ملالہ پر تنقید کیوں
انتہا پسندوں کا اصرار ہے کہ ملالہ غدار ہے، غیر ملکی ایجنٹ ہے، پاکستان توڑنا چاہتی ہے۔
ملالہ یوسفزئی برسوں بعد پاکستان کیا آئی ان انتہا پسندوں میں صف ماتم بچھ گئی جو اس کی جان لینے میں ناکام رہے۔ چنانچہ اس پر الزامات کا طومار باندھ دیا۔ الزامات بھی ایسے کہ جسے سن کر ہنسی آئے کہ وہ یہود و ہنود کی آلہ کار ہے، اس پر حملے کی کوئی حقیقت نہیں۔
یعنی اس پر تو سرے سے حملہ ہی نہیں ہوا کیونکہ وہ دہشت گردوں کے جان لیوا حملے سے بچ گئی تو یہ دلیل تراشی گئی جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کون لوگ ہیں، کیا یہ وہ لوگ نہیں جو طالبان کو اپنا بھائی کہتے تھے۔ طالبان نے پورے پاکستان کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہوا تھا۔ ایک موت کا سناٹا طاری تھا یہ اور ان کے ہمنوا اس کے باوجود اس بات پر بضد تھے کہ طالبان سے ہر صورت مذاکرات جاری رکھے جائیں۔
ملالہ دشمنی میں ہر حد پار کرلی گئی۔ ایک کمسن نہتی بچی کے بچ جانے پر انھوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ وہ نہتی بچی جس کی طاقت اس کا قلم تھا جس سے وہ ''گل مکئی'' ڈائری لکھا کرتی تھی۔ جس میں طالبان کے کرتوت بیان کیے گئے تھے جب وہ پورے سوات میں لڑکیوں کے اسکول کو ملبے میں تبدیل کررہے تھے۔ گل مکئی ڈائری طالبان کی ان دہشت گردیوں پر مشتمل تھی جس کی چشم دید گواہ ملالہ تھی۔
ملالہ کا طالبان کو بے نقاب کرنے کا یہ جرم ناقابل معافی تھا۔ملالہ طالبان کے خلاف اس وقت کھڑی ہوئی جب طالبان کے خلاف بولنا اپنی جان گنوانے کے مترادف تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملالہ ایک بہادر لڑکی ہے۔ اس کی اسی بہادری کو پوری دنیا میں سراہا گیا۔ پوری دنیا حیرت زدہ تھی کہ ایک طرف کمسن بچی دوسری طرف مسلح دہشت گرد۔ نہتی لڑکی پر بزدل دہشت گردوں نے چھپ کر حملہ کیا۔ گولی دماغ کو چھوتی ہوئی گزرگئی تھی۔
آپریشن پیچیدہ اور سنگین ہونے کے پیش نظر اس کو حکومت نے برطانیہ منتقل کردیا۔ جہاں اس کے کئی نازک آپریشن ہوئے۔ جان تو بچ گئی مگر اس کا منہ بڑا ہوگیا۔ سماعت پر بھی اثر پڑا۔ ملالہ پر حملے سے پہلے اور بعد میں اس کے بگڑے ہوئے چہرے کا فرق صاف نظر آتا ہے۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں بچ نکلنے پر یہ پروپیگنڈا شروع کردیا گیا کہ ملالہ پر سرے سے حملہ ہی نہیں ہوا، یہ سب ڈرامہ ہے۔ کون سا جھوٹ تھا جو نہیں بولا گیا۔
سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ملالہ کو ملک سے باہر برطانیہ بھجوایا۔ اگر سابق آرمی چیف اس معاملے میں نہ آتے تو ملالہ کو باہر بھجوانا ناممکن تھا۔ اس کو پاکستان میں زیر علاج ہوتے ہوئے ہی مار دیا جانا تھا۔ آج بھی ملالہ کی پاکستان واپسی میں حکومت اور فوج کا کردار ہے۔
اگر یہ مدد نہ ملتی تو ملالہ کی پاکستان واپسی ناممکن تھی۔ ملالہ نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں صرف کچھ انٹرویز دیئے، آزادانہ طور پر وہ کہیں بھی نہ جاسکی، نہ لوگوں سے رابطہ کرسکی کیونکہ اس کی جان کو خطرہ تھا۔ اس سے پوری دنیا کو کیا پیغام گیا یہی کہ آج بھی انتہا پسند پاکستان میں ایک قوت ہیں اور دہشت گردوں کا خطرہ پاکستان سے پوری طرح ٹلا نہیں۔ یہ چیز پاکستانی قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
انتہا پسندوں کا اصرار ہے کہ ملالہ غدار ہے، غیر ملکی ایجنٹ ہے، پاکستان توڑنا چاہتی ہے لیکن اس راز کا ہمارے اداروں کہ پتہ نہیں ۔ یعنی سب ہی بے خبر ہیں سوائے ان دہشت گردوں کے ۔ وزیراعظم نے ملالہ کو وزیراعظم ہائوس مدعو کیا، اسے سرکاری پروٹوکول ملا۔ دہشت گردوں کے منہ پر اس سے بڑا تھپڑ اور کیا ہوسکتا ہے۔ اپنے ہی گھڑے ہوئے جھوٹ کو سچ بتانے پر تلے ہوئے ہیں کیونکہ یہ اس میں مدتوں سے ماہر ہیں۔
اب تو ملالہ کے دشمنوں کے دل میں ٹھنڈ پڑجانی چاہیے کہ اس نے وزیراعظم بننے کا ارادہ ترک کردیا ہے۔ نہ وہ سیاست میں آئے گی نہ وہ وزیراعظم بنے گی تو ملک کو بیچ بھی نہیں سکے گی۔ کہتی ہے سیاست پیچیدہ عمل ہے۔ ضروری نہیں کہ وزیراعظم بن کر ہی ملک میں مثبت تبدیلی لائی جاسکے، دوسرے راستے بھی ہیں۔ تعلیم اس کی ترجیح ہے نہ صرف پوری دنیا میں بلکہ خاص طور پر پاکستان، افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں۔
ملالہ کم عمر ہونے کے باوجود کتنے ارفع و اعلیٰ خیال کی مالک ہے جب وہ کہتی ہے کہ کسی بھی ملک کا سب سے بڑا اثاثہ اس کے لوگ ہوتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کو پینے کا صاف پانی، صحت اور تعلیم کی اعلیٰ سہولتیں مہیا کی جائیں۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ بلاتفریق اپنے شہریوں کو یک نظر سے دیکھے۔
رنگ، نسل، زبان اور مذہب کے حوالے سے کوئی امتیاز نہ رکھے۔ اس کو نوبل پرائز سمیت جتنے بھی انعامات ملے اس سے حاصل شدہ رقم سے اس نے ملالہ فنڈ قائم کیا اس رقم کا بیشتر حصہ اس نے اپنے آبائی علاقے میں تعلیم پر خرچ کیا۔ وہ سب کے لیے فری تعلیم چاہتی ہے، کہتی ہے اسکول بنانا اور چلانا کوئی آسان کام نہیں۔ صرف ایک اسکول قائم کرنے پر بہت خرچہ آتا ہے۔ آج کل دنیا میں سیاستدانوں سے شکایت ہے کہ وہ تعلیم اور صحت جیسے مسائل پر توجہ نہیں دیتے۔ انھیں تعلیم اور صحت پر توجہ دینی چاہیے جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔
ملالہ دنیا کی کم عمر نوبل انعام یافتہ ہے۔ ملالہ کو نوبل انعام سمیت جتنے بھی انعام ملے اس سے پاکستانی اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی عزت افزائی ہوئی۔ جن کی شہرت دہشت گردی کے حوالے سے پہلے ہی داغدار ہے۔
٭... سوال یہ ہے کہ کیا ملالہ کے دشمنوں نے کبھی طالبان کی مذمت کی ہے۔
٭... یہ بات ہمیں ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ملالہ پر تنقید کا مطلب طالبان اور دہشت گردوں کی حمایت ہے۔
٭... 2020ء سے ملالہ کے لیے پاکستان میں اچھا وقت شروع ہوجائے گا۔
سیل فون: 0346-4527997
یعنی اس پر تو سرے سے حملہ ہی نہیں ہوا کیونکہ وہ دہشت گردوں کے جان لیوا حملے سے بچ گئی تو یہ دلیل تراشی گئی جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کون لوگ ہیں، کیا یہ وہ لوگ نہیں جو طالبان کو اپنا بھائی کہتے تھے۔ طالبان نے پورے پاکستان کو اپنی دہشت گردی کا نشانہ بنایا ہوا تھا۔ ایک موت کا سناٹا طاری تھا یہ اور ان کے ہمنوا اس کے باوجود اس بات پر بضد تھے کہ طالبان سے ہر صورت مذاکرات جاری رکھے جائیں۔
ملالہ دشمنی میں ہر حد پار کرلی گئی۔ ایک کمسن نہتی بچی کے بچ جانے پر انھوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ وہ نہتی بچی جس کی طاقت اس کا قلم تھا جس سے وہ ''گل مکئی'' ڈائری لکھا کرتی تھی۔ جس میں طالبان کے کرتوت بیان کیے گئے تھے جب وہ پورے سوات میں لڑکیوں کے اسکول کو ملبے میں تبدیل کررہے تھے۔ گل مکئی ڈائری طالبان کی ان دہشت گردیوں پر مشتمل تھی جس کی چشم دید گواہ ملالہ تھی۔
ملالہ کا طالبان کو بے نقاب کرنے کا یہ جرم ناقابل معافی تھا۔ملالہ طالبان کے خلاف اس وقت کھڑی ہوئی جب طالبان کے خلاف بولنا اپنی جان گنوانے کے مترادف تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ملالہ ایک بہادر لڑکی ہے۔ اس کی اسی بہادری کو پوری دنیا میں سراہا گیا۔ پوری دنیا حیرت زدہ تھی کہ ایک طرف کمسن بچی دوسری طرف مسلح دہشت گرد۔ نہتی لڑکی پر بزدل دہشت گردوں نے چھپ کر حملہ کیا۔ گولی دماغ کو چھوتی ہوئی گزرگئی تھی۔
آپریشن پیچیدہ اور سنگین ہونے کے پیش نظر اس کو حکومت نے برطانیہ منتقل کردیا۔ جہاں اس کے کئی نازک آپریشن ہوئے۔ جان تو بچ گئی مگر اس کا منہ بڑا ہوگیا۔ سماعت پر بھی اثر پڑا۔ ملالہ پر حملے سے پہلے اور بعد میں اس کے بگڑے ہوئے چہرے کا فرق صاف نظر آتا ہے۔ دہشت گردوں کے ہاتھوں بچ نکلنے پر یہ پروپیگنڈا شروع کردیا گیا کہ ملالہ پر سرے سے حملہ ہی نہیں ہوا، یہ سب ڈرامہ ہے۔ کون سا جھوٹ تھا جو نہیں بولا گیا۔
سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ملالہ کو ملک سے باہر برطانیہ بھجوایا۔ اگر سابق آرمی چیف اس معاملے میں نہ آتے تو ملالہ کو باہر بھجوانا ناممکن تھا۔ اس کو پاکستان میں زیر علاج ہوتے ہوئے ہی مار دیا جانا تھا۔ آج بھی ملالہ کی پاکستان واپسی میں حکومت اور فوج کا کردار ہے۔
اگر یہ مدد نہ ملتی تو ملالہ کی پاکستان واپسی ناممکن تھی۔ ملالہ نے اپنے حالیہ دورہ پاکستان میں صرف کچھ انٹرویز دیئے، آزادانہ طور پر وہ کہیں بھی نہ جاسکی، نہ لوگوں سے رابطہ کرسکی کیونکہ اس کی جان کو خطرہ تھا۔ اس سے پوری دنیا کو کیا پیغام گیا یہی کہ آج بھی انتہا پسند پاکستان میں ایک قوت ہیں اور دہشت گردوں کا خطرہ پاکستان سے پوری طرح ٹلا نہیں۔ یہ چیز پاکستانی قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
انتہا پسندوں کا اصرار ہے کہ ملالہ غدار ہے، غیر ملکی ایجنٹ ہے، پاکستان توڑنا چاہتی ہے لیکن اس راز کا ہمارے اداروں کہ پتہ نہیں ۔ یعنی سب ہی بے خبر ہیں سوائے ان دہشت گردوں کے ۔ وزیراعظم نے ملالہ کو وزیراعظم ہائوس مدعو کیا، اسے سرکاری پروٹوکول ملا۔ دہشت گردوں کے منہ پر اس سے بڑا تھپڑ اور کیا ہوسکتا ہے۔ اپنے ہی گھڑے ہوئے جھوٹ کو سچ بتانے پر تلے ہوئے ہیں کیونکہ یہ اس میں مدتوں سے ماہر ہیں۔
اب تو ملالہ کے دشمنوں کے دل میں ٹھنڈ پڑجانی چاہیے کہ اس نے وزیراعظم بننے کا ارادہ ترک کردیا ہے۔ نہ وہ سیاست میں آئے گی نہ وہ وزیراعظم بنے گی تو ملک کو بیچ بھی نہیں سکے گی۔ کہتی ہے سیاست پیچیدہ عمل ہے۔ ضروری نہیں کہ وزیراعظم بن کر ہی ملک میں مثبت تبدیلی لائی جاسکے، دوسرے راستے بھی ہیں۔ تعلیم اس کی ترجیح ہے نہ صرف پوری دنیا میں بلکہ خاص طور پر پاکستان، افغانستان اور مشرق وسطیٰ میں۔
ملالہ کم عمر ہونے کے باوجود کتنے ارفع و اعلیٰ خیال کی مالک ہے جب وہ کہتی ہے کہ کسی بھی ملک کا سب سے بڑا اثاثہ اس کے لوگ ہوتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ان کو پینے کا صاف پانی، صحت اور تعلیم کی اعلیٰ سہولتیں مہیا کی جائیں۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ بلاتفریق اپنے شہریوں کو یک نظر سے دیکھے۔
رنگ، نسل، زبان اور مذہب کے حوالے سے کوئی امتیاز نہ رکھے۔ اس کو نوبل پرائز سمیت جتنے بھی انعامات ملے اس سے حاصل شدہ رقم سے اس نے ملالہ فنڈ قائم کیا اس رقم کا بیشتر حصہ اس نے اپنے آبائی علاقے میں تعلیم پر خرچ کیا۔ وہ سب کے لیے فری تعلیم چاہتی ہے، کہتی ہے اسکول بنانا اور چلانا کوئی آسان کام نہیں۔ صرف ایک اسکول قائم کرنے پر بہت خرچہ آتا ہے۔ آج کل دنیا میں سیاستدانوں سے شکایت ہے کہ وہ تعلیم اور صحت جیسے مسائل پر توجہ نہیں دیتے۔ انھیں تعلیم اور صحت پر توجہ دینی چاہیے جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔
ملالہ دنیا کی کم عمر نوبل انعام یافتہ ہے۔ ملالہ کو نوبل انعام سمیت جتنے بھی انعام ملے اس سے پاکستانی اور پوری دنیا کے مسلمانوں کی عزت افزائی ہوئی۔ جن کی شہرت دہشت گردی کے حوالے سے پہلے ہی داغدار ہے۔
٭... سوال یہ ہے کہ کیا ملالہ کے دشمنوں نے کبھی طالبان کی مذمت کی ہے۔
٭... یہ بات ہمیں ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ ملالہ پر تنقید کا مطلب طالبان اور دہشت گردوں کی حمایت ہے۔
٭... 2020ء سے ملالہ کے لیے پاکستان میں اچھا وقت شروع ہوجائے گا۔
سیل فون: 0346-4527997