یکساں نظام تعلیم
اپنی قومی زبانوں میں بچوں کو تعلیم دو تاکہ بچے سیکھ سکیں۔ علم حاصل کرسکیں۔
ایکسپریس میں مصر کی جامعہ الازہر کے ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم کا انٹرویو پڑھا، ڈاکٹر صاحب جامعہ الازہر میں شعبہ اردو (زنانہ) کے سربراہ ہیں۔ شعبہ اردو میں کل 120 طالبات زیر تعلیم ہیں۔ جامعہ الازہرمیں تمام شعبے مردانہ اور زنانہ حصوں میں منقسم ہیں۔
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم نے اپنے انٹرویو میں ایک بات کہی، وہ بات بڑی تکلیف دہ ہے، انھوں نے کہاکہ ''دنیا بھر میں ملنے والے اکثر پاکستانی یہ کہتے ہیں کہ اردو بول کر کیا کریں۔ اس کا کوئی فائدہ تو ہے نہیں۔ اردو میڈیم میں پڑھیں گے تو لوگ ہمیں جاہل سمجھیںگے''۔ ڈاکٹر صاحب کو شکایت ہے کہ وہ پاکستان میں اردو میں بات کرتے ہیں لیکن انھیں جواب انگریزی میں ملتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ''یہ بات انھیں بہت بری لگی، مغربی تہذیب میں بہت خوبیاں بھی ہوںگی، آپ بہترین انگریزی سیکھیں، لیکن آپ کی زبان آپ کا تشخص ہے، اس سے باہر نہ نکلیں''۔
ان کا خیال ہے کہ پاکستانی بہت زیادہ جذباتی ہیں، اور مشکل وقت میں اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر ابراہیم نے یہ بھی کہاکہ ''پاکستان ایک بہت خوبصورت ملک ہے، کمی کے معنی سمجھنے ہوں تو کبھی مصر تشریف لائیں جہاں لوگ صرف چھ فی صد رقبے پر رہ رہے ہیں اور باقی 94 فیصد علاقہ صحرا ہے۔ مصر میں ہم بہت مشکل سے ایک درخت اُگاتے ہیں۔ پاکستان میں تو جنگل ہی جنگل ہے۔ یہ اﷲ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے۔ ''اپنی زبان اور ملک سے محبت کریں'' اور یہ آپ کے عمل سے واضح ہونا چاہیے۔
دیکھیے! ایک غیر پاکستانی ہمیں تلقین کررہا ہے۔ ایک غیر پاکستانی ہمارے لیے فکرمند ہے اور ہم پاکستانی خود اپنے لیے کتنے فکرمند ہیں! یہ ہمیں خوب پتہ ہے۔ ہمارے گھر میں جو غریب عورت صفائی وغیرہ کا کام کرتی ہے اس نے اپنے بچے کو انگریزی میڈیم اسکول میں داخل کردیا ہے۔ ویسا اسکول جو گلی گلی کھلے ہوئے ہیں، جہاں انگریزی کوئی نہیں جانتا بس کمائی کا دھندہ ہے۔ میٹرک پاس بچیاں ٹیچر ہیں، مگر غریب عورت کا بھی دل چاہتا ہے کہ اس کا بچہ انگریزی پڑھے اور پڑھ لکھ کر بڑی تنخواہ پر نوکری کرے۔
اس غربت ماری عورت کا کوئی قصور نہیں۔ یہ سارا قصور حکمرانوں کا ہے۔ حکومت اس کی ذمے دار ہے ۔ دہرا معیار تعلیم اس برائی کی وجہ ہے۔ ہمارے گھر کام کرنے والی دیکھتی ہے، وہ ہم سے پوچھتی ہے ''آپ کے بچوں نے کتنا پڑھا ہے؟'' تو مجھے اپنی اماں یاد آجاتی ہیں۔
انھوں نے بھی 1928ء میں اپنے گاؤں کی ایک امیر گھرانے کی خاتون سے پوچھا تھا ''آپ کا خاوند دہلی میں افسر کیسے بنا؟'' شکر اس وقت یہ انگلش میڈیم اسکول گلی گلی نہیں ہوتے تھے تو ہماری غریب اماں نے اپنے سات سال کے بیٹے کو گاؤں کے پرائمری اسکول میں داخل کروا دیا تھا، جہاں کوئی فیس وغیرہ نہیں لی جاتی تھی۔ ہمارے آج کے گلی گلی انگلش میڈیم اسکولوں میں فیس بھی لی جاتی ہے اور وغیرہ وغیرہ کے نام پر بھی پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ آج ''گرین ڈے'' ہے آج ''اورنج ڈے'' ہے۔
حکومت کو اوپر بیٹھے سب کچھ پتا ہے اور وہ بے حس بنی یہ بربادیاں ہوتے دیکھ رہی ہے۔ ہمارے گھر کام کرنے والی کے بچے کو کیا خاک انگریزی سمجھ میں آئے گی؟ جس اسکول کی ٹیچروں کو انگریزی نہیں آتی! ماسی کا بچہ کیا پڑھے گا؟ یہ سوال ہے اس کا جواب حکمران جانتے ہیں اور مجرمانہ خاموشی ہے اور بے چاری غریب ماسی اپنے خون پسینے کی مانگے تانگے کی کمائی ایک سراب کے پیچھے لٹائے چلی جارہی ہے۔
ہماری اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے خواتین و حضرات یا تو باہر سے پڑھ کر آئے ہوئے ہیں یا پاکستان کے اعلیٰ ترین اشرافیہ کے اسکول، کالجوں سے پڑھ لکھ کر آئے ہوئے ہیں۔ ایچی سن کالج کو ہی لے لیجیے۔ اس ''ظالم درس گاہ'' میں داخلے کی پہلی اور اہم ترین یہ ہے کہ آپ کا خاندان کیا ہے۔ بس اسی ''خاندان'' والے سوال ہی میں سبھی کچھ آجاتا ہے۔ ''ظالم ایچی سن'' میں وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں، خانوں، مجاوروں کے نالائق بچے پڑھتے ہیں۔ ان نا لائق بچوں کے سر پر حکمرانی کا کلاہ رکھ دیا جاتا ہے اور انھیں گھوڑے پر بٹھادیا جاتا ہے۔
ظالم ایچی سن سے نکل کر وہاں کا نالائق بچہ گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا ہوا اپنی جاگیر میں داخل ہوتا ہے جو کمی راستے میں آئے اسے کچلتا جاتا ہے۔ پھر زندگی بھر سر پر پہنا کلاہ اور گھوڑے کی سواری کا نشہ سوار رہتا ہے۔ اور وہ کیا کیا گل کھلاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں۔ یہ ہماری اسمبلیوں میں ایسے ہی نشئی، خواتین و حضرات بیٹھے ہیں اس ظالمانہ نظام کو بدلنا ہوگا۔ یکساں نظام تعلیم رائج کرنا ہوگا۔ جہاں امیر غریب کے بچے ایک ہی جیسی تعلیم حاصل کریں۔
مصر کے ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم ہر سال پاکستان آتے ہیں۔ یہاں جو ادبی کانفرنسیں ہوتی ہیں وہ اس میں شریک ہوتے ہیں ان کا سسرال بھی پاکستان کے شہر چکوال میں ہے۔ انھوں نے بڑے دکھ کے ساتھ یہ بات کہی کہ ''میں اردو میں بات کرتاہوں اور مجھے جواب انگریزی میں دیا جاتا ہے۔''
یہ ہمارے ادیب شاعر بھی کم نہیں ہیں یہ اردو کے ادیب شاعر ضرور ہیں مگر اپنی زندگی کے کام کاج انگریزی میں کرتے ہیں اور اعلانیہ، فخریہ کرتے ہیں یہ دوغلا پن ہمیں کہاں لے آیا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جو سرکاری افسران تمام زندگی ظلم کے حصہ دار رہتے ہیں وہ ریٹائر ہوکر اردو کے لکھاری بن جاتے ہیں۔ ان میں فوجی بھی شامل ہیں۔ ''ظلم کی داستانیں'' ہمیں سناتے ہیں اور یہ سلسلہ قدرت اﷲ شہاب سے شروع ہوا اور پھر چل سو چل جالب کا ذکر آج نہیں آیا۔ مگر اس جگہ مجھے ان کا ایک شعر یاد آگیا ہے۔
سپر جو شہ کی بنے غاصبوں کے کام آئے
خدا بچائے رکھے ایسے علم و فن سے مجھے
اپنی قومی زبانوں میں بچوں کو تعلیم دو تاکہ بچے سیکھ سکیں۔ علم حاصل کرسکیں، یہ انگریزی ہمارے غریب بچوں کی تعلیم میں بہت بڑی رکاوٹ ہے اس کا خاتمہ ضروری ہے۔ چین، فرانس، روس ودیگر ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں اپنی زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے، غلامی کی اس لعنت کو اتار پھینکو۔
ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم نے اپنے انٹرویو میں ایک بات کہی، وہ بات بڑی تکلیف دہ ہے، انھوں نے کہاکہ ''دنیا بھر میں ملنے والے اکثر پاکستانی یہ کہتے ہیں کہ اردو بول کر کیا کریں۔ اس کا کوئی فائدہ تو ہے نہیں۔ اردو میڈیم میں پڑھیں گے تو لوگ ہمیں جاہل سمجھیںگے''۔ ڈاکٹر صاحب کو شکایت ہے کہ وہ پاکستان میں اردو میں بات کرتے ہیں لیکن انھیں جواب انگریزی میں ملتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ''یہ بات انھیں بہت بری لگی، مغربی تہذیب میں بہت خوبیاں بھی ہوںگی، آپ بہترین انگریزی سیکھیں، لیکن آپ کی زبان آپ کا تشخص ہے، اس سے باہر نہ نکلیں''۔
ان کا خیال ہے کہ پاکستانی بہت زیادہ جذباتی ہیں، اور مشکل وقت میں اکٹھے ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر ابراہیم نے یہ بھی کہاکہ ''پاکستان ایک بہت خوبصورت ملک ہے، کمی کے معنی سمجھنے ہوں تو کبھی مصر تشریف لائیں جہاں لوگ صرف چھ فی صد رقبے پر رہ رہے ہیں اور باقی 94 فیصد علاقہ صحرا ہے۔ مصر میں ہم بہت مشکل سے ایک درخت اُگاتے ہیں۔ پاکستان میں تو جنگل ہی جنگل ہے۔ یہ اﷲ کی طرف سے بہت بڑی نعمت ہے۔ ''اپنی زبان اور ملک سے محبت کریں'' اور یہ آپ کے عمل سے واضح ہونا چاہیے۔
دیکھیے! ایک غیر پاکستانی ہمیں تلقین کررہا ہے۔ ایک غیر پاکستانی ہمارے لیے فکرمند ہے اور ہم پاکستانی خود اپنے لیے کتنے فکرمند ہیں! یہ ہمیں خوب پتہ ہے۔ ہمارے گھر میں جو غریب عورت صفائی وغیرہ کا کام کرتی ہے اس نے اپنے بچے کو انگریزی میڈیم اسکول میں داخل کردیا ہے۔ ویسا اسکول جو گلی گلی کھلے ہوئے ہیں، جہاں انگریزی کوئی نہیں جانتا بس کمائی کا دھندہ ہے۔ میٹرک پاس بچیاں ٹیچر ہیں، مگر غریب عورت کا بھی دل چاہتا ہے کہ اس کا بچہ انگریزی پڑھے اور پڑھ لکھ کر بڑی تنخواہ پر نوکری کرے۔
اس غربت ماری عورت کا کوئی قصور نہیں۔ یہ سارا قصور حکمرانوں کا ہے۔ حکومت اس کی ذمے دار ہے ۔ دہرا معیار تعلیم اس برائی کی وجہ ہے۔ ہمارے گھر کام کرنے والی دیکھتی ہے، وہ ہم سے پوچھتی ہے ''آپ کے بچوں نے کتنا پڑھا ہے؟'' تو مجھے اپنی اماں یاد آجاتی ہیں۔
انھوں نے بھی 1928ء میں اپنے گاؤں کی ایک امیر گھرانے کی خاتون سے پوچھا تھا ''آپ کا خاوند دہلی میں افسر کیسے بنا؟'' شکر اس وقت یہ انگلش میڈیم اسکول گلی گلی نہیں ہوتے تھے تو ہماری غریب اماں نے اپنے سات سال کے بیٹے کو گاؤں کے پرائمری اسکول میں داخل کروا دیا تھا، جہاں کوئی فیس وغیرہ نہیں لی جاتی تھی۔ ہمارے آج کے گلی گلی انگلش میڈیم اسکولوں میں فیس بھی لی جاتی ہے اور وغیرہ وغیرہ کے نام پر بھی پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ آج ''گرین ڈے'' ہے آج ''اورنج ڈے'' ہے۔
حکومت کو اوپر بیٹھے سب کچھ پتا ہے اور وہ بے حس بنی یہ بربادیاں ہوتے دیکھ رہی ہے۔ ہمارے گھر کام کرنے والی کے بچے کو کیا خاک انگریزی سمجھ میں آئے گی؟ جس اسکول کی ٹیچروں کو انگریزی نہیں آتی! ماسی کا بچہ کیا پڑھے گا؟ یہ سوال ہے اس کا جواب حکمران جانتے ہیں اور مجرمانہ خاموشی ہے اور بے چاری غریب ماسی اپنے خون پسینے کی مانگے تانگے کی کمائی ایک سراب کے پیچھے لٹائے چلی جارہی ہے۔
ہماری اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے خواتین و حضرات یا تو باہر سے پڑھ کر آئے ہوئے ہیں یا پاکستان کے اعلیٰ ترین اشرافیہ کے اسکول، کالجوں سے پڑھ لکھ کر آئے ہوئے ہیں۔ ایچی سن کالج کو ہی لے لیجیے۔ اس ''ظالم درس گاہ'' میں داخلے کی پہلی اور اہم ترین یہ ہے کہ آپ کا خاندان کیا ہے۔ بس اسی ''خاندان'' والے سوال ہی میں سبھی کچھ آجاتا ہے۔ ''ظالم ایچی سن'' میں وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں، خانوں، مجاوروں کے نالائق بچے پڑھتے ہیں۔ ان نا لائق بچوں کے سر پر حکمرانی کا کلاہ رکھ دیا جاتا ہے اور انھیں گھوڑے پر بٹھادیا جاتا ہے۔
ظالم ایچی سن سے نکل کر وہاں کا نالائق بچہ گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتا ہوا اپنی جاگیر میں داخل ہوتا ہے جو کمی راستے میں آئے اسے کچلتا جاتا ہے۔ پھر زندگی بھر سر پر پہنا کلاہ اور گھوڑے کی سواری کا نشہ سوار رہتا ہے۔ اور وہ کیا کیا گل کھلاتا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں۔ یہ ہماری اسمبلیوں میں ایسے ہی نشئی، خواتین و حضرات بیٹھے ہیں اس ظالمانہ نظام کو بدلنا ہوگا۔ یکساں نظام تعلیم رائج کرنا ہوگا۔ جہاں امیر غریب کے بچے ایک ہی جیسی تعلیم حاصل کریں۔
مصر کے ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم ہر سال پاکستان آتے ہیں۔ یہاں جو ادبی کانفرنسیں ہوتی ہیں وہ اس میں شریک ہوتے ہیں ان کا سسرال بھی پاکستان کے شہر چکوال میں ہے۔ انھوں نے بڑے دکھ کے ساتھ یہ بات کہی کہ ''میں اردو میں بات کرتاہوں اور مجھے جواب انگریزی میں دیا جاتا ہے۔''
یہ ہمارے ادیب شاعر بھی کم نہیں ہیں یہ اردو کے ادیب شاعر ضرور ہیں مگر اپنی زندگی کے کام کاج انگریزی میں کرتے ہیں اور اعلانیہ، فخریہ کرتے ہیں یہ دوغلا پن ہمیں کہاں لے آیا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ جو سرکاری افسران تمام زندگی ظلم کے حصہ دار رہتے ہیں وہ ریٹائر ہوکر اردو کے لکھاری بن جاتے ہیں۔ ان میں فوجی بھی شامل ہیں۔ ''ظلم کی داستانیں'' ہمیں سناتے ہیں اور یہ سلسلہ قدرت اﷲ شہاب سے شروع ہوا اور پھر چل سو چل جالب کا ذکر آج نہیں آیا۔ مگر اس جگہ مجھے ان کا ایک شعر یاد آگیا ہے۔
سپر جو شہ کی بنے غاصبوں کے کام آئے
خدا بچائے رکھے ایسے علم و فن سے مجھے
اپنی قومی زبانوں میں بچوں کو تعلیم دو تاکہ بچے سیکھ سکیں۔ علم حاصل کرسکیں، یہ انگریزی ہمارے غریب بچوں کی تعلیم میں بہت بڑی رکاوٹ ہے اس کا خاتمہ ضروری ہے۔ چین، فرانس، روس ودیگر ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جہاں اپنی زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے، غلامی کی اس لعنت کو اتار پھینکو۔