بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے
ملک میں زیادہ سے زیادہ صوبے بنیں گے تو اقتدار زیادہ جگہ تقسیم ہوگا
بالآخر ''صوبہ جنوبی پنجاب محاذ'' کا اعلان کر دیا گیا۔ یہ اعلان مسلم لیگ ن چھوڑنے والے دس پارلیمنٹرینز کی طرف سے کیا گیا، جنوبی پنجاب سے (ن) لیگ کے6قومی اوردو رکنِ صوبائی اسمبلی نے پارٹی اور اسمبلی رکنیت مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے ،ان میں خسرو بختیار،عالم داد لالیکا، طاہر اقبال چوہدری، طاہر بشیر چیمہ، رانا قاسم نون، باسط سلطان بخاری اور سمیرا سمیع شامل ہیں، ان کے ساتھ آزاد رکن نصراللہ دریشک نے بھی مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔سابق نگراں وزیراعظم بلخ شیرمزاری محاذ کے چیئرمین، خسرو بختیار صدر جب کہ طاہر بشیر جنرل سیکریٹری ہوںگے۔
ہوسکتا ہے کہ یہ ایک الیکشن ''اسٹنٹ'' ہو ، یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ''محاذ'' 2013ء کے الیکشن سے قبل اُٹھنے والی تحریک کی طرح کا ہو جو الیکشن ختم ہونے کے ساتھ ہی دفن ہوگئی تھی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے کسی ''غیبی طاقت '' نے پُش کیا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان اراکین اسمبلی کے اپنے اپنے مفادات ہوں ، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اراکین اسمبلی اپنا ''ریٹ'' بڑھانے کے لیے ''جنوبی پنجاب'' کا کارڈ استعمال کرنا چاہتے ہوں۔ یہ سارے ''وہم'' ایک طرف مگر میرا ذاتی تجربہ جنوبی پنجاب کے حوالے سے بڑا ہی تلخ رہا ہے۔ مجھے شاید پنجاب کے حکمرانوں سے اس قدر نفرت نہ ہوتی اگر میں خود وہاں کے عوام کی حالت دیکھنے کے تجربے سے نہ گزر جاتا۔
میں نے اپنے ہر کالم میں کہا کہ خدارا جس شخص کے پاس لاہور آنے جانے کا کرایہ نہیں ہے وہ کیسے اپنا کیس لاہور ہائیکورٹ میں آکر لڑے گا، وہ کیسے چیف سیکریٹری یا کسی متعلقہ سیکریٹری کے پاس آسکے گا۔ آپ حساب لگا لیں کے پنجاب کا ایک شہر سے دوسرے شہر کا فاصلہ کم سے کم ایک گھنٹہ اور زیادہ سے زیادہ بارہ گھنٹے ہے۔ دنیا میں ہمیشہ چھوٹے یونٹس ہی ترقی کیا کرتے ہیں۔ یہ دنیا کا چوتھا بڑا صوبہ ہے جس کی آبادی بارہ کروڑ ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص 12کروڑ لوگوں کے مسائل حل کرے؟
صوبہ پنجاب پاکستان کے کل رقبے (7لاکھ5 9ہزار مربع کلومیٹر) کا 26فیصد یعنی 2لاکھ 5ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ پنجاب کے 36اضلاع ہیں۔ دنیا میں کہاں ایسا ہوتا ہے کہ ایڈمنسٹریٹو طور پر اتنا بڑا یونٹ قائم کردیا گیا ہو اور پھر ترقی کی امید بھی لگا لی جائے۔ پاکستان کی نصف آبادی سے بھی کم آبادی رکھنے والے ممالک مثلاً ترکی،افغانستان، بھارت اور ایران پاکستان سے زیادہ انتظامی اکائیاں رکھتے ہیں۔ ترکی کی آبادی آٹھ کروڑہے جب کہ81 صوبے ہیں، افغانستان کی آبادی 3کروڑ ہے جب کہ 34 صوبے ہیں، ملائشیا کی آبادی 3کروڑہے جب کہ24صوبے ہیں، بھارت کی آبادی سوا ارب ہے جب کہ 28صوبے ہیں( مزید اس میں اضافہ کیا جا رہا ہے، ایران کی آبادی 8کروڑہے جب کہ 31 صوبے ہیں۔
بلخ شیر مزاری نے گزشتہ روز ''محاذ'' کا اعلان کیا تو مجھے یقین مانیں بڑا دکھ ہوا کہ جن لوگوں کو پانچ سالوں میں صوبہ بنا لینا چاہیے تھا، انھیں حکومت کے آخری دنوں میں یاد آیا کہ '' جنوبی پنجاب '' صوبہ بننا چاہیے۔ بقول داغ دہلوی
نتیجہ نہ نکلا، تھکے سب پیامی
وہاں جاتے جاتے یہاں آتے آتے
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
آج وہاں کسی حد تک احساس محرومی ہے۔ جہاں نہ بہترتعلیم کے لیے اسکولز، یونیورسٹیز ہیں اور نہ ہی کوئی بہتراسپتال ہے۔ اقتصادی اور صنعتی توازن بھی وسطی پنجاب کی طرف ہے۔ جنوبی پنجاب میں روزگار کے مواقع نہیں جسکی وجہ سے احساس محرومی بڑھ رہا ہے۔ موجودہ وفاقی ڈھانچے میں پنجاب اپنی زیادہ آبادی کے باعث وفاق کے فیصلوں پر حاوی نظر آتا ہے۔ جنوبی پنجاب کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہاہے جب کہ اس کے برعکس فنڈز کم اور ترقیاتی کام نہیں کرائے جاتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کی آبادی 6کروڑ 75لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔جنوبی پنجاب کواپرپنجاب کے مقابلے میں 25فیصد فنڈز ملتا ہے جب کہ 75فیصد وسطی اور اپرپنجاب استعمال کرتاہے۔
اگر ملک میں زیادہ سے زیادہ صوبے بنیں گے تو اقتدار زیادہ جگہ تقسیم ہوگا اور کرپشن کے مواقع کم سے کم پیش آئیں گے۔ مثلاََ سادہ سی بات ہے کہ فرض کیا پنجاب کا بجٹ اس وقت 1ہزار ارب روپے سالانہ ہے ، اب جتنے پیسے زیادہ ہوں گے کرپشن بھی اُتنے ہی بڑے پیمانے پر ہوگی، اور اگر پنجاب کے ہی 6صوبے ہوتے تو یہ بجٹ تقسیم ہو جاتا اور کرپشن کے مواقع کم سے کم ملتے۔ اور ہر صوبہ اپنے اپنے عوام کو جوابدہ ہوتاہے اور میں نے گزشتہ سال جون میں ایک کالم لکھا تھا اس میں میں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ جتنے زیادہ صوبے ہوں گے اتنا ہی ٹیلنٹ نکل کر سامنے آئے گا، مقابلے کی فضاء پیدا ہوگی،
زیادہ سے زیادہ قائدین بلکہ ایماندار قائدین نکل کر سامنے آئیں گے۔ راقم اس حوالے سے پہلے بھی یہ بھی تجویز دے چکا ہے کہ یہ تقسیم جنوبی پنجاب میں تین ڈویژنوں کی شکل میں کی جائے جن میں بہاولپور ڈویژن (بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یار خان)، ملتان ڈویژن (ملتان، خانیوال، وہاڑی، لودھراں)، ڈیرہ غازی خان ڈویژن (ڈیرہ غازی خان، لیہ، مظفرگڑھ، راجن پور)شامل ہیں۔اگر فی الحال جنوبی پنجاب کو الگ انتظامی یونٹ بنا دیا جائے اور ملتان کو دارالخلافہ قرار دے دیا جائے تو یقینا وہاں کے عوام کے 100فیصد مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ (ملتان چونکہ تمام جنوبی اضلاع کا مرکز ہے اور نسبتاََ بہتر شہر ہے اس لیے ملتان بہترین انتخاب ہوگا)۔
میرے خیال میں ایڈمنسٹریٹو بنیادوں پر پنجاب کو مختلف صوبوں میں تبدیل کیا جانا بہت ضروری ہے ، لیکن یہ نا تو لسانی بنیادوں پر تقسیم ہو اور نہ ہی قومیتی بنیادوں پر ہو ۔ایسا کرنے سے پارلیمنٹ میں توازن قائم ہوگا اور جمہوری فیصلے پر عملدرآمد میں مدد ملے گی۔ جنوبی پنجاب کے طلبہ اور طالبات میں ٹیلنٹ موجود ہے مگر پنجاب کے ترقی یافتہ اضلاع کی طرح یہاں کے طلبہ اور طالبات کو جدید سہولتیں میسر نہ ہونے کی وجہ سے مقابلہ کے امتحانات میں ترقی یافتہ اضلاع کے طلبہ و طالبات آگے نکل جاتے ہیں۔جنوبی پنجاب کے صوبہ بننے سے صوبائی دارالحکومت قریب تر ہونے سے تمام صوبائی ،سرکاری محکمہ جات سے متعلق مسائل احسن طریقے سے حل ہوںگے اور دور دراز کے سفر سے نجات مل جائے گی۔لہٰذااسے سیاسی مسئلہ بنانے کے بجائے عوام کا مسئلہ بنا کر اسے حل کیا جائے۔ اور تمام سٹیک ہولڈرز لالچ، ہوس کا لبادہ اُتار کر اس پر کام کریں تاکہ قومی مفاد میں ہم آگے بڑھ سکیں۔
ہوسکتا ہے کہ یہ ایک الیکشن ''اسٹنٹ'' ہو ، یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ ''محاذ'' 2013ء کے الیکشن سے قبل اُٹھنے والی تحریک کی طرح کا ہو جو الیکشن ختم ہونے کے ساتھ ہی دفن ہوگئی تھی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسے کسی ''غیبی طاقت '' نے پُش کیا ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ان اراکین اسمبلی کے اپنے اپنے مفادات ہوں ، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اراکین اسمبلی اپنا ''ریٹ'' بڑھانے کے لیے ''جنوبی پنجاب'' کا کارڈ استعمال کرنا چاہتے ہوں۔ یہ سارے ''وہم'' ایک طرف مگر میرا ذاتی تجربہ جنوبی پنجاب کے حوالے سے بڑا ہی تلخ رہا ہے۔ مجھے شاید پنجاب کے حکمرانوں سے اس قدر نفرت نہ ہوتی اگر میں خود وہاں کے عوام کی حالت دیکھنے کے تجربے سے نہ گزر جاتا۔
میں نے اپنے ہر کالم میں کہا کہ خدارا جس شخص کے پاس لاہور آنے جانے کا کرایہ نہیں ہے وہ کیسے اپنا کیس لاہور ہائیکورٹ میں آکر لڑے گا، وہ کیسے چیف سیکریٹری یا کسی متعلقہ سیکریٹری کے پاس آسکے گا۔ آپ حساب لگا لیں کے پنجاب کا ایک شہر سے دوسرے شہر کا فاصلہ کم سے کم ایک گھنٹہ اور زیادہ سے زیادہ بارہ گھنٹے ہے۔ دنیا میں ہمیشہ چھوٹے یونٹس ہی ترقی کیا کرتے ہیں۔ یہ دنیا کا چوتھا بڑا صوبہ ہے جس کی آبادی بارہ کروڑ ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شخص 12کروڑ لوگوں کے مسائل حل کرے؟
صوبہ پنجاب پاکستان کے کل رقبے (7لاکھ5 9ہزار مربع کلومیٹر) کا 26فیصد یعنی 2لاکھ 5ہزار مربع کلومیٹر ہے۔ پنجاب کے 36اضلاع ہیں۔ دنیا میں کہاں ایسا ہوتا ہے کہ ایڈمنسٹریٹو طور پر اتنا بڑا یونٹ قائم کردیا گیا ہو اور پھر ترقی کی امید بھی لگا لی جائے۔ پاکستان کی نصف آبادی سے بھی کم آبادی رکھنے والے ممالک مثلاً ترکی،افغانستان، بھارت اور ایران پاکستان سے زیادہ انتظامی اکائیاں رکھتے ہیں۔ ترکی کی آبادی آٹھ کروڑہے جب کہ81 صوبے ہیں، افغانستان کی آبادی 3کروڑ ہے جب کہ 34 صوبے ہیں، ملائشیا کی آبادی 3کروڑہے جب کہ24صوبے ہیں، بھارت کی آبادی سوا ارب ہے جب کہ 28صوبے ہیں( مزید اس میں اضافہ کیا جا رہا ہے، ایران کی آبادی 8کروڑہے جب کہ 31 صوبے ہیں۔
بلخ شیر مزاری نے گزشتہ روز ''محاذ'' کا اعلان کیا تو مجھے یقین مانیں بڑا دکھ ہوا کہ جن لوگوں کو پانچ سالوں میں صوبہ بنا لینا چاہیے تھا، انھیں حکومت کے آخری دنوں میں یاد آیا کہ '' جنوبی پنجاب '' صوبہ بننا چاہیے۔ بقول داغ دہلوی
نتیجہ نہ نکلا، تھکے سب پیامی
وہاں جاتے جاتے یہاں آتے آتے
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
آج وہاں کسی حد تک احساس محرومی ہے۔ جہاں نہ بہترتعلیم کے لیے اسکولز، یونیورسٹیز ہیں اور نہ ہی کوئی بہتراسپتال ہے۔ اقتصادی اور صنعتی توازن بھی وسطی پنجاب کی طرف ہے۔ جنوبی پنجاب میں روزگار کے مواقع نہیں جسکی وجہ سے احساس محرومی بڑھ رہا ہے۔ موجودہ وفاقی ڈھانچے میں پنجاب اپنی زیادہ آبادی کے باعث وفاق کے فیصلوں پر حاوی نظر آتا ہے۔ جنوبی پنجاب کی آبادی میں مسلسل اضافہ ہورہاہے جب کہ اس کے برعکس فنڈز کم اور ترقیاتی کام نہیں کرائے جاتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کی آبادی 6کروڑ 75لاکھ سے بڑھ چکی ہے۔جنوبی پنجاب کواپرپنجاب کے مقابلے میں 25فیصد فنڈز ملتا ہے جب کہ 75فیصد وسطی اور اپرپنجاب استعمال کرتاہے۔
اگر ملک میں زیادہ سے زیادہ صوبے بنیں گے تو اقتدار زیادہ جگہ تقسیم ہوگا اور کرپشن کے مواقع کم سے کم پیش آئیں گے۔ مثلاََ سادہ سی بات ہے کہ فرض کیا پنجاب کا بجٹ اس وقت 1ہزار ارب روپے سالانہ ہے ، اب جتنے پیسے زیادہ ہوں گے کرپشن بھی اُتنے ہی بڑے پیمانے پر ہوگی، اور اگر پنجاب کے ہی 6صوبے ہوتے تو یہ بجٹ تقسیم ہو جاتا اور کرپشن کے مواقع کم سے کم ملتے۔ اور ہر صوبہ اپنے اپنے عوام کو جوابدہ ہوتاہے اور میں نے گزشتہ سال جون میں ایک کالم لکھا تھا اس میں میں نے اس بات پر زور دیا تھا کہ جتنے زیادہ صوبے ہوں گے اتنا ہی ٹیلنٹ نکل کر سامنے آئے گا، مقابلے کی فضاء پیدا ہوگی،
زیادہ سے زیادہ قائدین بلکہ ایماندار قائدین نکل کر سامنے آئیں گے۔ راقم اس حوالے سے پہلے بھی یہ بھی تجویز دے چکا ہے کہ یہ تقسیم جنوبی پنجاب میں تین ڈویژنوں کی شکل میں کی جائے جن میں بہاولپور ڈویژن (بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یار خان)، ملتان ڈویژن (ملتان، خانیوال، وہاڑی، لودھراں)، ڈیرہ غازی خان ڈویژن (ڈیرہ غازی خان، لیہ، مظفرگڑھ، راجن پور)شامل ہیں۔اگر فی الحال جنوبی پنجاب کو الگ انتظامی یونٹ بنا دیا جائے اور ملتان کو دارالخلافہ قرار دے دیا جائے تو یقینا وہاں کے عوام کے 100فیصد مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ (ملتان چونکہ تمام جنوبی اضلاع کا مرکز ہے اور نسبتاََ بہتر شہر ہے اس لیے ملتان بہترین انتخاب ہوگا)۔
میرے خیال میں ایڈمنسٹریٹو بنیادوں پر پنجاب کو مختلف صوبوں میں تبدیل کیا جانا بہت ضروری ہے ، لیکن یہ نا تو لسانی بنیادوں پر تقسیم ہو اور نہ ہی قومیتی بنیادوں پر ہو ۔ایسا کرنے سے پارلیمنٹ میں توازن قائم ہوگا اور جمہوری فیصلے پر عملدرآمد میں مدد ملے گی۔ جنوبی پنجاب کے طلبہ اور طالبات میں ٹیلنٹ موجود ہے مگر پنجاب کے ترقی یافتہ اضلاع کی طرح یہاں کے طلبہ اور طالبات کو جدید سہولتیں میسر نہ ہونے کی وجہ سے مقابلہ کے امتحانات میں ترقی یافتہ اضلاع کے طلبہ و طالبات آگے نکل جاتے ہیں۔جنوبی پنجاب کے صوبہ بننے سے صوبائی دارالحکومت قریب تر ہونے سے تمام صوبائی ،سرکاری محکمہ جات سے متعلق مسائل احسن طریقے سے حل ہوںگے اور دور دراز کے سفر سے نجات مل جائے گی۔لہٰذااسے سیاسی مسئلہ بنانے کے بجائے عوام کا مسئلہ بنا کر اسے حل کیا جائے۔ اور تمام سٹیک ہولڈرز لالچ، ہوس کا لبادہ اُتار کر اس پر کام کریں تاکہ قومی مفاد میں ہم آگے بڑھ سکیں۔