اپوزیشن کا پانچ سالہ اطمینان بخش کردار
پاکستان جیسے ترقی پذیر جمہوری ملکوں میں، لوگوں کو یہ بتانے کے لیے کہ کیوں کسی متبادل جماعت کی ضرورت ہے۔
اب، جب کہ ہم انتخابات 2013 کی تیاریوں میں مصروف ہیں، سنکی نوعیت کی دو اصطلاحات کی طرف توجہ دلانا مناسب ہو گا، جو عام طور پر بعض سیاست دانوں کی طرف سے تواتر کے ساتھ دہرائی جاتی ہیں۔ ان میں سے ایک اصطلاح تو 'مُک مُکا' ہے (یعنی دو جماعتوں کے درمیان اشارتاً اس مفہوم کے ساتھ سودے بازی کہ جیسے انھوں نے معاملات کو خفیہ طریقے سے طے کر لیا ہے) اسی طرح کی دوسری اصطلاح 'نورا کُشتی' ہے (جس کا مطلب ہے پہلے سے طے شدہ مقابلہ)۔
حال ہی میں تحلیل ہونے والے حکومتی اتحاد اور حزب اختلاف کے درمیان کسی مفاہمت کو ظاہر کرنے کے لیے ان اصطلاحات کو غیر ذمے داری کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ حزب اختلاف کی حیثیت سے مسلم لیگ (ن) کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کے لیے اس قسم کی سمجھ سے بالا تر اصطلاحات بے دریغ استعمال کی جاتی ہیں۔ اکثر دہرائی جانے والی تیسری مثبت اصطلاح 'تبدیلی' ہے، جس کا استعمال عمران خان نے شروع کیا۔
سچی بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت میں، میاں نواز شریف کی زیر قیادت اپوزیشن پر 'مُک مُکا' نورا کُشتی' اور دوستانہ حزب اختلاف وغیرہ کا الزام غلط طور پر لگایا جاتا ہے۔ جب عمران خان جیسے لوگ، جو تحریک انصاف کے لیے گنجائش پیدا کرنا چاہتے ہیں، مسلم لیگ (ن) پر تنقید کرتے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ وہ اپنی پارٹی کو تیسرے متبادل کے طور پیش کرنے کے لیے جدو جہدکر رہے ہیں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر جمہوری ملکوں میں، لوگوں کو یہ بتانے کے لیے کہ کیوں کسی متبادل جماعت کی ضرورت ہے 'تبدیلی' کی پیشکش کی جاتی ہے، یہ عام فہم اور گلی کوچوں میں بولی جانے والی زبان ہے۔ لوگوں کو الجھی ہوئی بات سمجھانا مشکل ہوتا ہے۔
لیکن جب میڈیا کے پنڈت،لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش میں کہ اپوزیشن کوئی غلط کام کر رہی ہے، اس قسم کی اصطلاحات استعمال کریں تو یہ غیر ذمے داری ہے اور جمہوری عمل کے بارے میں لوگوں کو تعلیم دینے کے لیے ان کے فرض سے مطابقت نہیں رکھتی۔ میڈیا میں بیٹھے ہوئے دوست یا تو مقبولیت حاصل کرنے کے لیے اس قسم کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں یا پھر وہ جمہوری عمل کے تاریخی ارتقاء سے ناواقف ہیں۔ میڈیا کے ساتھ دیرینہ تعلق مجھے اس بات کا قائل کرتا ہے کہ اس کی وجہ اول الذکر ہے۔
کچھ تذبذب بھی اپنی جگہ موجود ہے جس میں میڈیا تھوڑا بہت اضافہ کرتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر جب پارلیمانی کمیٹی، نگراں وزیر اعلیٰ کا فیصلہ کرنے میں ناکام ہو گئی، تو میڈیا کے بہت سے دوستوں نے بجا طور پر سیاست دانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہو گئے۔ مگر جب وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی نامزدگی پرآخری لمحات میں متفق ہو گئے تو شور مچا دیا گیا کہ یہ 'مُک مکا' ہے۔ ایک ذمے دار اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر نواز شریف کی پوری طرح سے تعریف کرنے کی بجائے ان کی پارٹی کا مذاق اڑایا گیا اور ان پر 'وفادار اپوزیشن' اور 'دوستانہ حزب اختلاف' کا الزام لگایا گیا۔
ایسے بہت سے سینئر پروفیشنلز موجود ہیں جو سیاست دانوں کو بُرا کہتے ہیںاور اس بات پر ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہیں کہ ''عوام کو بد عنوان سیاست دانوں سے بچانے کے لیے فوج آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔'' جمہوری نظام کے مقابلے میں ایک مطلق العنان فوجی حکمرانی کی حمایت، اس مسلمہ سیاسی نظریے کی نفی ہے کہ بورژوای نے متعدد ملکوں میں جمہوریت کو فروغ دیا اور یہ ملک جمہوری نظام کو ترقی دینے میں کامیاب ہوئے۔
یہ خاصی دلچسپ بات ہے کہ پاکستان میں نیم جاگیردار کاشت کار اور عام آدمی، دونوں جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں۔ اول الذکر کا مفاد اختیار حاصل کرنا ہے جب کہ عام آدمی اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے منتخب نمایندوں تک رسائی چاہتا ہے۔ یہ حقوق اسی صورت میں حاصل ہو سکتے ہیں جب انتخابات ہوتے رہیں۔ اس موضوع پر بات کرنے کے لیے الگ سے ایک آرٹیکل کی ضرورت ہے۔
ہم دوبارہ اصل موضوع یعنی جمہوری عمل میں اپوزیشن کا کردار کی طرف آتے ہیں۔ اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اپوزیشن کا بنیادی کردار عوام کے مفادات کی نگہبانی ہوتا ہے۔ حزب اختلاف سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پارلیمان میں حکومت کی ایسی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھائے جنھیں وہ عوامی مفاد کے خلاف سمجھتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کی دوسری جماعتوں نے بالکل ایسا ہی کیا۔
اپوزیشن جماعتوں کا کردار یہ ہوتا ہے کہ وہ مختلف وزارتوں کی پارلیمانی کمیٹیوں میں بیٹھیں اور ایسے اقدامات پر تنقید کریں جنھیں وہ غلط سمجھتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ذمے داری یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ قانون ساز کمیٹیوں کی کارروائی میں شامل ہوں تاکہ مجوزہ قوانین ان کی مشاورت کے ساتھ بنائے جائیںاس سے پارلیمنٹ میں قوانین کو احسن طریقے سے منظور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ حال ہی میں تحلیل ہونے والی پارلیمنٹ نے اس ضمن میں خاطر خواہ کام کیا۔
پانچ سال کے عرصے میں نہ صرف ایک اہم 18 ویں ترمیم بلکہ دوسرے 134 قوانین بھی منظور کیے گئے۔ اپوزیشن کا کردار آزاد عدلیہ کی حفاظت ہے۔ اپوزیشن کا کردار یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ اور مختلف عوامی فورمز میں حکمراں جماعتوں کے رہنمائوں کی کرپشن کو بے نقاب کرے۔ اپوزیشن کا کردار یہ ہے کہ وہ حکمران جماعت کی طرف سے آزادی اظہار اور شہری آزادیوں کے بارے میں ایسے قوانین، ان پر حملے اور ایسی معاشی پالیسیوں کی مخالفت کرے جنھیں وہ ملک کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہے۔
اپوزیشن کا کردار یہ ہے کہ وہ معاشیات، سماجی شعبے اور خارجہ امور کے بارے میں متبادل پالیسیاں اور نیشنل سیکیورٹی پالیسی پیش کرے۔
Mekerere یونیورسٹی کے ڈاکٹر جولیس کیزا نے ایک بین الاقوامی کانفرنس میںپیش کیے جانے والے مقالے میں بڑی عمدگی کے ساتھ وضاحت کی ہے کہ ''مسابقتی کثیر الجماعتی سیاست میں جس پارٹی کو حکومت بنانے کے لیے منتخب کیا جاتا ہے وہ متعدد پالیسیاں اور پروگرام تیار کرنے کی کوشش کرتی ہے (عام طور پر یہ اس کے انتخابی منشور کے مطابق ہوتا ہے)۔ اپوزیشن جماعتیں، حکمراں جماعت کی پالیسیوں، نظریات اور پروگراموں پر تنقید اور اس کا متبادل پیش کرنے میں آزاد ہوتی ہیں۔
جمہوری جماعتیں، منتخب حکومت کی اتھارٹی کو تسلیم اور اس کا احترام کرتی ہیں اور اس وقت بھی ایسا ہی رویہ اختیار کرتی ہیں جب ان کے رہنما اقتدار میں نہیں ہوتے۔ یہ اس لیے ممکن ہوتا ہے کہ جمہوری معاشرے تحمل، تعاون اور مفاہمت کی اقدار کے پابند ہوتے ہیں۔ جمہوری ممالک تسلیم کرتے ہیں کہ اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے مفاہمت اور تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ وفادار اپوزیشن کا تصور کسی بھی جمہوری ملک کے لیے مرکزی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
(یہ وفا داری ملک سے ہوتی ہے، حکومت سے نہیں) اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی مکالمے کے تمام فریق۔ خواہ ان کے اختلافات کتنے ہی گہرے ہوں، آزادی اظہار، قانون کی حکمرانی اور قانون کے تحت یکساں تحفظ کی بنیادی جمہوری اقدار کا احترام کرتے ہیں۔ جو جماعتیں الیکشن ہار جاتی ہیں وہ اپوزیشن بن جاتی ہیں۔ اس طرح اپوزیشن لازمی طور پر 'مستقبل کی حکومت' ہوتی ہے۔ جمہوری کلچر کو مضبوط کرنے کے لیے، اپوزیشن پارٹیوں کو اپنے اندر یہ اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی نظام ہی ان کے اس حق کی ضمانت دے گا کہ وہ خود کو منظم کر سکیں، برسر اقتدار جماعت کے خلاف بول سکیں اور اُس سے اختلاف یا اُس پر تنقید کر سکیں۔
اپوزیشن پارٹیوں کو اس یقین کی بھی ضرورت ہے کہ مناسب وقت پرانھیں انتخابی مہم چلانے اور باقاعدہ، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے عوام سے دوبارہ مینڈیٹ حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔پاکستان میں جمہوریت کا یہی کلچر تشکیل پا رہا ہے۔ تحمل سے عاری، سنکی لوگوں کو یہ عمل برداشت کرنا ہو گا جو انتخابات کے ذریعے پُر امن انتقال اقتدار کا تقاضا کرتا ہے۔ پاکستان میں اپوزیشن نے وہی کردار ادا کیا ہے جو اسے عوامی مینڈیٹ کے ذریعے سونپا گیا تھا اور جمہوری انتظام میں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ نظام کے بے صبر ناقدین اور فوجی حکمرانی کے حامیوں کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ جمہوریت کو شروع میں ہی قتل کر دیا جائے کیونکہ اس سے وہ پریشان رہتے ہیں' اگر ہم ایک صحت مند معاشر ہ قائم کرناچاہتے ہیں تو پھر اس نوزائیدہ بچے کی ہمیں تحمل کے ساتھ پرورش کرنا ہو گی۔
حال ہی میں تحلیل ہونے والے حکومتی اتحاد اور حزب اختلاف کے درمیان کسی مفاہمت کو ظاہر کرنے کے لیے ان اصطلاحات کو غیر ذمے داری کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ حزب اختلاف کی حیثیت سے مسلم لیگ (ن) کے کردار پر کیچڑ اچھالنے کے لیے اس قسم کی سمجھ سے بالا تر اصطلاحات بے دریغ استعمال کی جاتی ہیں۔ اکثر دہرائی جانے والی تیسری مثبت اصطلاح 'تبدیلی' ہے، جس کا استعمال عمران خان نے شروع کیا۔
سچی بات یہ ہے کہ مرکزی حکومت میں، میاں نواز شریف کی زیر قیادت اپوزیشن پر 'مُک مُکا' نورا کُشتی' اور دوستانہ حزب اختلاف وغیرہ کا الزام غلط طور پر لگایا جاتا ہے۔ جب عمران خان جیسے لوگ، جو تحریک انصاف کے لیے گنجائش پیدا کرنا چاہتے ہیں، مسلم لیگ (ن) پر تنقید کرتے ہیں تو بات سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ وہ اپنی پارٹی کو تیسرے متبادل کے طور پیش کرنے کے لیے جدو جہدکر رہے ہیں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر جمہوری ملکوں میں، لوگوں کو یہ بتانے کے لیے کہ کیوں کسی متبادل جماعت کی ضرورت ہے 'تبدیلی' کی پیشکش کی جاتی ہے، یہ عام فہم اور گلی کوچوں میں بولی جانے والی زبان ہے۔ لوگوں کو الجھی ہوئی بات سمجھانا مشکل ہوتا ہے۔
لیکن جب میڈیا کے پنڈت،لوگوں کو یہ باور کرانے کی کوشش میں کہ اپوزیشن کوئی غلط کام کر رہی ہے، اس قسم کی اصطلاحات استعمال کریں تو یہ غیر ذمے داری ہے اور جمہوری عمل کے بارے میں لوگوں کو تعلیم دینے کے لیے ان کے فرض سے مطابقت نہیں رکھتی۔ میڈیا میں بیٹھے ہوئے دوست یا تو مقبولیت حاصل کرنے کے لیے اس قسم کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں یا پھر وہ جمہوری عمل کے تاریخی ارتقاء سے ناواقف ہیں۔ میڈیا کے ساتھ دیرینہ تعلق مجھے اس بات کا قائل کرتا ہے کہ اس کی وجہ اول الذکر ہے۔
کچھ تذبذب بھی اپنی جگہ موجود ہے جس میں میڈیا تھوڑا بہت اضافہ کرتا رہتا ہے۔ مثال کے طور پر جب پارلیمانی کمیٹی، نگراں وزیر اعلیٰ کا فیصلہ کرنے میں ناکام ہو گئی، تو میڈیا کے بہت سے دوستوں نے بجا طور پر سیاست دانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ سیاسی بلوغت کا مظاہرہ کرنے میں ناکام ہو گئے۔ مگر جب وہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی نامزدگی پرآخری لمحات میں متفق ہو گئے تو شور مچا دیا گیا کہ یہ 'مُک مکا' ہے۔ ایک ذمے دار اپوزیشن کا کردار ادا کرنے پر نواز شریف کی پوری طرح سے تعریف کرنے کی بجائے ان کی پارٹی کا مذاق اڑایا گیا اور ان پر 'وفادار اپوزیشن' اور 'دوستانہ حزب اختلاف' کا الزام لگایا گیا۔
ایسے بہت سے سینئر پروفیشنلز موجود ہیں جو سیاست دانوں کو بُرا کہتے ہیںاور اس بات پر ناپسندیدگی ظاہر کرتے ہیں کہ ''عوام کو بد عنوان سیاست دانوں سے بچانے کے لیے فوج آگے نہیں بڑھ رہی ہے۔'' جمہوری نظام کے مقابلے میں ایک مطلق العنان فوجی حکمرانی کی حمایت، اس مسلمہ سیاسی نظریے کی نفی ہے کہ بورژوای نے متعدد ملکوں میں جمہوریت کو فروغ دیا اور یہ ملک جمہوری نظام کو ترقی دینے میں کامیاب ہوئے۔
یہ خاصی دلچسپ بات ہے کہ پاکستان میں نیم جاگیردار کاشت کار اور عام آدمی، دونوں جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں۔ اول الذکر کا مفاد اختیار حاصل کرنا ہے جب کہ عام آدمی اپنے حقوق حاصل کرنے کے لیے منتخب نمایندوں تک رسائی چاہتا ہے۔ یہ حقوق اسی صورت میں حاصل ہو سکتے ہیں جب انتخابات ہوتے رہیں۔ اس موضوع پر بات کرنے کے لیے الگ سے ایک آرٹیکل کی ضرورت ہے۔
ہم دوبارہ اصل موضوع یعنی جمہوری عمل میں اپوزیشن کا کردار کی طرف آتے ہیں۔ اس بات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اپوزیشن کا بنیادی کردار عوام کے مفادات کی نگہبانی ہوتا ہے۔ حزب اختلاف سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پارلیمان میں حکومت کی ایسی پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھائے جنھیں وہ عوامی مفاد کے خلاف سمجھتی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کی دوسری جماعتوں نے بالکل ایسا ہی کیا۔
اپوزیشن جماعتوں کا کردار یہ ہوتا ہے کہ وہ مختلف وزارتوں کی پارلیمانی کمیٹیوں میں بیٹھیں اور ایسے اقدامات پر تنقید کریں جنھیں وہ غلط سمجھتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی ذمے داری یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ قانون ساز کمیٹیوں کی کارروائی میں شامل ہوں تاکہ مجوزہ قوانین ان کی مشاورت کے ساتھ بنائے جائیںاس سے پارلیمنٹ میں قوانین کو احسن طریقے سے منظور کرنے میں مدد ملتی ہے۔ حال ہی میں تحلیل ہونے والی پارلیمنٹ نے اس ضمن میں خاطر خواہ کام کیا۔
پانچ سال کے عرصے میں نہ صرف ایک اہم 18 ویں ترمیم بلکہ دوسرے 134 قوانین بھی منظور کیے گئے۔ اپوزیشن کا کردار آزاد عدلیہ کی حفاظت ہے۔ اپوزیشن کا کردار یہ ہے کہ وہ پارلیمنٹ اور مختلف عوامی فورمز میں حکمراں جماعتوں کے رہنمائوں کی کرپشن کو بے نقاب کرے۔ اپوزیشن کا کردار یہ ہے کہ وہ حکمران جماعت کی طرف سے آزادی اظہار اور شہری آزادیوں کے بارے میں ایسے قوانین، ان پر حملے اور ایسی معاشی پالیسیوں کی مخالفت کرے جنھیں وہ ملک کے لیے نقصان دہ سمجھتی ہے۔
اپوزیشن کا کردار یہ ہے کہ وہ معاشیات، سماجی شعبے اور خارجہ امور کے بارے میں متبادل پالیسیاں اور نیشنل سیکیورٹی پالیسی پیش کرے۔
Mekerere یونیورسٹی کے ڈاکٹر جولیس کیزا نے ایک بین الاقوامی کانفرنس میںپیش کیے جانے والے مقالے میں بڑی عمدگی کے ساتھ وضاحت کی ہے کہ ''مسابقتی کثیر الجماعتی سیاست میں جس پارٹی کو حکومت بنانے کے لیے منتخب کیا جاتا ہے وہ متعدد پالیسیاں اور پروگرام تیار کرنے کی کوشش کرتی ہے (عام طور پر یہ اس کے انتخابی منشور کے مطابق ہوتا ہے)۔ اپوزیشن جماعتیں، حکمراں جماعت کی پالیسیوں، نظریات اور پروگراموں پر تنقید اور اس کا متبادل پیش کرنے میں آزاد ہوتی ہیں۔
جمہوری جماعتیں، منتخب حکومت کی اتھارٹی کو تسلیم اور اس کا احترام کرتی ہیں اور اس وقت بھی ایسا ہی رویہ اختیار کرتی ہیں جب ان کے رہنما اقتدار میں نہیں ہوتے۔ یہ اس لیے ممکن ہوتا ہے کہ جمہوری معاشرے تحمل، تعاون اور مفاہمت کی اقدار کے پابند ہوتے ہیں۔ جمہوری ممالک تسلیم کرتے ہیں کہ اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے مفاہمت اور تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ وفادار اپوزیشن کا تصور کسی بھی جمہوری ملک کے لیے مرکزی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
(یہ وفا داری ملک سے ہوتی ہے، حکومت سے نہیں) اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی مکالمے کے تمام فریق۔ خواہ ان کے اختلافات کتنے ہی گہرے ہوں، آزادی اظہار، قانون کی حکمرانی اور قانون کے تحت یکساں تحفظ کی بنیادی جمہوری اقدار کا احترام کرتے ہیں۔ جو جماعتیں الیکشن ہار جاتی ہیں وہ اپوزیشن بن جاتی ہیں۔ اس طرح اپوزیشن لازمی طور پر 'مستقبل کی حکومت' ہوتی ہے۔ جمہوری کلچر کو مضبوط کرنے کے لیے، اپوزیشن پارٹیوں کو اپنے اندر یہ اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ سیاسی نظام ہی ان کے اس حق کی ضمانت دے گا کہ وہ خود کو منظم کر سکیں، برسر اقتدار جماعت کے خلاف بول سکیں اور اُس سے اختلاف یا اُس پر تنقید کر سکیں۔
اپوزیشن پارٹیوں کو اس یقین کی بھی ضرورت ہے کہ مناسب وقت پرانھیں انتخابی مہم چلانے اور باقاعدہ، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے عوام سے دوبارہ مینڈیٹ حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔پاکستان میں جمہوریت کا یہی کلچر تشکیل پا رہا ہے۔ تحمل سے عاری، سنکی لوگوں کو یہ عمل برداشت کرنا ہو گا جو انتخابات کے ذریعے پُر امن انتقال اقتدار کا تقاضا کرتا ہے۔ پاکستان میں اپوزیشن نے وہی کردار ادا کیا ہے جو اسے عوامی مینڈیٹ کے ذریعے سونپا گیا تھا اور جمہوری انتظام میں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ نظام کے بے صبر ناقدین اور فوجی حکمرانی کے حامیوں کی ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ جمہوریت کو شروع میں ہی قتل کر دیا جائے کیونکہ اس سے وہ پریشان رہتے ہیں' اگر ہم ایک صحت مند معاشر ہ قائم کرناچاہتے ہیں تو پھر اس نوزائیدہ بچے کی ہمیں تحمل کے ساتھ پرورش کرنا ہو گی۔