اردو ادیب اور المیہ

اردو صحافت، جوکلی طور پر اردو کے ستون پر کھڑی نظر آتی ہے، اُسے بھی ہمہ وقت انگریزی سہارے کی ضرورت رہتی ہے۔

''ادیب کی بنیادی ذمے داری'' : ادیب کی بنیادی ذمے داری کیا ہے؟ ادب تخلیق کرنا ۔ بلاشبہ ! یہی وہ بنیادی تقاضا ہے، جو ہم ایک ادیب سے کرتے ہیں یا کرسکتے ہیں ۔ وہ اکلوتا تقاضا ، جو ہمیں کسی ادیب سے کرنا چاہیے۔۔۔معیاری ادب تخلیق کرناہی وہ کام ہے، جس کے لیے اسے اپنی بہترین صلاحیتیں اور بیش قیمت وقت وقف کرنا چاہیے ۔

البتہ اردو ادیب کا معاملہ دیگر۔ اُسے کئی مسائل درپیش ۔کئی تقاضے سامنے منہ کھولے کھڑے ہیں ۔ پہلے مرحلے میں وہ اپنی کل صلاحیتیں صرف کرکے ادب تخلیق کرتا ہے۔ پھراُسے کتابی صورت میں قارئین تک پہنچانے کی فکر میں لاحق ہوجاتا ہے۔ یہ فکر اسے ناشر کی استحصالی دنیا تک لے جاتی ہے۔ اب اردو کا ادیب اپنے ہی پیسوں سے اپنی صلاحیتوں کی اشاعت کا اہتمام کرتا ہے۔

جب کسی نہ کسی طرح اپنی سرمایہ کاری سے، اپنی کتاب چھاپ لیتا ہے، تو اسے بانٹنے نکلتا ہے کہ نئے ادیب کے لیے اپنی کی کتاب کی فروخت، تاکہ آنکہ وہ کائیاں نہ ہو، سمجھ لیجیے ناممکن ہے تو اب ہمارا ادیب، جو اپنا بنیادی وظیفہ بڑی حد تک ایمانداری سے نبھا چکا ہے، اپنی کتاب مشاہیر ، تبصرہ نگاروں، کالم کاروں کو ارسال کرنے کے مشن پر نکلا ہے اور جب یہ طویل اور صبر آزما مرحلہ طے ہوگیا، تب وہ بیٹھ کر انتظار کر رہا ہے کہ کتاب کی کہیں کوئی خبر چھپ جائے، کہیں کوئی تبصرہ لگے، کوئی کالم لکھ دے ۔ جلد یہ انتظار زندگی کا حصہ بن جاتا ہے، اور اس وقت تک قائم رہتا ہے، جب تک وہ کتاب کی آخری کاپی بانٹ نہیں دیتا ۔ 99 فی صد نئے ادیب اِس تلخ، مگر معمول کے تجربے سے گزرتے ہیں ۔ناشر عنقا ہوئے، کتب فروش کوکاروبار سے غرض۔ میڈیا ادب کی ترویج کو وقت کا زیاں سمجھتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قدر اذیت بھوگنے والے شخص سے ہم کیوں کر توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ ایک بار پھر اپنی تمام تر ذہنی، فکری، علمی صلاحیتیں صرف کرکے ایک اورکتاب لکھے اور پھر وحشت کے دائرے میں پھنس جائے۔

مگر انتظار کیجیے، وہ ایسا کرے گا۔ یہ جانتے ہوئے کہ ادب سراسرگھاٹے کا سودا ہے، وہ ایسا ہی کرے گا، اس امید پرکہ شاید اس بار وہ اس عمل کو ذرا بہتر انداز میں انجام دے سکے ، اس امید پر کہ شاید اس بارنتائج کچھ حوصلہ افزا ہوں، اس امید پر کہ شاید اس پاربات بن جائے گی۔ ہمارا ادیب اپنے بنیادی وظیفے، یعنی ادب تخلیق کرنے کے بعد اُس کی تشہیروترویج کے لیے جو عذاب اٹھاتا ہے، اس کے لیے اگر وہ کسی نشان سپاس کا نہیں، خراج تحسین کا نہیں،احترام کا نہیں، تورعایت کا ضرور حق دار ہے۔ اگرچہ ہم اسے وہ بھی دینے کو تیار نہیں۔

''اردو کو درپیش مسائل'': مذکورہ معاملے کا براہ راست تعلق اردو زبان کو درپیش مصائب سے ہے۔یہ ایک طویل موضوع ، جس میں قطعیت کے ساتھ کچھ کہنا دشوار کہ انفرادی و اجتماعی سطح پر فرد اور گروہ الگ الگ موقف اور تجربات کے حامل ہوسکتے ہیں۔ البتہ راقم الحروف اردو کو مندرجہ ذیل مسائل میں بالخصوص گھرا پاتا ہے۔


پہلا نکتہ : اردو کی معیشت کمزور ہے۔ ذرایع روزگار میں اس کی حیثیت ثانوی۔ یہاں تک کہ اردو صحافت، جوکلی طور پر اردو کے ستون پر کھڑی نظر آتی ہے، اُسے بھی ہمہ وقت انگریزی سہارے کی ضرورت رہتی ہے۔ ''دوسرا نکتہ'': ترقی اور تبدیلی میں کلید کی حیثیت رکھنے والے پاکستان کے متوسط طبقے کو انگریزی سے متعلق عملی زندگی میں احساس کمتری کا سامنا ہے۔اس کا ایک سبب تو ہماری تاریخ۔ ہم عشروں تک انگریزوں کے غلام رہے، آزادی کے بعد بھی اُن ہی کے نظام اور فکر کی ترویج کی۔ پھر ایک بڑی وجہ ہمارے سرکاری اسکولوں کی زبوں حالی اور نجی تعلیم کا بیوپار بننا بھی ہے۔ ''تیسرا نکتہ'': انگریزی رابطے کے ساتھ علوم کی بھی زبان۔ اُس کی وسعت، قوت اور اثر پذیری سے انکار دراصل اِسی احساس کمتری کی توسیع ہے، جس میں ہم مبتلاہیں۔ ''چوتھا نکتہ'': اردو اور انگریزی؛ دونوں زبانوں کو بوسیدہ نصابی کتابوں سے نکلا کر جدید تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے عملی انداز میں پڑھانے کی کوششیں کمیاب ہیں، اس وجہ سے بارہ برس یہ مضامین پڑھنے والے طلبا ان زبانوں پر عبور حاصل کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔

یہ مسائل کے ڈھیر میں چند بنیادی مسائل ہیں۔ اردوکی کمزور معیشت، اس کی ناقص تدریس ،اس سے جڑی احساس کمتری اور انگریزی کی برتری نے ایک ایسے عفریت کی شکل اختیار کر لی ،جو ہمیں خاموشی سے چاٹ گیا۔

''تین سوالات '':کتاب کی ترسیل و ترویج کے مسائل اور اردو کی کمزور معیشت کے پیش نظراردو ادب سے متعلق ذہن میں تین سوالات جنم لیتے ہیں:پہلا:کیا اردو ادب عالمی دنیا سے پیچھے رہ گیا؟ /دوسرا:کیا ہمارا ادیب حقیقی عالمی شہ پارہ تخلیق نہیں کرسکا؟/ تیسرا:کیا اس میں صلاحیت کی کمی ہے؟

پہلے دو سوالوں کا جواب تو ہاں میں ہے۔عالمی منظر میں اردو ادب حاشیہ پر بھی نہیں کہ ہمارے ادیبوں کے فن پارے عالمی ادبی فہرستوں میں جگہ نہ پاسکے۔ البتہ یہ جو تیسرا سوال ہے؛ کیا ہمارے ادیبوں میں صلاحیت کی کمی ہے؟ اس کا جواب اثبات میں دینا سہل نہیں۔ جی، اگر ان میں لگن اور صلاحیت کا فقدان ہوتا، توکیا نامساعد حالات، اس بے قیمتی اور گرانی میں ادب تخلیق کرپاتے؟ دراصل ایک بڑی دیوار اُن کی صلاحیتوں کے آڑے آگئی ۔ شاید آپ نے نامور لائف کوچ، ٹونی رابنزکی کتابیں پڑھی ہوں۔ ان میں بار بار ماڈلنگ کا تذکرہ آتا ہے۔ یعنی اگر کسی ادارے یا شخص نے کسی شعبے میں ایک خاص فکر اور مخصوص اقدامات کے ساتھ ترقی کی ہے، تو اُس کے طریقۂ کار کو اپنا کر، اس کے ماڈل کو سامنے رکھ کر دوسرا شخص بھی اس شعبے میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے۔

Neuro-linguistic programming میں ماڈلنگ کا استعمال سائنسی بنیادوں پر تسلیم شدہ اور دنیا بھر میں رائج۔اب اس تصور کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذرا غور کیجیے۔ ہمارے ادیبوں نے جم کر وکٹر ہیوگو، ڈکنز، مارک ٹوئن، ٹالسٹائی، دوستو فسکی، جین آسٹن ، او ہنری کو پڑھا۔ ان کے اسلوب کو سمجھا، حالات زیست اور افکار سے واقفیت حاصل کی، اور ان کا ترجمہ کرکے اُن زمینوں تک رسائی حاصل کرلی، جہاں عظیم فن پاروں کے بیج گرے تھے۔۔۔ ہمارے ادیبوں کے لیے ماحول بھی ساز گار تھا۔ انھیں جنگ، غلامی، سیاسی تحاریک، ہجرت اور غربت سمیت ادب کے تمام اہم موضوعات میسر تھے، پھر کیا یہ ممکن ہے کہ منٹو، بیدی، احمد ندیم قاسمی، قرۃ العین حیدر، انتظار حسین، انور سجاد، عبداللہ حسین، اسد محمد خاں، نیر مسعود، حسن منظر، مستنصر حسین تارڑ، رشید امجد، محمد حمید شاہد، مرزا اطہر بیگ اور اخلاق احمد حقیقی فن پارہ تخلیق نہ کرسکے ہوں؟

بے شک انھوں نے اچھا ادب تخلیق کیا، مگر اردو کی کمزور معیشت آڑے آگئی۔ ناخواندگی اور غربت سے جھوجتے عوام، اشرافیہ کی اردو سے شعوری دوری، حکومتی غفلت ؛ ان عوامل کے باعث ادیب کبھی رائے عامہ کے نمایندے نہیں بن سکے۔ وہ اہمیت حاصل نہ کرسکے۔جو باقی دنیا میں ادیبوں کو حاصل ہوئی (اقبال اور فیض جیسی مثالیں قلیل!) پھر ایک سبب اور رہا۔ ہمارے ادیبوں کی تخلیقات کا عالمی زبان، یعنی انگریزی میں ترجمہ نہیں ہوا۔ ہوا بھی، تو شاید وہ اتنا معیاری نہیں تھا۔ اور معیاری تھا بھی، تو بڑے پیمانے پر اس کی تشہیر نہیں ہوئی۔ ہماری تخلیقات کا بھی دیگر زبانوں میں ترجمہ ہونا چاہیے، تاکہ ہم اپنی حیثیت، یا کہہ لیجیے، اوقات، کا تعین کرسکیں۔ جان سکیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں۔

اوراگرکبھی ایسا، تو ہم بے شک ''جنگ اور امن''، ''اے ٹیل آف ٹو سٹیز''، ''لیس مزربلز''، ''موبی ڈک'' اور ''تنہائی کے سو سال'' تک نہیں پہنچ پائیں گے، مگر خود کو شناخت ضرور کروالیں گے۔ ممکن ہے، ہمارا ادب ہماری توقع اور اندیشوں سے کم بوداہو۔ ماڈلنگ کا کلیہ، ہماری لاعلمی کے باوجود اردو ادب کی تخلیق میں کارفرما رہا ہو۔ اردو ادب میں وہ شعلہ تو ضرور ہے، جو انگریزی میں ڈھلنے کے بعد قارئین کو متاثر نہیںسہی، البتہ متوجہ ضرورکرسکتا ہے۔آخراِسی ملک کے بپسی سدھوا، محسن حامد، محمد حنیف، کاملہ شمسی اور فاطمہ بھٹو نے بھی توعالمی شہرت اور بین الاقوامی اعزازت اپنے نام کیے۔سوچیے، اگر اُن کی کہانیاں اردو میں بیان کی گئی ہوتیں، تو کیا اُن کا اتنا شہرہ ہوتا ؟
Load Next Story