اقتصادی انتشار
ویسے دانش، دلیل اورحقیقت پسندی جیسے الفاظ عرصہ ہوا ہمارے خطہ سے حرفِ غلط کی طرح مٹائے جا چکے ہیں۔
ملکوں کودھیرے دھیرے کیسے ختم کیاجاتاہے یاانھیں بے معنی بنادیاجاتاہے۔صرف کتابوں اورخبروں کی حدتک دیکھ اورسن پایاتھا۔مگراپنے ہی ملک کوہرطورپرضعف میں جاتے ہوئے خود دیکھ رہاہوں۔ضعف کالفظ احتیاتاًاستعمال کیاہے۔اس لیے کہ سخت لفظ لکھتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے۔مگرحقیقت سے گریزکرنادانش مندی نہیں۔
ویسے دانش، دلیل اورحقیقت پسندی جیسے الفاظ عرصہ ہوا ہمارے خطہ سے حرفِ غلط کی طرح مٹائے جا چکے ہیں۔ان کی جگہ اب کس چیز کا راج ہے۔سب جانتے ہیں۔عرض نہیں کرناچاہتا۔ مگر جو ہورہا ہے،اسے فریبِِ نظرنہیں کہاجاسکتا۔
اقتصادی طورپرملک انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہے۔آئی سی یو میں آکسیجن پرسانسیں لے رہاہے۔ زرمبادلہ کے ذخائراس وقت صفرسے نیچے ہیں۔ جو تھوڑا بہت سرمایہ نظرآرہاہے،صرف اورصرف غیرملکی قرضوں کی بدولت ہے۔یعنی اگرجزوی قرضے یاسود واپس کردیے جائیں تو ذخائرمنفی میں چلے جاتے ہیں۔یعنی خزانہ محض خالی نہیں ہوتابلکہ کسی بھی طریقے سے کسی بھی ادائیگی کے قابل نہیں رہتا۔
ہوسکتاہے کہ چنداقتصادی ماہرین کی رائے مختلف ہو۔مگرعمومی طورپرنظریہی کچھ آرہاہے کہ ملکی خزانہ ختم ہونے کے بعددیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ میں ماہرِمعاشیات نہیں مگرعام سے حساب کتاب سے کچھ نتائج سامنے آجاتے ہیں۔مطلب یہ کہ اگلے چندماہ اپنے اوپربلاکی طرح مسلط غیرملکی قرضے واپس کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کے سامنے ہاتھ جوڑکرکچھ وقت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں۔ اس کاجواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔
معاشی طورپر کمزور ملک کسی بھی طرح باوقارنہیں ہوسکتا۔ہمارے ساتھ بھی یہی ہواہے اور مزید ہوگا۔ جذباتیت،نعرے بازی اورگروہی سوچ نے ہمیں وہاں پہنچادیاہے،جوان کامنطقی انجام تھا۔واپسی کا اب کوئی راستہ نہیں۔وزیراعظم کی طرف سے آئی ہوئی "ایمنسٹی اسکیم"کس حدتک کامیاب یاناکام ہوگی، اس کا جواب آنے والاوقت ہی دے سکے گا۔ڈیڑھ ماہ میں اس کے ثمرات کس قدر میٹھے ہونگے،ابھی قطعی طورپرکچھ کہناقبل اَزوقت ہوگا۔مگرایک بات بے حداہم ہے۔
اگرہمارے پاس پیسے نہیں ہیں تواپنے حکومتی اخراجات کم کیوں نہیں کررہے۔ تمام اہم سیاسی شخصیات حکومتی جہازوں پرسفرکیوں کررہی ہیں۔ان جہازوں کے لیے "پیٹرول" باہر سے آتاہے۔یعنی اس پرڈالرخرچ ہوتے ہیں۔کیوں ہمارے حکومتی خدا،ہوائی جہازوں کواستعمال کرنانھیں چھوڑتے۔اگرکہیں سرکاری طور پرجاناہو،توکمرشل فلائٹ کیوں استعمال نہیں کرتے۔ جہازوں کو رہنے دیجیے۔یہ قیمتی ترین کاریں اورسرکاری جیپوں کااستعمال کیوں بندنہیں کرتے۔
کیا وزیراعظم یہ اعلان نہیں کرسکتے کہ تمام سرکاری اورسیاسی عمائدین پاکستان میں بنی ہوئی گاڑیاں استعمال کرینگے۔مگرکوئی بھی مرسیڈیز،بی ایم ڈبلیواورآوڈی سے کم کارمیں سفر کرنا توہین سمجھتا ہے۔ اگر صرف آج یہ فیصلہ ہوجائے کہ صدر، وزیراعظم، وزراء، وزراء اعلیٰ اورسرکاری عمائدین مقامی گاڑیوں میں سفرکرینگے توکم ازکم ایک دن میں لاکھوں ڈالرکی بچت ہوگی۔مگرنہیں۔
ہم قرض لینے میں ذلت محسوس نہیں کرتے۔ دیوانوں کی طرح مہنگی ترین گاڑیاں اورہوائی جہازاستعمال کرنااپناقانونی حق سمجھتے ہیں۔قرض دینے والے ادارے اورملک جب ہمارے وفود کو دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔بیرونی ممالک میں ہمارے عمائدین کئی ہزارڈالریومیہ کرائے والے ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں۔وفدکے اراکین کالباس،قرض دینے والے اداروں کے عمائدین سے بیش قیمت ہوتاہے۔
کئی بار،غیرملکی ماہرین سے بات ہوئی۔وہ ہماری سرکاری عیاشیاں دیکھ کر گھبرابلکہ شرماجاتے ہیں۔ایک اوراہم ترین نکتہ،مجھے ایک بین الاقوامی ادارے کے مرکزی افسرنے بتایاکہ پاکستانی واحدلوگ ہیں جوان کی پیش کردہ شرائط پرکسی قسم کاغورنہیں کرتے۔بحث نہیں کرتے کہ شرح سودبہت زیادہ ہے کم کی جائے۔ ہرقیمت پرقرضہ حاصل کرتے ہیں اورخوشی خوشی واپس چلے جاتے ہیں۔
اس کے برعکس دیگرممالک کے افسراور ماہرین، سادہ طریقے سے رہتے ہیں۔ٹھوک بجاکراپنے ملک پرسودکے بوجھ کوکم سے کم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اورکئی بارقرض دینے والے اداروں کی شرائط سے مکمل انکار کرکے واپس چلے جاتے ہیں۔اداروں کوپھران کی شرائط مجبوراً ماننا پڑتی ہیں۔مگرپاکستانی وفودبادشاہوں کی طرح رہ کر،فقیروں کی مانند،کڑی شرائط پر قرض لیتے ہیں۔پھرملکی اخباروں میں اپنے تعریفی بیانات اوراشتہارات چھپواتے ہیں۔
ایسے ،جیسے انھوں نے کوئی عظیم کارنامہ انجام دیا ہو۔ ہوناتویہ چاہیے کہ ان لوگوں سے پوچھاجائے کہ تم کون ہوتے ہو،ہمارے ائیر پورٹ، ریلوے اسٹیشن، موٹر وے، شاہرائیں اور ریڈیو اسٹیشن تک گروی رکھنے والے۔ مگر جھوٹ اور پروپیگنڈے کے زورپراس قرضے کی آمدپرایسے منصوبے ترتیب دیے جاتے ہیں،جن سے ظاہری عوامی فائدہ ہواور بڑے آرام سے کمیشن کاپیسہ دنیاکے کسی محفوظ ٹھکانے پر چلا جائے۔
مگراب صورتحال اس قدرخراب ہے کہ شائدکوئی نیا موقع ہاتھ نہ آئے۔مگردوتین دہائیوں سے کمائے ہوئے پیسے ہی کافی ہیں۔شائدسات پشتوں کے لیے بھی۔وہ الگ بات ہے کہ حرام کی کمائی،آنے والے دنوں میں اولادکوبھی برباد کرتی ہے اورتھوڑے سے عرصے بعدغائب ہوجاتی ہے۔ اس سے کبھی بھی اگلی نسلوں کوسکھ اورآسائش نہیں ملتی۔بلکہ بچوں میں فساد،مقدمہ بازی اورلڑائی پیداہوتی ہے۔دیکھنے میں تویہی آیاہے کہ حرام کی دولت ختم بھی تیزی سے ہوتی ہے۔بات صرف شعور اور احساس کی ہے۔
یہ سب بے ترتیبی ایک طرف۔مگرمجھے کوئی مثبت اشارے نظرنہیں آرہے۔اگرہم ایسے ہی خرچ کرتے رہے توایک سے ڈیڑھ ماہ میں دیوالیہ ہوسکتے ہیں۔جن لوگوں نے بغیرسوچے سمجھے روپے کوجلدی میں ڈی ویلیوکیا،ان کے مطابق یہ معمول کی کارروائی تھی۔مگرصرف ایک دن میں روپیہ کواتنابے قدرکردیاگیاکہ ملکی معیشت شدیددبائومیں آگئی۔
گزشتہ چالیس دنوں میں مہنگائی کاایک نیاسیلاب آیا ہے۔ہرچیزمہنگی ہوچکی ہے۔روم جل رہاہے مگررنگ برنگے نیرو،قیمتی کپڑوں میں ملبوس بانسری نہیں بلکہ سنکھ بجارہے ہیں۔آنے والاوقت ہماری توقع سے زیادہ مشکل ہوسکتا ہے۔پریہاں ایک سنجیدہ سوال ذہن میں آتاہے۔
ملک میں کرپشن کے خلاف قومی اداروں کی مہم سے درحقیقت ہو کیا رہاہے۔عملاًکچھ بھی نہیں۔ایک بڑے آدمی یاایک چھوٹے سرکاری بونے کومحض گرفتارکرنے سے ملک کوکیا فائدہ ہوتا ہے۔اس کاکوئی جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس حق میں ہوں کہ انھیں سزابھی نہیں ہونی چاہیے۔صرف ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لے کرقومی خزانے میں جمع کروادینی چاہیے۔ سعودی عرب کاحالیہ کامیاب ماڈل ہماری رہنمائی کرسکتا ہے۔
کیاضرورت ہے کہ مقدمات چلائے جائیں۔اس مقدمہ بازی سے توکرپٹ لوگ ایک جعلی اورمنفی بیانیہ بیچنے میں کامیاب ہورہے ہیں کہ ان کے خلاف انتقامی کارروائی ہو رہی ہے۔بدترین حالات میں،عام سے قوانین صورتحال کو بہتری کی طرف نہیں لے جاسکتے۔چاہیے تویہ کہ پورے ملک سے سواہم ترین لوگوں کوپابندسلاسل کیاجائے۔ان کے سامنے کرپشن کے ٹھوس ثبوت رکھے جائیں اور پھر زبردستی پیسے واپس لیے جائیں۔
قانون کی حکمرانی،اس نازک وقت میں ہمارے لیے کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں لاسکتی۔ بتائیے، اربوں ڈالر کس قانون کے مطابق ملک سے باہربھجوائے گئے ہیں۔ ہر گز نہیں۔بالکل نہیں۔اس وقت صر ف اور صرف بے رحم عدل ہونا چاہیے۔ سواہم ترین لوگوں میں سوسائٹی کے ہر طبقے کے لوگ ہونے چاہیے۔ سیاستدان، بزنس مین، سرکاری بابو،ریاستی اداروں میں لوٹ مارکرنے والے فرشتے بلکہ ہرطرح کے ٹھگ اس فہرست میں شامل کرلینے چاہیے۔ یہ توایک دن کی تکلیف برداشت نہیں کرسکتے۔
چندہی دنوں میں غیرملکی اورناجائزملکی دولت دوڑتی ہوئی ملکی خزانے میں جمع ہوجائے گی۔قرض لینے کی نوبت ہی نہیں آئیگی۔سعودی عرب کے ولی عہدنے اربوں ڈالرواپس لے کرایک مثال قائم کی ہے۔ہم سعودی عرب کے ہرطریقہ سے بغل بچے ہیں۔ تواس اچھی مثال کوکیوں نہیں اپناسکتے۔یہ موجودہ پکڑدھکڑاور مقدمہ بازی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
تاریخ کاسبق یہی ہے کہ جن کوکچھ نہ کہو،جس طوطے میں اس کی جان ہے، اس کی گردن مروڑدو۔ ان تمام لٹیروں اورچوروں کی جان ان کی دولت میں ہے۔ ان سے ناجائزدولت واپس لے لو۔یہ جن،چوہے بینکرگلیوں میں فریادکرتے پھریں گے۔لوگ ان کے سائے سے بھی ڈریں گے۔
ملک جس حال پرپہنچ چکاہے اس میں نارمل ضابطے سے کچھ بھی مفیدکام نہیں ہوسکتا۔احتساب کریں یانہ کریں۔ گردن پکڑیں یانہ پکڑیں۔بے معنی سالگتاہے۔یہ طرزِعمل کہ کچھ کرنے کی جسارت بھی کی جائے اورپھرآدھے راستے میں خودبخودرک جایاجائے۔اس سے غیریقینی بڑھ رہی ہے۔
اداروں کے مجموعی کردارپرشک بھی شروع ہوچکا ہے۔ ایسے نظرآتاہے کہ دراصل مقصد بے لاگ احتساب یاملک کو ٹھیک کرنانھیں۔اگریہ تاثر مزید مضبوط ہوگیا توسب کچھ دائو پرلگ جائے گا۔لوگوں کااس ملک کے بارے میں یہ کہنا کہ یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں کبھی انصاف ہواہی نہیں ہے۔یہاں امیراورطاقت ورلوگ کسی نہ کسی طریقے سے بچتے آئے ہیں۔
ان کے ذہن کے مطابق،اب بھی کچھ نہیں ہوگا۔ایک دوچہرے بدلیں گے اورپھرکام روایتی طریقے سے چلناشروع ہوجائے گا۔یہ زاویہ طاقت پکڑرہا ہے۔ درحقیقت جس اقتصادی انتشارکی زد میں ملک آچکا ہے، ملک کاکوئی بھی ادارہ اسکوبہتری کی طرف لانے کی استطاعت نہیں رکھتا۔یہ سب کچھ بے رحم فیصلوں سے ہی ممکن ہے جس کی خیرسے کوئی توقع نہیں۔گمان ہے کہ سب کچھ سکون سے پرانے طریقے پرچلتا رہے گا۔مگراقتصادی انتشار، شائد ہم سب کوروندڈالے۔یہ قطعاً رکنے والانھیں!
ویسے دانش، دلیل اورحقیقت پسندی جیسے الفاظ عرصہ ہوا ہمارے خطہ سے حرفِ غلط کی طرح مٹائے جا چکے ہیں۔ان کی جگہ اب کس چیز کا راج ہے۔سب جانتے ہیں۔عرض نہیں کرناچاہتا۔ مگر جو ہورہا ہے،اسے فریبِِ نظرنہیں کہاجاسکتا۔
اقتصادی طورپرملک انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ہے۔آئی سی یو میں آکسیجن پرسانسیں لے رہاہے۔ زرمبادلہ کے ذخائراس وقت صفرسے نیچے ہیں۔ جو تھوڑا بہت سرمایہ نظرآرہاہے،صرف اورصرف غیرملکی قرضوں کی بدولت ہے۔یعنی اگرجزوی قرضے یاسود واپس کردیے جائیں تو ذخائرمنفی میں چلے جاتے ہیں۔یعنی خزانہ محض خالی نہیں ہوتابلکہ کسی بھی طریقے سے کسی بھی ادائیگی کے قابل نہیں رہتا۔
ہوسکتاہے کہ چنداقتصادی ماہرین کی رائے مختلف ہو۔مگرعمومی طورپرنظریہی کچھ آرہاہے کہ ملکی خزانہ ختم ہونے کے بعددیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ میں ماہرِمعاشیات نہیں مگرعام سے حساب کتاب سے کچھ نتائج سامنے آجاتے ہیں۔مطلب یہ کہ اگلے چندماہ اپنے اوپربلاکی طرح مسلط غیرملکی قرضے واپس کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کے سامنے ہاتھ جوڑکرکچھ وقت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔کامیاب ہوتے ہیں کہ نہیں۔ اس کاجواب کسی کے پاس بھی نہیں ہے۔
معاشی طورپر کمزور ملک کسی بھی طرح باوقارنہیں ہوسکتا۔ہمارے ساتھ بھی یہی ہواہے اور مزید ہوگا۔ جذباتیت،نعرے بازی اورگروہی سوچ نے ہمیں وہاں پہنچادیاہے،جوان کامنطقی انجام تھا۔واپسی کا اب کوئی راستہ نہیں۔وزیراعظم کی طرف سے آئی ہوئی "ایمنسٹی اسکیم"کس حدتک کامیاب یاناکام ہوگی، اس کا جواب آنے والاوقت ہی دے سکے گا۔ڈیڑھ ماہ میں اس کے ثمرات کس قدر میٹھے ہونگے،ابھی قطعی طورپرکچھ کہناقبل اَزوقت ہوگا۔مگرایک بات بے حداہم ہے۔
اگرہمارے پاس پیسے نہیں ہیں تواپنے حکومتی اخراجات کم کیوں نہیں کررہے۔ تمام اہم سیاسی شخصیات حکومتی جہازوں پرسفرکیوں کررہی ہیں۔ان جہازوں کے لیے "پیٹرول" باہر سے آتاہے۔یعنی اس پرڈالرخرچ ہوتے ہیں۔کیوں ہمارے حکومتی خدا،ہوائی جہازوں کواستعمال کرنانھیں چھوڑتے۔اگرکہیں سرکاری طور پرجاناہو،توکمرشل فلائٹ کیوں استعمال نہیں کرتے۔ جہازوں کو رہنے دیجیے۔یہ قیمتی ترین کاریں اورسرکاری جیپوں کااستعمال کیوں بندنہیں کرتے۔
کیا وزیراعظم یہ اعلان نہیں کرسکتے کہ تمام سرکاری اورسیاسی عمائدین پاکستان میں بنی ہوئی گاڑیاں استعمال کرینگے۔مگرکوئی بھی مرسیڈیز،بی ایم ڈبلیواورآوڈی سے کم کارمیں سفر کرنا توہین سمجھتا ہے۔ اگر صرف آج یہ فیصلہ ہوجائے کہ صدر، وزیراعظم، وزراء، وزراء اعلیٰ اورسرکاری عمائدین مقامی گاڑیوں میں سفرکرینگے توکم ازکم ایک دن میں لاکھوں ڈالرکی بچت ہوگی۔مگرنہیں۔
ہم قرض لینے میں ذلت محسوس نہیں کرتے۔ دیوانوں کی طرح مہنگی ترین گاڑیاں اورہوائی جہازاستعمال کرنااپناقانونی حق سمجھتے ہیں۔قرض دینے والے ادارے اورملک جب ہمارے وفود کو دیکھتے ہیں تو حیران رہ جاتے ہیں۔بیرونی ممالک میں ہمارے عمائدین کئی ہزارڈالریومیہ کرائے والے ہوٹلوں میں قیام کرتے ہیں۔وفدکے اراکین کالباس،قرض دینے والے اداروں کے عمائدین سے بیش قیمت ہوتاہے۔
کئی بار،غیرملکی ماہرین سے بات ہوئی۔وہ ہماری سرکاری عیاشیاں دیکھ کر گھبرابلکہ شرماجاتے ہیں۔ایک اوراہم ترین نکتہ،مجھے ایک بین الاقوامی ادارے کے مرکزی افسرنے بتایاکہ پاکستانی واحدلوگ ہیں جوان کی پیش کردہ شرائط پرکسی قسم کاغورنہیں کرتے۔بحث نہیں کرتے کہ شرح سودبہت زیادہ ہے کم کی جائے۔ ہرقیمت پرقرضہ حاصل کرتے ہیں اورخوشی خوشی واپس چلے جاتے ہیں۔
اس کے برعکس دیگرممالک کے افسراور ماہرین، سادہ طریقے سے رہتے ہیں۔ٹھوک بجاکراپنے ملک پرسودکے بوجھ کوکم سے کم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اورکئی بارقرض دینے والے اداروں کی شرائط سے مکمل انکار کرکے واپس چلے جاتے ہیں۔اداروں کوپھران کی شرائط مجبوراً ماننا پڑتی ہیں۔مگرپاکستانی وفودبادشاہوں کی طرح رہ کر،فقیروں کی مانند،کڑی شرائط پر قرض لیتے ہیں۔پھرملکی اخباروں میں اپنے تعریفی بیانات اوراشتہارات چھپواتے ہیں۔
ایسے ،جیسے انھوں نے کوئی عظیم کارنامہ انجام دیا ہو۔ ہوناتویہ چاہیے کہ ان لوگوں سے پوچھاجائے کہ تم کون ہوتے ہو،ہمارے ائیر پورٹ، ریلوے اسٹیشن، موٹر وے، شاہرائیں اور ریڈیو اسٹیشن تک گروی رکھنے والے۔ مگر جھوٹ اور پروپیگنڈے کے زورپراس قرضے کی آمدپرایسے منصوبے ترتیب دیے جاتے ہیں،جن سے ظاہری عوامی فائدہ ہواور بڑے آرام سے کمیشن کاپیسہ دنیاکے کسی محفوظ ٹھکانے پر چلا جائے۔
مگراب صورتحال اس قدرخراب ہے کہ شائدکوئی نیا موقع ہاتھ نہ آئے۔مگردوتین دہائیوں سے کمائے ہوئے پیسے ہی کافی ہیں۔شائدسات پشتوں کے لیے بھی۔وہ الگ بات ہے کہ حرام کی کمائی،آنے والے دنوں میں اولادکوبھی برباد کرتی ہے اورتھوڑے سے عرصے بعدغائب ہوجاتی ہے۔ اس سے کبھی بھی اگلی نسلوں کوسکھ اورآسائش نہیں ملتی۔بلکہ بچوں میں فساد،مقدمہ بازی اورلڑائی پیداہوتی ہے۔دیکھنے میں تویہی آیاہے کہ حرام کی دولت ختم بھی تیزی سے ہوتی ہے۔بات صرف شعور اور احساس کی ہے۔
یہ سب بے ترتیبی ایک طرف۔مگرمجھے کوئی مثبت اشارے نظرنہیں آرہے۔اگرہم ایسے ہی خرچ کرتے رہے توایک سے ڈیڑھ ماہ میں دیوالیہ ہوسکتے ہیں۔جن لوگوں نے بغیرسوچے سمجھے روپے کوجلدی میں ڈی ویلیوکیا،ان کے مطابق یہ معمول کی کارروائی تھی۔مگرصرف ایک دن میں روپیہ کواتنابے قدرکردیاگیاکہ ملکی معیشت شدیددبائومیں آگئی۔
گزشتہ چالیس دنوں میں مہنگائی کاایک نیاسیلاب آیا ہے۔ہرچیزمہنگی ہوچکی ہے۔روم جل رہاہے مگررنگ برنگے نیرو،قیمتی کپڑوں میں ملبوس بانسری نہیں بلکہ سنکھ بجارہے ہیں۔آنے والاوقت ہماری توقع سے زیادہ مشکل ہوسکتا ہے۔پریہاں ایک سنجیدہ سوال ذہن میں آتاہے۔
ملک میں کرپشن کے خلاف قومی اداروں کی مہم سے درحقیقت ہو کیا رہاہے۔عملاًکچھ بھی نہیں۔ایک بڑے آدمی یاایک چھوٹے سرکاری بونے کومحض گرفتارکرنے سے ملک کوکیا فائدہ ہوتا ہے۔اس کاکوئی جواب کسی کے پاس نہیں ہے۔ اس حق میں ہوں کہ انھیں سزابھی نہیں ہونی چاہیے۔صرف ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لے کرقومی خزانے میں جمع کروادینی چاہیے۔ سعودی عرب کاحالیہ کامیاب ماڈل ہماری رہنمائی کرسکتا ہے۔
کیاضرورت ہے کہ مقدمات چلائے جائیں۔اس مقدمہ بازی سے توکرپٹ لوگ ایک جعلی اورمنفی بیانیہ بیچنے میں کامیاب ہورہے ہیں کہ ان کے خلاف انتقامی کارروائی ہو رہی ہے۔بدترین حالات میں،عام سے قوانین صورتحال کو بہتری کی طرف نہیں لے جاسکتے۔چاہیے تویہ کہ پورے ملک سے سواہم ترین لوگوں کوپابندسلاسل کیاجائے۔ان کے سامنے کرپشن کے ٹھوس ثبوت رکھے جائیں اور پھر زبردستی پیسے واپس لیے جائیں۔
قانون کی حکمرانی،اس نازک وقت میں ہمارے لیے کوئی مثبت نتیجہ سامنے نہیں لاسکتی۔ بتائیے، اربوں ڈالر کس قانون کے مطابق ملک سے باہربھجوائے گئے ہیں۔ ہر گز نہیں۔بالکل نہیں۔اس وقت صر ف اور صرف بے رحم عدل ہونا چاہیے۔ سواہم ترین لوگوں میں سوسائٹی کے ہر طبقے کے لوگ ہونے چاہیے۔ سیاستدان، بزنس مین، سرکاری بابو،ریاستی اداروں میں لوٹ مارکرنے والے فرشتے بلکہ ہرطرح کے ٹھگ اس فہرست میں شامل کرلینے چاہیے۔ یہ توایک دن کی تکلیف برداشت نہیں کرسکتے۔
چندہی دنوں میں غیرملکی اورناجائزملکی دولت دوڑتی ہوئی ملکی خزانے میں جمع ہوجائے گی۔قرض لینے کی نوبت ہی نہیں آئیگی۔سعودی عرب کے ولی عہدنے اربوں ڈالرواپس لے کرایک مثال قائم کی ہے۔ہم سعودی عرب کے ہرطریقہ سے بغل بچے ہیں۔ تواس اچھی مثال کوکیوں نہیں اپناسکتے۔یہ موجودہ پکڑدھکڑاور مقدمہ بازی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔
تاریخ کاسبق یہی ہے کہ جن کوکچھ نہ کہو،جس طوطے میں اس کی جان ہے، اس کی گردن مروڑدو۔ ان تمام لٹیروں اورچوروں کی جان ان کی دولت میں ہے۔ ان سے ناجائزدولت واپس لے لو۔یہ جن،چوہے بینکرگلیوں میں فریادکرتے پھریں گے۔لوگ ان کے سائے سے بھی ڈریں گے۔
ملک جس حال پرپہنچ چکاہے اس میں نارمل ضابطے سے کچھ بھی مفیدکام نہیں ہوسکتا۔احتساب کریں یانہ کریں۔ گردن پکڑیں یانہ پکڑیں۔بے معنی سالگتاہے۔یہ طرزِعمل کہ کچھ کرنے کی جسارت بھی کی جائے اورپھرآدھے راستے میں خودبخودرک جایاجائے۔اس سے غیریقینی بڑھ رہی ہے۔
اداروں کے مجموعی کردارپرشک بھی شروع ہوچکا ہے۔ ایسے نظرآتاہے کہ دراصل مقصد بے لاگ احتساب یاملک کو ٹھیک کرنانھیں۔اگریہ تاثر مزید مضبوط ہوگیا توسب کچھ دائو پرلگ جائے گا۔لوگوں کااس ملک کے بارے میں یہ کہنا کہ یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ یہاں کبھی انصاف ہواہی نہیں ہے۔یہاں امیراورطاقت ورلوگ کسی نہ کسی طریقے سے بچتے آئے ہیں۔
ان کے ذہن کے مطابق،اب بھی کچھ نہیں ہوگا۔ایک دوچہرے بدلیں گے اورپھرکام روایتی طریقے سے چلناشروع ہوجائے گا۔یہ زاویہ طاقت پکڑرہا ہے۔ درحقیقت جس اقتصادی انتشارکی زد میں ملک آچکا ہے، ملک کاکوئی بھی ادارہ اسکوبہتری کی طرف لانے کی استطاعت نہیں رکھتا۔یہ سب کچھ بے رحم فیصلوں سے ہی ممکن ہے جس کی خیرسے کوئی توقع نہیں۔گمان ہے کہ سب کچھ سکون سے پرانے طریقے پرچلتا رہے گا۔مگراقتصادی انتشار، شائد ہم سب کوروندڈالے۔یہ قطعاً رکنے والانھیں!