چیلنج
ہماری عدلیہ بڑی محنت اور بے جگری سے کرپشن کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے جو ایک حوصلہ افزا بات ہے۔
ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے اس میں نہ کوئی شک ہے نہ دو رائے ہے اور یہ بڑی حوصلہ افزا بات ہے کہ عدالت عظمیٰ چیف جسٹس صاحب کی سربراہی میں کرپشن کے خلاف بھرپور طریقے سے اور مستقل مزاجی کے ساتھ اقدامات کر رہی ہے، چونکہ اس حوالے سے مرکزی کردار سابق وزیراعظم اور ان کی فیملی بنی ہوئی ہے لہٰذا اس مسئلے کو مرکزی حیثیت حاصل ہوگئی ہے، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا اس کیس کی خبروں سے بھرا رہتا ہے۔
چونکہ کرپشن کی نچلی سطح سے ملک کے بیس کروڑ عوام بری طرح متاثر ہیں اس لیے اس اعلیٰ سطح کرپشن کیس سے بھرپور دلچسپی اس لیے لیتے ہیں کہ اگر اعلیٰ سطح پر کرپشن کے خلاف کیا جانے والا آپریشن کامیاب رہتا ہے تو نچلی سطح کے کرپشن پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
اعلیٰ سطح کرپشن دراصل ایک فنکارانہ اور ماہرانہ کام ہے، اعلیٰ سطح کے لوگوں کو یہ علم اور اندازہ ہوتا ہے، خاص کر اس اشرافیہ کو جو اربوں کی کرپشن میں ملوث ہو اس بات کا پورا احساس ہوتا ہے کہ ذرا سی ''بے احتیاطی'' کسی بڑی مصیبت کا باعث بن سکتی ہے اسی لیے اعلیٰ سطح کے اکابرین خاص طور پر برسر اقتدار زعما بڑی بلکہ غیر معمولی احتیاط سے کرپشن کا اسی طرح ارتکاب کرتے ہیں جس طرح اعلیٰ سطح کے مجرم جرائم کا اس طرح ارتکاب کرتے ہیں کہ ثبوت نامی کسی چیز کو پیچھے نہیں چھوڑتے، پولیس لاکھ کوشش کرلے ان کے جرائم کے خلاف ثبوت حاصل کرنے میں سخت مشکلات کا شکار رہتی ہے۔ جرائم کی دنیا کے ڈان دھڑلے سے بڑے بڑے جرائم کرتے ہیں اور اس ہوشیاری سے کرتے ہیں کہ تحقیقاتی ایجنسیاں سر پیٹتی رہ جاتی ہیں لیکن کوئی ثبوت حاصل نہیں کرسکتیں۔
ہماری عدلیہ بڑی محنت اور بے جگری سے کرپشن کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے جو ایک حوصلہ افزا بات ہے لیکن اس حوالے سے جو بات مشکل اور غلط فہمی کا سبب بن رہی ہے وہ یہ ہے کہ کرپشن کے خلاف اقدامات ایک خاندان تک مرکوز ہوگئے ہیں یا ان کے بعض سیاسی متعلقین اس کی زد میں آ رہے ہیں۔ ہماری حکمرانی کی تاریخ کرپشن کے حوالے سے اس قدر نیک نام ہے کہ اس بدنام تاریخ میں کسی نیک نام کو تلاش کرنا سخت مشکل ہے۔
ہوسکتا ہے ہماری اعلیٰ عدلیہ کسی خاص حکمت عملی کے تحت ابھی تک وسیع پیمانے پر کرپشن کے خلاف اقدامات نہ کر پا رہی ہو۔ مثلاً پاناما لیکس کے مرتکبین ہی کو لے لیں ان مرتکبین کی تعداد پاناما لیکس کی جاری کردہ فہرست کے مطابق 435 بتائی جاتی ہے اور 435 مرتکبین کے خلاف کیسز چلانا اور تحقیقات کرنا ایک مشکل ترین کام ہے، لیکن دنیا کا منہ بند کرنے کے لیے اور متاثرین کی طرف سے غلط پروپیگنڈا کرکے عوام میں غلط فہمیوں کے ازالے کے طور پر چند اعلیٰ پائے کے کرپشن کے مرتکبین کے خلاف اگر اقدامات شروع کیے جائیں تو غلط پروپیگنڈے کا ازالہ ہوسکتا ہے۔
قانون اور انصاف کی دنیا میں گواہ اور ثبوت کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ ہماری عدالت عظمیٰ جب ملک کے ایک ممتاز حکمران کے خلاف جب قدم اٹھانے جا رہی ہو تو یہ یقین کیا جاسکتا ہے کہ وہ پوری تیاری کے ساتھ ہی قدم اٹھا رہی ہوگی۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے قانون کے نظام میں اتنے سقم ہیں کہ ایک بڑے سے بڑا ملزم بھی ان سہولتوں سے اس طرح فائدہ اٹھاتا ہے کہ قانون منہ دیکھتا کھڑا رہ جاتا ہے۔
مثال کے طور پر ہمارے وزیر خزانہ پر کرپشن کے بڑے بڑے الزامات کے تحت ریفرنسز دائر ہیں، عدلیہ میں ان کا پیش ہونا ضروری ہے لیکن وہ ملک ہی سے باہر ہیں۔ حکمران طبقات کو یہ سہولتیں حاصل ہوتی ہیں کہ وہ آسانی کے ساتھ روپوش بھی ہوجاتے ہیں اور بڑی آسانی کے ساتھ ملک سے باہر بھی چلے جاتے ہیں۔ اسحق ڈار ملک کے وزیر خزانہ ہی نہیں بلکہ ہمارے سابق وزیراعظم کے قریبی عزیز بھی ہیں۔
اپوزیشن الزام لگا رہی ہے کہ اسحق ڈار کو وزیراعظم کے طیارے میں ملک سے باہر بھیج دیا گیا۔ خدا کرے یہ غلط ہو اور محض افواہ ہو لیکن اگر یہ الزام درست ہو تو ملک کے اندر اور ملک کے باہر ہماری حکومت اور ملک کی کیا عزت رہ جاتی ہے۔ اس قسم کی افواہوں کو بے بنیاد بھی نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ہمارے سامنے ایک تازہ مثال ہے، راؤ انوار پولیس کا ایس ایس پی ہے، وزیر خزانہ کے مقابلے میں ایک ایس ایس پی کی کیا حیثیت ہوتی ہے، راؤ انوار پر پولیس مقابلوں میں متعدد افراد کو قتل کرنے کا الزام ہے لیکن وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے ملک کے اندر ہی روپوش ہوگیا، ہماری ساری ایجنسیاں اس کو تلاش کرتی رہیں لیکن وہ کسی کے ہاتھ نہ آیا۔
کہا جاتا ہے کہ اس پر ایک بہت بڑی شخصیت کا دست شفقت ہے، اسے کوئی پکڑ تو نہیں سکا جب وہ ازراہ کرم خود عدالت میں حاضر ہوا تو اسے گرفتار کرلیا گیا۔ ہمارے ایک صوبائی وزیر شرجیل میمن پر بھی کرپشن کا الزام ہے، وہ عرصہ دراز تک ملک سے باہر رہے، جب وارد ہوئے تو انھیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ جیل کی زندگی نے انھیں بیمار کردیا ہے لیکن راؤ انوار کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھیں ایک ''نامعلوم'' مقام پر رکھا گیا تھا۔
جن ملکوں میں سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے ان ملکوں میں قانون انصاف، سزا و جزا میں بڑی لچک ہوتی ہے لیکن یہ لچک یا تو بھاری رقم خرچ کرنے سے حاصل ہوتی ہے یا پھر اونچی سفارش پر ہی لچک نصیب ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں لاکھوں ملزمان ہیں جو جیلوں میں بند ہیں کہا جاتا ہے کہ ملزم پر الزام ثابت ہونے تک ملزم معصوم ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں محض ملزم ہونے کی وجہ غریب لوگ برسوں جیل میں بند رہتے ہیں اور اذیتیں سہتے رہتے ہیں۔ کیا یہ فلسفہ غریب ملزمان پر لاگو نہیں ہوسکتا کہ ملزم جرم ثابت ہونے تک بے گناہ ہوتا ہے اور بے گناہی کی سہولتیں حاصل کرسکتا ہے۔
بات چلی تھی اعلیٰ سطح کرپشن سے، اس حوالے سے آج کل ہمارے سابق وزیراعظم مورد الزام بلکہ مورد الزامات ہیں، ان کے ساتھ ان کے چھوٹے بھائی پر بھی الزامات عائد کیے جا رہے ہیں، بڑے بھائی کہہ رہے ہیں کہ الزام ہے تو ثبوت لاؤ، چھوٹے بھائی کہہ رہے ہیں اگر مجھ پر ایک پائی کی بھی کرپشن ثابت ہو جائے تو میں سیاست چھوڑنے کے لیے تیار ہوں۔
یہ قانون اور انصاف کے لیے بڑے چیلنج ہیں اور اس قدر واضح ہیں کہ قانون ان چیلنجوں کا شافی جواب نہ دے تو نہ صرف ملزمان کی پوزیشن مضبوط ہوجاتی ہے بلکہ عوام بھی کنفیوژن کا شکار ہوتے ہیں۔ چونکہ چیلنج میں کوئی ابہام نہیں ہے لہٰذا قانون اور انصاف کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ الزامات کے ثبوت پیش کرے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے قوم کو اس اعصاب شکن صورتحال سے نکالنا ضروری ہے۔
چونکہ کرپشن کی نچلی سطح سے ملک کے بیس کروڑ عوام بری طرح متاثر ہیں اس لیے اس اعلیٰ سطح کرپشن کیس سے بھرپور دلچسپی اس لیے لیتے ہیں کہ اگر اعلیٰ سطح پر کرپشن کے خلاف کیا جانے والا آپریشن کامیاب رہتا ہے تو نچلی سطح کے کرپشن پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
اعلیٰ سطح کرپشن دراصل ایک فنکارانہ اور ماہرانہ کام ہے، اعلیٰ سطح کے لوگوں کو یہ علم اور اندازہ ہوتا ہے، خاص کر اس اشرافیہ کو جو اربوں کی کرپشن میں ملوث ہو اس بات کا پورا احساس ہوتا ہے کہ ذرا سی ''بے احتیاطی'' کسی بڑی مصیبت کا باعث بن سکتی ہے اسی لیے اعلیٰ سطح کے اکابرین خاص طور پر برسر اقتدار زعما بڑی بلکہ غیر معمولی احتیاط سے کرپشن کا اسی طرح ارتکاب کرتے ہیں جس طرح اعلیٰ سطح کے مجرم جرائم کا اس طرح ارتکاب کرتے ہیں کہ ثبوت نامی کسی چیز کو پیچھے نہیں چھوڑتے، پولیس لاکھ کوشش کرلے ان کے جرائم کے خلاف ثبوت حاصل کرنے میں سخت مشکلات کا شکار رہتی ہے۔ جرائم کی دنیا کے ڈان دھڑلے سے بڑے بڑے جرائم کرتے ہیں اور اس ہوشیاری سے کرتے ہیں کہ تحقیقاتی ایجنسیاں سر پیٹتی رہ جاتی ہیں لیکن کوئی ثبوت حاصل نہیں کرسکتیں۔
ہماری عدلیہ بڑی محنت اور بے جگری سے کرپشن کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے جو ایک حوصلہ افزا بات ہے لیکن اس حوالے سے جو بات مشکل اور غلط فہمی کا سبب بن رہی ہے وہ یہ ہے کہ کرپشن کے خلاف اقدامات ایک خاندان تک مرکوز ہوگئے ہیں یا ان کے بعض سیاسی متعلقین اس کی زد میں آ رہے ہیں۔ ہماری حکمرانی کی تاریخ کرپشن کے حوالے سے اس قدر نیک نام ہے کہ اس بدنام تاریخ میں کسی نیک نام کو تلاش کرنا سخت مشکل ہے۔
ہوسکتا ہے ہماری اعلیٰ عدلیہ کسی خاص حکمت عملی کے تحت ابھی تک وسیع پیمانے پر کرپشن کے خلاف اقدامات نہ کر پا رہی ہو۔ مثلاً پاناما لیکس کے مرتکبین ہی کو لے لیں ان مرتکبین کی تعداد پاناما لیکس کی جاری کردہ فہرست کے مطابق 435 بتائی جاتی ہے اور 435 مرتکبین کے خلاف کیسز چلانا اور تحقیقات کرنا ایک مشکل ترین کام ہے، لیکن دنیا کا منہ بند کرنے کے لیے اور متاثرین کی طرف سے غلط پروپیگنڈا کرکے عوام میں غلط فہمیوں کے ازالے کے طور پر چند اعلیٰ پائے کے کرپشن کے مرتکبین کے خلاف اگر اقدامات شروع کیے جائیں تو غلط پروپیگنڈے کا ازالہ ہوسکتا ہے۔
قانون اور انصاف کی دنیا میں گواہ اور ثبوت کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ ہماری عدالت عظمیٰ جب ملک کے ایک ممتاز حکمران کے خلاف جب قدم اٹھانے جا رہی ہو تو یہ یقین کیا جاسکتا ہے کہ وہ پوری تیاری کے ساتھ ہی قدم اٹھا رہی ہوگی۔ مشکل یہ ہے کہ ہمارے قانون کے نظام میں اتنے سقم ہیں کہ ایک بڑے سے بڑا ملزم بھی ان سہولتوں سے اس طرح فائدہ اٹھاتا ہے کہ قانون منہ دیکھتا کھڑا رہ جاتا ہے۔
مثال کے طور پر ہمارے وزیر خزانہ پر کرپشن کے بڑے بڑے الزامات کے تحت ریفرنسز دائر ہیں، عدلیہ میں ان کا پیش ہونا ضروری ہے لیکن وہ ملک ہی سے باہر ہیں۔ حکمران طبقات کو یہ سہولتیں حاصل ہوتی ہیں کہ وہ آسانی کے ساتھ روپوش بھی ہوجاتے ہیں اور بڑی آسانی کے ساتھ ملک سے باہر بھی چلے جاتے ہیں۔ اسحق ڈار ملک کے وزیر خزانہ ہی نہیں بلکہ ہمارے سابق وزیراعظم کے قریبی عزیز بھی ہیں۔
اپوزیشن الزام لگا رہی ہے کہ اسحق ڈار کو وزیراعظم کے طیارے میں ملک سے باہر بھیج دیا گیا۔ خدا کرے یہ غلط ہو اور محض افواہ ہو لیکن اگر یہ الزام درست ہو تو ملک کے اندر اور ملک کے باہر ہماری حکومت اور ملک کی کیا عزت رہ جاتی ہے۔ اس قسم کی افواہوں کو بے بنیاد بھی نہیں کہا جاسکتا ہے۔ ہمارے سامنے ایک تازہ مثال ہے، راؤ انوار پولیس کا ایس ایس پی ہے، وزیر خزانہ کے مقابلے میں ایک ایس ایس پی کی کیا حیثیت ہوتی ہے، راؤ انوار پر پولیس مقابلوں میں متعدد افراد کو قتل کرنے کا الزام ہے لیکن وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے ملک کے اندر ہی روپوش ہوگیا، ہماری ساری ایجنسیاں اس کو تلاش کرتی رہیں لیکن وہ کسی کے ہاتھ نہ آیا۔
کہا جاتا ہے کہ اس پر ایک بہت بڑی شخصیت کا دست شفقت ہے، اسے کوئی پکڑ تو نہیں سکا جب وہ ازراہ کرم خود عدالت میں حاضر ہوا تو اسے گرفتار کرلیا گیا۔ ہمارے ایک صوبائی وزیر شرجیل میمن پر بھی کرپشن کا الزام ہے، وہ عرصہ دراز تک ملک سے باہر رہے، جب وارد ہوئے تو انھیں گرفتار کرکے جیل بھیج دیا گیا۔ جیل کی زندگی نے انھیں بیمار کردیا ہے لیکن راؤ انوار کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ انھیں ایک ''نامعلوم'' مقام پر رکھا گیا تھا۔
جن ملکوں میں سرمایہ دارانہ جمہوریت ہے ان ملکوں میں قانون انصاف، سزا و جزا میں بڑی لچک ہوتی ہے لیکن یہ لچک یا تو بھاری رقم خرچ کرنے سے حاصل ہوتی ہے یا پھر اونچی سفارش پر ہی لچک نصیب ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں لاکھوں ملزمان ہیں جو جیلوں میں بند ہیں کہا جاتا ہے کہ ملزم پر الزام ثابت ہونے تک ملزم معصوم ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں محض ملزم ہونے کی وجہ غریب لوگ برسوں جیل میں بند رہتے ہیں اور اذیتیں سہتے رہتے ہیں۔ کیا یہ فلسفہ غریب ملزمان پر لاگو نہیں ہوسکتا کہ ملزم جرم ثابت ہونے تک بے گناہ ہوتا ہے اور بے گناہی کی سہولتیں حاصل کرسکتا ہے۔
بات چلی تھی اعلیٰ سطح کرپشن سے، اس حوالے سے آج کل ہمارے سابق وزیراعظم مورد الزام بلکہ مورد الزامات ہیں، ان کے ساتھ ان کے چھوٹے بھائی پر بھی الزامات عائد کیے جا رہے ہیں، بڑے بھائی کہہ رہے ہیں کہ الزام ہے تو ثبوت لاؤ، چھوٹے بھائی کہہ رہے ہیں اگر مجھ پر ایک پائی کی بھی کرپشن ثابت ہو جائے تو میں سیاست چھوڑنے کے لیے تیار ہوں۔
یہ قانون اور انصاف کے لیے بڑے چیلنج ہیں اور اس قدر واضح ہیں کہ قانون ان چیلنجوں کا شافی جواب نہ دے تو نہ صرف ملزمان کی پوزیشن مضبوط ہوجاتی ہے بلکہ عوام بھی کنفیوژن کا شکار ہوتے ہیں۔ چونکہ چیلنج میں کوئی ابہام نہیں ہے لہٰذا قانون اور انصاف کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ الزامات کے ثبوت پیش کرے تاکہ دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائے قوم کو اس اعصاب شکن صورتحال سے نکالنا ضروری ہے۔