بچوں کے کپڑوں کا انتخاب ان کی پسند کو سامنے رکھتے ہوئے کیجیے
بچوں کے لیے کپڑوں کا انتخاب آج کے دور میں والدین کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔
''ماما! مجھے یہ کپڑے نہیں پہننے، ان میں مجھے الجھن ہوتی ہے۔'' ماہم نے ایک تقریب کے لیے کپڑے نکالتے ہوئے اپنی امی جان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
''اف! مجھے بھی یہ ٹی شرٹ نہیں پہننی، اس سے اچھا ہے کہ میں اس پارٹی میں نہ ہی جائوں تو بہتر ہے۔'' بلال نے بھی اپنی الماری میں لٹکتی شرٹ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
بچوں کے لیے کپڑوں کا انتخاب آج کے دور میں والدین کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ مائوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے ہر تقریب میں سب سے نمایاں دکھائی دیں، س لیے اکثر مائیں اس کوشش میں نہ صرف اپنے گھر کے بجٹ کو متاثر کر بیٹھتی ہیں، بلکہ اپنے بچوں کی خواہش کو بھی نظر انداز کردیتی ہیں۔خوب صورت اور منفرد لباس بنانے میں کوئی ہرج نہیں ہے لیکن اعتدال میں رہتے ہوئے موسم اور بچوں کی پسند ناپسند کو بھی سامنے رکھنا بہت ضروری ہے۔
اکثر مائیں بہت زیادہ کام والا کپڑا خرید لیتی ہیں، تاکہ خاندان میں ان کی تعریف کی جائے کہ وہ پائیدار اور قیمتی خریداری کرنے میں ماہر ہیں۔ حالاں کہ ایسا لباس بچوں کے لیے ایک طرح کا بوجھ ہوتا ہے جس میں وہ خود کو پرسکون محسوس نہیں کرتے۔ بڑے بچے تو تین سے چار گھنٹے مائوں کے ڈر سے صبر سے بیٹھ جاتے ہیں لیکن چھوٹے بچے تو چلانا شروع کر دیتے ہیں جس کو مائیں ان کی کسی بیماری یا چڑچڑے پن کا سبب سمجھتے ہوئے انہیں کوسنا شروع کردیتی ہیں۔ بچوں کی نفسیات کے مطابق وہ اسی وقت خود کو آرام دہ محسوس کرتے ہیں جب وہ جسمانی طور پر ہلکے پھلکے ہوں۔
موسم گرما کی ابتدا ہوچکی ہے جس میں بچوں کے لباس کے معاملے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔
بچوں کی جلد کو سورج کی تیز اور جھلسادینے والی شعاعوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنائیں تاکہ ان میں سے ہوا کا گزر بھی ممکن ہو۔ ان کپڑوں میں پسینہ بھی آتا ہے آسانی سے اور جلد خشک ہوجاتا ہے اور خارش یا الرجی کی شکایت بھی نہیں ہوتی۔
گرمیوں میں بچوں کے لیے لان اور کاٹن کے سادہ ملبوسات کا انتخاب کرنا چاہیے۔ رات کو سوتے وقت ایسے کپڑے پہنائے جائیں جو مکمل آستین والے ہوں۔ گرمیوں میں ہلکے رنگوں کو پیش نظر رکھا جائے جیسے آف وائٹ، بے بی پنک اور نارنجی رنگ مناسب رہتے ہیں۔ گھر میں تو یہ سادہ کپڑے استعمال ہوجاتے ہیں لیکن تقریبات میں شوخ اور بھڑکیلے لباس ہی من کو بھاتے ہیں۔کچھ بچوں کو تو یہ بہت اچھے لگتے ہیں لیکن کچھ ان میں بے چینی محسوس کرتے ہیں، اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ سوتی کپڑا ان کی فراک یا شرٹ کے نیچے لگوا دیا جائے تاکہ ایک تو آپ کی خواہش بھی پوری ہو جائے کہ بچوں کے کپڑے تقریب کی مطابق ہوں اور دوسرا بچے بھی ان کو پہنتے ہوئے تنگ نہ ہوں۔
بچوں کے لیے کپڑے بنواتے ہوئے یا ریڈی میڈ گارمینٹس خریدتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ آیا آپ کے بچے اس رنگ کو یا اس طرز کے لباس کو پسند بھی کرتے ہیں یا نہیں ، جن گھروں میں بچوں پر زبردستی بات منوانے کا رواج ہے، وہاں ان کی پسند کو مدنظر نہیں رکھا جاتا بلکہ ماں یا باپ نے جو خرید کر دے دیا، وہی انہوں نے مجبوراً پہن لیا۔
اس طرح ایک تو آپ اپنے بچے کی تخلیقی صلاحیت کو ختم کر رہے ہیں اور دوسرا ان کی رائے اور فیصلہ سازی کے عمل کو بھی زنگ لگا رہے ہیں، اس لیے بچوں کی زبان پر زیادہ تر ایک ہی شکوہ رہتا ہے کہ '' ماما جو پسند کرتی ہیں، وہی پہننا پڑتا ہے۔'' ان حالات میں بچے احساس کم تری کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ ہر چیز کے انتخاب کے لیے اپنے والدین پر انحصار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
کچھ گھروں میں بڑے بہن، بھائی کو اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے لیے جیسا لباس خرید رہے ہیں، ویسا ہی لباس چھوٹوں کے لیے بھی خریدلیں۔ اس طرح کا رویہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اس کی ایک خامی تو یہ ہے کہ چھوٹے بچے اپنے بڑے بھائی یا بہن سے مقابلہ شروع کردیتے ہیں اور دوسرا اپنے والدین کی ان کو ترجیح دینے کی وجہ سے اپنے ذہن میں منفی ضد کا تاثر بٹھالیتے ہیں جو مستقبل میں ان کے لیے اچھی ثابت نہیں ہوتی۔
اگر آپ کے خیال میں جو لباس بچے اپنے لیے پسند کرنا چاہ رہے ہیں، وہ مناسب نہیں ہے تو ان کو پیار سے سمجھایا جائے، تاکہ وہ آئندہ کبھی ایسی خواہش کا اظہار نہ کریں۔ اچھے اور نفیس لباس کی اہمیت کے متعلق اپنے بچوں کو آگاہ کرنا اور ان کی اخلاقی تربیت کرنا والدین کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔
''اف! مجھے بھی یہ ٹی شرٹ نہیں پہننی، اس سے اچھا ہے کہ میں اس پارٹی میں نہ ہی جائوں تو بہتر ہے۔'' بلال نے بھی اپنی الماری میں لٹکتی شرٹ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
بچوں کے لیے کپڑوں کا انتخاب آج کے دور میں والدین کے لیے ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ مائوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے ہر تقریب میں سب سے نمایاں دکھائی دیں، س لیے اکثر مائیں اس کوشش میں نہ صرف اپنے گھر کے بجٹ کو متاثر کر بیٹھتی ہیں، بلکہ اپنے بچوں کی خواہش کو بھی نظر انداز کردیتی ہیں۔خوب صورت اور منفرد لباس بنانے میں کوئی ہرج نہیں ہے لیکن اعتدال میں رہتے ہوئے موسم اور بچوں کی پسند ناپسند کو بھی سامنے رکھنا بہت ضروری ہے۔
اکثر مائیں بہت زیادہ کام والا کپڑا خرید لیتی ہیں، تاکہ خاندان میں ان کی تعریف کی جائے کہ وہ پائیدار اور قیمتی خریداری کرنے میں ماہر ہیں۔ حالاں کہ ایسا لباس بچوں کے لیے ایک طرح کا بوجھ ہوتا ہے جس میں وہ خود کو پرسکون محسوس نہیں کرتے۔ بڑے بچے تو تین سے چار گھنٹے مائوں کے ڈر سے صبر سے بیٹھ جاتے ہیں لیکن چھوٹے بچے تو چلانا شروع کر دیتے ہیں جس کو مائیں ان کی کسی بیماری یا چڑچڑے پن کا سبب سمجھتے ہوئے انہیں کوسنا شروع کردیتی ہیں۔ بچوں کی نفسیات کے مطابق وہ اسی وقت خود کو آرام دہ محسوس کرتے ہیں جب وہ جسمانی طور پر ہلکے پھلکے ہوں۔
موسم گرما کی ابتدا ہوچکی ہے جس میں بچوں کے لباس کے معاملے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔
بچوں کی جلد کو سورج کی تیز اور جھلسادینے والی شعاعوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنائیں تاکہ ان میں سے ہوا کا گزر بھی ممکن ہو۔ ان کپڑوں میں پسینہ بھی آتا ہے آسانی سے اور جلد خشک ہوجاتا ہے اور خارش یا الرجی کی شکایت بھی نہیں ہوتی۔
گرمیوں میں بچوں کے لیے لان اور کاٹن کے سادہ ملبوسات کا انتخاب کرنا چاہیے۔ رات کو سوتے وقت ایسے کپڑے پہنائے جائیں جو مکمل آستین والے ہوں۔ گرمیوں میں ہلکے رنگوں کو پیش نظر رکھا جائے جیسے آف وائٹ، بے بی پنک اور نارنجی رنگ مناسب رہتے ہیں۔ گھر میں تو یہ سادہ کپڑے استعمال ہوجاتے ہیں لیکن تقریبات میں شوخ اور بھڑکیلے لباس ہی من کو بھاتے ہیں۔کچھ بچوں کو تو یہ بہت اچھے لگتے ہیں لیکن کچھ ان میں بے چینی محسوس کرتے ہیں، اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ سوتی کپڑا ان کی فراک یا شرٹ کے نیچے لگوا دیا جائے تاکہ ایک تو آپ کی خواہش بھی پوری ہو جائے کہ بچوں کے کپڑے تقریب کی مطابق ہوں اور دوسرا بچے بھی ان کو پہنتے ہوئے تنگ نہ ہوں۔
بچوں کے لیے کپڑے بنواتے ہوئے یا ریڈی میڈ گارمینٹس خریدتے ہوئے اس بات کا خیال رکھیں کہ آیا آپ کے بچے اس رنگ کو یا اس طرز کے لباس کو پسند بھی کرتے ہیں یا نہیں ، جن گھروں میں بچوں پر زبردستی بات منوانے کا رواج ہے، وہاں ان کی پسند کو مدنظر نہیں رکھا جاتا بلکہ ماں یا باپ نے جو خرید کر دے دیا، وہی انہوں نے مجبوراً پہن لیا۔
اس طرح ایک تو آپ اپنے بچے کی تخلیقی صلاحیت کو ختم کر رہے ہیں اور دوسرا ان کی رائے اور فیصلہ سازی کے عمل کو بھی زنگ لگا رہے ہیں، اس لیے بچوں کی زبان پر زیادہ تر ایک ہی شکوہ رہتا ہے کہ '' ماما جو پسند کرتی ہیں، وہی پہننا پڑتا ہے۔'' ان حالات میں بچے احساس کم تری کا شکار ہوجاتے ہیں اور وہ ہر چیز کے انتخاب کے لیے اپنے والدین پر انحصار کرنا شروع کر دیتے ہیں۔
کچھ گھروں میں بڑے بہن، بھائی کو اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے لیے جیسا لباس خرید رہے ہیں، ویسا ہی لباس چھوٹوں کے لیے بھی خریدلیں۔ اس طرح کا رویہ بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اس کی ایک خامی تو یہ ہے کہ چھوٹے بچے اپنے بڑے بھائی یا بہن سے مقابلہ شروع کردیتے ہیں اور دوسرا اپنے والدین کی ان کو ترجیح دینے کی وجہ سے اپنے ذہن میں منفی ضد کا تاثر بٹھالیتے ہیں جو مستقبل میں ان کے لیے اچھی ثابت نہیں ہوتی۔
اگر آپ کے خیال میں جو لباس بچے اپنے لیے پسند کرنا چاہ رہے ہیں، وہ مناسب نہیں ہے تو ان کو پیار سے سمجھایا جائے، تاکہ وہ آئندہ کبھی ایسی خواہش کا اظہار نہ کریں۔ اچھے اور نفیس لباس کی اہمیت کے متعلق اپنے بچوں کو آگاہ کرنا اور ان کی اخلاقی تربیت کرنا والدین کی اولین ذمہ داریوں میں سے ایک ہے۔