شاہ عبدالقادرؒ کا اردو ترجمہ قرآن

شاہ عبدالقادرؒ نے جب پورے قرآن پاک کا پہلی مرتبہ اردو میں ترجمہ کیا تو یہ خود اردو زبان کے لیے بڑے فخر کی بات تھی۔

WASHINGTON, DC:
شاہ عبدالقادرؒ کا ترجمہ قرآن اردو زبان کا پہلا مکمل ترجمہ قرآن ہے جو لسانی خوبیوں سے مالا مال ہے۔ اس ترجمہ قرآن کے لسانی پہلو پر بہ طور خاص تحقیقی کام کرنے کی ضرورت تھی جو ڈاکٹر محمد سلیم خالد نے پوری کرنے کی کوشش کی ہے۔ وہ اپنی کتاب ''شاہ عبدالقادر کے اردو ترجمہ قرآن کا تحقیقی و لسانی مطالعہ'' کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ''میں نے اس کام کی تکمیل میں اپنی طرف سے پوری محنت، تندہی اور جانفشانی سے کام کیا ہے اور یہ کوشش کی ہے کوئی زیر بحث پہلو تشنہ نہ رہے۔''

شاہ عبدالقادرؒ کا ترجمہ قرآن 1829ء میں منصہ شہود پر آیا اور قرآن پاک کے مابعد اردو ترجموں کے لیے مینارہ نور ثابت ہوا۔ یہ قرآن کریم کا اردو میں پہلا مکمل با محاورہ ترجمہ ہے۔ ڈاکٹر سلیم خالد لکھتے ہیں ''اس کا شمار شمالی ہند میں معرض تحریر میں آنے والی چند ایک ابتدائی نثری تحریروں میں ہوتا ہے۔ اس زمانے میں اردو زبان ابتدائی مراحل میں تھی اور بالخصوص نثر لکھنے کا رواج تو بہت ہی کم تھا لیکن اس کے باوجود یہ ترجمہ ادبی اور لسانی اعتبار سے معیاری ہے۔

شاہ عبدالقادرؒ نے جب پورے قرآن پاک کا پہلی مرتبہ اردو میں ترجمہ کیا تو یہ خود اردو زبان کے لیے بڑے فخر کی بات تھی کہ اس زمانے کی اردو نے عربی کے وسیع مفہوم اور معانی کے سمندر کو اپنے کمزور اور شرمیلے قالب میں سمیٹنے کی کوشش کی تھی اور اس میں کامیاب ہوئی تھی۔''

ڈاکٹر سلیم خالد لکھتے ہیں کہ اس ترجمے کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہ عبدالقادر عام لفظوں کو نئے معنی دے کر انھیں نئی زندگی دے رہے ہیں۔ اس میں وہی زبان استعمال ہوئی ہے جو عوام میں رائج تھی اور شاہ صاحب نے اس عوامی زبان اور محاورے کو قرآن جیسی کتاب کے ترجمے کے لیے استعمال کر کے ایک نئی رفعت عطا کی ہے۔

شاہ عبدالقادرؒ 1752ء میں حضرت شاہ ولی اللہ کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کا بچپن اپنے والد کے سایے میں گزرا۔ یہ نو برس کے تھے کہ یہ سایہ اٹھ گیا۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد سے پائی اور علوم کی تکمیل شاہ محمد عاشق اور دوسرے علما سے کی۔ تکمیل علم کے بعد درس و تدریس کا سلسلہ شروع کردیا اور اس مقصد کے لیے اکبر آبادی مسجد کو منتخب کیا۔ سرسید لکھتے ہیں کہ شاہ صاحب نے تمام عمر اس مسجد کے ایک حجرے میں گزار دی۔

شاہ صاحب قدرتی طور پر دنیاوی ساز و سامان سے بے پرواہ، انتہائی سادہ مزاج، درویش صفت انسان تھے۔ ڈاکٹر سلیم خالد لکھتے ہیں ''علما اور شہر کے رؤسا ہمہ وقت ان کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔ رعب و جلال کا یہ عالم تھا کہ حاضرین میں سے کسی کو آنکھ اٹھانے کی جرأت نہ ہوتی۔ دلی شہر میں آپ کی کرامات کا چرچا تھا۔ سرسید کا کہنا ہے کہ شاہ عبدالقادر کے علم و فضل کا بیان کرنا ایسا ہے جیسے کوئی آفتاب کی تعریف فروغ اور فلک کی مدح بلندی کے ساتھ کرے۔ زبان کو کیا طاقت کہ ایک حرف حضرت کی صفات سے کہہ سکے اور قلم کی کیا مجال کے آپ کی مدح لکھ سکے۔''

شاہ عبدالقادرؒ کے ترجمہ قرآن کی خصوصیات کے بارے میں ڈاکٹر سلیم خالد لکھتے ہیں ''شاہ صاحب کے پیش نظر عام لوگوں کی دینی ضروریات تھیں۔ ان کا مقصد وحیدقرآن پاک کے مطالب و مفاہیم کا ابلاغ اور تفہیم تھا۔ حصول مطلب کے لیے انھوں نے آسان پیرایہ اظہار اپنایا ہے۔ وہ آسان اور عام فہم الفاظ لانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ انھوں نے ہندی الفاظ بھی استعمال کیے ہیں جو آج کل کچھ ثقیل اور اجنبی سے محسوس ہوتے ہیں لیکن درحقیقت یہ الفاظ اس زمانے کی عوامی زبان کا حصہ تھے۔ اس کے باوجود ان الفاظ کا استعمال ایسا برمحل اور موزوں ہے کہ ذوق سلیم پر گراں نہیں گزرتا۔ وہ آیات قرآنی کے مفہوم کو اس سادگی، سلاست اور صفائی سے بیان کرتے ہیں کہ اس سے زیادہ آسان اور بہتر الفاظ میں بیان کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔


بظاہر سادہ اور بے تکلف زبان و بیان کا حامل یہ ترجمہ قرآن درحقیقت سہل ممتنع ہے۔ شاہ صاحب کے ترجمہ قرآن میں محاورات کا استعمال بھی بڑی سلیقہ مندی اور مہارت سے کیا گیا ہے۔ دیکھیے فَاعَفُوا وَاصْفَحُوا کا ترجمہ کرتے ہیں' سو تم در گزر کرو اور خیال میں نہ لاؤ۔'شاہ صاحب کے ترجمہ قرآن کی ایک اہم اور نمایاں خصوصیت اس کا ایجاز و اختصار ہے۔ وہ کم ازکم الفاظ میں قرآنی مفہوم ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایجاز و اختصار کے خصوص میں اردو زبان کا کوئی دوسرا ترجمہ اس کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جاسکتا۔''

ڈاکٹر سلیم خالد لکھتے ہیں کہ شاہ عبدالقادر کے ترجمہ قرآن کی ایک بڑی خصوصیت قوسین میں توضیحی و تفسیری الفاظ سے مکمل اجتناب ہے۔ ان کو ترجمہ کرنے پر اتنی قدرت حاصل ہے کہ وہ توضیحی الفاظ کا سہارا نہیں لیتے بلکہ کم سے کم الفاظ میں قرانی مفہوم کو نہایت صحت کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں اور مفہوم میں تشنگی کا احساس باقی نہیں رہتا۔ بہ الفاظ د یگر وہ ترجمے تک محدود رہتے ہیں۔ تفسیر اور ترجمے کو مدغم نہیں کرتے۔

سلیم خالد شاہ عبدالقادرؒ کے ترجمہ قرآن میں عربی و فارسی الفاظ کے لیے موزوں اردو الفاظ کے انتخاب کے بارے میں لکھتے ہیں کہ قرآن کریم کے اردو مترجمین عربی الفاظ کے ترجمے کے لیے زیادہ تر عربی اور فارسی کے الفاظ کا انتخاب کرتے تھے ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ تھی اردو زبان میں عربی الفاظ کا ایک وسیع ذخیرہ شامل ہے اور دوسرے ان کے سامنے قرآن کے فارسی تراجم بطور نمونہ موجود تھے جیسے رَب کا ترجمہ پروردگار، متقی کا ترجمہ پرہیز گار وغیرہ۔ یہی فارسی الفاظ اردو مترجمین نے بھی اپنا لیے۔

شاہ عبدالقادرؒ کا لسانی شعور قابل داد ہے کہ انھوں نے عام ڈگر سے ہٹ کر عربی اور فارسی الفاظ کی جگہ اردو الفاظ استعمال کرنے کی دانستہ کوشش کی۔ اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے اردو زبان کے عام الفاظ کو نئے معنوں میں استعمال کیا، مثلاً کَفارہ ایک قرآنی اصطلاح ہے جس کے معنی ہیں گناہ کو دور کرنے والا۔ فارسی کے تمام مترجمین کَفارہ کا ترجمہ کَفارہ ہی کرتے ہیں۔ شاہ صاحب نے کَفارہ کا ترجمہ ''اُتار'' کیا ہے۔ اس طرح انھوں نے ایک پیش یا افتادہ اور عام سے لفظ کو نہایت جلیل القدر معانی کا لباس پہنا دیا اور اسے قرآنی اصطلاح کَفارے کا ہم معنی بنادیا۔

ڈاکٹر سلیم خالد لکھتے ہیں۔ ''شاہ عبدالقادر نے قرآن مجید کا پہلا ترجمہ بول چال کی زبان میں بیان کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اس زمانے میں اردو زبان نشو و نما کے ابتدائی مراحل طے کر رہی تھی اور اس پر مزید یہ کہ ترجمہ کسی عام کتاب کا نہیں قرآن کریم جیسی پراعجاز کتاب کا تھا جس کی فصاحت و بلاغت میں کوئی کلام نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے شاہ صاحب کو لسانی بصیرت سے نوازا تھا لہٰذا اردو کی کم مائیگی کہیں بھی ان کے آڑے نہیں آئی۔ انھیں دوران ترجمہ بعض اوقات نئی تراکیب بھی اختراع کرنا پڑی ہیں۔

یہ خالصاً اردو تراکیب ہیں جو مفہوم کی درست ادائیگی کا پورا پورا حق ادا کرتی ہیں مثلاً عَذَابٌ اَلِیْم کے لیے ''دکھ کی مار''۔ ایک یہ بات بھی ہے کہ شاہ عبدالقادرؒ دلی میں پیدا ہوئے اور ساری زندگی وہیں گزاری۔ مزید برآں وہ کئی پشتوں سے دلی والے تھے لہٰذا ان کے ترجمے کی زبان پر دلی کی زبان کے اثرات نمایاں ہیں۔

ڈاکٹر محمد سلیم خالد عبدالحئی لکھنوی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ قرآن پاک کے ترجمے سے پہلے شاہ صاحب نے ایک خواب دیکھا کہ ان پر قرآن حکیم نازل ہوا ہے۔ انھوں نے اپنے برادر بزرگ، شاہ عبدالعزیزؒ سے اس کا ذکر کیا۔ شاہ عبدالعزیزؒ نے کہا کہ بے شک یہ خواب صحیح ہے۔ وحی کا سلسلہ تو رسول اللہؐ کے بعد منقطع ہوچکا ہے لیکن اس خواب کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کو قرآن عزیز کی خدمت کی ایسی توفیق عطا فرمائے گا جو اس سے پہلے کسی کے حصے میں نہیں آئی۔ چنانچہ ان کے خواب کی تعبیر ترجمہ قرآن کی صورت میں جلوہ گر ہوئی۔
Load Next Story