سیاست کا انتخابی کھلواڑ
ایم کیو ایم جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے خلاف زوردار بیان بازی کرتی رہتی ہے۔
غیر طبقاتی معاشرے پر اظہار خیال کرتے ہوئے عظیم انقلابی دانشور کروپوتکن نے کہا ہے کہ''ایک ایسا اصول یا زندگی کا نظریہ اور شعار جس کے تحت بلا کسی حکومت سماج کا وجود ماناجاتا ہے'' مارکس اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں کہا کہ ''اپنے خیالات اور مقاصد کو چھپانا کمیونسٹ اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں، وہ برملا اعلان کرتے ہیں کہ ان کا اصلی مقصد اسی وقت پورا ہوسکتاہے جب کہ موجودہ سماجی نظام کا تختہ بزور الٹادیاجائے'' اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انتخابات عوام کے مسائل کیونکر حل کرسکتے ہیں، اس لیے بھی نہیں کہ جو کروڑوں روپے خرچ کرکے ایوانوں میں پہنچیںگے وہ اربوں روپے بٹوریںگے۔
ہم ذرا پاکستان کے حالیہ انتخابی ہلچل ،پینترے، قلابازیاں اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے مؤقف پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔ کل جب جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی تو اس میں چوہدری شجاعت اور شیخ رشید پیش پیش تھے، پھر جب نواز شریف سے الگ ہوکر چوہدری شجاعت نے ''قائد اعظم مسلم لیگ'' بنائی اور اسے عرف عام میں ق لیگ کہنے لگے تو پاکستان پیپلزپارٹی اسے قاتل لیگ کہتی تھی، اور اب اسی پی پی پی نے اس کے ساتھ اتحاد کیا، کل تک ن لیگ اسٹیبلشمنٹ اور سامراج کے خلاف تھی اور جب اسے آیندہ کے اقتدار کے آثار نظر آنے لگے ہیں تو اس کے روئیے میں فرق آ گیا ہے ۔
ایم کیو ایم جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے خلاف زوردار بیان بازی کرتی رہتی ہے، لیکنوہ ہمیشہ جاگیرداروں کے حامی سیاستدانوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے، جب ہاری وڈیروں کے خلاف جد وجہد میں نبرد آزما ہوتے ہیں تو ایم کیو ایم ان کے ساتھ کبھی نظر نہیں آتی، اس نے کبھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کو بحق سرکار ضبط کرنے کی بات نہیں کی۔
اب کہہ رہی ہے عسکری قوتوں کی تعریف میں کنجوسی نہ کی جائے۔کیاکرتب بازی ہے۔ عمران خان سونامی کا نعرہ دیتے ہیں، یہ سونامی غربت کے خاتمے کی سونامی ہے یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ میں مزید اضافے کی سونامی ہے، موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اب بانجھ پن کا شکار ہوچکا ہے، اس لیے کہ پیداوار کو قصداً روکاجارہاہے اور عوام کی قوت خرید جواب دیتی جارہی ہے، ٹوکیو میں ڈھائی کروڑ گاڑیاں بنی کھڑی ہیں، خریدار نہیں ہیں اور جاپان کا گروتھ ریٹ صفر پہ آگیاہے، جب سرمایہ دار سامراج کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں تو وہ کس زور پر صنعت کاری کریںگے۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کاسہ لیس بن کر مینی فیکچرنگ اور اسمبلنگ کے علاوہ کر بھی کیا کر سکتے ہیں اس لیے عمران خان نہ بیرونی سرمایہ کاری کرواسکتے ہیں اور نہ یہ کارپیش کا خاتمہ کرواسکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ ہم زمین کسانوں میں بانٹ دیںگے اور کارخانوں کے منافعوں کا 50فیصد محنت کشوں کو دیں گے، بچے کو ماں سے زیادہ اگر کوئی اور پیار کرنے لگے تو سمجھیںکہ''دال میں کچھ کالا ہے'' کسانوں کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوسکتے جب تک کسان مزدوروں سے مل کر جد وجہد کے ذریعے زمین کے مالک نہ بن جائیں، جہاں تک کارخانوں کے منافعے میں50فیصد مزدوروں کو دینے کی بات ہے تو بھٹو صاحب نے جو5فیصد دینے کی بات کی تھی عملاً آج تک اس پر بھی عمل نہیں ہوا، آج دنیا بھر میں خاص کر جو ترقی یافتہ ممالک پوری یونین امریکا اور جاپان کے منظم مزدور بھی اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرنے کے بجائے گنوا رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ یونان، اسپین، پرتگال، فرانس، اٹلی اور قبرص میں مزدور سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں،جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں مزدوروں کی65سالہ تاریخ کی جد وجہد میں مولانا محنت کشوں کے ساتھ کبھی کہیں نظر نہیں آئے اور نہ اسمبلی میں مزدوروں کی حقوق کی بات رکھی، وہ نجکاری، ڈائون سائزنگ، رائٹ سائزنگ کے خلاف کبھی بھی کوئی آواز نہیں اٹھائی تو پھر آج کیونکر ایسا ممکن ہوسکتاہے جہاں تک مسلم لیگ ن کا تعلق ہے تو یہ دوبار اقتدار میں رہ چکی ہے اور مزدوروں کا عالمی دن یکم مئی کی چھٹی منسوخ کرواچکی ہے۔ سابق امریکی صدر سینیٹر بش اور بل کلنٹن ماضی کی پاکستانی حکومت کی نجکاری پالیسی کی تعریف کرچکے ہیں، یعنی شاباش اور مزدوروں کو بے روزگار کیے جائو، ذوالفقارعلی بھٹو نے کارخانوں اور اداروں کو قومی ملکیت میں لیا تھا اور بے نظیر بھٹو نے سب سے پہلے گھی، تیل اور سیمنٹ کی فیکٹریوں کی نجکاری کی تھی، جہاں تک اسلامی جماعتوں کا تعلق ہے تو یہ زبانی کلامی سامراج کے خلاف بولتے ہیں اور عملاً اس کے برعکس ہیں۔
پختونخوا میں جب ایم ایم اے کی حکومت تھی تو سب سے پہلے انھوںنے ورلڈ بینک کے قرضے خوش اسلوبی سے نہ صرف قبول کیا بلکہ شکریہ بھی ادا کیا، افغانستان میں قائم سامراج مخالف بائیں بازو کی حکومت کو گرانے میں مذہبی جماعتوں نے سامراجی آشیر باد اور رقوم کے حصول سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ 99فیصد عام لوگ انصاف سے محروم رہتے ہیں، انتخابات میں جو لوگ حصہ لے رہے ہیںبجائے ان سے یہ پوچھتے کہ آپ کیوں الیکشن لڑرہے ہیں عوام کے لیے کیا کریںگے بیروزگاری، مہنگائی، فاقہ کشی، خودکشی، گداگری، جہالت اور لا علاجی کا خاتمہ کیسے کریںگے۔
سامراجی سرمایے کی لنعت کو مزید قبول کریںگے یا نہیں؟ جب کہ ان سے یہ پوچھا جارہاہے کہ سورۂ یاسین پڑھیں، فجر کی نماز کتنی رکعت کی ہوتی ہے؟ گزشتہ دنوں کراچی پریس کلب میں ہیومن رائٹس سروز کمیشن کے زیر اہتمام ''انتخابات میں کیسے امیدواروں کو منتخب ہونا چاہیے''کے موضوع پر ایک سیمینار ہوا جس کی صدارت اخلاق ہاشمی نے کی اور مہمان خصوصی محفوظ النبی خان تھے جب کہ ملیر لاء کالج کے علم سیاسیات کے استاد پروفیسر پارس جان نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ انتخابات میں اگر اس سرمایہ دارانہ نظام کو برقرار رکھتے ہوئے امیدوار منتخب ہوتے ہیں تو عوام کو ''ذرا برابر فائدہ نہیں ہوگا، ہاں مگر سرمایہ داری اور سامراجی نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے امیدوار انتخابات میں حصہ لیں تو عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ایک شوگر مل میں جھلسنے والے چاروں محنت کش جاں بحق ہوگئے،16مارچ کی رات الیکٹریکل ڈیپارٹمنٹ کے چار محنت کش اپنے کام میں محو تھے کہ اسکریپ پائپ ایک دھماکے سے بم کی طرح پھٹا اور پائپ لائن سے گزرتی بھاپ نے ان مزدوروں کو موت نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
دھماکہ شدید تھا، فیکٹری کا شور اس میں دب کر رہ گیا اور اس کی شدت سے قرب وجوار کے تمام ڈیپارٹمنٹس میں لگے ہوئے شیشے ٹوٹ گئے، شدید جھلسے ہوئے ان مزدوروں کو 60کلو میٹر دور رحیم یار خان اسپتال میں لایاگیا مگر برن یونٹ نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے شہر کے اسپتال میں ریفر کردیاگیا۔ جو 3گھنٹے کی مسافت پر اور ڈھرکی سے تقریباً ساڑھے3سو کلو میٹر فاصلے پر ہے دو دن کے علاج معالجے کے دوران ان زخمیوں میں سے صادق آباد اور بہاولپور سے تعلق رکھنے والے دو مزدور جاں بحق ہوگئے جب کہ23مارچ بروز ہفتہ دوسرے دو مزدور بھی چل بسے۔
لالچ اور حرص میں مبتلا سرمایہ داروں کے بینک اکائونٹس میں ہر سال2ارب روپے سے زائد کا منافع جمع کرانے والے اس شوگر مل کے مزدور موت کے منہ میں کام کرتے اور پے در پے حادثات کا شکار ہوکر اپنے پیچھے خاندانوں کو غربت اور مایوسی کی کھائی میں دھکیلتے جاتے ہیں، اگر کوئی سیٹھ آگ میں جھلستا تو فوراً ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسلام آباد یا کراچی لایاجاتا مگر مزدور موت کے منہ میں ہے، یہ ہے طبقاتی نظام ۔ان محنت کشوں کو کون انصاف دے گا۔ نہیں کوئی نہیں، انھیں تب ہی انصاف ملے گا جب ریاست کے ان آلہ کاروں جو صاحب جائیداد طبقات کے محافظ ہیں ان کا خاتمہ کردیاجائیگا اور ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوںگے اور یہ کام محنت کشوں کا انقلاب ہی انجام دے سکتا ہے ۔
ہم ذرا پاکستان کے حالیہ انتخابی ہلچل ،پینترے، قلابازیاں اور گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے مؤقف پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے۔ کل جب جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی تو اس میں چوہدری شجاعت اور شیخ رشید پیش پیش تھے، پھر جب نواز شریف سے الگ ہوکر چوہدری شجاعت نے ''قائد اعظم مسلم لیگ'' بنائی اور اسے عرف عام میں ق لیگ کہنے لگے تو پاکستان پیپلزپارٹی اسے قاتل لیگ کہتی تھی، اور اب اسی پی پی پی نے اس کے ساتھ اتحاد کیا، کل تک ن لیگ اسٹیبلشمنٹ اور سامراج کے خلاف تھی اور جب اسے آیندہ کے اقتدار کے آثار نظر آنے لگے ہیں تو اس کے روئیے میں فرق آ گیا ہے ۔
ایم کیو ایم جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے خلاف زوردار بیان بازی کرتی رہتی ہے، لیکنوہ ہمیشہ جاگیرداروں کے حامی سیاستدانوں کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے، جب ہاری وڈیروں کے خلاف جد وجہد میں نبرد آزما ہوتے ہیں تو ایم کیو ایم ان کے ساتھ کبھی نظر نہیں آتی، اس نے کبھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کو بحق سرکار ضبط کرنے کی بات نہیں کی۔
اب کہہ رہی ہے عسکری قوتوں کی تعریف میں کنجوسی نہ کی جائے۔کیاکرتب بازی ہے۔ عمران خان سونامی کا نعرہ دیتے ہیں، یہ سونامی غربت کے خاتمے کی سونامی ہے یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کی لوٹ میں مزید اضافے کی سونامی ہے، موجودہ سرمایہ دارانہ نظام اب بانجھ پن کا شکار ہوچکا ہے، اس لیے کہ پیداوار کو قصداً روکاجارہاہے اور عوام کی قوت خرید جواب دیتی جارہی ہے، ٹوکیو میں ڈھائی کروڑ گاڑیاں بنی کھڑی ہیں، خریدار نہیں ہیں اور جاپان کا گروتھ ریٹ صفر پہ آگیاہے، جب سرمایہ دار سامراج کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں تو وہ کس زور پر صنعت کاری کریںگے۔
ملٹی نیشنل کمپنیوں کے کاسہ لیس بن کر مینی فیکچرنگ اور اسمبلنگ کے علاوہ کر بھی کیا کر سکتے ہیں اس لیے عمران خان نہ بیرونی سرمایہ کاری کرواسکتے ہیں اور نہ یہ کارپیش کا خاتمہ کرواسکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کہتے ہیں کہ ہم زمین کسانوں میں بانٹ دیںگے اور کارخانوں کے منافعوں کا 50فیصد محنت کشوں کو دیں گے، بچے کو ماں سے زیادہ اگر کوئی اور پیار کرنے لگے تو سمجھیںکہ''دال میں کچھ کالا ہے'' کسانوں کے مسائل اس وقت تک حل نہیں ہوسکتے جب تک کسان مزدوروں سے مل کر جد وجہد کے ذریعے زمین کے مالک نہ بن جائیں، جہاں تک کارخانوں کے منافعے میں50فیصد مزدوروں کو دینے کی بات ہے تو بھٹو صاحب نے جو5فیصد دینے کی بات کی تھی عملاً آج تک اس پر بھی عمل نہیں ہوا، آج دنیا بھر میں خاص کر جو ترقی یافتہ ممالک پوری یونین امریکا اور جاپان کے منظم مزدور بھی اس سرمایہ دارانہ نظام میں رہتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کرنے کے بجائے گنوا رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ یونان، اسپین، پرتگال، فرانس، اٹلی اور قبرص میں مزدور سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں،جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہاں مزدوروں کی65سالہ تاریخ کی جد وجہد میں مولانا محنت کشوں کے ساتھ کبھی کہیں نظر نہیں آئے اور نہ اسمبلی میں مزدوروں کی حقوق کی بات رکھی، وہ نجکاری، ڈائون سائزنگ، رائٹ سائزنگ کے خلاف کبھی بھی کوئی آواز نہیں اٹھائی تو پھر آج کیونکر ایسا ممکن ہوسکتاہے جہاں تک مسلم لیگ ن کا تعلق ہے تو یہ دوبار اقتدار میں رہ چکی ہے اور مزدوروں کا عالمی دن یکم مئی کی چھٹی منسوخ کرواچکی ہے۔ سابق امریکی صدر سینیٹر بش اور بل کلنٹن ماضی کی پاکستانی حکومت کی نجکاری پالیسی کی تعریف کرچکے ہیں، یعنی شاباش اور مزدوروں کو بے روزگار کیے جائو، ذوالفقارعلی بھٹو نے کارخانوں اور اداروں کو قومی ملکیت میں لیا تھا اور بے نظیر بھٹو نے سب سے پہلے گھی، تیل اور سیمنٹ کی فیکٹریوں کی نجکاری کی تھی، جہاں تک اسلامی جماعتوں کا تعلق ہے تو یہ زبانی کلامی سامراج کے خلاف بولتے ہیں اور عملاً اس کے برعکس ہیں۔
پختونخوا میں جب ایم ایم اے کی حکومت تھی تو سب سے پہلے انھوںنے ورلڈ بینک کے قرضے خوش اسلوبی سے نہ صرف قبول کیا بلکہ شکریہ بھی ادا کیا، افغانستان میں قائم سامراج مخالف بائیں بازو کی حکومت کو گرانے میں مذہبی جماعتوں نے سامراجی آشیر باد اور رقوم کے حصول سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ 99فیصد عام لوگ انصاف سے محروم رہتے ہیں، انتخابات میں جو لوگ حصہ لے رہے ہیںبجائے ان سے یہ پوچھتے کہ آپ کیوں الیکشن لڑرہے ہیں عوام کے لیے کیا کریںگے بیروزگاری، مہنگائی، فاقہ کشی، خودکشی، گداگری، جہالت اور لا علاجی کا خاتمہ کیسے کریںگے۔
سامراجی سرمایے کی لنعت کو مزید قبول کریںگے یا نہیں؟ جب کہ ان سے یہ پوچھا جارہاہے کہ سورۂ یاسین پڑھیں، فجر کی نماز کتنی رکعت کی ہوتی ہے؟ گزشتہ دنوں کراچی پریس کلب میں ہیومن رائٹس سروز کمیشن کے زیر اہتمام ''انتخابات میں کیسے امیدواروں کو منتخب ہونا چاہیے''کے موضوع پر ایک سیمینار ہوا جس کی صدارت اخلاق ہاشمی نے کی اور مہمان خصوصی محفوظ النبی خان تھے جب کہ ملیر لاء کالج کے علم سیاسیات کے استاد پروفیسر پارس جان نے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ انتخابات میں اگر اس سرمایہ دارانہ نظام کو برقرار رکھتے ہوئے امیدوار منتخب ہوتے ہیں تو عوام کو ''ذرا برابر فائدہ نہیں ہوگا، ہاں مگر سرمایہ داری اور سامراجی نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے لیے امیدوار انتخابات میں حصہ لیں تو عوام کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ ایک شوگر مل میں جھلسنے والے چاروں محنت کش جاں بحق ہوگئے،16مارچ کی رات الیکٹریکل ڈیپارٹمنٹ کے چار محنت کش اپنے کام میں محو تھے کہ اسکریپ پائپ ایک دھماکے سے بم کی طرح پھٹا اور پائپ لائن سے گزرتی بھاپ نے ان مزدوروں کو موت نے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
دھماکہ شدید تھا، فیکٹری کا شور اس میں دب کر رہ گیا اور اس کی شدت سے قرب وجوار کے تمام ڈیپارٹمنٹس میں لگے ہوئے شیشے ٹوٹ گئے، شدید جھلسے ہوئے ان مزدوروں کو 60کلو میٹر دور رحیم یار خان اسپتال میں لایاگیا مگر برن یونٹ نہ ہونے کی وجہ سے دوسرے شہر کے اسپتال میں ریفر کردیاگیا۔ جو 3گھنٹے کی مسافت پر اور ڈھرکی سے تقریباً ساڑھے3سو کلو میٹر فاصلے پر ہے دو دن کے علاج معالجے کے دوران ان زخمیوں میں سے صادق آباد اور بہاولپور سے تعلق رکھنے والے دو مزدور جاں بحق ہوگئے جب کہ23مارچ بروز ہفتہ دوسرے دو مزدور بھی چل بسے۔
لالچ اور حرص میں مبتلا سرمایہ داروں کے بینک اکائونٹس میں ہر سال2ارب روپے سے زائد کا منافع جمع کرانے والے اس شوگر مل کے مزدور موت کے منہ میں کام کرتے اور پے در پے حادثات کا شکار ہوکر اپنے پیچھے خاندانوں کو غربت اور مایوسی کی کھائی میں دھکیلتے جاتے ہیں، اگر کوئی سیٹھ آگ میں جھلستا تو فوراً ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسلام آباد یا کراچی لایاجاتا مگر مزدور موت کے منہ میں ہے، یہ ہے طبقاتی نظام ۔ان محنت کشوں کو کون انصاف دے گا۔ نہیں کوئی نہیں، انھیں تب ہی انصاف ملے گا جب ریاست کے ان آلہ کاروں جو صاحب جائیداد طبقات کے محافظ ہیں ان کا خاتمہ کردیاجائیگا اور ساری دولت کے مالک سارے لوگ ہوںگے اور یہ کام محنت کشوں کا انقلاب ہی انجام دے سکتا ہے ۔