نیتوں کا کھوٹ

کشمیر میں بھارت کی درندگی الامان الحفیظ، مگر کوئی شکایت نہیں، حکمرانوں کے منہ پر تالے لگے ہوئے ہیں۔

fnakvi@yahoo.com

آخر ہمیں وہ گتہ کا ٹکڑا مل ہی گیا جس کے لیے ہم نے بڑی محنت اور تگ و دو کی تھی۔ گتے کا ٹکڑا یعنی وہ سرٹیفکیٹ جس کے لیے ہم دی ایجوکیشن فاؤنڈیشن، علم فاؤنڈیشن کے انتہائی شکر گزار ہیں، کیونکہ اس کورس سے ہم نے بہت کچھ سیکھا۔

یہ کورس زبانی کلامی باتوں کا محور نہیں تھا، بلکہ یہ انسان کو راہ پر لانے کی ایک کوشش تھی، جس کے لیے اﷲ پاک نے ہمیں پیدا کیا ہے۔ مختلف طریقوں، مہارتوں کے ذریعے شرکاء کو یہ بتایا گیا کہ انسان کو دنیا میں کس مقصد کے لیے بھیجا گیا ہے، اس کا درجہ اشرف المخلوقات کا ہے اور علم سیکھنا اور سکھانا پیغمبری صفت ہے۔

اللہ کرے ہم اپنے مقصد کو بھولنے نہ پائیں، کیونکہ اس وقت جس دور سے ہم گزر رہے ہیں وہاں ایسی باتوں کو سیکھنے اور سکھانے کی بھی ضرورت ہے اور اس کو شخصیت کا حصہ بنانے کی خاص طور پر ضرورت ہے، کیونکہ شخصیت سازی پر ہی اسلام نے زیادہ زور دیا ہے۔

عبادات کا اپنا ایک اہم مقام ہے، مگر شخصیت سازی اگر دین کے مطابق ہو تو اسی سے دنیا میں رہنے والوں تک ہی اس کا فائدہ پہنچانا ہے، جس دین میں ذاتی لڑائی میں مارے جانے والے دونوں فریقوں کو جہنمی قرار دیا گیا ہو، کیونکہ وہ مفادات کی جنگ میں مارے گئے، ذاتی وجوہات کے اسیر تھے، اس حکمت نے کس طرح سے انسان کی ذاتی مفادات لڑائیوں کو دین کا حصہ نہیں بنایا، اس دین کی وسعت کا کیا کہنا، مگر ہم نے اپنی زندگیوں سے دین نکال دیا ہے اور ہم یہ کہتے وقت بڑا فخر محسوس کرتے ہیں کہ ہم سیکولر یا روشن خیال ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اسلام تو ہے ہی روشن خیالی کا نام۔

اسلام جدید خطوط پر علم یا تعلیم حاصل کرنے کو کبھی منع نہیں کرتا۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔ تو چین کسی مسلمان ریاست کا نام نہیں، وہاں جو لوگ تعلیم دیں گے وہ شریعت پر کاربند ہونے والے نہیں، مگر وہ علم جس سے دنیا کو فائدہ پہنچے اس کو منع نہیں کیا گیا۔ اسی لیے قرآن پاک میں کوئی پیغام دیتے وقت کہیں مسلمانوں کو مخاطب کیا ہے تو اکثریت انسانوں کے لیے ہے، غوروفکر پر جس طرح زور دیا گیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔


مسلمانوں نے جب تک اس بات پر عمل کیا اقوام عالم میں برتری پائی اور اب جب اس کو چھوڑ دیا تو آج ہم تنزلی کا شکار ہیں، کیونکہ واضح نشانیاں بتائی گئی ہیں کہ کس طرح ہم تحقیق، جستجو کرکے اپنے تصورات کو حقیقت کا رنگ دے سکتے ہیں۔ جن لوگوں نے اس کے مطابق عمل کیا انھوں نے کامیابی کی منازل باآسانی طے کرلیں اور جنھوں نے اس کو چھوڑ دیا وہ اقوام عالم میں ذلیل و خوار ہیں۔

آج مسلمانوں کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ تحقیق و جستجو، نتیجہ سب چھوڑ کر بس اس بات پر کاربند ہوکر رہ گئے ہیں کہ ہم پر کوئی آنچ نہ آجائے۔ آج کشمیر، افغانستان، شام، عراق، یمن ہر جگہ مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے، کوئی حکمران اس پر بات کرنے کو تیار نہیں، حکمرانوں کو صرف اپنی پڑی ہے کہ کہیں امریکا ناراض نہ ہوجائے، اﷲ کی ناراضگی، اس کا ڈر دلوں سے نکل گیا ہے۔

سوشل میڈیا پر حالیہ قندوز کے بچوں کا قتل عام دیکھ کر کہ جس میں سو سے زیادہ حفاظ بچوں نے جام شہادت نوش کیا، دل کی عجب حالت ہے کہ ہمارے بچے کس طرح سے قتل ہورہے ہیں۔ ان کی بند ہوتی آنکھیں سوال کررہی ہیں کہ کیا ہمیں مسلمان ہونے کی سزا دی جارہی ہے۔ کشمیر میں بھارت کی درندگی الامان الحفیظ، مگر کوئی شکایت نہیں، حکمرانوں کے منہ پر تالے لگے ہوئے ہیں۔ بھارتی حکمرانوں کی عرب ریاستوں میں آرتی اتاری جارہی ہے، تلک لگائے جارہے ہیں، اس کی تصویریں وائرل ہورہی ہیں، صرف اس بات کے لیے کہ امریکا بہادر کو پیغام پہنچ جائے کہ ہم بالکل ویسے بن گئے جیسا کہ تم چاہتے تھے۔

آج سعودی عرب میں تبدیلیاں آرہی ہیں، سوچ بدل رہی ہے۔ کہاں سوچ کا وہ عالم تھا کہاں یہ ہوگیا کہ ہم اسرائیل کے تحفظات کی باتیں کررہے ہیں۔ اتنی دولت وسائل کس کام کے جو ہمیں اتنا بزدل بنادیں کہ حق گوئی نہ ہوسکے۔

امریکا ہو، بھارت یا کوئی دوسرا ملک، وہ سب اپنے ملک، اپنی سوچ، اپنے عوام کے لیے کام کررہے ہیں، اپنی ترجیحات کے مطابق کام کررہے ہیں، وہ قصوروار نہیں، قصوروار تو مسلمان اور ان کے حکمران ہیں، جنھوں نے اپنی ثقافت، اپنی نیت، اپنی خودداری گروی رکھ دی ہے۔ وہ یہ حدیث بھول گئے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں کہ کسی عضو میں کوئی تکلیف ہو تو سارا جسم درد سے چور اور بے چین ہوجاتا ہے، مگر ہم ایک جسم یا ایک عضو ہی نہیں رہے۔ ہم نے اپنے جسموں اور سوچ پر پیوند کاری کر رکھی ہے۔

پاکستان میں تو الگ نرالا عالم ہے، پاکستانی وزیراعظم اپنی بے عزتی تو کراتے ہی ہیں، ساتھ ساتھ ملک و قوم کو بھی رسوا کرواتے ہیں۔ شاہ رخ ایک فنکار تھا، برازیل کا شہری ایک عام انسان تھا، مگر جب ایسا سلوک جیسا ہمارے وزیراعظم کے ساتھ ہوا تو انھوں نے احتجاج بھی کیا اور شدید ردعمل کے طور پر امریکا کے شہریوں کے ساتھ وہی سلوک کرنے کی دھمکی بھی دی، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تحریری معافی مانگنے پر مجبور کردیا، اور یہاں یہ حال کہ وضاحتیں دے رہے ہیں کہ عام شہری کی طرح گیا تھا اور مزے کی بات کہ عام شہری تھے اور ملاقاتیں خاص الخاص لوگوں سے۔ واہ کیا بات ہے۔ جب نیتوں میں کھوٹ ہو، ملک کی رسوائی مقصود ہو تو اسی طرح رسوائی مقدر بنتی ہے۔ مانو یا نہ مانو، بات تو یہ ہی ہے۔
Load Next Story