خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

اتنی طاقت تو شاید پورے برصغیر کے ہندو مسلم و دیگر کو انگریزوں کے خلاف اٹھنے کی بھی نہیں تھی


عینی نیازی April 11, 2018

آزادی کشمیر کی جنگ اب سوشل میڈیا پر بھی شروع ہوچکی ہے۔ مایہ ناز کرکٹر شاہد آفریدی نے ٹویٹ کیا تھا کہ کشمیر میں ہلاکتیں ہولناک اور پریشان کن ہیں۔ بعد میں اپنے ایک ٹی وی کمنٹ میں انھوں نے کہا کہ کشمیرکا مسئلہ اپنی پیدائش سے اب تک اسی طرح سنتے آرہے ہیں، وہاں نہتے کشمیریوں پر ظلم و ستم روا رکھا جارہا ہے، تازہ واقعات میں چند دنوں کے اندر بیس سے پچیس کشمیری نوجوانوں کو شہید کر دیا گیا، بوڑھوں، بچوں خصوصاً خواتین کی زندگیاں بھی اجیرن ہیں، جس طرح وہاں نسل کشی جاری ہے اس کی نظیر کہیں اور نہیں ملتی اور وہ بطور ایک کھلاڑی سمجھتے ہیں کہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانا ہم سب کے لیے ضروری ہے کیونکہ اس ظلم کے خلاف آواز نہیں اٹھاتا تو پھر میں بھی انھی میں شامل ہوں، اگر اس مسئلے کو حل کرلیا جائے تو دونوں ملکوں کے روابط بہت حد تک بہتر ہونے کی امید ہے لیکن شاید بھارتی کرکٹرز کو ان کی یہ بات ہضم نہیں ہوئی، آفریدی کو آئی ایس آئی کا ایجنٹ قرار دیا گیا اور ان کے خلاف تنقیدی بیانات انڈین کرکٹرز کی جانب سے دیے جانے کا سلسلہ جاری ہے۔

جن میں کپل دیو نے تو کہہ دیا وہ کسی شاہد آفریدی نام کے کرکٹر کو ہی نہیں جانتے، دیگر کھلاڑیوں میں ویرات کوہلی، سریش رائنا، گوتم گھمبیر اور شیکھر دھون نے بھی معاملات کو سمجھنے کے بجائے سخت جوابات دیے۔ بہتر تو یہ ہوتا کہ وہ اس گرم گفتاری کے بجائے تھوڑا کشمیر کے متعلق حقائق جان لیتے کہ آخر ستر سال سے جاری اس جدوجہد کی وجوہات کیا ہیں؟ وہ کیا حقائق ہیں جن کی بنا پر ایک محکوم، بے بس اور محصور قوم عرصے سے اس قدر مضبوط، بااثر اور ایٹمی طاقت کی حامل دنیا کی دوسری بڑی مملکت سے ٹکر لینے کی ہمت کرپائی ہے۔ کشمیریوں کے اندر اس قدر جنون، جوش و ولولہ اپنی آزادی کے حوالے سے کس طرح کارفرما ہے۔

اتنی طاقت تو شاید پورے برصغیر کے ہندو مسلم و دیگر کو انگریزوں کے خلاف اٹھنے کی بھی نہیں تھی، جو جذبہ آزادی ستر سال سے کشمیریوں کے اندر موجود ہے۔ بندوق کی مخالفت کرنے کے لیے ان کے پاس ہتھیار محض پتھر ہیں، یا پھر وہ خواب جو گزشتہ سات دہائی سے آزادی کے لیے تین نسلیں دیکھتی آئی ہیں۔ کاش کہ تھوڑی سی تاریخ اگر ہندوستان کے کھلاڑی بھی پڑھ لیتے تو کشمیریوں کی آزادی، ان کے اصولی موقف کو سمجھنے میں انھیں مشکل نہ ہوتی۔ سوشل میڈیا پر محض وطن پرستی کے ڈائیلاگ ادا کرنے کے بجائے حقائق جان لیے جائیں تو قوم کے وقار میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔

آزادی کے وقت برصغیر کی تقسیم مذہبی بنیادوں پر کی گئی تھی، اپنی غلامی سے نجات کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہ بات عام فہم نظر آتی ہے کہ جن خطوط پر تقسیم کا عمل ہوا وہ ہندو اور مسلم علاقوں کو ان کے درمیان بانٹ دیا گیا، لیکن جو آزاد ریاستیں تھیں انھیں ہندو مسلم اکثریت کے ساتھ اس بات کو بھی قابل عمل بنایا جانا تھا کہ ریاست میں رہنے والے باشندوں کی خواہش کا بھی احترام کیا جائے، نیز جس ملک کی حدود میں ہوں الحاق کرلیں۔ لیکن یہاں یہ مسئلہ بھی پیدا ہوا کہ سربراہ مسلم ہے اور اکثریت ہندو عوام ہیں تو کیا کیا جائے؟ جس طرح جوناگڑھ کی ریاست والے واقعے میں ہوا کہ راجا مسلم تھے، انھوں نے پاکستان سے الحاق کرنا چاہا، مگر ہندو اکثریتی رعایا راجا کے خلاف احتجاج پر اتر آئی۔ چنانچہ ہندوستانی فوج نے بغاوت کو بہانہ بنا کر اپنی فوجیں جوناگڑھ بھیجیں اور قبضہ کرلیا۔ اسی طرح حیدرآباد کی ریاست جو ایک وسیع علاقے پر پھیلی ریاست تھی، یوں سمجھ لیں مصر جیسے رقبے پر قائم تھی اور وہاں صدیوں سے مسلمان خاندان برسر اقتدار تھا، ہندوؤں کی زیادہ تعداد کے پیش نظر انڈیا نے 1948ء میں فوج کشی کرکے وہاں اپنا قبضہ جما لیا۔

لیکن کشمیر اپنے خوبصورت جنت نظیر وادی اور جغرافیائی محل وقوع کے لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے، وہاں کے ڈوگرہ راجا نے اپنا الحاق ہندوستان سے کرنے کی کوشش کی تو کشمیری مسلمان جو کہ تعداد میں زیادہ تھے انھوں نے بغاوت کردی۔ کشمیری عوام پاکستان سے الحاق کے خواہش مند تھے۔ 24 اکتوبر 1947ء کو ریاست جموں و کشمیر کے عوام نے اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا، جسے بٹوارے کے بعد پاکستان میں شامل ہونا تھا، مگر بدقسمتی سے اس وقت کے وائسرائے اور ہندو لیڈروں کی شاطرانہ منصوبہ بندی نے اسے غلامی کا طوق پہنادیا۔ مہاراجہ ہری سنگھ ریاست چھوڑ کر بھا گ گیا، بھارت نے کشمیر میں اپنی فوجیں اتار دیں۔ مجاہدین بھارتی حکومت کے خلاف جہاد میں مصروف عمل ہوگئے۔ شروع میں مجاہدین نے کامیابیاں بھی حاصل کیں۔ بھجر، میرپور، کوٹل، راجوری، مینڈورا اور نوشہرہ کو آزادی دلائی، پونچھ کا طویل محاصرہ بھی کیے رکھا، لیکن ائیرپورٹ پر قبضہ نہ ہونے کے سبب بھارتی افواج کو وہاں سے اتر کر حملہ کرنے کا موقع مل گیا۔ جب پاکستانی فوج نے انڈین آرمی کو پیچھے دھکیلنا شروع کیا تو معاملہ اقوام متحدہ کے پاس چلا گیا۔

اقوام متحدہ نے 1949ء میں ایک قرارداد متفقہ فیصلے سے منظور کی، کشمیر میں یو این او کی نگرانی میں رائے شماری کرائی جائے، تاکہ کشمیری عوام اپنی مرضی سے فیصلہ کریں وہ کس کے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں۔ انڈیا نے قرارداد ماننے سے انکار کردیا۔ اس کے بعد کئی بڑے ممالک نے ثالثی کی پیشکش کی، مگر انڈیا ہر بار رد کرتا آیا ہے۔ اسے اچھی طرح معلوم ہے کہ الحاق کا حق حاصل ہونے پر کشمیری پاکستان کو ترجیح دے گا۔

بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ کہتا ہے، اس پر قبضہ جمانے کے لیے جس مجرمانہ غفلت، ظلم و تشدد اور سازشی جارحیت سے کام لیتا آیا ہے یہ حقیقت ساری دنیا پر عیاں ہے، مگر انڈیا کو اب سوچنا ہوگا آیا اسی طرح وہ کشمیریوں کو طاقت کے ذریعے کچلتا رہے گا، ان پر ہر قسم کے ظلم و ستم کو روا رکھے گا تو پھر کشمیری مجاہدین بھی اس تشددکے خلاف آواز ضرور اٹھائیں گے۔ خود بھارتی سرکار عالمی دنیا میں اپنی عزت و وقار کو داؤ پر لگارہا ہے۔ گلوبل ولیج میں تنہائی کے سوا اسے کچھ حاصل نہ ہوگا۔ ستر سال سے روا کشت و خون کی داستان کے بارے میں شاہد آفریدی کی بات درست ہے کہ وہ بچپن سے کشمیر میں انڈین فوج کی جارحیت کو سنتے اور دیکھتے آئے ہیں۔ یہ احتجاج بارڈر کے دونوں جانب بسنے والے ہر ذی شعور حساس انسان کی ترجیح ہوگی، جس نے تقسیم کے بعد آنکھ کھولی اور دنیا کو انصاف و امن کی نظر سے دیکھتا، سوچتا ہے کہ خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں