کچھ یادیں اور ایک نظم گو
’’آسمان، زمین پر کھونٹی تانے سویا ہوا ہے، دروازوں کی پستی، میرے اندر آگری ہے!‘‘
کچھ سڑکیں، کچھ جگہیں، کچھ چوبارے ایسے ہوتے ہیں جو آپ کی یادداشت پر شب و روز کی مصروفیات کی پڑی گرد کو پھونک مار دیتے ہیں۔ ایسی ہی ایک سڑک ہے جس سے میں روز گزرتا ہوں لیکن جس دن پوری حاضری کے ساتھ گزرتا ہوں تو اس دن یہ میری یادداشت پر پھونک مار کر دنوں کی گرد اڑا دیتی ہے۔۔۔ اور احسن سلیم کہیں سے آکر میرے پہلو بہ پہلو چلنے لگتے ہیں۔ یہاں ناظم آباد میں ایک پیڈسٹرین برج ہے۔ یہ سال خورد صوفی شاعر میری انگلیوں میں انگلیاں پھنساکر لوہے کے اس پل کو پار کرتے اور ہم یوں ہی دور تک چلتے چلتے کیفے ال حسین میں داخل ہوجاتے ہیں۔ ان کا فرمودہ کبھی کوئی نیا در وَا کردیتا ہے، کبھی راستہ کشادہ کردیتا ہے اور کبھی خود کو تنقید کے لیے بھی پیش کردیتا ہے۔
ہر موقعے پر ساتھ ہی رہتا ہے۔ کتنا عجیب ہے کہ آپ کا پیش رو، خود کو تنقید کے لیے پیش کرکے آپ کی رہنمائی کرتا ہے، مسکراتا ہے، فخر محسوس کرتا ہے۔ یہ بڑے لوگ ہوتے ہیں۔ قابل عزت ہوتے ہیں۔ کم ہی ہوتے ہیں جو تنقید کے اس حقیقی پہلو کو سمجھ لیتے ہیں۔ ان سے بے پناہ پیار ہوجاتا ہے۔ ایسے ہی ایک پروفیسر بھی ہیں، نقاد ہیں۔ سر پر، دوپٹے کی مانند دونوں اطراف میں منقسم، بالوں کا ایک گچھا ہے۔ میں اسے' دو بالا' کہتا ہوں۔ ڈاکٹر صلاح الدین درویش۔ یہ بھی احسن سلیم کی مانند درویش ہیں لیکن اگر تنقید سے وابستہ نہ ہوتے تو پورے کے پورے درویش ہوجاتے۔ میرا بھی یہی المیہ ہے۔ جب آپ تنقید کے شعبے سے منسلک ہوتے ہیں تو آپ کے اندر کا صوفی اور درویش آپ سے روٹھ جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب جس طرح دوسروں پر کھل کر تنقید کرتے ہیں، اسی طرح خود کو تنقید کے لیے پیش کرکے بہت خوش ہوتے ہیں۔ میں انھیں علامہ سر ڈاکٹر صلاح الدین الدرویش کہتا ہوں۔ کیوں کہ یہ اپنے پیش رو علامہ محمد اقبال کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ان پر کھل کر تنقید کرتے ہیں۔ اقبال پہلی بار، اگر انھیں عالم بالا میں خبر دی گئی ہوگی تو، خود پر تنقید دیکھ کر خوش ہوئے ہوں گے، اور انھوں نے تصور میں صلاح الدین کے کندھوں کو تھپتھپایا ہوگا۔ مسکرایا ہوگا۔ روشنی جیسی مسکراہٹ۔ یہ سب بڑے لوگ ہیں۔ تاریخ کی پگڈنڈیوں سے گزرتے ہوئے، اپنے بڑے پن کو سمجھتے ہوئے، خود کو اور اپنے فرمودات کو تنقید کے لیے چھوڑ دیتے ہیں تاکہ روشنی کے اجزا زمانے کے رنگوں کے ساتھ مطابقت میں لائے جاسکیں۔
نثری نظم جتنی اب معتبر ہے، اتنی اس وقت نہ تھی جب احسن سلیم جوان تھے اور جہاں بڑے بڑے مشاعروں میں غزل، اور اس پر بھی، ترنم کے ساتھ پڑھنے والے غزل گو کا سکہ چلتا تھا، وہاں یہ متھ کو توڑنے والا اور سماج میں رائج معانی سے انحراف کرنے والا شاعر نثری نظم سنایا کرتا تھا اور سب سے زیادہ داد لوٹ لیتا تھا۔ وراثت ان کی ایک طویل نثری نظم ہے جو زبان اور فن کی سطح پر اپنا ایک الگ ہی جہان تشکیل دیتی ہے۔ اس لیے سننے اور پڑھنے والا اگر اس میں کوئی معانی تلاش کرنے نکلتا ہے تو اَنجان گلیوں میں بری طرح بھٹک جاتا ہے۔ یہ ایک بڑے شاعر کی خوبی ہوتی ہے۔ یہ لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ سب اس سے پل بھر میں مانوس ہوجاتے ہیں۔ انھیں پتا نہیں ہوتا کہ شاعر انھیں کس بھول بھلیاں میں لے جانے والا ہے۔ جہاں ہر طرف راستے ہوتے ہیں لیکن نکلنے والا راستہ ہوکر بھی کہیں نہیں ہوتا۔ دیکھیے، وہ کس طرح تاریخ کے دروازوں کو ٹھوکر مارتے ہوئے ایک نئے زمانے میں داخل ہوتے ہیں اور لوگوں کو اس سے مانوس بناتے ہیں:
''آسمان، زمین پر کھونٹی تانے سویا ہوا ہے، دروازوں کی پستی، میرے اندر آگری ہے!''
''یہ میرے اندر کی سرکشی ہے، میں کسی بستی کو، آزمائش میں ڈالے بغیر، اپنے گیتوں کو ذبح کرتا ہوں، خوابوں کو ڈرا دیتا ہوں!''
''زندہ لہجے میں اُترتی ہوئی شام، مردہ مٹی کو بوسہ دیتی ہے، ہوا اپنا رخ بدل لیتی ہے، پھر رات چراغوں سے نکل آتی ہے، چوہے بالا خانوں پر نظر آتے ہیں، چور اپنی آنکھیں، اجنبی گھروں میں چھوڑ آتے ہیں۔''
مانوسیت کیا ہے؟ جب ایک سامع، جب ایک قاری لفظ کے متعین معنی کو فوری اخذ کرتا ہے۔ جب اس کا ذہن اسی راستے پر چل پڑتا ہے جس پر سماجی عمل (سوشل پروسیس) اسے لے کر جانا چاہتا ہے۔ لیکن ایک شاعر زبان اور سماج کے تمام تعینات پر سوالیہ نشان لگادیتا ہے۔ انھیں شک کے دائرے میں کھینچ کر لاتا ہے اور دوسرا اور تیسرا رخ دکھاتا ہے۔ حقیقت کے زیادہ قریب کرتا ہے۔ احسن سلیم نے اپنی شعری زبان اور شعری آہنگ سے یہی کام کیا۔ مانوس بنایا اور پھر تعینات کو تہس نہس کردیا۔ جب فضا میں بستی جلنے کا اندیشہ پل رہا ہو تو یہ بانسری کو توڑ دینے کا عزم کرتا ہے۔ بستی کی بقا کے لیے اپنے خوابوں کے سامنے سرکشی کرتا ہے۔
سرکشی کا مانوس عمل دوسروں کے سامنے سرکشی سے عبارت ہے لیکن یہ شاعر اپنے خوابوں کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ ہمارے خواب دوسروں کو آزمائش میں ڈال دیتے ہیں، سرکشی ان خوابوں کے سامنے کرنی چاہیے۔ وقت نے کیا پلٹا کھایا ہے کہ ظلم کے آگے مجسم ہونے والے زندہ لہجوں پر شام کا سرور اتر آیا ہے اور یہ مردہ مٹی کو بوسہ دینے جھک گئے ہیں۔ چوہے، بالا خانے، چور، آنکھیں، اجنبی گھر یہ سب زبان کے مانوس اشارے ہیں۔ لیکن شاعر نے کس بلند آہنگی سے ان کی مدد سے ایک الگ منظر کی تشکیل کی ہے۔ ایسا نظر آتا ہے کہ تاریخ کے اوراق پر ہر طرف چوہے دوڑ رہے ہوں۔ اور ان کی مردہ آنکھیں بالا خانوں سے جھانک کر تماشا کرنے والوں سے داد مانگتی ہوں۔ یہ احسن سلیم ہے جو ہمارے تاریخی متھ سے نقاب اتار کر اپنی جڑیں کترنے والے چوہوں کا نظارہ کراتا ہے۔ دیکھیں، مانوس زبان میں وہ کس طرح نامانوس منظر تخلیق کرتا ہے:
''کبھی دسترس میں نہ آنے والی یہ زندگی، مُردوں سے ہمیشہ جنگ ہارتی ہے، ہارے ہوئے بدگمان بھکاری، میری پناہ گاہ میں شطرنج کھیلنے کی مشق کرتے ہیں، اور جھوٹ سے اپنا پیٹ بھرتے ہیں، ان کے پیٹ مقدس غار ہیں، جہاں چور ظہورِ ثانی کے منتظر ہیں!''
''اس سال امرود کے درختوں نے کیڑوں کو جنم دیا ہے، پچھلے سال شہتوت نے سانپ پیدا کیے تھے، سانپ ریشم سے نکل کر جوان ہوتے ہوئے شیروں کو ڈس لیتے ہیں، جنگل کا دستور تمہارے اوپر لیٹی ہوئی ننگی رات ہے!!''
''تمہارے غبارے میں کسی نے عقل کی ہوا بھردی ہے، اور تمہاری عقل نے خدا کو اپنے اندر قید کرلیا ہے، تم ریستورانوں کے بند کیبنوں میں، بے کار ماچس کی تیلیاں ضایع کرتے ہو۔''
''کل رات تمہارے گھر کی دیواروں پر ایک اجنبی خواب اُتر آیا تھا، پتھر کے غاروں سے چمک دار بوٹوں کی قطاریں نکل آئی تھیں، کھیتوں میں سوئی ہوئی چاندنی زخمی حالت میں آسمانوں کو پرواز کر گئی، چاند کی پوروں سے برستے پھول، تمہارے گھر کی جڑوں میں خون ہوگئے، تمہاری کہکشاں بوڑھے جنرل کو رسی میں لپیٹ کر کالے پانی میں جاگری، دروازوں کی پستی میرے اندر آگری۔''
''رات کے اوّلین حصے میں صبح ہونے کا اعلان، ہمارے ساتھ ایک بھیانک مذاق تھا، ایسا مذاق جو بوڑھی طوائف، عمر کے آخری حصے میں اپنے میک اپ سے کرتی ہے!!''