کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر ِتصویر کا
یہ مانا کہ شیخ مجیب ان دنوں طالب علم تھے اور انھوں نے اس بات پر اعتراض جلسہ گاہ میں رجسٹر کرایا تھا۔
1970 کے انتخابات پر جس قدر بھی تنقید کی جائے وہ سب سعی لاحاصل ہوگی کیونکہ یہ انتخاب ملک کی تاریخ کا ایک بہترین انتخاب تھا، جنرل یحییٰ خان کا یہ کارنامہ ایک قابل تحسین عمل تھا مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ جب ملک کے اقتدار پر قابض حکمراں کم و بیش انھی فوجی جرنیلوں کی باقیات ہیں یہاں تک کہ محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف جب ایوب خان نے کنونشن لیگ بنائی تو اس کی تمام تر ذمے داری شہید ذوالفقار علی بھٹو کے سپرد کی اور وزارت خارجہ کا قلم دان ان کے سپرد کیا گیا،
البتہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ مادرملت کی شمع جمہوریت ولی خان، خان عبدالغفار خان کے کہنے پر خیبر سے کراچی لائے تھے جب کہ ملکی پارٹیوں کی اکثریت لالٹین کے نشان کے خلاف تھی مگر عوام کی اکثریت قائد اعظم کی بہن مادرملت کے ساتھ تھی مگر مشرقی پاکستان کے عوام کی اکثریت اور لیڈران تقریباً صد فی صد محترمہ جناح کے ساتھ تھے، چونکہ بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے ملازمین کی اکثریت مغربی پاکستان میں موجود تھی اس لیے وہاں مرکزی حکومت کے ملازمین اپنی کارروائیاں کرنے کی پوری صلاحیت نہ رکھتے تھے۔ ہمارے ملک کے بعض سیاسی ناقدین کا یہ مفروضہ بھی عجیب و غریب ہے کہ مشرقی پاکستان کے عوام قیام پاکستان سے ہی قائداعظم سے بغض رکھتے تھے کیونکہ قائداعظم نے اپنی تقریر میں یہ فرمایا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو، اردو اور صرف اردو ہوگی۔
یہ مانا کہ شیخ مجیب ان دنوں طالب علم تھے اور انھوں نے اس بات پر اعتراض جلسہ گاہ میں رجسٹر کرایا تھا، اگر یہ اعتراض اس قدر اہم اور پرجوش ہوتا تو وہ فاطمہ جناح کے اس قدر ہمدرد سپاہی کیونکر تھے؟ شیخ مجیب کو یقین تھا کہ جس کے بھائی نے یہ ملک بنایا تھا اور وہ بہن جو ہر مہم میں قائد کے ساتھ تھیں کیوں کر وہ ملک کی خیرخواہ نہ ہوں گی، شیخ مجیب نے مادر ملت کی الیکشن ریلیاں ڈھاکا میں منظم کیں مگر ان دنوں بی ڈی (Basic Democracy) بنیادی جمہوریت کا نظام نافذ کیا گیا تھا، اس لیے بنگالیوں کو آبادی کے حساب سے نمایندگی نہ ملی بلکہ 7 کروڑ برابر ہے 5 کروڑ کے یہ فلسفہ رائج کیا گیا، یہ ون یونٹ کا فلسفہ تھا۔پیریٹی تباہ کن نکلی۔
ظاہر ہے بنگالیوں کو نفاذ اردو سے نفرت نہ تھی بلکہ ان کو معلوم تھا کہ پاکستان کو یک جان رکھنے کے لیے رابطے کی زبان کی ضرورت تھی، آج بھی پاکستان کے مختلف صوبے کے لوگ آپس میں رابطہ کے لیے اردو زبان کو استعمال کرتے ہیں۔ بھارت کی فلم انڈسٹری جو وہاں کے لیے 30 فیصد زرمبادلہ دیتی ہے وہ بھی اردو زبان کی مرہون منت ہے۔ ابھی زیادہ عرصے کی بات نہیں کراچی یونیورسٹی کے سابق رجسٹرار ستارہ امتیاز پروفیسر رئیس علوی جو جاپانی زبان کے بھی ماہر ہیں اور ٹوکیو یونیورسٹی میں جاپانی اور اردو زبان کی لغت مرتب کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے انھوں نے ایک عجیب واقعہ بیان کیا کہ وہ ایک پکنک کے مقام پر گئے اور ایک پہاڑ پر چڑھ گئے جو خاصا بلند تھا وہاں ان کی ایک انگریز سے ملاقات ہوئی اس نے بے ساختہ مجھے دیکھ کر یہ کہا کہ کیا آپ ہندوستانی ہیں؟
میں نے کہا کہ نہیں پاکستانی، اس نے اردو میں باتیں کیں اور کہا گھومنے آیا ہوں۔ پروفیسر محمد رئیس علوی یہ سن کر ششدر رہ گئے۔ ظاہر ہے ہر دور رس نگاہ پاکستان کی مقامی زبانوں کے خلاف نہیں ہوسکتی کیونکہ ہر زبان اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنی شناخت اور اہمیت رکھتی ہے لہٰذا یہ الزام تراشی بے بنیاد ہے اور تمام وہ اردو بولنے والے سیاسی اور پنجابی، پشتو بولنے والے اہل دانش یہ جانتے ہیں اور یہاں تک کہ مرحوم حبیب جالب بھی شیخ مجیب اور بنگالیوں کی سیاسی بصیرت سے واقف تھے لہٰذا بنگال کی علیحدگی کی مہم اسی وقت پڑچکی تھی جب مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف مہم چلائی گئی۔
کراچی میں مادرملت کے حق میں مہم جن حضرات نے سیاسی میدان میں چلائی ان میں محمودالحق عثمانی، جناب انیس ہاشمی اور طلبا محاذ پر نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن کی جانب سے ڈاکٹر باقر عسکری، معراج محمد خان، آغا جعفر ، امیر حیدر کاظمی اور راقم ایک جونیئر کارکن تھا، اس مہم کے روح رواں طلبا محاذ پر ڈاکٹر شیر افضل ملک تھے جنہوں نے مادر ملت کے حق میں دسمبر 1966 کے انتخابات کو ناقابل تسخیر بنادیا تھا۔ ڈاؤ میڈیکل کالج کے کئی کمرے الیکشن ہیڈآفس تھے۔ ہوسٹلوں کے کمرے سیاسی منظر پیش کرتے تھے۔سید کاوش رضوی نے مادر ملت پر کتاب لکھی۔
محترمہ فاطمہ جناح نے این ایس ایف کے لیڈروں اور کارکنوں کی بڑی پذیرائی کی۔ مجھے یاد ہے کہ ایک چھوٹا سفید رشین کتا (Russian Dog) بھی ان کو چوکیداری کرتا تھا۔ یہ میٹنگ انھوں نے مہٹا پیلس کلفٹن میں بلائی تھی۔ اسٹیکر، بینر، بیجز طلبا ان کے پاس نمونہ جات لے گئے تھے جن پر تحریر تھا ''طلبا مادر ملت کے ساتھ ہیں'' مگر مغربی پاکستان کے بیشتر لیڈروں کو یہ ادراک نہ تھا کہ جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ درست نہیں، اقلیت اکثریت کو دھونس دے رہی ہے۔ خیر اب ہر شخص ایک نئے پاکستان کی نوید دے رہا ہے۔ ہماری عمر کے ساتھی ابھی بہت سے زندہ ہیں جو جانتے ہیں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد شہید بھٹو نے ایک نئے پاکستان کی بات کی تھی، پاکستان کا جغرافیہ اور تاریخ بھی نئی رقم کی گئی، ہر راقم نے اپنے انداز سے یہ داستان رقم کی ہے مگر اب دوبارہ نئے پاکستان کی بات اس وقت ملک کی بعض پارٹیاں کر رہی ہیں، آخر اب کون سی نئی آفت آنے کو ہے۔!
1970 کے انتخاب میں 65 فی صد ووٹ ڈالے گئے، ایک پرعزم پرحوصلہ قوم بالآخر تقسیم کردی گئی یہ سب لیڈروں کا کیا دھرا تھا اور اب لیڈران ایک بار پھر عوام کے جذبات سے کھیل رہے ہیں، جذبات کو بھڑکا رہے ہیں۔ میرے خرمن پر جلتی تیلی پھینک کر دور بیٹھ کر یہ تماشا دیکھ رہے ہیں کہ یہ اناج کا ڈھیر کتنی دیر میں آگ پکڑتا ہے۔ ان لیڈران نے مل کر عوام کو مایوس کیا ہے، سرائیکی صوبہ کی امید، بہاولپور صوبے کی آگ، ہزارہ وال صوبہ کی امیدیں، یہ خیال ایک نہ ایک دن اس کو پکڑ کر ایک شکل بزور شمشیر نہیں بلکہ بزور تدبیر پورا کرے گا اور یہ سب موجودہ نظام کے خلاف جانے کو ہے، بدامنی ایک طرف، ناتوانی عوام کی تقسیم درتقسیم عوام میں، کراچی جیسے بین الاقوامی شہر میں نو گوایریا ایسی جگہیں جہاں آزادی سے نہ جاسکیں، جہاں روز اسلحہ پکڑا جاتا ہے، جہاں اسکولوں کے بچے غیر محفوظ، جہاں حیات مشکل موت ارزاں ہے یہاں پولنگ کی شرح کیا ہوگی؟ 1970 کے انتخابات کے بعد ہر انتخاب میں الیکشن کی شرح کم ہوتی جارہی ہے۔ عوام کو کوئی بہتر زندگی کی نوید نہیں دے رہا ہے لہٰذا پولنگ کی شرح 30 فیصد بھی ہو تو بڑی بات ہے۔ ملک میں نوجوان اکثریت میں ہیں مگر سیاسی شعور کی کمی، جمہوری حکومتیں 5 سال گزار گئیں، مگر ان پانچ برسوں میں یونین بحال نہ ہوئیں، سیاست کا بنیادی ڈھانچہ تعلیمی اداروں سے رخصت ہوگیا، ان پانچ برسوں کی جمہوری حکومتوں نے کسی ایک کالج یا یونیورسٹی میں انتخاب نہ کرایا اور نہ ہی کوئی نمونہ پیش کیا۔
انتخابات سے عوام کی قسمت کیوں کر بدلے گی، بدلے گی تو چند لوگوں کی قسمت، عوام خوف میں مبتلا ہیں، بے روزگاری ہے، پرویز مشرف پر عوام کو دھوکا دینے کے لیے مقدمات کی بات ہو رہی ہے، بھلا کون چلائے گا مقدمہ اور جانے والی حکومت کیوں نہ چلاسکی مقدمہ؟ کیونکہ یہ این آر او کی پیداوار تھی، اچھا ہے چلے تو مقدمہ، عوام کے لیے دودھ کا دودھ پانی کا پانی الگ ہوجائے گا، عوام کے میزان میں مشرف کا پلڑا بھاری ہے کیونکہ جمہوریت نے جو درد دیے عوام اب تک خوفزدہ ہیں، بادشاہوںکے رنگ ڈھنگ، محلات کا نظارہ جمہورکے شہنشاہوں کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں فریادی، اب اٹھایا نہیں جاتا وزن، غریب سوچتے ہیں کوئی آمر ہی کیوں نہ آجائے، عفریت کرپشن کو کھا جائے ۔ تاریخ شہنشاہی پر نظر ڈالتے ہوئے غالب نے کہا تھا:؎
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا