اے ارض فلسطین
یاسر عرفات پاکستان میں جانی پہچانی شخصیت تھے۔وہ 1969ء۔2004ء تک فلسطینی تنظیم آزادی کے چیئرمین رہے
لاہور:
ساٹھ کی دہائی کے آخری اور ستر کی دہائی کے ابتدائی سالوں کا ذکر ہے، انقلاب کا رومانس عروج پر تھا۔ چو این لائی، نہرو، جمال عبدالناصر، سوئیکارنو، ٹیٹو، کاسترو، ذوالفقار علی بھٹو اور یاسرعرفات نوجوانوں کے ہیرو تھے۔ ہر طرح کی ناانصافیوں پر جی کڑھتا تھا۔ ہم کراچی یونیورسٹی کے طالبعلم تھے اور وہاں ان نا انصافیوں کے خلاف بات کرنے کی ممانعت تھی مگر این ایس ایف کے طلبہ فلسطین کے خلاف ہونے والی زیادتیوں پر آواز اٹھاتے تھے اور فلسطینی طلبا کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب دیگر ممالک سے نوجوان کراچی یونیورسٹی پڑھنے آتے تھے۔ میرے ساتھ گرلز ہوسٹل میں فلسطین، عراق اور کسی افریقی ملک کی لڑکیاں بھی رہتی تھیں ۔1969-70ء میں طلبہ یونین کے انتخابات میں صدرکے لیے این ایس ایف، رشید حسن خان گروپ نے ایک فلسطینی طالب علم یٰسین کو اپنا امیدوارکھڑا کیا تھا۔
یاسر عرفات پاکستان میں جانی پہچانی شخصیت تھے۔وہ 1969ء۔2004ء تک فلسطینی تنظیم آزادی کے چیئرمین رہے۔ وہ ایک عرب قوم پرست اور صیہونی نظریات کے مخالف تھے۔ انھوں نے 1948ء کی عرب اسرائیل جنگ میں مسلم برادر ہڈ کے ساتھ حصہ لیا تھا۔شروع میں وہ جنگ کے ذریعے فلسطینیوں سے اپنا حق حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن بعد میں مذاکرات پر بھی آمادہ ہو گئے تھے۔ ہماری نسل لیلیٰ خالد کو بھی کبھی بھلا نہ پائے گی جو فلسطین پر ہونے والے ظلم پر آواز اٹھانے کے لیے1969ء میں طیارہ اغوا کرکے دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی۔
امسال مئی میں فلسطینیوں کی تحریک کے ستر سال پورے ہو جائیں گے، پاکستان کی نئی نسل کو اس جدوجہد کی تاریخ سے روشناس کرانا ضروری ہے۔ صیہونیت نے ایک نو آبادیاتی تحریک کے طور پر انیسویں صدی کے اواخر میں اپنی کارروائی کا آغاز کیا جب یورپی نوآبادیاتی طاقتیں پھل پھول رہی تھیں۔ فلسطین اس وقت سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھاجس کا مرکز ترکی تھا۔عرب قوم پرستی کی تحریک ابھر رہی تھی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران جب سلطنت عثمانیہ کمزور پڑ رہی تھی، برطانوی سامراج نے مشرق وسطیٰ کو اپنا ہدف بنایا اور یہاں قدم جمانے کے لیے اس علاقے میں دلچسپی رکھنے والی سیاسی قوتوں کو اپنا اتحادی بنایا۔ برطانیہ نے اس وقت ابھرنے والی صیہونی تحریک سے بھی سمجھوتہ کیا اور انھیں اپنی ریاست بنانے کے لیے فلسطین میں زمین دینے کا وعدہ کیا۔ جسے بالفور اعلامیہ1917ء کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
دوسری طرف انھوں نے عرب قیادت جس کے ترکی کی سلطنت عثمانیہ سے اختلافات چل رہے تھے، سے بھی وعدہ کیاکہ وہ انھیں خود مختار ریاست بنا کر دیں گے۔ 16مئی 1916ء کو انگلینڈاور فرانس نے دنیائے عرب کو آپس میں بانٹنے کا معاہدہ کیا۔ فلسطین پر برطانیہ کے اکتیس سالہ تسلط 1917۔1948ء کے دوران صیہونی تحریک مسلسل فلسطین میں یہودی مائیگریشن اور نو آبادیت کی حوصلہ افزائی کرتی رہی۔ عرب کسانوں کو ان کی زمین سے بے دخل کر دیا گیا۔
فلسطین میں مقیم عرب آبادی خوف کا شکار ہوگئی اور یہودیوں کی آبادکاری کے خلاف احتجاج کرنے لگی۔ انھوں نے برطانوی قیادت سے مطالبہ کیا کہ فلسطین کی اصل آبادی کو بے دخل ہونے سے روکا جائے۔ یہ مذاحمت برطانوی حکمرانوں کے خلاف مسلح جدوجہد کی شکل اختیار کر گئی۔اس جدوجہد کا ایک بے مثال واقعہ 1936ء میں ہونے والی مزدوروں کی ہڑتال تھی جو چھ ماہ تک جاری رہی جب کہ 1936۔ 1939ء کے دوران فلسطین کا بیشتر حصہ مقامی عربوں کی مسلح تحریک کے کنٹرول میں رہا۔ صیہونی اور برطانوی غاصبین دونوں اس جدوجہد کو کچلنا چاہتے تھے۔ 1948ء میں برطانیہ واپس چلا گیا اور صیہونیوں نے جنگی بنیادوں پر مقامی آبادی کو بے دخل کرنا شروع کر دیا۔ہر طرح کے ظلم و جبر اور تشدد سے لوگوں کو بے دخل کیا گیا۔
دوسرا انتفاضہ اسرائیل کی اشتعال انگیزی کی بدولت شروع ہوا جب ایریل شیرون اور بارک اوباما نے اوسلو معاہدے کو سبو تاژ کیا۔انھوں نے اسرائیل کو پہلے کیے گئے وعدوں کی پابندی سے آزاد کر دیا ۔ پی ایل او کی قیادت کو اندازہ ہو گیا کہ اسرائیل اب کچھ رعایت کرنے والا نہیں تو فلسطینی عوام میں اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے کچھ کرنا ہو گا چنانچہ وہ واپس مسلح جدوجہد کے راستے پر چلے گئے۔ فلسطینی ''سیکیورٹی فورسز'' اس مزاحمت میں شامل نہیں ہوئیں اور ان کے اسرائیل سے روابط برقرار رہے۔ بلکہ آنے والے سالوں میں اور مضبوط ہوگئے جب اس مزاحمت کو بد ترین تشدد کے ذریعے کچل دیا گیا، یہ انتفاضہ 2005ء میں ختم ہوا۔اب ایریل شیرون کو پی ایل او کے ساتھ مل کے سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے مفاہمت اور مصالحت یا یک طرفہ طور پر غزہ کی پٹی خالی کرنے کا مخمصہ درپیش تھا ۔اس میں وہاں تعمیر کی گئی آبادیاں بھی شامل تھیں۔اس کا نتیجہ پہلی مرتبہ فلسطین کے اندر ایک آزاد علاقے کی شکل میں نکلا۔
اوسلو معاہدوں نے سب کو بشمول اسرائیل میں مقیم فلسطینیوں کو خوش فہمی میں مبتلا کر دیا تھا کیونکہ اسرائیل کی کمیونسٹ پارٹی امن کے حصول کے لیے دو ریاستی حل کی بات کر رہی تھی۔ فلسطینیوں کی اکثریت یہی سمجھی کہ بالآخر امن قائم ہونے جا رہا ہے، لیکن مہاجرین کی صورتحال مختلف تھی کیونکہ یہ معاہدہ ان کے مسائل کا حل نہیں تھا۔ ایزاک رابن کی اسرائیلی حکومت جس نے ان معاہدوں پر دستخط کیے تھے، کو غلط طور پر بائیں بازوکی پارٹی کہا جاتا تھا۔ یہ حکومت پارلیمنٹ میں اپنی اکثریت برقرار رکھنے کے لیے عرب پارٹیوں کی محتاج تھی۔بہرحال رابن نے حکومتی اتحاد میں عرب پارٹیوں کو شامل نہیں کیا تھا۔ رابن کو اسرائیل کے دائیں بازو نے قتل کردیا اور پھر شمعون پیریز نے حکومت سنبھالی لیکن 1996ء کے انتخابات میں ہار گئے۔اوسلو معاہدوں اور عزت کے ساتھ قیام امن کی خواہش نے پارلیمانی عرب پارٹیوں کو سارے مظالم کے باوجود حکومت کی حمایت پر مجبورکیے رکھا۔حالانکہ پیریزکی حکومت نے لبنان پر حملہ بھی کیا تھا اور 1996ء میں قانا میں قتل عام بھی کیا تھا۔
امن کے خواب اور عرب پارٹیوں پر حکومت کے انحصار نے اسرائیل کے عرب فلسطین شہریوں کی صورتحال کو بہتر بنانے کا امکان پیدا کیا۔ جس کے نتیجے میں ایک نئی سیاسی پارٹی نیشنل ڈیموکریٹک الائنس وجود میں آئی جس کا مطالبہ ''ایک ملک سارے شہریوں کے لیے'' تھا۔ چند ہی سال میں وہ خوش گمانی کے مرحلے سے نکل کر اسرائیل میں فلسطینیوں کے لیے مقبول جدوجہد کے مرحلے میں داخل ہو گئے۔ بہرحال موجودہ سارے مسائل خاص طور پر مہاجروں کی وطن واپسی کے مسئلے کو حل کر کے ہی اس تنازع کو حقیقی معنوں میں حل کیا جا سکتا ہے۔ ایک جامع حل کے لیے تین چیزیں درکار ہیں۔1، مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی پر تسلط کا خاتمہ ۔2 : مہاجروں کی وطن واپسی کا حق اور3 : اسرائیل میں موجود فلسطینیوں کے لیے مساوی حقوق۔