سیاسی دھچکے تلخ حقائق

سیاسی منحرفین کی روایت اگرچہ قومی سیاست کے لیے کوئی انہونی یا تعجب کی بات ہر گز نہیں۔


Editorial April 12, 2018
سیاسی منحرفین کی روایت اگرچہ قومی سیاست کے لیے کوئی انہونی یا تعجب کی بات ہر گز نہیں۔ فوٹو: سوشل میڈیا

MONTREAL: ملکی سیاست گرم موسم میں سائبیرین ہواؤں کی زد میں ہے جس کے دوش پر نت نئے سیاسی ہجرتی پرندے غول کے غول اپنے ٹھکانے بدل رہے ہیں، ارے او بے مروت ارے او بے وفا کی شکایات اور آہ و فغان سے میڈیا ہلکان ہورہا ہے۔

سیاسی منحرفین کی روایت اگرچہ قومی سیاست کے لیے کوئی انہونی یا تعجب کی بات ہر گز نہیں مگر اس بار انتخابات سے قبل کی جو وکٹیں تیار کی جارہی ہیں، اس سے بڑا سیاسی دھماکا ہونے کی چہ میگوئیاں ہیں، سیاسی مبصرین نے مسلم لیگ (ن) کو چھوڑکر جانے والے اراکین اسمبلی کے حوالے سے کہا ہے کہ یہ جنوبی پنجاب سے ایک بڑا سیاسی دھچکا ہے ۔

اطلاعات کے مطابق ن لیگ کے قومی اسمبلی سے 5 اور صوبائی اسمبلی سے 2 ارکان نے استعفیٰ دیتے ہوئے جنوبی پنجاب کوالگ صوبہ بنانے کے لیے ''جنوبی پنجاب محاذ'' کے پلیٹ فارم سے جدوجہد کرنے کا اعلان کردیا ہے۔

بعض اخبارات میں یہ تعداد 10 بتائی گئی ہے تاہم خدشات کے سونامی میں پری الیکشن سیناریو سے متعلق سیاسی اور غیر جمہوری ذرایع سے متضاد اشارے مل رہے ہیں، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار غیر معمولی جوڈیشل ایکٹوازم سے فرسودہ ، منجمد، ازکار رفتہ اور بے سمت سیاست پر ارتعاش، اضطراب، بدحواسی اور برہمی کی ناقابل بیان کیفیات کا غلبہ ہے ، ایک داخلی گڑگڑاہٹ نے نظام کہنہ سے چمٹے ہوئے سیاسی روبوٹوں کے لیے سنبھل جانے کا بگل بجادیا ہے۔

بتایا جاتا ہے کہ مستعفیٰ ہونے والے ارکان قومی اسمبلی میں مخدوم خسرو بختیار، طاہر اقبال چوہدری، طاہر بشیر چیمہ، رانا قاسم نون، باسط بخاری جب کہ پنجاب اسمبلی سے سمیرا خان اور نصراﷲ دریشک شامل ہیں۔ سابق نگران وزیراعظم بلخ شیرخان مزاری اس محاذ کے چیئرمین اور نصراﷲ دریشک نائب ہوں گے جب کہ خسرو بختیار صدر ہوں گے، خسرو بختیار نے کہا کہ ہمارا یہ کارواں آگے بڑھے گا۔

یوں ملکی سیاست جس تیزی سے آئندہ انتخابات کی جانب بڑھ رہی ہے اسی تیزی سے محل سراؤں، خانقاہوں، معتبر اوطاقوں ، ڈیروں اور اقتدار کی غلام گردشوں میں ہارس ٹریدنگ، نئی صف بندیوں ،الائنسز اور تزویراتی دراڑوں کے لیے آیندہ چند ہفتے خاصے تہلکہ خیز بتائے جاتے ہیں۔

سیاسی پنڈتوں کا کہنا ہے کہ اس دوران بلوچستان مستقبل کی سیاسی صورتگری کا مرکز ہوگا اور بلوچستان کی فسوں ساز محرومیوں کو کیش کرنے کی اسٹرٹیجی اور ٹکٹیکل گیم چینجنگ دیدنی اور طلسماتی رنگ دکھائے گی۔

اقتدار کے رازدانوں کے مطابق جمہوری ،غیر جمہوری ، دیدہ و نایدہ قوتوں کی اجتماعی بساط سازی کے نئے ہنر آزمائے جائیں گے تاہم ن لیگ سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے خدشات کے ازالے کے لیے انتخابی میدان میں اترنے سے پہلے ''جن پہ تکیہ تھا وہی پتا ہوا دینے لگے '' جیسی گھاتیں اور وارداتیں سیاست دانوں اور ووٹرز کے لیے حیرت ہونگی ، دل دہلادینے والے اقدامات سے کئی سوالات اٹھیں گے۔ اس امکانی منظرنامے کی اٹھان کے کچھ آثار تو سامنے آچکے ہیں مزید رفتہ رفتہ آتے رہیں گے۔

ایک دیوانہ کردینے والی سائیکو وار چل رہی ہے جو ملکی تاریخ کا ایک نیا مظہر(فینومنا )ہے۔ باور کیا جاتا ہے کہ اگر زیر سماعت ہائی پروفائل مقدمات کے فیصلوں کے نتیجہ میں قانون نے اپنا راستہ بنالیا، قانون کی حکمرانی کے عدالتی اقدامات کے تسلسل سے صورتحال میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی اور قانون کی بالادستی کو ملکی مفاد اور جمہوریت کے تسلسل کے آدرش اور عہد کو مد نظر رکھتے ہوئے قوم انتخابات کی منزل تک پہنچنے کا عندیہ دے چکی تو کوئی سیاسی بھونچال کوئی غیر فطری اور غیر متوقع پیش رفت ہوئی بھی تو عدالت عظمیٰ کی کمٹمنٹ پوری قوم کے وجدان، اس کی روح کا حصہ بن چکی ہے، اس لیے ہر صورتحال سے جمہوریت ہی خود اس سے نمٹ لے گی، مگر دیکھنا ہے کہ اس میکنزم کی شفافیت اور استحکام و تحفظ کی ضمانت قائم کیسے رہتی ہے، یہ بلین ڈالر کا سوال ہے۔

چنانچہ پیپلز پارٹی ، پی ٹی آئی اور ن لیگ سمیت تمام سیاسی رہنما ذہنی طور پر تیار ہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف نے کہا ہے کہ عام انتخابات میں تمام لوگوں کو یکساں مواقعے ملنے چاہئیں، کسی کو بند گلی میں دھکیلا نہیں جانا چاہیے، اگرایسا کیا گیا تو یہ انتخابات سے قبل دھاندلی ہوگی، نتائج قبول نہیں کیے جائیں گے، دریں اثنا مسلم لیگ (ن) کے صدر اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے پارٹی رہنماؤں اور حکومتی عہدیداران کو ہدایت کی ہے کہ مسلم لیگ(ن) کو چھوڑنے والے اراکین پر کسی بھی قسم کے تبصرے سے گریز کیا جائے۔

اپنے ایک بیان میں انھوں نے کہاکہ پارٹی چھوڑنے والے اراکین کے حوالے سے مناسب لائحہ عمل طے کیا جائے گا، ادھر پاکستان پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف نے وزیراعظم کی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کے خلاف قومی اسمبلی سیکریٹریٹ میں الگ الگ تحاریک التواء جمع کروا دی ہیں۔

تحریک التواء میںکہا گیا کہ اس اسکیم سے کرپشن اور غلط کام کرنے والوں کے پیسوں کو تحفظ ملے گا، پاکستان تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے لوگ پی ٹی آئی میں شامل ہورہے ہیں جب کہ پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات فواد چوہدری نے دلچسپ انکشاف کیا کہ ن لیگ سے ہماری طرف اتنے لوگ آرہے ہیں کہ ہمارے پاس جگہ نہیں۔

پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے استدلال کے نزدیک (ن)لیگ ختم اور نواز شریف ہمیشہ کے لیے سیاست سے باہر ہو گئے، اس لیے اب مسلم لیگ(ش)اور تحریک انصاف کے خلاف الیکشن لڑنا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز نے کہا ہے کہ2018 کا میچ کیا عمران خان کھیل پائینگے یا کامیاب ہوں گے؟ عمران خان 2018کے بعد بھی یہی کہیں گے کہ اب 2023کے الیکشن کا انتظار ہے۔

دریں اثنا چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار نے قراردیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل199 اور 184 کے تحت جہاں بنیادی حقوق کا استحصال ہوگا وہاں عدلیہ مداخلت کرے گی۔

سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے اسپتالوں کی حالت زار سے متعلق مقدمے کی کوئٹہ رجسٹری میں سماعت کی۔ چیف جسٹس نے سرکاری اسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی صورتحال پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ بلوچستان میں تین وزرائے اعلی آئے، انھوں نے عوام کے لیے کیا کیا؟ یہاں آکر بتائیں، اس موقع پر وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو اور وزیرصحت میر ماجد آبڑو پیش ہو گئے جب کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور نواب ثنا اللہ زہری کو بھی منگل کو طلب کرلیا گیا۔

چیف جسٹس نے وزیراعلیٰ بلوچستان سے صحت و تعلیم کے مسائل پر استفسارات کیے، وزیراعلیٰ نے جواب دیا کہ ان کی حکومت عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی پر توجہ دے رہی ہے، ہمیں دو ماہ قبل ہی حکومت ملی، وسائل اور وقت کم ہیں، پھر بھی بنیادی مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر دیکھ رہے ہیں، ہیلتھ پالیسی کا ڈرافٹ تیار کرلیاگیا ہے جسے کابینہ کے اجلاس میں پیش کررہے ہیں۔

دریں اثنا پاکستان مسلم لیگ کے صدر و سابق وزیراعظم چوہدری شجاعت حسین کی خود نوشت''سچ تو یہ ہے'' مارکیٹ میں آچکی ہے جس میں کئی تلخ سیاسی سچ بیان کیے گئے ہیں۔ ادھر ملک میں یوم دستور 10 اپریل کو بھرپورطریقے سے منایا گیا، یوم دستور کے موقع پر قوم کے نام اپنے پیغام میں اسپیکرایاز صادق نے کہا کہ آئین کی بالادستی ہماری منزل مقصود ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملک کی تقدیر اور آئین کے تقدس کی کہانی کیا کروٹ لیتی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں