ریاست مدینہ

نبی اکرم ﷺ کی مثالی طرز حکم رانی کا دل کش نمونہ


نبی اکرم ﷺ کی مثالی طرز حکم رانی کا دل کش نمونہ۔ فوٹو : فائل

حضور نبی اکرمؐ کی ذاتِ گرامی اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ انبیاء کی آخری کڑی ہے۔

پوری انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے جو بہترین نظام زندگی اس آسمان کے نیچے اور زمین کے اوپر قیامت تک کے لیے ہوسکتا تھا، وہ اللہ تعالیٰ نے خاتم الانبیاء کے ذریعے اپنی کامل اور اکمل ترین شکل میں دے دیا۔ حضور اکرمؐ نے اپنی بعثت کے بعد عمر بھر جس لگن اور ذمے داری کے ساتھ اپنے فرض کو پورا کرکے انسانیت کو پستی سے نکال کر رفعت تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا، اس کی مثال تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔ رسول اکرمؐ کا مثالی طرز حکم رانی، جس نے داخلی و خارجی سطح پر بکھرے یثرب کو دنیا کی بہترین اسلامی فلاحی ریاست مدینہ میں تبدیل کر دیا، اُس کی جھلک ہمہ وقت ہمارے سامنے ہونی چاہیے تاکہ ان مشکل ترین حالات میں ہم اُسوئہ حسنہ کی روشنی میں اپنے مسائل حل کر سکیں۔ زیر نظر مضمون میں ہم نے نبی اکرمؐ کی سیرت طیبہ کے اُن پہلوئوں پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے جو ایک بہترین اسلامی فلاحی ریاست کے قیام میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ جب بھی کوئی نیا نظام نافذ کرنا ہوتا ہے تو اس کے لیے پہلے ایک ایسی ٹیم تیار کی جاتی ہے جو نہ صرف اس نئے نظام کی جزئیات سے آگاہ ہو بلکہ اس پر غیر متزلزل یقین بھی رکھتی ہو۔ اسی بنیادی اصول کے پیش نظر حضور اکرمؐ نے ایک طویل عرصہ مکہ میں اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے گزارا۔ آپؐ کی انتھک کوششوں کی وجہ سے اچھا خاصا طبقہ مسلمان ہو گیا مگر ابھی ایک ضرورت باقی تھی یعنی ایسا خطہ زمین جہاں کی آبادی مکمل طور پر یا اکثریت اس نظام کے قبول کرنے پر تیار ہو۔ چوں کہ مکہ میں اکثریت غیر مسلموں کی تھی، ایسی حالت میں اسلامی نظام قانون کا نفاذ بے اثر ہو کر رہ جاتا۔

نبی اکرمؐ کی مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد فوری طور پر مسجد نبوی کی بنیاد رکھی گئی، دوسرے لفظوں میں ریاست کے لیے سیکرٹریٹ قائم کر دیا گیا۔ اس کے ساتھ معاشرے کے معاشی مسائل کے حل کو اولیت دی گئی۔ ایک طرف ریاست میں ہنگامی حالت تھی تو دوسری طرف انصار مدینہ تھے جن میں متوسط بھی تھے اور کافی مالدار بھی، یعنی عملی طور پر جو شکل آج پاکستان کی ہے کچھ ایسی ہی شکل مدینہ منورہ کی تھی۔ ہمارے ہاں بھی ایک طبقہ معاشی ظلم کی وجہ سے بدحالی کا شکار ہے اور دوسرا طبقہ کافی متمول ہے۔ ایسی حالت میں محسن انسانیتؐ نے یہ طریقہ اختیار فرمایا کہ تمام مسلمانوں کو بھائی بھائی بنا دیا۔ ایک ٹیم موجود تھی جو اسلامی فلاحی نظام پر پختہ یقین رکھتی تھی۔ اس ٹیم میں شامل لوگوں نے ایک دوسرے کے لیے قربانیاں دیں اور اس طرح دو طبقوں میں جو غیر معقول معاشی فرق تھا وہ ختم ہو گیا۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ان دنوں مدینہ منورہ کی معیشت کا سارا انحصار یہودیوں کے سودی کاروبار پر تھا مگر حضور اکرمؐ نے مہاجرین سے یہ نہیں فرمایا کہ تم بھی یہودیوں سے سود پر قرض لے کر اپنا کاروبار شروع کر دو، کیوں کہ اس طرح معاشی انصاف پر مبنی معاشرے کی تشکیل ناممکن تھی بلکہ آپؐ نے انصار مدینہ سے فرمایا کہ اپنے بھائیوں کی مدد کرو اور پھر قرض حسنہ کا نظام رائج فرمایا اور جب معاشرے کے افراد عملاً باہمی تعاون کے ذریعے بلا سود قرضوں پر معیشت کو قائم کرنے میں لگ گئے تو آپؐ نے سود کو مکمل طور پر حرام قرار دے کر اس لعنت کو ختم کر دیا۔

مدنی زندگی کا مرحلہ حکمت
آپؐ کی مدنی زندگی بھرپور مصروفیت کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ انتہائی مشکل اوقات میں بھی آپؐ نے اپنی خداداد بصیرت سے سلامتی کی راہیں نکالیں۔ مدینہ طیبہ میں تشریف لانے کے بعد آپؐ کی حیثیت مکے سے مختلف ہو گئی تھی، کیوں کہ مکہ میں مسلمان ایک مختصر اقلیت کے طور پر رہ رہے تھے جب کہ یہاں انہیں اکثریت حاصل تھی۔ پھر آپؐ نے شہریت کی اسلامی تنظیم کا آغاز کیا جس میں آپؐ کو منتظم ریاست کا درجہ حاصل ہو گیا۔ اس میں شک نہیں کہ مکی زندگی کے مقابلے میں یہ بڑی کام یابی تھی، لیکن پر سکون معاشرے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی تھا۔

مواخات
مواخات کے طرز عمل نے مسلم معاشرے کو استحکام بخشا اور اسے ہر جارحیت کے خلاف مجتمع ہو کر لڑنے میں مدد دی۔ جن لوگوں میں مواخات قائم کی گئی تھی ان کے متعلق دل چسپ اور حیرت انگیز تفصیلات کتب سیرت میں موجود ہیں۔ رسول عالمینؐ کو مسلمانوں کے درمیان مواخات قائم ہوجانے سے طمانیت حاصل ہو گئی۔ منافقین نے مہاجرین و انصار کے درمیان منافرت پھیلانے کی ہر ممکن کوشش کی مگر مواخات نے ان کی چالیں ناکام بنادیں۔

انتظام اور امن کا دستور العمل
اب ضرورت اس بات کی تھی کہ اہل مدینہ کو بیرونی خطرات سے بچانے کے لیے مسلم اور غیر مسلم کسی خاص نکتے پر متفق ہوتے، اہل مدینہ کے باہمی اختلافات کو بھی ہوا نہ ملتی اور مدینہ کے باہر کے لوگ بھی مدینہ منورہ پر حملے کی جرأت نہ کرتے۔ انہی اغراض و مقاصد کو مد نظر رکھتے ہوئے حضور اکرمؐ نے ہجرت کے چند ہی ماہ بعد ایک دستاویز مرتب فرمائی جسے اسی دستاویز میں کتاب اور صحیفہ کے نام سے یاد کیا گیا۔ اس دستاویز کو متعلقہ اشخاص سے گفت و شنید کے بعد لکھا گیا۔

دستاویز کے ذریعے شہر مدینہ کو پہلی مرتبہ ''شہری مملکت'' قرار دینا اور اس کے انتظام کا دستور مرتب کرنا تھا۔ اس معاہدے سے نبی کریمؐ نے مدینہ کی شہری ریاست کو ایک مستحکم نظم عطا کیا اور اس کے لیے خارجی خطرات سے نمٹنے کی بنیاد قائم کی۔ اس دستاویز نے نبی کریمؐ کو ایک منتظم اعلیٰ کی حیثیت سے پیش کیا اور یہ آپؐ کی زبردست کام یابی تھی۔ دستاویز میں ایک بار لفظ ''دین'' بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اس لفظ میں بیک وقت مذہب اور حکومت دونوں کا مفہوم پایا جاتا ہے اور یہ ایک ایسا اہم امر ہے کہ اس کو پیش نظر رکھے بغیر مذہب اسلام اور سیاسیات اسلام کو اچھی طرح نہیں سمجھا جا سکتا۔

بقول محمد حسین ہیکل ''یہ تحریری معاہدہ ہے جس کی رو سے حضرت محمد مصطفیٰؐ نے آج سے چودہ سو سال قبل ایک ایسا معاشرتی ضابطہ قائم کیا جس سے شرکائے معاہدہ میں سے ہر گروہ اور ہر فرد کو اپنے اپنے عقیدے کی آزادی کا حق حاصل ہوا۔ اس سے انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی، اموال کے تحفظ کی ضمانت مل گئی۔ ارتکاب جرم پر گرفت اور مواخذے نے دبائو ڈالا اور معاہدین کی یہ بستی (شہر مدینہ) اس میں رہنے والوں کے لیے امن کا گہوارہ بن گئی۔ غور فرمائیے کہ سیاسی اور مذہبی زندگی کو ارتقاء کا کتنا بلند مرتبہ حاصل ہوا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سیاست اور مدنیت (دونوں ) پر دست استبداد مسلط تھا اور دنیا فساد و ظلم کا مرکز بنی ہوئی تھی۔''

اسلامی ریاست کا تصور
یہ معاہدہ اسلامی ریاست کی بنیاد تھا، یہاں سے حضور اکرمؐ کی زندگی نیا رخ اختیار کرتی ہے۔ اب تک آپؐ کے تدبر و فراست کے تمام پہلو ایک ایسے مرکز کے قیام کے لیے تھے جہاں سے دعوت اسلام موثر طریق سے دی جا سکے۔ آپؐ کی سابقہ کوششیں ایک مدبر کی تھیں لیکن اب آپ منتظم ریاست کے طور پر سامنے آ رہے ہیں، لہٰذا آپ کے تدبر کا مطالعہ اسی زاویے سے کرنا ہو گا۔

سب سے پہلی بات تو یہ ذہن نشین رہنی چاہیے کہ آپؐ کے پیش نظر ایک اہم مقصد صالح معاشرے کا قیام تھا اور اس کے لیے حکومت کا ہونا ناگزیر تھا۔ آپ اکثر دعا فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ اقتدار کے ذریعے اسلام کی مدد فرما۔ آپؐ کی یہ دعا قبول ہوئی۔ اب ایک اسلامی ریاست کے قیام کی حرکت تیز ہو گئی۔ آپؐ کی حکومت دینی حکومت تھی اور اس کا مقصد دعوت دین، اصلاح اخلاق اور تزکیہ نفس تھا۔ قرآن پاک نے اسلامی ریاست کا مقصد متعین کر دیا ہے۔ ترجمہ: ''یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخش دیں تو یہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے روکیں گے اور سب کاموں کا اختیار اللہ کے حکم میں ہے۔'' (الحج: ۴۱)

یہ آیت آپؐ کی حکومت کے طریق کار کو متعین کرتی ہے۔ آپؐ کی حکومت کا مقصود رضائے الہٰی کا حصول اور عوامی بہبود تھا۔ اس حکومت کی بنیاد خاندانی عصبیت اور نسلی شعور کی جگہ دینی وحدت پر قائم تھی۔ اس انوکھی اور اپنی نوعیت کی منفرد ریاست کے منتظم کا انداز بھی عام حکم رانوں سے یکسر مختلف تھا۔ منتظم ریاست کی حیثیت سے آپؐ کے تدبر کی بے شمار مثالیں آپؐ کی حقیقی عظمت کا پتا دیتی ہیں۔

داخلہ پالیسی
معاشی انصاف قائم کرنے کے بعد حضور اکرمؐ نے اسلامی مملکت کی داخلی سیاسی پالیسی کا اعلان فرمایا۔ آپؐ نے مدینہ اور اس کے نواحی علاقوں پر مشتمل خطے کو ایک وحدت قرار دیا۔ اس وحدت میں بسنے والے غیر مسلموں کے ساتھ معاہدہ فرمایا۔ ان غیر مسلموں کو مکمل شہری حیثیت دی گئی۔امور داخلہ میں آپؐ نے خصوصی توجہ استحکام امن اور اخلاقی تربیت کی طرف رکھی۔ شہری ریاست کو اندرونی خلفشار سے بچانے اور استحکام بخشنے کے لیے آپؐ نے مسلسل تدابیر اختیار کیں۔

مواخات اور میثاق مدینہ کے علاوہ قریبی قبائل سے معاہدے کیے۔ اس طرح مدینے کے گرد و نواح میں دوستوں کا اضافہ ہوا اور مخالفتوں میں مسلسل کمی ہوتی چلی گئی۔ آپؐ نے ایک تدبیر اختیار فرمائی کہ عرب میں جو شخص خاندان یا قبیلہ مسلمان ہو تو وہ ہجرت کر کے مدینہ یا مضافات میں آبسے تاکہ آبادی بڑھنے سے فوجی و سیاسی پوزیشن مضبوط ہو۔ اس طرز عمل کا فائدہ یہ ہوا کہ مسلمان فوج کے لیے محفوظ رضا کاروں میں روز افزوں اضافہ ہوا اور نو مسلموں کے لیے تعلیم و تربیت کا انتظام ہوا۔

خارجہ پالیسی
خارجہ پالیسی کے لیے حضور اکرمؐ نے امن عامہ اور بین الاقوامی اتحاد کو بنیاد بنایا۔ اسلامی ریاست کی خارجہ پالیسی جغرافیائی حدود میں وسعت اور جنگ و جدل پر مبنی نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو حدیبیہ کے مقام پر صلح کا معاہدہ طے نہ پاتا۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس وقت مسلمان کم زور تھے اور غیر مسلموں کی قوت سے خوف زدہ تھے کیوںکہ صحابہ کرام نے تو جانیں قربان کر دینے کی قسمیں کھائی تھیں مگر ہادی کونینؐ نے غیر مسلموں کی تمام شرائط مان کر صلح کر لینا ہی بہتر سمجھا۔

اسلام کی خارجہ پالیسی کا اصول یہ ہے کہ باوقار زندگی کے لیے پُر امن جدو جہد جاری رکھی جائے۔ اگر کوئی شرپسند اس راہ میں حائل ہو تو اس حد تک اس کے خلاف کارروائی کی جائے جس حد تک اس کی ضرورت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے مختلف اقوام کے ساتھ دوستی کے معاہدے کیے۔ جو قومیں غیر جانبدار رہنا پسند کرتی تھیں ان کی غیر جانبداری کا احترام کیا۔

نظام تعلیم
اسلامی ریاست میں نظام تعلیم کو بڑی اہمیت دی گئی ہے۔ آپؐ نے ہجرت سے قبل ہی حضرت مصعب بن عمیرؓ کو معلم بنا کر مدینہ بھیج دیا تھا اور ہجرت کے بعد مسجد نبویؐ کو باقاعدہ درس گاہ کا درجہ حاصل ہو گیا۔ غیر مقامی طلبہ کے لیے چبوترہ ڈالا گیا جس کو ''صفہ'' کہا گیا۔ یہاں یہ طلبہ قیام کرتے تھے۔ عرب میں چوںکہ لکھنے کا رواج نہیں تھا اس لیے مسجد نبوی ہی میں عبد اللہ بن سعید بن العاص اور عبادہ بن صامت کو لکھنا سکھانے پر مامور کیا گیا۔صحابہ کرامؓ کو مختلف زبانیں سکھائی گئیں اور فنون جنگ کی تعلیم بھی ہر جوان کے لیے ضروری قرار دی گئی۔ خواتین گھریلوں صنعتوں کے ساتھ علاج معالجے کا انتظام بھی کرتی تھیں، حتیٰ کہ ایک صحابیہ نے مسجد نبوی ہی میں خیمہ لگا دیا تھا جہاں زخمیوں کی مرہم پٹی کی جاتی تھی۔

مشاورت
حضور اکرمؐ کی شخصیت میں عام تقسیم کے مطابق دینی و دنیاوی دونوں حیثیتیں جامع طور پر موجود تھیں۔ آپؐ کی حکومت اساسی طور پر دینی تھی اس لیے آپ کی سیاست بھی دینی تھی۔ انتظام سلطنت کے بعض امور وہ تھے جن کا تعلق وحی اور الہام سے ہوتا، اس میں آپ کو کسی مشورے کی ضرورت نہیں تھی، تاہم آپؐ کا معمول تھا کہ مختلف معاملات میں صحابہ کرامؓ سے مشورہ کیا کرتے تھے۔ قرآن کریم آپؐ کی الہامی حیثیت کو اس طرح بیان کرتا ہے۔ ترجمہ: ''ہم نے آپؐ پر برحق کتاب اتاری تاکہ آپؐ لوگوں کے درمیان حکومت اللہ کے احکام کے مطابق انجام دیں۔'' (النساء:105)

رسول اکرمؐ صحابہ کرامؓ سے مشورہ کرتے تھے اور عام اور خاص معاملات ان کے سپرد کرتے، خاص طور پر حضرت سیدنا ابو بکر صدیقؓ کو دوسروں کی نسبت خصوصیت دیتے۔ یہاں تک کہ وہ عرب جو قیصر اور کسریٰ اور نجاشی کی سلطنتوں اور ان کے حالات سے واقف تھے،وہ حضرت ابو بکر صدیقؓ کو آپؐ کا وزیر کہا کرتے تھے۔ آپؐ کی شخصیت کے اس پہلو کو جس کا تعلق عام معاملات سے ہے قرآن پاک نے مشورے کے اصول سے واضح کیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: '' ان سے معاملات میں مشورہ کریں اور پھر جب آپ عزم کرلیں تو اللہ پر بھروسارکھیں۔'' (آل عمران: 159)

ملکی تقسیم
آپؐ کے حسن انتظام کا ایک پہلو وہ ملکی تقسیم ہے جس سے سلطنت داخلی طور پر مستحکم ہوئی۔ آپؐ کے عہد میں بعض علاقے بذریعہ فتح اسلام کے زیر نگیں اور بعض معاہدے کے تحت قبضے میں آئے۔ جو علاقے فتح کے ذریعے قبضے میں آئے وہاں آپؐ نے گورنر مقرر کیے۔ مثلاً حجاز اور نجد کے صوبے کا گورنر اُنہیں بنایا جن کا صدر مقام مکہ تھا اور جو علاقے صلح نامے کے ذریعے اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے ان کے حکم ران وہیں کے امراء رہے خواہ وہ مسلمان ہوں یا جزیہ دینے پر رضا مند ہوگئے ہوں۔ حضور اکرمؐ نے اسلامی حکومت کا انتظام چلانے کے لیے مختلف اوقات میں عامل (گورنر) مقرر کیے۔

افسروں کا انتخاب

حضور اکرمؐ کے عہد میں چوںکہ یمن اور حجاز اسلامی حکومت میں شامل ہو چکے تھے۔ اس لیے آپؐ ان علاقوں میں والی مقرر کرتے ہوئے ان کے تقویٰ، علم و دانش، عقل و عمل اور فہم کا خاص طور پر خیال رکھتے تھے۔ امراء کے انتخاب میں حضور اکرمؐ کی حکمت عملی کا ایک اہم جز یہ تھا کہ جو لوگ والی بننے کی درخواست کرتے ان کی درخواست رد کر دیتے۔ افسروں کے انتخاب کے سلسلے میں آپؐ کی حکمت عملی قرآن پاک کی اس آیت کی تعبیر تھی۔ ترجمہ: ''بلا شبہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ عہدے ان کے اہل لوگوں کو دیے جائیں۔'' (النساء )

احتساب

اگر چہ رسول اکرمؐ کے عہد میں احتساب کا کوئی مستقل محکمہ قائم نہیں تھا مگر حضور اکرمؐ یہ فرض خود انجام دیا کرتے تھے۔ تجارتی معاملات کی بھی نگرانی فرماتے۔ عرب میں تجارتی معاملات کی حالت نہایت قابل اصلاح تھی۔ مدینہ منورہ میں آنے کے بعد آپؐ نے ان اصلاحات کو جاری کر دیا۔ آپؐ تمام لوگوں سے اصلاحات پر عمل کراتے، جو باز نہیں آتے انہیں سزائیں دیتے ۔ آپؐ کے عہد میں کوئی باقاعدہ جیل خانہ نہیں تھا اس لیے صرف اتنا خیال کیا جاتا تھا کہ مجرم کو کچھ مدت کے لیے لوگوں سے ملنے جلنے اور معاشرتی تعلقات قائم نہ رکھنے دیے جائیں۔

اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ مجرم کو کسی گھر یا مسجد میں بند کر دیا جاتا تھا اور اس کے مخالف کو اس پر متعین کر دیا جاتا تھا تاکہ وہ مجرم کو لوگوں سے ملنے نہ دے۔ صحیح بخاری میں ہے۔ ''حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اکرمؐ کے عہد میں دیکھا کہ لوگ تخمیناً غلہ خریدتے تھے۔ ان کو اس بات پر سزا دی جاتی تھی کہ اپنے گھروں میں منتقل کرنے سے پہلے اس کو خود ہی وہاں بیچ ڈالیں جہاں اس کو خریدا تھا۔'' (بخاری شریف)

آپؐ عمال پر کڑی نگاہ رکھتے، کسی عامل کی شکایت پہنچتی تو فوراً تحقیقات کراتے کیوںکہ حکم ران کی حیثیت ایک داعی کی ہے۔ اگر سلطنت عدل کی جگہ ظلم و تشدد قبول کر لے تو سلطنت کا نظام درہم برہم ہو جائے۔

مرکز حکومت

حضور اکرمؐ کا سیکرٹریٹ یا مرکز حکومت مسجد نبوی تھا۔ آپؐ تمام وفود اور سفیروں سے یہیں ملاقات کیا کرتے تھے۔ گورنروں اور عمائدین حکومت کو ہدایات مسجد نبویؐ سے روانہ کی جاتیں۔ سیاسی و دیگر معاملات میں صحابہ کرامؓ سے یہیں مشورہ کرتے۔ ہر قسم کی سیاسی اور مذہبی تقاریب کا انعقاد مسجد نبویؐ میں ہوتا۔ تاریخ عرب میں ہے ''مسجد مسلمانوں کی مشترکہ عبادت، فوج اور سیاسی اجتماع کی جگہ تھی۔ نماز پڑھانے والا اما م ہی اہل ایمان کی فوج کا سپہ سالار ہوتا تھا اور جملہ مسلمانوں کو حکم تھا کہ ساری دنیا کے مقابلے میں ایک دوسرے کے محافظ و معاون رہیں۔ مال غنیمت مسجد نبویؐ میں آتا تھا اور یہیں پر نبی کریمؐ اسے مستحقین میں تقسیم کیا کرتے تھے۔

یہ تھا ایک مثالی حکم ران کا طرز حکومت۔ وہی حکم ران جنہیں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے لیے کامل ترین نمونہ بنا کر بھیجا۔اآج عالم گیر رسالتؐ کے حامل عالم گیر رسولِ رحمتؐ کا طرز حکم رانی ہی ہمارے مسائل کو حل کر سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں