بسنت کا شگوفہ جو کھلنے سے پہلے مرجھا گیا
سال کے سال اپریل کے ظالم مہینے میں ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے کسی کسی کو یہ جھرجھری ضرور آتی ہے۔
لاہور:
لیجیے وہ جو نجم سیٹھی صاحب کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننے کے ساتھ بسنت نام کی ایک جھرجھری آئی تھی وہ گزر گئی۔ حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے اور ان پتنگوں پر جو اڑنے سے پہلے ہی بو کاٹا ہو گئیں۔ ویسے تو یہ جھرجھری کوئی نئی چیز نہیں ہے۔
سال کے سال اپریل کے ظالم مہینے میں ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے کسی کسی کو یہ جھرجھری ضرور آتی ہے۔ اس جھرجھری کے ساتھ ہی یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ بسنت ہمارا تیوہار ہے یا نہیں ہے۔ ادھر یہ بحث گرم ہوتی چلی جاتی ہے اور ادھر سرسوں کے پھول مسکراتے رہتے ہیں۔ پھر جلدی ہی یاران بسنت ہارتے نظر آنے لگتے ہیں۔ بسنت پر خار کھانے والوں کی گڈی چڑھ جاتی ہے۔ آخر کے تئیں یاران بسنت ہار کر چپ ہو جاتے ہیں۔ ہنڈیا میں آیا ابال جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔
ادھر سرسوں بھی اپنی بسنت پیار دکھا کر مرجھاتی چلی جاتی ہے۔ مئی کا مہینہ آن لگنے سے پہلے ہی بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔ مگر اب کے جو بسنتی لہر آئی تھی اس میں لہک کچھ زیادہ تھی۔ نجم سیٹھی صاحب نے ابھی ابھی وزارت اعلیٰ کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ بسنت رت شروع ہو چکی تھی۔ دونوں نے مل کر جادو جگایا۔ نجم سیٹھی صاحب کو جھرجھری اس رنگ سے آئی کہ واقعی لگ رہا تھا کہ سوکھے دھانوں پر پانی پڑ گیا۔ مگر ہم تو میر کے اس مصرعہ کو اپنے کالم میں دہرا کر کہ؎
اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے
اپنے حصے کی بسنت منا کر فارغ ہو چکے تھے۔ یاروں نے ٹہوکا بھی کہ تمہیں کچھ بسنت کی بھی خبر ہے، نجم سیٹھی صاحب نے وزیر اعلیٰ بننے کے ساتھ کتنے زور کی جھرجھری لی ہے۔ بسنت بہار آئے ہی آئے۔ مگر ہم اس پر مرحبا کہتے کہتے رک گئے۔ سوچا کہ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔ سو دیکھا اپریل کے تیزی سے گزرتے دنوں میں تیل بھی دیکھا تیل کی دھار بھی دیکھی۔ سیٹھی صاحب کو جس تیزی سے جھرجھری آئی تھی اسی تیزی سے گزر گئی۔
بہرحال کسی موسم کو بھی قرار تو نہیں ہوتا۔ یہ موسم بھی جلدی گزر جائے گا اور یہ وزارتیں بھی جلدی اپنی مدت پوری کر لیں گی۔ مگر سیٹھی صاحب کی یہ جھرجھری آسانی سے بھولنے والی چیز نہیں ہے۔ ایک کسک وہ بہرحال چھوڑ جائے گی کہ ایک وزیر اعلیٰ نے بھی بسنت کا بیڑا اٹھا کر دیکھ لیا۔ بسنت کے دن پھر بھی نہیں پھرے۔
اصل میں اس میں نہ سیٹھی صاحب کی خطا ہے نہ شہباز شریف صاحب کی جن پر سیٹھی صاحب نے ابھی پچھلے دنوں یہ الزام لگایا تھا کہ انھوں نے ایک ایسی تقریب کو ختم کر دیا جس نے ایک بین الاقوامی جشن کی حیثیت اختیار کر لی تھی اور جس کی کلچرل قدر و قیمت بھی بہت تھی اور اقتصادی بھی۔ یہ مقدمہ تو کتنے سال سے چل ہی رہا تھا کہ یہ تیوہار یا یہ میلہ ہمارا ہے یا ہم نے ہندوئوں سے مستعار لیا ہے۔ مگر یہ مقدمہ بھی چلتا رہا اور بسنت کی تقریب بھی فروغ پاتی چلی جا رہی تھی اور تھوڑے سال سے اس نے سچ مچ ایک بین الاقوامی میلہ کی شکل اختیار کر لی تھی۔ کتنے شوقین لوگ، کتنے پتنگ کے رسیا دور کے ملکوں سے چل کر آتے اور اس میلہ کی رونق بڑھاتے اور واقعی اس سے پاکستان کے کاروبار کو بہت تقویت مل رہی تھی۔
مگر جب اسلام کی مختلف تعبیروں میں سے اس تعبیر پر اصرار بڑھا جس کی رو سے خوشی کے مظاہرے بالعموم لہو لعب کے خانے میں ڈالے جانے لگے یا پھر ان پر بدعت کا ٹھپا لگا کر مطعون کیا جانے لگا اور اس زد میں تو ہمارے ایسے تیوہار بھی آ گئے جنہوں نے ہماری مذہبی روایت ہی کے سائے میں فروغ پایا تھا۔ اس کی سب سے بڑی مثال تو شب برأت کا تیوہار ہے۔ اس میں بچوں بڑوں دونوں کے لیے کتنی خوشی کا سامان تھا۔
اس کے خلاف جب مذہبی توجیحات زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوئیں تو پھر وہی الزام کہ آتش بازی سے جانوں کا ضیاع ہوتا ہے اور آتش بازی کے ذیل میں صرف ان مرسل پٹاس والے گولوں اور بارود بھرے پٹاخوں کو شمار نہیں کیا گیا جن سے جانی نقصان کا بھی اندیشہ رہتا تھا بلکہ پھلجھڑی اور مہتابی ایسی چیزوں کو بھی اسی ذیل میں ڈال دیا گیا جو بچوں کے لیے خوشی کا سامان رکھتی تھیں۔ جانی نقصان کا تو اس میں کوئی احتمال نہیں تھا اور اس معاملہ میں ہماری پولیس اتنی فرض شناس ہو گئی ہے کہ اس نے بچوں کے ہاتھوں سے پھلجھڑی بھی چھین لی۔
پاکستان کی پولیس کی فرض شناسی کا مظاہرہ بس ایسے ہی موقعوں پر ہوتا رہا ہے۔
بسنت کے معاملہ میں جو اب فیصلہ ہوا ہے، اس میں بھی تو پولیس ہی کی بصیرت پر زیادہ اعتبار کیا گیا ہے۔ اپنی انتظامی نااہلی کو اس طرح پیش کرنا کہ پتنگ بازی میں جو تار کے استعمال سے جانوں کے لیے خطرہ پیدا ہوا ہے وہ ایک ناقابل حل مسئلہ ہے، اسی بصیرت کا شاخسانہ ہے۔
تو بسنت کا میلا ٹھیلا جتنی تفریح جتنا جشن کا سماں پیدا ہوتا تھا وہ ہو چکا۔ اسے اب قصۂ ماضی جانئے۔ اب جو ہمارے اردگرد اور ہماری قیمت پر جو سیاسی کھیل کھیلتے جاتے ہیں اسی میں تفریح کے پہلو تلاش کیجیے۔ دیکھیے الیکشن کے سارے عمل کو یاروں نے کتنا دلچسپ بنا دیا ہے۔ ایک ریٹرننگ افسروں کی جرح نے اس میں کتنے تفریحی پہلو پیدا کر دیے ہیں اور کتنے لطیفوں کو جنم دیا ہے۔ اس وقت پاکستان کی سب سے دلچسپ مخلوق یہ ریٹرننگ افسر ہیں۔ فقرے اتار کر ایسے سوال کرتے ہیں کہ چاہیں تو آپ ان پر لطیفہ بازی کریں اور چاہیں تو ان سے عبرت کا سامان فراہم کریں۔
یہ تو اس ڈرامے کا ایک پہلو ہے۔ باقی اور پہلو بھی ہیں کہ کم عبرت افزا نہیں۔ بس یوں سمجھو کہ سنتا جا شرماتا جا۔ ویسے کوئی مضائقہ نہیں کہ ہم سال کے سال بسنت رت پر تھوڑا رو گا لیا کریں۔ بسنت میلہ نہ سہی بسنت میلہ کی یاد ہی سہی۔ یہ بھی اچھی ہی بات ہے ؎
دل میں نظر آتی تو ہے ایک بوند لہو کی
لیجیے وہ جو نجم سیٹھی صاحب کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بننے کے ساتھ بسنت نام کی ایک جھرجھری آئی تھی وہ گزر گئی۔ حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے اور ان پتنگوں پر جو اڑنے سے پہلے ہی بو کاٹا ہو گئیں۔ ویسے تو یہ جھرجھری کوئی نئی چیز نہیں ہے۔
سال کے سال اپریل کے ظالم مہینے میں ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے کسی کسی کو یہ جھرجھری ضرور آتی ہے۔ اس جھرجھری کے ساتھ ہی یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ بسنت ہمارا تیوہار ہے یا نہیں ہے۔ ادھر یہ بحث گرم ہوتی چلی جاتی ہے اور ادھر سرسوں کے پھول مسکراتے رہتے ہیں۔ پھر جلدی ہی یاران بسنت ہارتے نظر آنے لگتے ہیں۔ بسنت پر خار کھانے والوں کی گڈی چڑھ جاتی ہے۔ آخر کے تئیں یاران بسنت ہار کر چپ ہو جاتے ہیں۔ ہنڈیا میں آیا ابال جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔
ادھر سرسوں بھی اپنی بسنت پیار دکھا کر مرجھاتی چلی جاتی ہے۔ مئی کا مہینہ آن لگنے سے پہلے ہی بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔ مگر اب کے جو بسنتی لہر آئی تھی اس میں لہک کچھ زیادہ تھی۔ نجم سیٹھی صاحب نے ابھی ابھی وزارت اعلیٰ کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ بسنت رت شروع ہو چکی تھی۔ دونوں نے مل کر جادو جگایا۔ نجم سیٹھی صاحب کو جھرجھری اس رنگ سے آئی کہ واقعی لگ رہا تھا کہ سوکھے دھانوں پر پانی پڑ گیا۔ مگر ہم تو میر کے اس مصرعہ کو اپنے کالم میں دہرا کر کہ؎
اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزر گئے
اپنے حصے کی بسنت منا کر فارغ ہو چکے تھے۔ یاروں نے ٹہوکا بھی کہ تمہیں کچھ بسنت کی بھی خبر ہے، نجم سیٹھی صاحب نے وزیر اعلیٰ بننے کے ساتھ کتنے زور کی جھرجھری لی ہے۔ بسنت بہار آئے ہی آئے۔ مگر ہم اس پر مرحبا کہتے کہتے رک گئے۔ سوچا کہ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو۔ سو دیکھا اپریل کے تیزی سے گزرتے دنوں میں تیل بھی دیکھا تیل کی دھار بھی دیکھی۔ سیٹھی صاحب کو جس تیزی سے جھرجھری آئی تھی اسی تیزی سے گزر گئی۔
بہرحال کسی موسم کو بھی قرار تو نہیں ہوتا۔ یہ موسم بھی جلدی گزر جائے گا اور یہ وزارتیں بھی جلدی اپنی مدت پوری کر لیں گی۔ مگر سیٹھی صاحب کی یہ جھرجھری آسانی سے بھولنے والی چیز نہیں ہے۔ ایک کسک وہ بہرحال چھوڑ جائے گی کہ ایک وزیر اعلیٰ نے بھی بسنت کا بیڑا اٹھا کر دیکھ لیا۔ بسنت کے دن پھر بھی نہیں پھرے۔
اصل میں اس میں نہ سیٹھی صاحب کی خطا ہے نہ شہباز شریف صاحب کی جن پر سیٹھی صاحب نے ابھی پچھلے دنوں یہ الزام لگایا تھا کہ انھوں نے ایک ایسی تقریب کو ختم کر دیا جس نے ایک بین الاقوامی جشن کی حیثیت اختیار کر لی تھی اور جس کی کلچرل قدر و قیمت بھی بہت تھی اور اقتصادی بھی۔ یہ مقدمہ تو کتنے سال سے چل ہی رہا تھا کہ یہ تیوہار یا یہ میلہ ہمارا ہے یا ہم نے ہندوئوں سے مستعار لیا ہے۔ مگر یہ مقدمہ بھی چلتا رہا اور بسنت کی تقریب بھی فروغ پاتی چلی جا رہی تھی اور تھوڑے سال سے اس نے سچ مچ ایک بین الاقوامی میلہ کی شکل اختیار کر لی تھی۔ کتنے شوقین لوگ، کتنے پتنگ کے رسیا دور کے ملکوں سے چل کر آتے اور اس میلہ کی رونق بڑھاتے اور واقعی اس سے پاکستان کے کاروبار کو بہت تقویت مل رہی تھی۔
مگر جب اسلام کی مختلف تعبیروں میں سے اس تعبیر پر اصرار بڑھا جس کی رو سے خوشی کے مظاہرے بالعموم لہو لعب کے خانے میں ڈالے جانے لگے یا پھر ان پر بدعت کا ٹھپا لگا کر مطعون کیا جانے لگا اور اس زد میں تو ہمارے ایسے تیوہار بھی آ گئے جنہوں نے ہماری مذہبی روایت ہی کے سائے میں فروغ پایا تھا۔ اس کی سب سے بڑی مثال تو شب برأت کا تیوہار ہے۔ اس میں بچوں بڑوں دونوں کے لیے کتنی خوشی کا سامان تھا۔
اس کے خلاف جب مذہبی توجیحات زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوئیں تو پھر وہی الزام کہ آتش بازی سے جانوں کا ضیاع ہوتا ہے اور آتش بازی کے ذیل میں صرف ان مرسل پٹاس والے گولوں اور بارود بھرے پٹاخوں کو شمار نہیں کیا گیا جن سے جانی نقصان کا بھی اندیشہ رہتا تھا بلکہ پھلجھڑی اور مہتابی ایسی چیزوں کو بھی اسی ذیل میں ڈال دیا گیا جو بچوں کے لیے خوشی کا سامان رکھتی تھیں۔ جانی نقصان کا تو اس میں کوئی احتمال نہیں تھا اور اس معاملہ میں ہماری پولیس اتنی فرض شناس ہو گئی ہے کہ اس نے بچوں کے ہاتھوں سے پھلجھڑی بھی چھین لی۔
پاکستان کی پولیس کی فرض شناسی کا مظاہرہ بس ایسے ہی موقعوں پر ہوتا رہا ہے۔
بسنت کے معاملہ میں جو اب فیصلہ ہوا ہے، اس میں بھی تو پولیس ہی کی بصیرت پر زیادہ اعتبار کیا گیا ہے۔ اپنی انتظامی نااہلی کو اس طرح پیش کرنا کہ پتنگ بازی میں جو تار کے استعمال سے جانوں کے لیے خطرہ پیدا ہوا ہے وہ ایک ناقابل حل مسئلہ ہے، اسی بصیرت کا شاخسانہ ہے۔
تو بسنت کا میلا ٹھیلا جتنی تفریح جتنا جشن کا سماں پیدا ہوتا تھا وہ ہو چکا۔ اسے اب قصۂ ماضی جانئے۔ اب جو ہمارے اردگرد اور ہماری قیمت پر جو سیاسی کھیل کھیلتے جاتے ہیں اسی میں تفریح کے پہلو تلاش کیجیے۔ دیکھیے الیکشن کے سارے عمل کو یاروں نے کتنا دلچسپ بنا دیا ہے۔ ایک ریٹرننگ افسروں کی جرح نے اس میں کتنے تفریحی پہلو پیدا کر دیے ہیں اور کتنے لطیفوں کو جنم دیا ہے۔ اس وقت پاکستان کی سب سے دلچسپ مخلوق یہ ریٹرننگ افسر ہیں۔ فقرے اتار کر ایسے سوال کرتے ہیں کہ چاہیں تو آپ ان پر لطیفہ بازی کریں اور چاہیں تو ان سے عبرت کا سامان فراہم کریں۔
یہ تو اس ڈرامے کا ایک پہلو ہے۔ باقی اور پہلو بھی ہیں کہ کم عبرت افزا نہیں۔ بس یوں سمجھو کہ سنتا جا شرماتا جا۔ ویسے کوئی مضائقہ نہیں کہ ہم سال کے سال بسنت رت پر تھوڑا رو گا لیا کریں۔ بسنت میلہ نہ سہی بسنت میلہ کی یاد ہی سہی۔ یہ بھی اچھی ہی بات ہے ؎
دل میں نظر آتی تو ہے ایک بوند لہو کی