پنجاب کی وزارت اعلیٰ اور زرداری کا دعویٰ

یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس وقت پیپلزپارٹی نے ہی اسٹبلشمنٹ کی سیاسی گیم کو سہارا دیا ہوا ہے۔


مزمل سہروردی April 09, 2018
[email protected]

WASHINGTON: پنجاب کی وزارت اعلیٰ برائے فروخت لگ رہی ہے۔ ایک طرف آصف زرداری نے یہ دعویٰ کر دیا ہے کہ وہ اگلی بار پنجاب کی وزارت اعلیٰ ن لیگ کو نہیں لینے دیں گے دوسری طرف عمران خان کو بھی آصف زرداری کا یہ دعویٰ اچھا نہیں لگا ہے اسی لیے انھوں نے آصف زرداری کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ برائے فروخت نہیں ہے جو آصف زرداری پیسوں سے خرید لیں۔

ویسے تو پنجاب کے حوالے سے آصف زرداری کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ وہ شدید کوشش کے باوجود پنجاب میں اپنے روٹھے ووٹ بینک کو منانے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں۔ اور ہر نئے انتخابات میں پیپلزپارٹی کا پنجاب میں ووٹ بینک بڑھنے کے بجائے تیزی سے کم ہوا ہے۔ اور اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ یہ ووٹ بینک چند سو رہ گیا ہے۔

ایسے میں جب آصف زرداری ہر حلقہ میں چند سو ووٹ بینک کے ساتھ یہ دعویٰ کریں کہ پنجاب کی اگلی وزارت اعلیٰ ان کی ہے تو سوال تو پیدا ہو گا کہ کیسے۔ آخریہ کیسے ممکن ہو گا۔حیران کن بات یہ ہے کہ جب پیپلزپارٹی کے ذمے داران سے یہ سوال کیا جائے کہ ان کا اگلے انتخابات میں کیا گیم پلان ہے، تو ان کا موقف یہ ہے کہ پنجاب سے اگر پیپلزپارٹی کوقومی اسمبلی کی دس سیٹیں بھی مل جائیں تو بڑی بات ہو گی۔

پیپلزپارٹی اگر پنجاب سے دس سیٹیں حاصل کر لیتی ہے تو یہ ایک بڑی کامیابی ہو گی اور اس کا اتنا بڑا اثر ہوگا کہ پیپلزپارٹی قومی اسمبلی میں وزارت عظمیٰ کی گیم میں آجائے گی۔ لیکن جب پیپلزپارٹی کے ان ہی ذمے داران سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ یہ دس سیٹیں بھی کیسے آئیں گی تو سب کی سیٹی گم ہو جاتی ہے۔

پھر گنتی شروع ہو جاتی ہے رحیم یار خان سے مخدوم احمد محمود دو سیٹیں جیتیں گے، ملتان سے گیلانی ایک سیٹ جیت لیں گے، منظور وٹو ایک سیٹ جیت لیں گے، فیصل صالح حیات ایک سیٹ جیت لیں گے، کائرہ ایک سیٹ جیت لیں گے، ندیم افضل چن ایک سیٹ جیت لیں گے، اور مزید دو تین آ ہی جائیں گی۔ایسے دس بن جائیں گے۔ اب الگ بات ہے کہ ان حلقوں کی پوزیشن بھی ایسی نہیں ہے کہ یہ جیت لی جائیں۔

ایسے میں ایک نئی منطق سامنے آتی ہے کہ آصف زرداری نے اعلان کر دیا ہے کہ پنجاب میں جو بھی مضبوط امیدواران ہو نگے انھیں الیکشن لڑنے کے لیے دس دس کروڑ روپے کے فنڈز دیے جائیں گے تا کہ وہ انتخابات جیت سکیں۔ آصف زرداری نے اپنے مضبوط امیدواران یعنی جیتنے والے گھوڑوں کا کہا ہے کہ بس جیتنا ہے جیسے مرضی۔ جتنے مرضی پیسے لگ جائیں فکر نہیں کرنا بس جیتنا ہے۔

سوال یہ ہے کہ ہم نے آصف زرداری کا گیم پلان مان لیا کہ وہ دس سیٹیں جیت جائیں گے یہ بھی مان لیا کہ وہ سندھ بھی دوبارہ جیت جائیں گے، کراچی سے بھی چند سیٹیں مل جائیں گی۔ بلوچستان میں ان کے اتحادی جیت جائیں گے۔ کے پی کے میں بھی چند سیٹیں مل جائیں گی۔ لیکن اس سے مرکز میں ایک ہنگ پارلیمنٹ کی گیم میں تو آجاتے ہیں لیکن پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی گیم میں کیسے آئیں گے۔ پنجاب میں کیا ہو گا۔ دس قومی اسمبلی کی سیٹوں کے ساتھ بمشکل پنجاب اسمبلی کی بیس سیٹیں آسکتی ہیں۔ جب کہ پنجاب اسمبلی کے پو نے تین سو کے ایوان میں بیس سیٹوں سے وزارت اعلیٰ کی گیم کیسے بنے گی۔

بات سمجھ میں تو نہیں آتی۔ ایسے میں پیپلزپارٹی ایک پنجابی تھنک ٹینک بہت دور کی کوڑی لے کر آیا ہے۔ اس نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا کہ دیکھیں ماضی میں اگر منظور وٹو اٹھارہ سیٹوں کے ساتھ پنجاب کی وزارت اعلیٰ حاصل کر سکتے ہیں تو اب پیپلزپارٹی بیس سیٹوں کے ساتھ وزارت اعلیٰ کیوں نہیں حاصل کر سکتی۔ میں نے کہا تب تو ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی لڑائی میں وٹو کی چاندی ہو گئی تھی اور ان کی اٹھارہ سیٹیں اہم ہو گئی تھیں۔ اس لیے وزارت اعلیٰ مل گئی۔

ایسے میں ایک اور دوست دانشور نے مجھے سمجھاتے ہوئے کہا کہ تم کبھی پاکستان کی سیاست نہیں سمجھ سکو گے تب بھی پاکستان کی اسٹبلشمنٹ نواز شریف کے خلاف ہو گئی تھی اور یہ فیصلہ ہو گیا تھا کہ پنجاب نواز شریف کو نہیں دینا ۔ لیکن ساتھ ساتھ یہ بھی فیصلہ ہوا کہ اگر نواز شریف کو نہیں دینا تو پیپلز پارٹی یعنی بے نظیر بھٹو کو بھی نہیں دینا۔ اس لیے ایک اٹھارہ سیٹوں کی گیم بنائی گئی تا کہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ نہ تو ن لیگ کو دی جائے اور نہ ہی پیپلزپارٹی کو دی جائے۔

زرداری آج پنجاب کی اسٹبشلمنٹ کے ساتھ چل رہے ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اس وقت پیپلزپارٹی نے ہی اسٹبلشمنٹ کی سیاسی گیم کو سہارا دیا ہوا ہے۔ اس موقع پر زرداری اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے نہ ہوتے تونواز شریف تو جیت جاتے جیسے وہ دھرنے میں جیت گئے تھے۔ اگر سینیٹ میں سنجرانی کو چیئرمین سینیٹ لایا جا سکتا ہے مانڈوی والا ڈپٹی چیئرمین آسکتا ہے۔ تحریک انصاف پیپلزپارٹی کو ووٹ ڈال سکتی ہے۔

قائد حزب اختلاف کی سیٹ بھی پیپلزپارٹی کو مل سکتی ہے تو پنجاب کی وزارت اعلیٰ کیا چیز ہے۔ کیا دوبارہ تحریک انصاف اور ن لیگ کے درمیان پنجاب میں ایسا ڈیڈ لاک پیدا نہیں کیا جا سکتا کہ ایک دوسرے کا راستہ روکنے کے لیے پیپلز پارٹی کے وزیر اعلیٰ کو دونوں ہی راستہ دینے کو تیار ہو جائیں۔

کیا پنجاب میں جب دونوں بڑی سیاسی جماعتیں بھی مکمل اکثریت نہ حاصل کر سکیں گی اور آزاد اور پیپلزپارٹی مل کر ایک بڑا گروپ بنا لیں گے تو کیا وہ گروپ وزارت اعلیٰ کی گیم میں نہیں آجائے گا۔ پنجاب میں بھی سنجرانی جیسا وزیر اعلیٰ آجائے گا جس کو پیپلز پارٹی اپنا وزیر اعلیٰ کہے گی تحریک انصاف اپنا ۔ لیکن حقیقت میں دونوں کا ہی نہیں ہو گا۔ جن کا سنجرانی ہے وہ بھی انھیں کا ہی ہو گا۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر زمینی حقائق کو سامنے رکھا جائے تو یہ ممکن نظر نہیں آتا۔سنجرانی کو لانے کے لیے پہلے بلوچستان میں حکومت بدلی گئی تا کہ بلوچستان کے سینیٹرز اسٹبلشمنٹ کی مرضی سے آسکیں۔ پھر کراچی میں ایم کیو ایم کو توڑا گیا تا کہ سندھ کے آدھے سینیٹرز کی گیم بھی بدلی جائے۔ اس طرح تقریباً آدھی سینیٹ کو توڑ لیا گیا۔ لیکن پنجاب میں تو ٹوٹ پھوٹ نظر نہیں آرہی۔ سب کہہ ہی رہے ہیں کہ اراکین اسمبلی اور جیتنے والے گھوڑوں کی ایک بڑی تعداد ن لیگ کو چھوڑ رہی ہے۔

کبھی کہا گیا سینیٹ کے انتخابات سے پہلے چلے جائیں گے۔ لیکن ابھی تک ایسا ممکن نظر نہیں آیا۔ وہی جا رہا ہے جس کو خود ن لیگ جانے دے رہی ہے۔ ن لیگ میں کوئی بڑی بغاوت نظر نہیں آرہی۔ ایسے میں کسی بھی گیم پلان کو عملی جامہ پہنانا مشکل ہو جائے گا۔ گیم پلان کے لیے تیاری ضروری ہے۔ ماحول ضروری ہے۔ جو نظر نہیں آرہا ۔ سیاست میں راتوں رات کچھ نہیں ہو سکتا۔

راتوں رات تو صرف شب خون ہی مارا جا سکتا ہے۔ جس کے کوئی حالات نظر نہیں آرہے۔ ابھی جو ماحول ہے اس میں تو پنجاب میں کوئی بڑا اپ سیٹ ممکن نظر نہیں آرہا۔ لیکن دوست کہتے ہیں کہ میں زرداری کو نہیں جانتا۔ ان کے کمالات کو نہیں جانتا۔ شاید میں نہیں جانتا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں