرز کے پش اپس بڑے مشہور ہوئے تھے،اس بار بھی ایسی کوئی خواہش ہے؟

سرفرازاحمد:اس وقت قومی کرکٹرز آرمی ٹرینرز کی رہنمائی میں فٹنس بہتر بناکر انگلینڈ روانہ ہوئے تھے،ایک الگ ہی جوش و جذبہ تھا،سبکی سوچ یہی تھی کہ فتح حاصل ہوئی تو پاک فوج کی خدمات کو سراہنے کے لیے سیلوٹ پیش کریں گے،لارڈز میں ٹیسٹ جیت کر سب نے دل سے پش اپس لگائے۔

ایکسپریس:لارڈز کے تاریخی میدان میں کھیلتے ہوئے کوئی خاص احساس ہوا؟

سرفرازاحمد:لارڈز کے میدان میں جب میں نے پہلی بار قدم رکھا تو بڑے اچھے احساسات تھے، میں خوش تھا کہ جس گرائونڈ کو ٹی وی پر دیکھا کرتا تھا اب وہاں کھیلنے کا موقع مل رہا ہے، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ورلڈکپ 1999 کا فائنل ٹی وی پر دیکھا جب اختتام پرپاکستانی ٹیم بالکونی میں کھڑی تھی، میں لوگوں سے پوچھا کرتا تھا کہ آخر لارڈز میں ایسی کیا خاص بات ہے کہ سب اس کا ذکر کرتے رہتے ہیں، جب وہ کھیلا تو پتا چلا گیا، وہاں کا ڈریسنگ روم استعمال کرنے، بالکونی میں کھڑے ہوتے وقت عجیب سے احساسات تھے، گو میں وہاں ٹیسٹ سنچری تو اسکور نہیں کر سکا البتہ ون ڈے میں ایسا کیا ہے۔

ایکسپریس:آئرش ٹیم اپنی تاریخ کا پہلا ٹیسٹ کھیل رہی ہے،وہاں کی کنڈیشنز بھی مختلف ہوتی ہیں،اس میچ کے لیے کیا پلان ہے؟

سرفرازاحمد:صرف ایک بار آئرلینڈ گیا ہوں،جون میں بھی وہاں سخت سردی تھی،مئی میں تو لگتا ہے ڈبل سوویٹر پہننا پڑے گا،میرے خیال میں وہاں کی کنڈیشنز بولرز کے لیے زیادہ سازگار ہوتی ہیں،بیٹسمینوں کو سخت محنت کرنا پڑے گی،اگرچہ آئرلینڈ کا یہ پہلا ٹیسٹ ہے لیکن کئی تجربہ کار کھلاڑیوں کی موجودگی میں میزبان ٹیم کو کمزور حریف خیال نہیں کیا جا سکتا،ٹیسٹ میں اچھا مقابلہ ہوگا۔


ایکسپریس: ٹیم کو اسکاٹ لینڈ میں ٹی ٹوئنٹی سیریز بھی تو کھیلنا ہے۔

سرفرازاحمد:آئرلینڈ اور انگلینڈ میں ٹیسٹ میچز کے بعد ٹی ٹوئنٹی میچز کی باری آئے گی جس میں ہم عمدہ کھیل پیش کرنے کے لیے پُرعزم ہیں، ویسٹ انڈیز کیخلاف سیریز میں کلین سوئپ کرکے عالمی نمبر ون پوزیشن مستحکم کرنے والے اسکواڈ میں 1،2 تبدیلیوں کی ضرورت ہی پڑسکتی ہے۔

ایکسپریس:آپ کے بیٹنگ آرڈر میں تبدیلی کی بڑی بات ہوتی ہے،اس کے حوالے سے کیا کہیں گے؟

سرفرازاحمد:میں ٹی ٹوئنٹی اور ون ڈے میں تو شاید چوتھے یا پانچویں نمبر پر بیٹنگ کروں البتہ ٹیسٹ میں ہمارے بیٹسمین اسد شفیق، حارث سہیل اور بابر اعظم سیٹ ہیں اور کچھ عرصے سے کھیلتے چلے آ رہے ہیں، ٹیسٹ میں میرا نمبر چھٹا یا ساتواں ہی رہے گا،میں بطور کپتان کسی خاص بیٹنگ نمبر کے لیے اصرار کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کرتا،ویسٹ انڈیز کیخلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز میں آصف علی کو نچلے نمبروں پر بیٹنگ کا زیادہ موقع نہیں مل رہا تھا تو انھیں میں نے اپنے نمبر پر بھیج دیا تاکہ سیٹ ہوکر کھیلیں،رنز بنائیں اور مستقبل کے لیے اعتماد حاصل ہو، انھوں نے ایسا کیا جس کی مجھے خوشی ہے،میری کوشش یہی ہوتی ہے کہ جو بھی نیا کھلاڑی آئے اسے بہترین نمبر پر بھیجوں تاکہ صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملے،امید ہے آصف کے اعتماد میں بھی اضافہ ہوا ہوگا۔

ایکسپریس:ساتھی کھلاڑیوں کوآپ کی ڈانٹ ڈپٹ کا بڑا تذکرہ رہتا ہے؟

سرفرازاحمد: میں جان بوجھ کر کسی کو نہیں ڈانٹتا،بطور کپتان میری کوشش ہوتی ہے کہ کھلاڑی اپنے پلان سے نہ ہٹیںاور سوفیصد کارکردگی دکھائیں،کوئی غلطی کرتا ہے تو میں ٹوکتا لیکن اپنی غلطیوں سے سیکھ رہا ہوں،کوشش کررہا ہوں کہ مزاج میں تھوڑا ٹھہرائو لائوں، یہ بچپن کی عادت ہے آہستہ آہستہ ہی جائے گی۔

ایکسپریس: تینوں طرز میں کپتان سے دبائو تو محسوس نہیں کرتے؟

سرفراز احمد: بطور کپتان آپ کو بہت کچھ سوچنا پڑتا ہے، ٹیم کے نتائج اور اپنی کارکردگی کی بھی فکر ہوتی ہے،شکر ہے گذشتہ ڈیڑھ، پونے دو سال سے معاملات بہت اچھے جا رہے ہیں، دماغ میں ایک بات ضرور ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں ٹیم کو اچھا پرفارم کرنا پڑے گا،آگے بہت چیلنجنگ ٹورز آ رہے ہیں، یہ بات میرے دماغ میں ہے، اس کے لیے مجھے خود کو ذہنی طورپر بھی بہت مضبوط رکھنا پڑے گا،انگلینڈ میں مشکل سیریز ہے پھر یو اے ای میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے مقابلے ہوں گے، ان کے لیے ذہنی پختگی بہت ضروری ہے۔

ایکسپریس:نیوزی لینڈ میں حسن علی کے ساتھ کیا معاملہ ہوا تھا،اس بارے میں کچھ کہیں گے؟

سرفرازاحمد:ایک میچ کی بات تھی وہیں ختم ہوگئی، ٹیم میں کوئی جونیئر ہو یا شعیب ملک جیسا سینئر، سب میں افہمام وتفہیم کی فضا ہے،نئے پلیئر حسین طلعت سے لے کر شاداب خان اور فخرزمان تک سب ایک فیملی کی طرح اور ٹیم کا ماحول بڑا شاندار ہے۔

ایکسپریس:اکثر کوئی فیصلہ غلط ہوتو کہا جاتا ہے کہ کپتان سرفراز نے ایسا کردیا،اس وقت کیا محسوس کرتے ہیں؟

سرفرازاحمد: فیصلے بعد میں غلط ثابت ہوں یا درست سب مل جل کر کرتے ہیں،کسی ایک کو الزام نہیں دیا جا سکتا،اسکواڈ کا انتخاب سلیکٹرز کرتے ہیں، پلیئنگ الیون بناتے ہوئے کوچ اور کپتان کی مشاورت ہوتی ہے،گرائونڈ میں بھی کپتان کو کبھی کوئی مسئلہ ہو تو کوچ سے پوچھ لیا جاتا ہے، نیوزی لینڈ کیخلاف سیریز میں کئی غلطیاں ہوئیں،ہمیں ون ڈے میں ابھی کافی بہتری لانی ہے، غلطیوں سے سب کو ہی سبق سیکھنا اور کارکردگی میں بہتری لانے کے لیے مل جل کر پلاننگ اور محنت کرنا ہو گی۔

ایکسپریس: مکی آرتھر سے آپ کی بڑی اچھی ہم آہنگی لگتی ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب تک میں کوچ ہوں سرفراز احمد ہی کپتان ہوںگے؟

سرفرازاحمد: ہیڈ کوچ مجھے اور ٹیم کو بڑا متحرک رکھتے ہیں، وہ ہر فارمیٹ کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے کپتان کو پلیئنگ الیون دینے پر یقین رکھتے ہیں،ان کے ساتھ میرے بہترین تعلقات اور تعاون کی مثالی فضا ہے،میںکوچ کے جذبات کی قدر کرتا ہوں۔

ایکسپریس:کراچی میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی پر کیا محسوس کررہے ہیں؟

سرفرازاحمد:ایک طویل عرصے بعد اپنے شہر میں کرکٹ کی رونقیں دیکھنے کی خوشی الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا،عوام نے بھرپور پذیرائی نے ویسٹ انڈیز کیخلاف سیریز کو یادگار بنا دیا،تیسرے میچ سے قبل ہی پاکستان سیریز جیت چکا تھا،اس کے باوجود شائقین کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے نیشنل اسٹیڈیم آئے،ملک بھر میں کرکٹ کی واپسی کا جشن منایا گیا،سیریز کے کامیاب انعقاد پر سیکیورٹی فورسز، سیاسی قائدین،سندھ گورنمنٹ،پی سی بی اور چیئرمین بورڈ نجم سیٹھی سب مبارکباد کے مستحق ہیں۔

ایکسپریس:نیشنل اسٹیڈیم کے گرائونڈ اسٹاف کو تو آپ نے تیسرے میچ کی مکمل فیس تحفے میں دے دی۔

سرفرازاحمد:اچھے ماحول میں کرکٹ کو ممکن بنانے میں یہ لوگ اہم کردار ادا کرتے ہیں،تینوں روز مسلسل میچ ہوئے جس کے لیے بہترین پچز میسر تھیں،گرائونڈ اسٹاف نے دن رات محنت کرتے ہوئے بہترین کنڈیشنز فراہم کیں،میچ فیس ان کی خدمات کو سراہنے کے لیے ایک چھوٹا سا قدم تھا۔

ایکسپریس:نجم سیٹھی نے اگلے سال آدھی پی ایس ایل پاکستان لانے کا اعلان کردیا ہے،اس سے ملکی کرکٹ کو یقیناً فائدہ ہوگا۔

سرفراز احمد: اس سے اچھی تو کوئی بات ہی نہیں ہو گی، اس بار پی ایس ایل کے پاکستان میں لاہور اور کراچی میں میچز کے لیے بہترین پچز تیار کی گئیں،یہ ہمارے ڈومیسٹک کرکٹرز کے لیے بھی بہترین تجربہ ہو گا کہ وہ اپنی وکٹوں پر ہم وطنوں کے سامنے کھیلیں،اس سے ان کا اعتماد بڑھے گا، یواے ای ہمارے لیے ہوم گرائونڈ جیسا ہے لیکن ہوم گرائونڈ نہیں،اپنے ملک میں کرکٹ کا مزا ہی الگ ہے، آئندہ سال میدانوں میں رونقیں بڑھیں گی تو پلیئرز میں اعتماد آئے گا اور پھر جب وہ باہر جا کر کھیلیں گے تو کارکردگی مزید نکھر کر سامنے آئے گی۔

ایکسپریس:آئی پی ایل شروع ہوگی، اس بار بھی پاکستان کا کوئی پلیئر شامل نہیں، اس کا افسوس تو نہیں ہوتا؟

سرفراز احمد: مجھے بالکل بھی افسوس نہیں ہوتا، جس طرح کی ہماری لیگ ہو گی ہمیں آئی پی ایل کی کوئی ضرورت نہیں،پی ایس ایل بہتر سے بہتر ہوتی جا رہی ہے، پہلے سے تیسرے ایڈیشن تک بہتر ہوئی ہے،رواں سال ٹاپ کلاس کرکٹ کھیلی گئی،کسی اور لیگ میں بولنگ کا ایسا معیار نہیں دیکھاگیا، برانڈ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنوبی افریقی بورڈ سے اجازت نہ ملنے کے باوجود پال ڈومینی پی ایس ایل کھیلنے اور پاکستان میں بھی آئے،آئندہ ایڈیشن کے آدھے مقابلے ملک میں ہوئے تو مزید بہتری آئے گی، ہماری لیگ دنیا کی بہترین لیگز میں سے ایک ہے۔

ایکسپریس:کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کی ٹیم رواں سال گذشتہ ایونٹس کی کارکردگی نہیں دہرا سکی،اس کی کیا وجہ تھی؟

سرفرازاحمد: میں کسی غیرملکی کھلاڑی کو نہیں کہوں گا کہ وہ نہیں آئے تو ہم ہار گئے، درحقیقت اس بار ہمارے مقامی پلیئرز کی کارکردگی اچھی نہیں رہی، اگر وہ بہتر کھیل کرتے خصوصاً بیٹنگ میں تو ٹیم ایونٹ میں مزید آگے جاتی،اس سے پہلے دونوں ایڈیشنز میں ہمارے مقامی کرکٹرز کی کارکردگی کافی اچھی تھی اس لیے ہم نے فائنل بھی کھیلا مگر اس بار پورے ایونٹ میں ہمارے بیٹسمینوں نے اچھا پرفارم نہیں کیا۔
Load Next Story