دریائے سندھ کا ’’سفید ہاتھی‘‘
کروڑوں روپے خرچ مگر نتیجہ صفر۔
حکومت پنجاب کی ان لینڈ واٹر ٹرانسپورٹ ڈویلپمنٹ کمپنی نے پانچ سو ملین روپے کی لا گت سے دریائے سندھ میں داؤدخیل اور اٹک کے درمیان پاکستان کی پہلی دریا ئی کا رگو سروس کے پراجیکٹ کا آغاز کر دیا ہے۔
اس پائلٹ پراجیکٹ کے تحت دریائے سندھ میں چھوٹے بحری جہازوں کے ذریعہ دا ؤدخیل تا اٹک دو سو کلو میٹر تک یہ بحری جہا زصرف مال بر داری کی صلاحیت رکھتے ہے ۔اس مقصد کے لیے کمپنی کے چھ کر وڑروپے کی لا گت سے تیار کر دہ پہلے جہاز کا نا م ''ہاتھی '' رکھا گیا۔
عنقریب وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس پر اجیکٹ کا باقاعدہ افتتاح کر نا تھا۔ ایکسپریس میڈیا ٹیم کی موجودگی میں اس ''ہاتھی ''کوجب تجرباتی طورپر دریائے سندھ میں اتا را گیاتو یہ ریت میںپھنس گیا۔ اس ''ہاتھی ''میں زیادہ تر چیزیں سیکنڈ ہینڈ لگی ہوئی تھی۔ انجن بھی سیکنڈہینڈ جو دوبئی سے خریدکرقلعی کرایا گیا تھا۔ بیکار انجن کی وجہ سے ''ہاتھی '' پانی میںنہ مڑ سکتا تھا اورنہ پانی کے بہاؤ کے خلاف چل سکتا تھا۔ اگر اس میں300ٹن ما ل لوڈہوگاتو اس کاچلناناممکن لگتا ہے۔
جب دریا میں کم پانی ہوگاتو جہازپانی میں سفر نہیںکر سکتا۔اس لیے سردیوں میں دریا ئی کا رگو سروس تین ماہ بندرہے گی۔د اؤدخیل اور اٹک کے درمیان سفر میں دو دن لگیںگے کیونکہ رات کو یہ سفر نہیںکرے گا۔جبکہ روڈکے ذریعے چھ گھنٹے لگتے ہیں۔گویا یہ ایک ناکام منصوبہ ہے۔ باقی روپے بھی اسی طرح خردبرد ہورہے ہیں ۔کیا یہ منصوبہ قابل عمل ہے جس پہ گورنمنٹ پنجاب کاپیسہ صرف ہورہا ہے یا بعدمیںلوگوںکوپا رٹنر شپ کی دعوت دی جائے گی۔
کچھ عرصہ قبل وزیر آبپا شی پنجاب رائے یا ور زمان سیکرٹری آبپا شی کے ہمراہ جا ئز ہ لینے آ ئے تھے۔ ان کے اصرارکے باوجودجہازنہیں چلاگیا۔ان کو زبانی جمع خرچ کے بعدواپس بھیج دیا گیا۔سول سوسائٹی اور اہل علاقہ کی وزیر اعلیٰ پنجاب سے اپیل ہے کہ ٹیکنیکل ٹیم کے ذریعے مکمل تحقیق کی جائے تاکہ یہ ''ہا تھی'' سفیدہاتھی نہ بن جائے۔کمپنی منیجراقبال نے ر ابطے پربتایاکہ جب مناسب وقت ملے گا، وزیراعلیٰ پنجاب کوبلواکر''ہا تھی'' کا با قاعدہ افتتاح کرائیں گے جو آج دن تک نہیں کرایاگیا۔ میری معلومات کے مطابق ''ہا تھی'' کو ایک دفعہ اٹک تو دور کی بات ہے مکھڈ تک لے جایا گیا۔اس دوران ایک ہفتے سے زیادہ وقت لگا اور دریا میں موجودچٹانوں سے ٹکرانے کی وجہ سے جہاز کا کافی نقصان ہوا۔ ابھی تک اس کی مرمت مکمل نہیں ہوئی ۔
اب دریا ئی کا رگو سروس کا پر اجیکٹ مکمل فیل ہو چکا۔ اگلے مرحلے میں لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے ''فیری'' کے نام سے نئی سروس شروع کی جا رہی ہے جس کے لیے علیحدہ بیس کروڑ کے بجٹ سے کشتیاں وغیرہ منگوائی گئی ہیں۔23 مارچ کو اس کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ان کشتیوں کے ذریعے داؤدخیل سے کالاباغ تک لوگوں کو سیر کرائی جائے گئی۔ اس کا کرایہ پندرہ سو روپے فی آدمی ہو گا ۔پندرہ سے زیادہ آدمیوں کی صورت میں یہ فیری چلائی جائے گئی۔
فیری داؤدخیل جس مقام سے چلائی جائے گئی، وہ ویران ہے ۔فیری تک پہنچنے کے لیے ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہو گی۔ اگر کالاباغ سے چلائی جاتیں تو شاید کچھ پذیرائی مل جاتی۔ مقامی کشتیاں دوسو سے چار سو روپے میں سیر کرادیتی ہیں ۔یہ سارے پیسے ،ملازہین کی تنخواہیںاوردیگراخراجات چار سال سے ضائع ہو رہے ہیں اور ارباب اختیار کی کوئی توجہ نہیں۔ انتظامیہ سے رابطے پر بتایا گیاکہ مناسب وقت پر ''ہاتھی'' کا آغاز ہو گا ۔نیز سیر وسیاحت کے لیے مزید اقدامات کیے جائے گئے اور فیری کو مکھڈشریف اوراٹک تک بڑھایاجائے گا۔(مضمون نگار میانوالی میں نمائندہ ایکسپریس ہیں)
طارق سعید اعوان
اس پائلٹ پراجیکٹ کے تحت دریائے سندھ میں چھوٹے بحری جہازوں کے ذریعہ دا ؤدخیل تا اٹک دو سو کلو میٹر تک یہ بحری جہا زصرف مال بر داری کی صلاحیت رکھتے ہے ۔اس مقصد کے لیے کمپنی کے چھ کر وڑروپے کی لا گت سے تیار کر دہ پہلے جہاز کا نا م ''ہاتھی '' رکھا گیا۔
عنقریب وزیر اعلیٰ پنجاب کو اس پر اجیکٹ کا باقاعدہ افتتاح کر نا تھا۔ ایکسپریس میڈیا ٹیم کی موجودگی میں اس ''ہاتھی ''کوجب تجرباتی طورپر دریائے سندھ میں اتا را گیاتو یہ ریت میںپھنس گیا۔ اس ''ہاتھی ''میں زیادہ تر چیزیں سیکنڈ ہینڈ لگی ہوئی تھی۔ انجن بھی سیکنڈہینڈ جو دوبئی سے خریدکرقلعی کرایا گیا تھا۔ بیکار انجن کی وجہ سے ''ہاتھی '' پانی میںنہ مڑ سکتا تھا اورنہ پانی کے بہاؤ کے خلاف چل سکتا تھا۔ اگر اس میں300ٹن ما ل لوڈہوگاتو اس کاچلناناممکن لگتا ہے۔
جب دریا میں کم پانی ہوگاتو جہازپانی میں سفر نہیںکر سکتا۔اس لیے سردیوں میں دریا ئی کا رگو سروس تین ماہ بندرہے گی۔د اؤدخیل اور اٹک کے درمیان سفر میں دو دن لگیںگے کیونکہ رات کو یہ سفر نہیںکرے گا۔جبکہ روڈکے ذریعے چھ گھنٹے لگتے ہیں۔گویا یہ ایک ناکام منصوبہ ہے۔ باقی روپے بھی اسی طرح خردبرد ہورہے ہیں ۔کیا یہ منصوبہ قابل عمل ہے جس پہ گورنمنٹ پنجاب کاپیسہ صرف ہورہا ہے یا بعدمیںلوگوںکوپا رٹنر شپ کی دعوت دی جائے گی۔
کچھ عرصہ قبل وزیر آبپا شی پنجاب رائے یا ور زمان سیکرٹری آبپا شی کے ہمراہ جا ئز ہ لینے آ ئے تھے۔ ان کے اصرارکے باوجودجہازنہیں چلاگیا۔ان کو زبانی جمع خرچ کے بعدواپس بھیج دیا گیا۔سول سوسائٹی اور اہل علاقہ کی وزیر اعلیٰ پنجاب سے اپیل ہے کہ ٹیکنیکل ٹیم کے ذریعے مکمل تحقیق کی جائے تاکہ یہ ''ہا تھی'' سفیدہاتھی نہ بن جائے۔کمپنی منیجراقبال نے ر ابطے پربتایاکہ جب مناسب وقت ملے گا، وزیراعلیٰ پنجاب کوبلواکر''ہا تھی'' کا با قاعدہ افتتاح کرائیں گے جو آج دن تک نہیں کرایاگیا۔ میری معلومات کے مطابق ''ہا تھی'' کو ایک دفعہ اٹک تو دور کی بات ہے مکھڈ تک لے جایا گیا۔اس دوران ایک ہفتے سے زیادہ وقت لگا اور دریا میں موجودچٹانوں سے ٹکرانے کی وجہ سے جہاز کا کافی نقصان ہوا۔ ابھی تک اس کی مرمت مکمل نہیں ہوئی ۔
اب دریا ئی کا رگو سروس کا پر اجیکٹ مکمل فیل ہو چکا۔ اگلے مرحلے میں لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لیے ''فیری'' کے نام سے نئی سروس شروع کی جا رہی ہے جس کے لیے علیحدہ بیس کروڑ کے بجٹ سے کشتیاں وغیرہ منگوائی گئی ہیں۔23 مارچ کو اس کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ان کشتیوں کے ذریعے داؤدخیل سے کالاباغ تک لوگوں کو سیر کرائی جائے گئی۔ اس کا کرایہ پندرہ سو روپے فی آدمی ہو گا ۔پندرہ سے زیادہ آدمیوں کی صورت میں یہ فیری چلائی جائے گئی۔
فیری داؤدخیل جس مقام سے چلائی جائے گئی، وہ ویران ہے ۔فیری تک پہنچنے کے لیے ٹرانسپورٹ کی ضرورت ہو گی۔ اگر کالاباغ سے چلائی جاتیں تو شاید کچھ پذیرائی مل جاتی۔ مقامی کشتیاں دوسو سے چار سو روپے میں سیر کرادیتی ہیں ۔یہ سارے پیسے ،ملازہین کی تنخواہیںاوردیگراخراجات چار سال سے ضائع ہو رہے ہیں اور ارباب اختیار کی کوئی توجہ نہیں۔ انتظامیہ سے رابطے پر بتایا گیاکہ مناسب وقت پر ''ہاتھی'' کا آغاز ہو گا ۔نیز سیر وسیاحت کے لیے مزید اقدامات کیے جائے گئے اور فیری کو مکھڈشریف اوراٹک تک بڑھایاجائے گا۔(مضمون نگار میانوالی میں نمائندہ ایکسپریس ہیں)
طارق سعید اعوان