جمہوریت میں جنگ نہیں ہوتی

اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے آصف زرداری خود بھی سب کچھ اور اپنی اور دوسروں کی مجبوریاں جانتے ہیں۔

گڑھی خدا بخش ہی میں اینٹ سے اینٹ بجا دینے کا اعلان کرنے والے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری نے پھر اعلان کیا ہے کہ اب صلح نہیں جنگ رہے گی اور پیپلز پارٹی اب نواز شریف سے سیاست چھڑوا کر رہے گی اور شریفوں کو اب پنجاب کی وزارت اعلیٰ بھی نہیں لینے دیں گے اور ان سے چالیس سالوں کا حساب لیا جائے گا۔ صلح کی بجائے جنگ کی باتیں کرنے والے سابق صدرکا تو یہ کہنا رہا ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے اور اسی جمہوریت کے لیے پیپلز پارٹی نے اسلام آباد دھرنوں میں نواز حکومت کا نہیں بلکہ جمہوریت کا ساتھ دینے کا دعویٰ کیا تھا۔

سب سے یاری کے دعویدار آصف زرداری نے تو (ق) لیگ کو قاتل لیگ بھی قرار دیا تھا جس کے بعد ایم کیو ایم سے تنگ آکر انھوں نے قاتل لیگ والوں کو نہ صرف اپنی حکومت میں شامل کیا بلکہ جس چوہدری پرویز الٰہی کو پیپلز پارٹی نے مبینہ طور پر بے نظیر بھٹو کا قاتل قرار دیا تھا اسی کو صدر زرداری نے غیر آئینی طور پر نائب وزیر اعظم بھی بنایا تھا جس کا آئین میں کوئی ذکر نہیں ہے ۔

آصف زرداری نے گڑھی خدا بخش میں خود اور بلاول زرداری کے ساتھ پارلیمنٹ میں آنے کا بھی کہا تھا جس پر دو سالوں میں عمل نہیں ہوا ۔ پی پی حکومت میں حلیف بنانے کے لیے آصف زرداری عزیز آباد بھی گئے تھے جس کے جواب میں قائد متحدہ نے بعد میں زرداری کو سب سے پہلے صدارت کے لیے نامزد کیا تھا۔ آصف علی زرداری ہی نے رائیونڈ جا کر شریفوں اور اپنی نسل کے درمیان مستقبل میں بھی تعلقات رکھنے اور نواز اور زرداری بھائی بھائی بننے کا اعلان کیا تھا۔

اب سابق صدر نے کہا ہے کہ نواز شریف نے ہمیشہ ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپا اس لیے اب جنگ رہے گی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ نواز شریف نے ہمارے ساتھ زیادتی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر کیا کچھ نہیں کیا اب ان پر مزید اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔

زرداری صاحب نے یہ بھی واضح کردیا کہ جب نواز شریف ختم ہوچکے ہوں گے تب ان سے بات ہوگی۔ ہم کسی کے ساتھ مل کر حکومت بنالیں گے مگر شریفوں سے نہیں ملیں گے۔ آصف زرداری نے نواز شریف کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ کی وجہ سے ہمارے دوست ہم سے دور ہوگئے اور میاں صاحب وہ دن یاد کریں جب ہم نے ان کی حکومت بچائی تھی۔ اس سے قبل زرداری صاحب اور اپوزیشن لیڈر یہ بھی کہہ چکے تھے کہ ہم نے نواز حکومت نہیں جمہوریت بچائی ہے۔ سابق صدر کا یہ کہنا ہے کہ نواز شریف سیاستدان نہیں بلکہ مغل شہنشاہ ہیں انھیں کسی بھی ملک میں زمین خرید کر وہاں اپنی بادشاہت قائم کرلینی چاہیے اور وہیں ان کی بادشاہت چل سکتی ہے۔


نواز شریف کے طرز حکمرانی پر آصف زرداری اور دیگر کی تنقید ان کے جمہوری مخالفین کا حق ہے اور یہ حق نواز شریف، عمران خان دوسروں کو بھی حاصل ہے جس کا مظاہرہ سب ہی کر رہے ہیں۔ کیونکہ عام انتخابات سر پر ہیں۔ حریف اور حلیف بدل رہے ہیں۔ نواز شریف کو بھی سیاسی اتحاد یاد آگیا ہے ،ضروری ہے کہ انھیں اپنی پارٹی میں اپنے پرانے ساتھیوں کو لے کر چلنے اور تنقید برداشت کرنے کی جرات پیدا کرنی چاہیے ۔

ایک تجزیہ کار نے درست کہا ہے کہ ہر پارٹی کا سربراہ اپنی پارٹی میں اپنی آمریت برقرار رکھتا ہے اور صرف '' یس سر'' سننے کا عادی ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ملک میں ہر سیاسی پارٹی خود کو جمہوری کہلاتی ہے مگر جماعت اسلامی کے سوا کہیں بھی جمہوریت نہیں شخصی آمریت قائم ہے مگر ہر کوئی جمہوریت کے گن گاتے نہیں تھکتا مگر اپنی پارٹی میں جمہوریت قائم کرتا ہے نہ جمہوریت برداشت کرتا ہے۔ جمہوریت کے نام پر 1973 کے بعد پیپلز پارٹی چار بار اور مسلم لیگ (ن) تین بار اور آمر کی چھتری میں محمد خان جونیجو، ظفر اللہ جمالی، چوہدری شجاعت (عارضی) اور شوکت عزیز کی بھی حکومتیں قائم رہیں اور آمروں سمیت کسی نے بھی جمہوریت کی اہمیت سے انکار نہیں کیا۔

یہ بھی ماننا پڑے گا کہ جمہوریت کی آواز میڈیا کو نواز حکومت میں وہ آزادی حاصل نہیں تھی جو جنرل پرویز کی غیر جمہوری اور آصف زرداری کی سیاسی حکومتوں میں تھی۔ ملک کی 70 سالہ تاریخ میں غیر جمہوری حکومتوں کے مقابلے میں نام نہاد ہی سہی مگر سیاستدانوں کی حکومتوں کی مدت اقتدار اب زیادہ ہوگئی ہے مگر جمہوری آمر بھی غیر جمہوری آمروں سے کم ثابت نہیں ہوئے۔

جس قوت کی خوشنودی سے آصف زرداری نے اپنے پانچ سال پورے کیے اسی قوت نے وزیر اعظم نواز شریف کو آصف زرداری سے ملنے نہیں دیا ہوگا اور اسی قوت نے بعد میں نواز شریف کو کہنے پر مجبور کرایا ہوگا کہ مجھے کیوں نکالا۔

اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے آصف زرداری خود بھی سب کچھ اور اپنی اور دوسروں کی مجبوریاں جانتے ہیں اور ان مجبوریوں اور سیاسی مصلحتوں کے ذمے دار بھی خود سیاستدان ہیں جو ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کے لیے کسی اور کے اشارے پر ناچنے پر مجبور ہیں اور نام جمہوریت کا لے کر آمریت اپنی برقرار رکھتے آرہے ہیں۔ اس لیے آصف زرداری کو بھی صلح کی بجائے جنگ کی باتیں زیب نہیں دیتیں کیونکہ وہ خود موقف بدلتے رہے ہیں جو جمہوریت برقرار رکھنے کی بھی سیاسی مجبوری ہے مگر جمہوریت میں آپس میں جنگ نہیں صلح کرنا ہی پڑتی ہے جیسی آصف زرداری ماضی میں کرتے بھی آئے ہیں۔
Load Next Story