ملتان NA149 بڑے امیدواروں کے سبب بڑے مقابلے کی توقع
سال 2008 کے انتخابات میں یہاں پہلی مرتبہ مخدوم جاوید ہاشمی امیدوار بنے اورپیپلزپارٹی کے ملک صلاح الدین ڈوگرکو شکست دی۔
قومی اسمبلی حلقہ 149 ملتان کا شہری علاقہ ہے جہاں زور دار مقابلے کی توقع کی جارہی ہے ،قومی اسمبلی کے اس حلقے میں اس وقت مسلم لیگ (ن) ' پیپلزپارٹی ' تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے امیدوار میدان میں ہیں جبکہ جماعت اسلامی کے سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے معاملات جاری ہیں۔
پیپلزپارٹی کی طرف سے اس حلقے میں ملک عامر ڈوگر مضبوط امیدوار کے طورپر موجود ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اس حلقے میں پارٹی کے مرکزی صدر مخدوم جاوید ہاشمی میدان میں ہیںجبکہ مسلم لیگ (ن) نے شیخ طارق رشید کو اس حلقے سے ایم این اے کا الیکشن لڑانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ مخدوم جاوید ہاشمی کے مسلم لیگ (ن) چھوڑنے کے بعد ضمنی انتخابات میں یہاں سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے اور ان کی اس کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) نے انہیں یہاں سے امیدوار بنایا ہے جبکہ جماعت اسلامی کی طرف سے اس حلقے میں پارٹی کے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ امیدوار کے طور پر موجود ہیں۔
اس طرح اس حلقے میں بڑے ناموں کی موجودگی کے سبب بڑے مقابلے کی توقع ہے اس حلقے میں دو صوبائی حلقے پی پی 194 اور پی پی 197 آتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے پی پی 194 سے پارٹی کے کارکن اور سابق چیئرمین مارکیٹ کمیٹی ملک انور علی کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ پیپلزپارٹی کی طرف سے عثمان بھٹی یہاں سے امیدوار کے طور پر موجود ہیں ۔ عثمان بھٹی نے سابق ایم پی اے شاہد محمود خان کے مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہونے کے نتیجے میں منعقدہ ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ وہ پارٹی کے جیالے کارکن ہیں اور ان کی جیت اس وقت ہوئی تھی جس روز سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا گیا تھا اور انہوں نے عثمان بھٹی کی کامیابی کا کریڈٹ لیتے ہوئے اسے اپنی جیت قرار دیا تھا۔
تحریک انصاف کی طرف سے سابق ایم پی اے شاہد محمود خان یا ظہیرالدین خان علیزئی میں سے یہاں کوئی امیدوار ہو سکتا ہے۔ صوبائی حلقہ 197 سے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے سابق صوبائی وزیر حاجی احسان الدین قریشی دوبارہ امیدوار کے طور پر موجود ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کی طرف سے سابق ایم پی اے اور سید یوسف رضا گیلانی کے قریبی ساتھی ڈاکٹر جاوید صدیقی امیدوار ہیں۔ تحریک انصاف نے یہاں سے امیدوار کا حتمی اعلان تو نہیں کیا تاہم یہاں سے سابق صوبائی وزیر حاجی سعید احمد قریشی یا انکے داماد ندیم قریشی امیدوار ہوسکتے ہیں اور ان دونوں میں سے ایک کا فیصلہ مخدوم جاوید ہاشمی کریں گے۔ اس طرح اس قومی اسمبلی اور اسکے نیچے دونوں صوبائی حلقوں میں زبردست مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔
سابق قومی انتخابات میں اس حلقے میں زیادہ مرتبہ کامیابی مسلم لیگ (ن) کو ملی ہے۔ سال 1988ء کے انتخابات میں اس حلقے میں پیپلزپارٹی کے ریاض حسین قریشی نے کامیابی حاصل کی تھی اور انہوں نے 42 ہزار سے زائد ووٹ لیے تھے ان کے مدمقابل مذہبی جماعتوں کے اتحاد سے سید حامد سعید کاظمی نے 35 ہزار 508 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے بابو فیروزالدین انصاری نے 24 ہزار 464 ووٹ حاصل کیے تھے۔ سال 1990ء کے قومی انتخابات میں یہاں سے سید حامد سعید کاظمی جے یو پی کے ٹکٹ سے 62 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے تھے اور انہیں دائیں بازوکی جماعتوں اور مسلم لیگ (ن) کی سپورٹ حاصل تھی، ان کے مقابلے میں پی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے لڑنے والے ریاض حسین قریشی نے 42 ہزار 288 ووٹ لیے تھے۔1993 ء کے انتخابات میں یہاں سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر حاجی محمد بوٹا نے کامیابی حاصل کی تھی اور انہوں نے 60 ہزار 871 ووٹ لیے تھے۔
ان کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ریاض حسین قریشی 44 ہزار 63 ووٹ لیے تھے جبکہ آئی جے ایم کے امیدوار سید حامد سعید کاظمی اور سابق ایم این اے صرف 5 ہزار 936 ووٹ حاصل کر پائے تھے۔1997 ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے حاجی محمد بوٹا نے56 ہزار 331 ووٹ لے کر پھر کامیابی حاصل کی جبکہ ان کے مدمقابل امیدوار پیپلزپارٹی کے ملک صلاح الدین ڈوگر 24 ہزار 366 ووٹ حاصل کر پائے جبکہ پی ٹی آئی کے محمد عارف شیخ نے 2 ہزار 390 ووٹ حاصل کیے۔ سال2002کے انتخابات میں 4 بڑے امیدواروں میں مقابلہ ہوا اور دائیں بازو کی سیاست کرنے والے امیدواروں نے ووٹ آپس میں تقسیم کرالیے ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ملک لیاقت علی ڈوگر 31ہزار85ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے جبکہ متحدہ مجلس عمل کے شیخ خضر حیات 19ہزار 867' مسلم لیگ ق کے ڈاکٹر خالد خان خاکوانی 16 ہزار276اور مسلم لیگ ن کے حافظ اقبال خان خاکوانی 18 ہزار 763ووٹ حاصل کر پائے۔
سال 2008ء کے انتخابات میں یہاں پہلی مرتبہ مخدوم جاوید ہاشمی امیدوار بنے انہوں نے مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے پیپلز پارٹی کے ملک صلاح الدین ڈوگر کو شکست دی۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے ان انتخابات میں 70 ہزار 864ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مد مقابل پیپلز پارٹی کے ملک صلاح الدین ڈوگر 45ہزار645ووٹ حاصل کر پائے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ نے سے اختلافات کے باعث 2012ء میں پارٹی چھوڑ دی اور پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کااعلان کیا جس کی وجہ سے اس حلقے میں انتخابات منعقد ہوئے جن میں تحریک انصاف نے حصہ نہیں لیا۔ مقابلہ مسلم لیگ ن کے شیخ طارق رشید اور پیپلز پارٹی کے ملک لیاقت علی ڈوگر میں ہوا اور مسلم لیگ ن نے یہ نشست جیت لی۔ اب مسلم لیگ نے شیخ طارق رشید کو یہاں سے دوبارہ ٹکٹ دیا ہے اس حلقہ میں بڑی لڑائی کی توقع کی جارہی ہے۔
پیپلزپارٹی کی طرف سے اس حلقے میں ملک عامر ڈوگر مضبوط امیدوار کے طورپر موجود ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اس حلقے میں پارٹی کے مرکزی صدر مخدوم جاوید ہاشمی میدان میں ہیںجبکہ مسلم لیگ (ن) نے شیخ طارق رشید کو اس حلقے سے ایم این اے کا الیکشن لڑانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ مخدوم جاوید ہاشمی کے مسلم لیگ (ن) چھوڑنے کے بعد ضمنی انتخابات میں یہاں سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے اور ان کی اس کامیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے مسلم لیگ (ن) نے انہیں یہاں سے امیدوار بنایا ہے جبکہ جماعت اسلامی کی طرف سے اس حلقے میں پارٹی کے جنرل سیکرٹری لیاقت بلوچ امیدوار کے طور پر موجود ہیں۔
اس طرح اس حلقے میں بڑے ناموں کی موجودگی کے سبب بڑے مقابلے کی توقع ہے اس حلقے میں دو صوبائی حلقے پی پی 194 اور پی پی 197 آتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے پی پی 194 سے پارٹی کے کارکن اور سابق چیئرمین مارکیٹ کمیٹی ملک انور علی کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ پیپلزپارٹی کی طرف سے عثمان بھٹی یہاں سے امیدوار کے طور پر موجود ہیں ۔ عثمان بھٹی نے سابق ایم پی اے شاہد محمود خان کے مسلم لیگ (ن) چھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہونے کے نتیجے میں منعقدہ ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ وہ پارٹی کے جیالے کارکن ہیں اور ان کی جیت اس وقت ہوئی تھی جس روز سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا گیا تھا اور انہوں نے عثمان بھٹی کی کامیابی کا کریڈٹ لیتے ہوئے اسے اپنی جیت قرار دیا تھا۔
تحریک انصاف کی طرف سے سابق ایم پی اے شاہد محمود خان یا ظہیرالدین خان علیزئی میں سے یہاں کوئی امیدوار ہو سکتا ہے۔ صوبائی حلقہ 197 سے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے سابق صوبائی وزیر حاجی احسان الدین قریشی دوبارہ امیدوار کے طور پر موجود ہیں جبکہ پیپلزپارٹی کی طرف سے سابق ایم پی اے اور سید یوسف رضا گیلانی کے قریبی ساتھی ڈاکٹر جاوید صدیقی امیدوار ہیں۔ تحریک انصاف نے یہاں سے امیدوار کا حتمی اعلان تو نہیں کیا تاہم یہاں سے سابق صوبائی وزیر حاجی سعید احمد قریشی یا انکے داماد ندیم قریشی امیدوار ہوسکتے ہیں اور ان دونوں میں سے ایک کا فیصلہ مخدوم جاوید ہاشمی کریں گے۔ اس طرح اس قومی اسمبلی اور اسکے نیچے دونوں صوبائی حلقوں میں زبردست مقابلے کی توقع کی جارہی ہے۔
سابق قومی انتخابات میں اس حلقے میں زیادہ مرتبہ کامیابی مسلم لیگ (ن) کو ملی ہے۔ سال 1988ء کے انتخابات میں اس حلقے میں پیپلزپارٹی کے ریاض حسین قریشی نے کامیابی حاصل کی تھی اور انہوں نے 42 ہزار سے زائد ووٹ لیے تھے ان کے مدمقابل مذہبی جماعتوں کے اتحاد سے سید حامد سعید کاظمی نے 35 ہزار 508 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے بابو فیروزالدین انصاری نے 24 ہزار 464 ووٹ حاصل کیے تھے۔ سال 1990ء کے قومی انتخابات میں یہاں سے سید حامد سعید کاظمی جے یو پی کے ٹکٹ سے 62 ہزار سے زائد ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے تھے اور انہیں دائیں بازوکی جماعتوں اور مسلم لیگ (ن) کی سپورٹ حاصل تھی، ان کے مقابلے میں پی ڈی اے کے پلیٹ فارم سے لڑنے والے ریاض حسین قریشی نے 42 ہزار 288 ووٹ لیے تھے۔1993 ء کے انتخابات میں یہاں سے مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر حاجی محمد بوٹا نے کامیابی حاصل کی تھی اور انہوں نے 60 ہزار 871 ووٹ لیے تھے۔
ان کے مقابلے میں پیپلزپارٹی کے ٹکٹ پر ریاض حسین قریشی 44 ہزار 63 ووٹ لیے تھے جبکہ آئی جے ایم کے امیدوار سید حامد سعید کاظمی اور سابق ایم این اے صرف 5 ہزار 936 ووٹ حاصل کر پائے تھے۔1997 ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے حاجی محمد بوٹا نے56 ہزار 331 ووٹ لے کر پھر کامیابی حاصل کی جبکہ ان کے مدمقابل امیدوار پیپلزپارٹی کے ملک صلاح الدین ڈوگر 24 ہزار 366 ووٹ حاصل کر پائے جبکہ پی ٹی آئی کے محمد عارف شیخ نے 2 ہزار 390 ووٹ حاصل کیے۔ سال2002کے انتخابات میں 4 بڑے امیدواروں میں مقابلہ ہوا اور دائیں بازو کی سیاست کرنے والے امیدواروں نے ووٹ آپس میں تقسیم کرالیے ان انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ملک لیاقت علی ڈوگر 31ہزار85ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے جبکہ متحدہ مجلس عمل کے شیخ خضر حیات 19ہزار 867' مسلم لیگ ق کے ڈاکٹر خالد خان خاکوانی 16 ہزار276اور مسلم لیگ ن کے حافظ اقبال خان خاکوانی 18 ہزار 763ووٹ حاصل کر پائے۔
سال 2008ء کے انتخابات میں یہاں پہلی مرتبہ مخدوم جاوید ہاشمی امیدوار بنے انہوں نے مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے پیپلز پارٹی کے ملک صلاح الدین ڈوگر کو شکست دی۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے ان انتخابات میں 70 ہزار 864ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے مد مقابل پیپلز پارٹی کے ملک صلاح الدین ڈوگر 45ہزار645ووٹ حاصل کر پائے۔ مخدوم جاوید ہاشمی نے مسلم لیگ نے سے اختلافات کے باعث 2012ء میں پارٹی چھوڑ دی اور پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت کااعلان کیا جس کی وجہ سے اس حلقے میں انتخابات منعقد ہوئے جن میں تحریک انصاف نے حصہ نہیں لیا۔ مقابلہ مسلم لیگ ن کے شیخ طارق رشید اور پیپلز پارٹی کے ملک لیاقت علی ڈوگر میں ہوا اور مسلم لیگ ن نے یہ نشست جیت لی۔ اب مسلم لیگ نے شیخ طارق رشید کو یہاں سے دوبارہ ٹکٹ دیا ہے اس حلقہ میں بڑی لڑائی کی توقع کی جارہی ہے۔