دولت کی ہوس نے تین دوستوں کو اغوا کار بنا دیا

پولیس کی فوری کارروائی، صرف پانچ گھنٹے میں ملزمان گرفتار۔

پولیس کی فوری کارروائی، صرف پانچ گھنٹے میں ملزمان گرفتار۔ فوٹو: ایکسپریس

بچے والدین کے لیے وہ دولت ہوتے ہیں جن کی خاطر وہ ہر حد پار کر جانے کو تیار ہو جاتے ہیں اور جب بات ایسی ہو کہ انہیں کسی نے اغوا کرلیا ہے اور ان کا بچہ روتا ہوا ان سے مدد مانگے تو والدین کا کلیجہ منہ کو آجاتا ہے۔

اغوا برائے تاوان کے کیسز پر وزیر اعلی پنجاب نے جب سے کسی قسم کی معافی نہ دینے کا حکم صادر کر رکھا ہے تب سے پولیس ایسے کیسز میں ہر چیز کو پس پشت ڈال کر کام کرتی ہے کیوں کہ ملزمان کو پکڑنے کے ساتھ ساتھ اغوا ہونے والے شخص یا بچے کی جان سب سے اہم ہوتی ہے۔ گوجرانوالہ میں پولیس نے تاجر کے اغوا ہونے والے طالب علم بیٹے کو پانچ گھنٹے کے اند راندر نہ صرف ٹھیک ٹھیک بازیاب کروایا بلکہ تینوں ملزمان کو گرفتارکرلیا۔

یہ 22 مارچ کا دن تھا اس دن ہی پولیس ضلع کے ڈی سی سہیل احمد ٹیپو کی خودکشی کیس میں مصروف تھی تو دوسری طرف یہ خبر آن پہنچی کہ تھانہ کینٹ کے علاقہ ڈی سی کالونی میں تاجر احسان الہی اپنے بچوں کے ساتھ پارک میں تھا اور بچے کھیل کود میں مصروف تھے۔ اسی دوران احسان الہی کا طالب علم بیٹا بشر الہی پارک کے کونے میں فٹ بال پکڑنے گیا تو والدین نے کچھ دیر بعد دیکھا تو بچہ غائب تھا۔ والدین نے ادھر ادھر تلاش کرتے ہوئے سکیورٹی گارڈز اور دوسرے بچوں سے پوچھ گچھ شروع کردی، پھر پارک کے باہر بنے واش رومز میں گئے کہ شائد بشر الہی وہاں گیا ہو، مگر بچے کی کوئی خبر نہ تھی۔

اسی اثنا میں احسان کے فون پر ایک کال آئی کہ تمھارا بیٹا ہمارے پاس ہے اور اگر تم چاہتے ہوکہ اس کی زندگی محفوظ رہے تو ایک کروڑ روپے دو گھنٹے کے اندر اندر تیار رکھو جگہ ہم بعد میں بتائیں گے۔ فون سنتے ہی احسان الہی نے پارک میں چیخ وپکار شروع کردی، لوگ جمع ہوگئے اور جب وجہ پتہ لگی تو فوری طور تھانہ کینٹ پولیس سے رابطہ کیا گیا جنہوں نے فوری طور پر احسان الہی سے بچے کی تصویر لی اور تمام تھانوں میں ایس ایچ اوز کو بذریعہ ای میل اور واٹس ایپ بھیج کر مقدمہ درج کرلیا۔

معاملہ سی پی او اشفاق احمد خان کو بتایا گیا جنہوں نے ایس پی سول لائن محمد افضل کی نگرانی میں ڈی ایس پی سی آئی اے عمران عباس چدھڑ اور تھانہ کی پانچ رکنی ٹیم تشکیل دی۔ ٹیم نے فوری طو ر پر اغوا کاروں کی موصول ہوئی کال کے نمبر کی تلاش شروع کردی۔ اغواکاروں کا نمبر بند تھا۔ ایک گھنٹہ کے بعد اغواکاروں نے دوسرے نمبر سے فون کیا اور احسان الہی سے پیسوں کے بارے پوچھا گیا۔ پولیس کے کہنے پرفون کال لمبی کرنے کے لیے احسان الہی نے منت سماجت کی کہ اس کے پاس فوری اتنے پیسے نہیں ہیں کچھ کم کرو لیکن اغواکار ماننے کو تیا ر نہ تھے۔

احسان الہی کے مطابق اس نے رونا شرو ع کردیا تو انہوں نے اس کے بیٹے کو تھپڑ مارے اور کہا کہ اپنے والد کو فوری پیسے لانے کو بولو ۔ بشر نے روتے ہوئے اپنے والد سے کہا کہ ابو ان سے بچالوان کے ہاتھوں میں پستول ہیں مجھے بچالیں یہ مجھے مار رہے ہیں۔ پولیس کو اتنی بات سے تسلی ہوئی کہ بچہ ٹھیک ہے اور اغواکار ایک جگہ پر نہ تھے، وہ سفر کر رہے تھے جس سے پولیس کو ان کی لوکیشن تلاش کرنے میں دقت کا سامنا تھا۔

شہر کے تمام داخلی و خارجی راستوں کے پر سخت ناکہ بندیاں کرتے ہوئے بچے کی تصویر پھیلا دی گئی اور سی پی او کی طرف سے ہدایات جاری کی گئیں کہ بچے کی زندگی سب سے اہم ہے اس لیے کوئی بھی ایسا قدم نہ اٹھایا جائے جس سے بچے کی جان کو مزید خطرہ ہو چناب پل،گکھڑ، راہوالی، کوتوالی، چن دا قلعہ، ایمن آباد، کامونکی، وزیر آباد، نوشہرہ روڈ، حافظ آباد روڈ وغیرہ جہاں سے ملزمان شہر اور ضلع سے باہر جا سکتے تھے پر سخت ناکہ بندیا ں کردی گئیں۔ بچہ اغوا ہوئے تین گھنٹے گزر چکے تھے مگر تا حال پولیس یہ نہ جان سکی تھی کہ ملزمان کس طرف ہیں تاکہ ان کو پکڑنے کے لیے کوئی طریقہ کار اپنایا جائے۔


اس پر پارک کے ارد گرد اور کالونی کے گیٹ پرآنے والی گاڑیوں کی سی سی ٹی وی ویڈیو لی گئیں جس میں ہر گاڑی کو دیکھا گیا لیکن ایک گاڑی پر پولیس کو شک گزرا جب وہ اندر گئی تو نمبر پلیٹ اور تھی اور جب باہر آئی اسی رنگ کی گاڑی کو کوئی اور نمبر پلیٹ آویزاں تھی۔ پولیس نے اسی پر کام شروع کیا اور وائرلیس پر گاڑی کا ر نگ اور دو نمبرز بھی بتائے گئے کہ اس رنگ کو خاص طور پر چیک کیا جائے لیکن ملزمان چالاک تھے ان کا ایک نمبر ٹریس ہوا تو وہ کبھی کسی طرف چلے جاتے تو کبھی کسی طرف بالآخر جب وہ حافظ آباد روڈ کی طرف نکلے تو پولیس نے تھانہ لدھیوالہ، قلعہ دیدارسنگھ اور کوٹ لدھا والوں کو خبرکی کہ الرٹ رہو ملزمان اسی طرف آرہے ہیں۔

لیکن ملزمان نے ہر تھانہ کی حدود گزرنے پر نمبر پلیٹ تبدیل کیں جس سے وہ دو تھانوں کی پولیس کو چقمہ دینے میں کامیاب رہے لیکن سی آئی اے پولیس کے جوان کوٹ لدھا جو کہ گوجرانوالہ کی آخری حد ہے پر تعینات رہے جنہوں نے گاڑی روکی تو ملزمان نے تیز کردی جس پر ان کا پیچھا کرکے تھوڑے فاصلہ پر پکڑ لیا گیا اور اغوا کار بچہ بازیاب کروا لیا گیا۔

فوری طور پر ملزمان کو پکڑ کر سی آئی اے لایا گیا اور تاجر احسان الہی کو بلایا گیا کہ آکر بچے کو حوصلہ دے۔ والدین سی آئی اے پہنچ گئے اور اپنے بچے کو دیکھ کر جان میں جان آئی۔ ایک ملزم نے بتایا کہ اس کا نام حمزہ ہے اور ایمن آباد کا رہائشی ہے باقی دو جن میں ولید شوکت اور حسن بشیر تھے جوکہ رائے ونڈ لاہور سے تعلق رکھتے تھے۔ ملزمان نے بتایا کہ وہ ملائشیا میں ایک ساتھ اکھٹے ہوئے وہاں پر روزگار کی تلاش میں گئے تھے اور دوستی ہوگئی۔ وہاں پر کام نہ ملنے پر تینوں واپس آگئے پھر فون پر گپ شپ ہوتی رہی۔

ولید شوکت نے بتایا کہ وہ پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بننا چاہتا تھا اس نے انٹری ٹیسٹ بھی دیا مگر ناکام رہا ۔ پھر تینوں دوست اکھٹے ہوئے اور حمزہ کو اس چیز پر آمادہ کیا کہ یورپ جائیں گے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ڈھیر سارا پیسا ہو اور تمہارے گوجرانوالہ میں تاجر برادری جو کہ واپڈا ٹائون، ڈی سی کالونی اور دوسری بڑی ہائوسنگ سوسائٹیز میں رہائش پذیر ہے کسی ایک کو دیکھو۔ پھر احسان الہی کا پتا چلا اور اس کی ریکی شروع کی۔ بچوں کو دیکھا گیا کون سے سکول جاتے ہیں کون سی گاڑی ہوتی ہے جس دن بشر الہی کو اغوا کیا گیا ۔

ملزمان کا پروگرام تھا کہ اسے سکول سے واپسی پر اٹھایا جائے لیکن وہ اس روز کلاس ٹیسٹ دے کر ہی واپس آگیا پھر کالونی کے اندر جا کر دیکھا گیا کہ وہ پارک کے لیے نکلے ہیں اور دو گھنٹے بیٹھ کر ٹھیک موقع کا انتظار کیا گیا اور بچے کو اغوا کرلیا گیا۔ ملزمان نے بتایا کہ احسان الہی وقت پر پیسے نہ دیتا تو ارادہ تھا کہ دو دن تک انتظارکریں گے ورنہ اس کے بعد سخت فیصلہ ہوگا اور ہمیں یقین تھا کہ اس کے پاس اتنا پیسا ہے کہ ایک کروڑ روپے آسانی سے دے سکتا ہے۔

پولیس نے ملزمان سے موبائل فونز، پستول اور گولیاں بر آمد کرتے ہوئے کار اور جعلی نمبر پلیٹس بھی بر آمد کرلیں۔ ملزمان نے بتایا کہ کار لاہور سے رینٹ پر لی گئی اور تین نمبر پلیٹس پہلے سے بنوا کر رکھی گئی تھیں جن کو استعمال کیا گیا۔

سی پی او اشفاق احمد خان نے اچھی کارکردگی پر ایس پی سول لائن محمد افضل، ڈی ایس پی سی آئی اے عمران عباس چدھڑ اور ٹیم کو نقد انعام سے نوازا اور والدین کو تنبیہ کی کہ اپنے بچوں اور گھر کے ارد گرد نظر رکھیں کہ کونسی چیز تبدیل نظر آتی ہے، کوئی آپ کے بچوں یا پھر آپ سے تعلقات کیوں بنا رہا ہے، کوئی پیچھا تو نہیں کرتا ، کیوں کہ پولیس نے آپ کی مدد کرنا ہے مگر اپنی حفاظت کے لیے ملزمان سے لڑنے کے لیے خود کو مضبوط کریں اور مشکوک افراد و ماحول پر نظر رکھیں تاکہ شہری خود اور ان کے اہل وعیال محفوظ رہ سکیں ۔

 
Load Next Story